حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمعِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا ۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے ۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔ آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی ۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اور اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘ کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔ دنیا سے بے رغبتی اور زہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے ۔ سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا ۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متواضع تھے ۔
آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا ۔ آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے صاحب دل ، وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے ۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے ۔ آپ اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی ، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیا کریں ۔
اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے ۔(چشتی)
اسلام کی تبلیغ و اشاعت
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم و عرفاں اور معرفت و سلوک کے منازل طے کر چکے اور اپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے تو پھر اپنے وطن واپس تشریف لے گئے ۔ وطن میں قیام کیے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کےلیے تڑپ پیدا ہوئی ۔ چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفر کےلیے چل پڑے ۔ حرمین طیبین پہنچنے کے بعد اپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی ۔ حضور سیدِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر میں مشغول رہے ۔ ایک دن اسی طرح عبادت اور ذکر و فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ سعادت افروز آوازآئی : اے معین الدین ! تو ہمارے دین کامعین و مددگار ہے ، ہم نے تمہیں ہندوستان کی ولایت پر فائز کیا ہے ، لہٰذا اجمیر جا کر اپنا قیام کرو کیوں کہ وہاں کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمہارے وہاں ٹھہرنے سے کفر و شرک کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام و ہدایت کے سورج کی روشنی چہار سو پھیلے گی ۔ ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندوستان میں اجمیر کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔
اجمیر شریف علم و عرفان کا مرکز
اجمیرشریف وسطیٰ ہند کا ایک مشہور شہر ہے ۔ جس طرح یہ شہر مرکزِ سلطنت بننے کےلیے موزوں تھا ، اسی طرح یہ شہرتوحید و رسالت کے انوار و تجلیات اور علم و عرفاں کا روحانی مرکز و منبع بننے کےلیے بھی بے حد مناسب تھا ۔ حضرتِ والا نے ایک مناسب جگہ منتخب کر کے اس کو اپنا مسکن بنالیا اور ذکر و فکر اور یادِ خداوندی میں مشغول ہو گئے ۔ لوگوں نے جب آپ کے سیرت و کردار ، علم و فضل اور ذکر و فکر کے انداز و اطور کو دیکھا تو وہ خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے ۔ چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضر ہو جاتا وہ اسی وقت آپ کا مرید و معتقد اور گرویدہ ہو جاتا ۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثر اور آپ کے عظیم اخلاق و کردار کے باعث اسلام قبول کیا ۔ چنانچہ ایک مشہور روایت کے مطابق تقریباً نوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہو کر مسلمان ہوئے ۔
ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با رگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘ کا لقب عطا ہوا ۔ آپ نے دینِ حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا ۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کےلیے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا تا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا ۔ یہ تھا ایمان و یقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر دِ مو من نے سر زمینِ ہند پر دکھائی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے ، اب وہاں جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔ (چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جد و جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کےلیے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور محکم استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد ، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بن گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا ۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغِ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دینِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا ۔ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بہشتِ عقیدت اور جنتِ معرفت بنا دیا ۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ تقریباً 45 برس تک آپ اجمیر شریف میں حیاتِ ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔
ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کارنا مہ ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کی اہمیت اور اس پر اجر و ثواب کو اس طرح اجاگر اور واضح فرمایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ۔
ترجمہ : جس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب العلم،چشتی)
چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت و تبلیغ ، سیرت و کردار اور کے قدومِ میمنتِ لزوم کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہوئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی ، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا ، کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا ۔
اجمیر شریف آمد اور پرتھوی راج کی مخالفت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہور سے دہلی تشریف لے گئے ، جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اور گمراہی کا دور دورہ تھا ۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایا اور پھر اپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کےلیے متعین فرما کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیر جانے کا قصد فرمایا ، آپ کی آمد سے نہ صرف اجمیر بلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔ جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف رونق افروز ہوئے تو اُن دنوں وہاں پر ہندو راجہ پرتھوی کی حکمرانی تھی ۔ آپ کی آمد پر وہاں کا حاکم راجہ پرتھوی راج اور ہندو جوگیوں اور جادوگروں نے سخت مزاحمت کی کہ آپ اجمیر کو اپنا مرکز و مسکن نہ بنائیں ، لیکن آپ کو تو بطورِ خاص اسلام و ہدایت کی شمع روشن کرنے کےلیے یہاں بھیجا گیا تھا ، پھر آپ اپنے عظیم مقصد اور مقدس مشن سے کیسے باز آسکتے تھے ۔ آپ کی مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتا رہا ، بد سے بدتر اور سخت سے سخت تر بھی سامنے آتے رہے لیکن آپ اپنے عظیم مقصد و مشن میں لگے رہے اور بالآخر کامیابی نے آپ ہی کے قدم چومے ۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندر کا سب سے بڑا پجاری ’’سادھو رام‘‘ سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا ۔ اس کے بعد اجمیر کے مشہور جوگی’’جے پال‘‘ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور یہ دونوں بھی دعوتِ اسلام و ہدایت اور اسلامی و روحانی مشن کی تبلیغ و اشاعت میں خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ کے ساتھ ہو گئے ۔
راجہ پرتھوی راج کا انجام
