Sunday 1 January 2023

لفظ مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم

0 comments
لفظ مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم
محترم قارئینِ کرام : الحَمْدُ ِلله اہلسنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ عشرہ مبشرہ ، شہدا بدر احد و تمام مومنین کے مولا ہیں ۔ مولا کا معنی دوست پیارا اور محبوب کے ہیں ۔ اس میں شک کرنے والا ناصبی اور خارجی ہی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس حدیث سے شیعوں اور نیم شیعوں کا یہ کہنا کہ اس کا معنی آقا ہے اور اس سے پتہ چلا کہ آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور انبیاۓ  کرام علیہم السلام کے بھی آقا ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں اسی طرح شیعوں کا یہ کہنا کہ آپ سارے نبیوں کے آقا و اُن سے افضل ہیں باطل اور غلط ہے ۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ۔(سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے ، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں ، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : آقا ، مالک، پرورش کرنے والا ، دوست ، آزاد کرنے والا ، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے ۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الحج ، آيت 78  ميں 2جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورة الدخان آيت 41 میں ہے: ”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی ۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : ”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کرديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں ۔ قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جاسکتی ہيں : مولائی ، مولانا ، مولاکم ، مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ

وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں :  اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154)(تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143)(تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570)(تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337)(تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286)

 تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔ اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ (تفسیرِجلالینصفحہ465)(تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481)(تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356)(تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738،چشتی)

 النہایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں

(1)رب (پرورش کرنیوالا
(2)مالک۔ سردار
(3)انعام کرنیوالا
(4)آزاد کرنیوالا
(5)مدد گار
(6)محبت کرنیوالا
(7)تابع (پیروی کرنے والا)
(8)پڑوسی
(9)ابن العم (چچا زاد)
(10)حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
(11)عقید (معاہدہ کرنے والا )
(12)صھر (داماد، سسر)
(13)غلام
(14)آزاد شدہ غلام
(15)جس پر انعام ہوا
(16)جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
(17)جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النہايه، 5 : 228،چشتی)

حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ،  مددگار ،  آزاد شُدہ غلام ،  (غلام کو)  آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس  (حدیثِ پاک میں  مولیٰ)  کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں  کے دوست بھی ہیں ،  مددگار بھی ،  اِس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو مولیٰ علی کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد نمبر ۸ صفحہ نمبر ۴۲۵)

قرآنِ کریم میں اللہ تَعَالٰی ، جبریلِ امین اور نیک مؤمنین کو ’’ مولیٰ  ‘‘  کہا گیا ہے ۔ چُنانچہ پارہ 28 سُوْرَۃُ التَّحْرِیْم آیت نمبر 4 میں ربّ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ - ترجَمۂ کنز الایمان:توبے شک اللہ اُن کا مدد گار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے ۔

مولىٰ کا صحیح مطلب

علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد ، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی ، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے ، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه)
ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوئے ہیں ، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا ، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨ ، و سندہ صحیح)

لفظ  مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

’مولا کا اطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا   (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

مولا کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم ۔ (صحیح بخاری:۴۰۴۳) ، لوگو تم کہوکہ اللہ ہمارا مولی اور کارساز ہے نہ کہ تمہارا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل .... سیدی ومولای ۔ (صحی بخاری:۲۵۵۲)(صحیح مسلم:۲۲۴۹) کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

مولا کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں

لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)

یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ (دخان:۴۱) علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : أی لا ینفع قریب قریبا ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳) ، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کونفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پرمولی کا اطلاق ہواہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم ۔ (تحدید:۱۵) علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵) ، کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفراورشک کی بناء پر جہنم بہتر ہے ۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔

وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘ ۔ (التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸) کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک ۔ (نساء) اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)

انی خفت الموالی ۔ (مریم:۵) امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اراد بالمولی العصبۃ ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰) کہ یہاں پرمولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ (احزاب:۵) ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔

احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر

وقال لزید : أنت أخونا ومولانا ۔ (بخاری:۲۶۹۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ ۔ (فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی)
ترجمہ : لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے ، مثلا ولی ، ناصر ، وغیرہ ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تومولی میں چوں کہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پراستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲) ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۱۹۸۶) کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک ۔ (شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
ترجمہ : غلام کےلیے اپنے آقا کو مولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

محترم علامہ فرحان رفیق صاحب کے ایک مضمون سے درج ذیل حصّہ کچھ الفاظ کی درستگی کے ساتھ درج کیا جا رہا ہے :

حدیث من کنت مولا پر مختلف طرح سے کلام کیا گیا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جب بھی کسی جلیل القدر صحابی پرکوئی دوسرے صحابی اعتراض یا طعن کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے صحابی کا بڑے اہتمام سے دفاع کرتے تھے ۔
حضرت عباس کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ دیا اور فرمایا ۔عباس مجھ سے ہے میں عباس سے ہوں ۔ (مسند احمد 2734)
حضرت اسامہ بن زیدکی امارت کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کھڑے ہوگئے اور دفاع کیا اور فرمایا اس کا باپ اور یہ  (زید) امارت کے حق دار ہیں اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں ۔ (صحیح بخاری 4250)
حضرت عمر اور حضرت ابوبکر کا اختلاف ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلال میں آگئے اور بار بار فرمایا کیا تم میرے لیے میرے ساتھی کو چھوڑتے ہو ؟ میں نے کہا تھا اےلوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں تم سب نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ۔ابوبکر نے کہا ا: آپ نے سچ کہا۔(صحیح بخاری4640)

اسی طرح جب یمن کے کچھ لوگوں نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں آکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلال میں آگئے اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : من کنت ولیہ فعلی ولیہ ۔۔جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے ۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 3713) (رضی اللہ عنہم اجمعین)

چاروں واقعات کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صرف مولا علی نہیں بلکہ کسی بھی جلیل القدر صحابی کی ناموس کا مسئلہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اہتمام کے ساتھ دفاع کرتے تھے ۔ یہاں سے تفضیلیوں کی خیانت بھی پاش پاش ہوجاتی کہ خم غدیر میں یوں اہتمام حضرت علی کا خاصہ نہیں بلکہ کئی اصحاب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے محبت کا اظہار فرمایااور دفاع کیا ۔لیکن کیا کیا جائے یہودیوں کے پیدا کردہ رافضیوں کی شاخ تفضیلیت میں افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کا اثر تو موجود ہونا ہی تھا ۔ ایک کا ذکر کرتے اور دوسرا ؟

اس حدیث کے معنی کے اعتبار سے شیعہ اور نیم شیعہ تفضیلی کہتے ہیں کہ مولا کا یہاں معنی آقا ہے جبکہ حدیث کا تقاضا ہے کہ یہاں معنی دوست پیارا اور محبوب ہونا چاہیے کہ دوسری روایت میں فرمایا ۔ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ۔ اے اللہ جو علی کو دوست رکھے توں بھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن سمجھے توں بھی اسے دشمن رکھ  ۔
اب شیعہ اور نیم شیعہ تفضیلی ذرا اس حدیث میں آقا کا معنی کر کے دیکھائیں ؟ ۔ دشمن کے مقابلے میں دوست آتا ہے آقا نہیں ۔ اب چلیے اقوال علماء کی طرف :

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیث مولاہ اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے (گویا کہ آپ کے نزدیک صحیح نہیں) تو بھی اس میں یہ دلیل نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ہے (پھر شان ورود بیان کیا جو اوپر ذکر ہوا اور فرمایا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےارادہ فرمایا : کہ آپ کی خصوصیت اور آپ سے محبت بیان کی جائے اور ابھارہ جائے لوگوں کو کہ آپ سے محبت رکھے اور دشمنی چھوڑ دیں ۔ اس حدیث میں وِلا سے مراد اسلامی بھائی چارہ اور محبت ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں ۔ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھیں ۔ (الاعتقاد صفحہ نمبر 497)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث کا معنی معتمد علماء کی معتمد تحقیق کے مطابق ہے : جس کا میں مولا ، ناصر ، تعلق والا ، پیارا اور دلی دوست ہوں تو علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی ہے ۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس حدیث سے اسلامی محبت و بھائی چارہ مراد لیا ہے ۔ (فتاوی نوویہ صفحہ 252)

امام ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے جس کو میں ولی بناوں علی بھی اس کو ولی بنائے گا ۔ ولی دشمن کی ضد ہے (دشمن کی ضد دوست ہوتی ہے آقا نہیں) ۔ یعنی جس کو میں پیار کرتا ہوں علی بھی اس سے پیار کرتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے اس کا معنی : جومجھے دوست رکھے گا علی بھی اس کو دوست رکھے گا ۔ (مرقاہ جلد11 صفحہ 247)

حضرت شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولی کا معنی دوست ، محب اور مددگار ہے ۔ (اشعہ للمعات شرح مشکوہ صفحہ 454 جلد7)
چند صفحات بعد حدیث مولاہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مولا کا معنی حاکم اور والی ہے بلکہ اس کا معنی محبوب اور مددگار ہے کیونکہ لفظ مولیٰ کئی معنی میں مشترک ہے ۔۔۔ بعض معانی کو دلیل کے بغیر معین کرنا ناقابل اعتبار ہے (جیسا کہ شیعہ اور نیم شیعہ تفضیلی کرتے ہیں) ۔ (جلد 7 صفحہ 462)

حضرت خواجہ غلام فرید رحمہ اللہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں جس کا میں مولا اور محبوب ہوں علی بھی اس کا مولا اور دوست ہے (اور کے عطف سے مولی کا معنی بیان کر دیا) ۔ (مقابیس المجالس صفحہ 918)

حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یعنی جس کا میں دوست ہوں علی رضی اللہ عنہ بھی ان کا دوست ہے ظاہر ہے کہ قرآن میں مولی بمعنی دوست ہے دیکھوآیت کریمہ  قال ان اللہ ھو مولاہ وجبریل و صالح المومنین ۔
اب مولا کا معنی حاکم یا امام یا امیر کرنا صراحتہً قرآن کریم کی مخالفت ہے اور تفسیر بالرائے ہے اور کون مسلمان یہ نہیں مانتا کہ حضرت سیدنا علی مرتضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دوستوں کے دوست ہیں ۔ (مذہب شیعہ از خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ)

حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھے ہیں : خم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد عالی من کنت مولاہ فعلی مولاہ بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھاجس کا مطلب یہ ہے علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوستی ہے ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 33)

جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : مولی اسما مشترکہ میں سے ہے کبھی اس سے مراد ولی ہوتا ہے اور کبھی اس سے مراد مددگار ہوتا ہے یہی اس لفظ کے معانی میں سے سب سے زیادہ واضح ہے ۔ اور کبھی اس سے آزاد کرنے والا مراد لیا جاتا ہے ۔ حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس کامیں ولی ہوں علی اس کا ولی ہے اور جس کا میں حبیب ہوں علی اس کا حبیب ہے اور جس کا میں مددگار ہوں علی اس کا مدد گار ہے ۔ (عظمت صحابیت اور حقیقت خلافت صفحۃ 316)

مولا علی رضی اللہ عنہ بے شک ہمارے آقا اور سردار ہیں لیکن من کنت مولاہ سے آقا کا معنی لے کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور انبیاۓ کرام علیہم السلام کے آقا و افضل ہیں کہنا سوائے افترا کے اور کچھ نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