اجمیر کا راجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے حضرت والا کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی ۔ آخر تھک ہار کر پرتھوی راجہ نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں 18 ہزارعالمین کا مشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو اجمیر سے نکل جانے کا کہا تو حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بے ساختہ مسکرا دیے اور جلال میں آکر فرمایا کہ : میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکرِ اسلام کے سپرد کر دیا ۔ چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوا اور تیسرے ہی روز فاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کو فتح کرنے کی غرض سے دہلی پر زبردست لشکر کشی کی ۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ کارِ زار گرم کر دیا ۔ کفر و اسلام اور حق و باطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اور دست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اور اس کے لشکر کو شکستِ فاش دے کر پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر لیا اور بعد ازاں وہ قتل ہو کر واصلِ جہنم ہو گیا ۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیز شکست اور سلطان غوری و لشکرِ اسلام کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج در فوج اسلام قبول کرنے لگے ۔یوں اجمیر شریف میں سب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نصب فرمایا ۔
سلطان شہاب الدین غوری کا شرفِ بیعت
فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بصد عجز و انکسار سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور آپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا ۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعد جب سلطان شہاب الدین غوری اجمیر شریف میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی ۔ مغرب کا وقت تھا ، اذانِ مغرب سنی تو دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیر ہیں ۔ چنانچہ سلطان غوری فوراً مسجد کی طرف چل پڑے ۔ جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٰ امامت پر فائز ہو کر امامت فرما رہے ہیں ۔ سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہو گئے ۔ جب نماز ختم ہوئی اور اُن کی نظر خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی تویہ دیکھ کر آپ کو بڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرما ہیں ، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی ۔سلطان شہاب الدین غوری فوراً آگے بڑھے اور خواجہ غریب نواز کے قدموں میں گر گئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور !مجھے بھی اپنے مریدوں اور غلاموں میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرفِ قبولیت بخش کر آپ کو دولت بیعت سے نواز کر اپنا مرید بنا لیا ۔ یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نامِ نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سُپر پاور اسلامی ایٹمی میزائل ’’غوری میزائل‘‘ موسوم ہے ، جوپاکستان کے عظیم فرزند ، قومی ہیرو ، محسن قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان معحوم اور آپ کے دیگر سائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری کے عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (چشتی)
خواجہ غریب نواز کا فیضِ عام
کون خواجہ اجمیری ! جو آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی ۔ جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی ۔ جو رہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی ۔ جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی ۔ کون خواجہ اجمیری ۔ جس کی زندگی سادہ تھی ، لباس پیوند دار تھا ۔ خوراک سوکھی روٹی تھی ، رہنے کےلیے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لیے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے ۔ سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کےلیے آیا ۔ کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سرِ ارادت جھکایا اور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا ۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انور پر حاضر ہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے ۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک ، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں اور آپ کے تصدق اور آپ کے قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقہ میں سر زمینِ ہند رشکِ آسمان بنی رہے گی ۔اولیاءِکرام آپ کے دربار کی خاک کو چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں ۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے ۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے ۔ آپ کی محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے ۔ صاحب دل ، اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے ۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے ۔ آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں ۔
نامور خلفائے کرام
حضرت خواجہ خواجگان ، قطب الاقطاب ، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیلُ القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی : ⬇
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت بابا فرید گنج شکر ، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علجہم العحمہ شامل ہیں ۔ یہ برگزیدہ اور عظیمُ المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاءَ اللہ ہوئے ۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا ، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و تاباں ہیں ۔ چنانچہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف ، گولڑہ شریف ، سیال شریف،مکھڈشریف ، چشتیاں شریف وغیرہ کی خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں ۔
وصال مبارک
تاجدارِ علم و معرفت ، آفتابِ رشدوہدایت ، قطب المشائخ ، سلطان الہند ، خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق و مغارب میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے ۔ رشد و ہدایت کی شمع جلاتے رہے ۔ علم و معرفت کو چہار سو پھیلاتے رہے ۔ لاکھوں افراد کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ لا تعداد لوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا ۔ ہزاروں کو رُشد و ہدایت کا پیکر بنایا ۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امر بالمعروف و نہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری ۔ بالآخریہ عظیم پیکرِ علم و عرفاں ، حامل سنت و قرآں ، محبوبِ یزداں ، محب سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، شریعت و طریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6 رجب المرجب633ھ /1236ء کو غروب ہو کر واصلِ ربِّ دوجہاں ہو گیا ۔
روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا ، آپ کی پیشانی مبارکہ پر نورانی خط میں تحریر تھا مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ ، یعنی اللہ کا دوست ، اللہ کی محبت میں وصال فرما گیا ۔
خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پُر انوار اجمیر شریف (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے ۔ آپ کے مزارِ پر انوار پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لاکھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیر میں بلکہ پورے پاک و ہند میں پورے عقیدت و احترام اور تزک و احتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے ۔ علم و فضل کے عظیم پیکر ، تاجدارِ معرفت اور رُشد و ہدایت کے اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سو سال گزر چکے ہیں مگر اس کی گرمی و حرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں ، جس طرح آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے ۔ (ماخذ : تاریخ مشائخ چشت ، سیرالاقطاب ، سیر الاولیاء ، مخزن چشت ، ہند کے راجہ ، سلطان الہند ، تذکرہ اولیاء پاک و ہند و دیگر کتب سوانح) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment