تاجدارِ صداقت حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
آپ کا اسم مبارک عبد اللہ ہے۔نسب نامہ: عبد الله بن عثمان بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فہر ـ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۰۳)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عثمان کا لقب “ابو قحافہ”ہے۔اور آپ کی والدہ کا نام ” ام الخیر سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ”ہے۔تاریخ پیدا ئش: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پیدا ئش واقعہ فیل کے دوسال چھ مہینے بعد ہوئی ۔ (الاصابہ،ج:۴/ص:۱۰۱)
القاب وخطابات
آپ کا لقب عتیق ہے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر مایا : اے ابو بکر! “انت عتیق من النار” تو جہنم سے آزاد ہے ۔ اسی دن سے آپ کا نام “عتیق” پڑ گیا ۔ (جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۷۹)
آپ کا لقب “صدیق “بھی ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رات میں مسجد اقصی کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صبح کے وقت اس واقعہ کو بیان فر مایا:جس کی وجہ سے کئی مسلمان مرتد ہو گئے اور ماننے سے انکار کردیا {کیونکہ مسجد حرام سے مسجد اقصی کی دوری اس وقت کے اعتبار سے ایک مہینے کا راستہ تھا جسے رات کے تھوڑے سے حصے میں طے کرنا بظاہر نا ممکن تھا} مگر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کافروں نے یہ خبر سنائی تو آپ نے بلا توقف اس کی تصدیق کی اور فرمایا کہ : میں صبح وشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر کی بنیاد پر اس سے بھی زیادہ بظاہر ناممکن چیزوں کی تصدیق کرتا ہوں تو یہ کیا ہے ؟ اسی وجہ سے آپ کا لقب “صدیق” یعنی تصدیق کرنے والا ، سچ ماننے والا پڑ گیا۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۰۷،چشتی)
فضائل و مناقب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ : ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ۔ تو میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرئیل اور میکا ئیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابو بکر اور عمر ہیں ۔ (جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۸۰)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا ۔اتنے میں حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما دِکھائی پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا کہ : ابو بکر اور عمر اگلے اور پچھلےتمام جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں ، سوائے نبیوں اور رسولوں کے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا کہ : اے علی ! جب تک یہ دونوں زندہ رہیں ان کو اس بات کی خبر نہ دینا ۔ (سنن ابن ماجہ،فضائل ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ،حدیث:۹۵۔ جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۶۵)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:جنت میں اونچے درجے والے کو ان سے نیچے درجہ والے اسی طر ح دیکھیں گے جس طرح آسمان کے کنارے پر طلوع ہونے والا ستارہ {زمین سے} دِکھائی پڑتا ہے ۔ اور بے شک ابو بکر اور عمر انہیں اونچے درجے والوں میں سے ہوں گے ۔ (ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث:۳۶۵۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : جس نےاللہ کے راستے میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کیا {مثلا دو کپڑے ، دو گھوڑے اللہ کے راستے میں دیا} تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ : اے بندے ، اِدھر آ ، یہ دروازہ بہتر ہے ۔ پس جو شخص نمازی ہوگا اس کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا ، جو مجاھد ہوگا اس کو جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا ، جو شخص اہل صدقہ میں سے ہوگا اس کو صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا ، جو روزہ دار ہوگا اسے باب الریان {یعنی روزے کے دروازے } سے بلایا جائے گا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ:جسے سب دروازے سے بلایا جائے گا اسے تو کوئی خوف ہی نہ ہو گا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! کیا کوئی ایسا بھی شخص ہو گا جسے سب دروازوں سے جنت میں بلایا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ : ہاں ، اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابو بکر ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:۳۶۶۶،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کے نزدیک پسندیدہ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا کہ : عائشہ ۔ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں میں سب سے زیادہ آپ کے نزدیک پسندیدہ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا : ان کے والد یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ (سنن ابن ماجہ،باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ،حدیث:۱۰۱۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث:۲۳۸۴)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ دیا اور فر مایا کہ : اللہ تعالی نےاپنے ایک بندے کو دنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ۔ ان دونوں کے درمیان اختیار دیا تو اس بندےنے اس کو اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس ہے ۔ اس بات پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم لوگوں کو ان کے رونے پر حیرت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو کسی بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا ۔ لیکن بات یہ تھی کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا ۔ اور {واقعتاََ} حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان فر مایا کہ : اپنی صحبت اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابو بکر کا ہے ۔ اگر میں اپنے رب کے سواکسی کو اپنا خلیل {یعنی گہرا دوست} بناتا تو ابو بکر کو بناتا ۔ لیکن ان سے اسلام کی بھائی چارگی اور محبت کافی ہے ۔دیکھو ، مسجد کی طرف کے تمام دروازے {جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے} سب بند کردو سوائے ابو بکر کے دروازے کے ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:۳۶۵۴،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کےلیے کہا جاتا تو ہم لوگ سب سے افضل اور بہتر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:۳۶۵۵)
حضرت عبد اللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابو بکر ہیں اور ابو بکر کے بعد عمر ہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث : کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،حدیث: ۳۶۷۱)(ابن ماجہ،باب فضل عمر رضی اللہ عنہ،حدیث: ۱۰۶)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ : تم لوگ میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا ۔ (جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۶۵)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے ۔ اس وقت حضرت ابو بکر آپ کے داہنی طرف اور حضرت عمر آپ کے بائیں طرف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : ہم لوگ قیامت کے دن اسی طرح اٹھیں گے ۔ (جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۶۹،چشتی)
اس کے علاوہ بہت ساری روایتیں مو جود ہیں جس سے آپ کی عظمت شان واضح ہوتی ہے ۔ تفصیل کےلیے کتب احادیث کا مطالعہ کریں ۔
قبل اسلام
زمانہ جاہلیت میں آپ کا شمار قریش کے بڑے سرداروں میں ہوتا تھا ۔ اور لوگ اپنے با ہمی اختلافات کا فیصلہ آپ سے کراتے تھے۔آپ فطری طور پرشریف ،باوقار طبیعت اور پاکیزہ خیا لات کے حامل تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ایسے معاشرہ میں جنم لینے کے باوجود جہاں کے لوگ بے جان بتوں کی پر ستش کے ساتھ ، جھوٹ ، فریب ، مکاری ، عیاری ، ظلم ، جبر اس کے علاوہ اَن گنت اخلاقی برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے ،شراب کو پانی کی طر ح پینا اور پلانا گھر گھر کا معمول تھا ۔ مگرآپ نے کبھی بتوں کی پو جا کی اور نہ ہی کبھی شراب نو ش کیا۔اور نہ ہی کوئی اوربرائی آپ کے دامن تطہیر کو داغدار کر سکی ۔
قبول اسلام
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو آپ نے بلا تردد اسلام قبول کر لیا ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ارشاد فر مایا کہ:میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی وہ تردد میں پڑ گیا سوائے ابو بکر کے ۔انہوں نے بغیر کسی تردد کے فوراََ میری دعوت کو قبول کی ۔ حضرت ابن عباس ، حضرت حسان بن ثابت ، حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہم اور علماء کی ایک کثیر جماعت اس بات پر متفق ہےکہ سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔مگر اس سلسلے میں دوسرےکچھ اکابرین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے قائل ہیں اور کچھ مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔ان تمام اقوال میں تطبیق اس طر ح سے دی گئی ہے کہ:مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔اور عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبری ٰرضی اللہ عنہا نے اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ۔
جانثاری و فدا کاری
آپ پوری زندگی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے۔مشکل سے مشکل لمحات میں بھی آپ نے کنارہ کشی اختیار نہ کی۔ بلکہ اپنی جان پر کھیل کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معاون و مددگار بنے رہے ۔ یہاں تک کے آپ نے ہجرت کے مصائب و آلام سے بھرے سخت سفر میں بھی اپنے گھر والوں کو چھوڑ کرحضور کی معیت کا شرف حاصل کیا ۔ اور آپ نے اس سفر میں ایسی جانثاری اور وفاداری کا حق ادا کیا کہ اس کی مثال ممکن نہیں۔اس کے علاوہ آپ نے ہر موقع پر سب سے آگے بڑھ کر اسلام کی خدمت سر انجام دی ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : {ایک مشکل ترین لمحے میں جبکہ اسلام کےتحفظ کے لئے مال ودولت کی سخت ضرورت تھی} ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اُن دنوں میرے پاس کافی مال تھا ، میں نے سوچا کہ اگر میں کبھی ابو بکر سے آگے بڑھ سکتا ہوں تو آج ہی ان سے زیادہ اللہ کی راہ میں اپنا مال لٹا کر بڑھ سکتا ہوں ۔ میں اپنے گھر گیا اور اپنے پورے مال کو دو حصے میں تقسیم کیا اور ایک حصہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے پو چھا کہ تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے ؟ میں نے کہا : اتنا ہی جتنا یہاں لا یا ہوں ۔پھرحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے پورے مال و دولت اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا سب لے کر حاضر ہوئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے پوچھا : اےابو بکر ،تم نے اپنے گھر والوں کےلیے کیا چھوڑا ہے ؟ انہوں نے کہا:میں نے ان کےلیے صرف اللہ و رسول کو چھوڑا ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اس دن کہا : قسم بخدا !میں کبھی کسی بھی چیز میں ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہوں ۔ (جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۷۵،چشتی)
بیعت و خلافت
جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہوا اسی دن سقیفہ بنو ساعدہ میں صحابہ کرام کے درمیان خلافت کے مسئلے پر تبادلئہ خیال ہوا ۔ کئی امور زیر تجویز آئیں لیکن آخر میں تمام صحابہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم پر اتفاق ہوگیا ۔ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت کیا پھر دیگر صحابہ کرام نے ۔ اوراگلے دن مسجد نبوی میں بیعت عام ہوئی ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہو ا ۔ تو مہاجرین و انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہوئے اور آخر کار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر سب متفق ہو گئے ۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام صحابہ نےمتفق ہو کر حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ بنایا ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۶۶،۴۴۷۶)
ایسا ہو نا ہی تھا کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گو کہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کیا مگر آپ نے واضح اشارات و ہدایات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کےلیے فر مادیا تھا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مر ض وصال میں فر مایا : اپنے باپ اور بھائی کو میرے پاس بلا لاؤتا کہ میں ان کے متعلق ایک مکتوب لکھ دوں ۔ کیونکہ مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا کہ : میں زیادہ خلافت کا حقدار ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان ابو بکر کے سوا ہر ایک کی خلافت کا انکار کر دیں گے ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث:۲۳۸۷،چشتی)
اور یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب مسجد نہ جا سکے تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اصرار کے با وجود بھی اپنی جگہ پرامامت کےلیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مقرر کیا ۔ (صحیح بخاری)
نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صاف صاف ارشاد فر مایا تھا کہ : تم لوگ میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا ۔ (جامع ترمذی،باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما،حدیث:۳۶۶۵)
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح انداز میں مختلف مواقع سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ فر مایا تھا ۔ وہ روایتیں آج بھی کتب احادیث میں کثیر تعداد میں مو جود ہیں ۔
اس لیے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے آپ کی ذات پر اتفاق کیا اور زندگی بھر دل وجان سے آپ کے احکام سنتے اور مانتے رہے ۔ مگر کچھ نا عاقبت اندیش لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گڑھ کے آپ کی ذات اقدس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ کہ خلافت حضرت علی کا حق تھا ، آپ نے جب دیکھا کہ میرے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تلوار کے زور سے اپنا حق حاصل کروں اور مسلمانوں کے اتنے بڑے گروہ سے لڑوں تو آپ نے مجبوراً نہ چا ہتے ہوئے بھی بیعت کر لیا ۔ (نعوذ با للہ من ذالک) ۔ کیا کوئی مسلمان جو مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت سے واقف ہے ۔آپ کے بارے میں ایسی لا یعنی باتیں مان سکتا ہے؟ہر گز نہیں۔کیو نکہ یہ وہی مان سکتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بزدل اور لوگوں کے درمیان بے وقار مانتا ہو۔جبکہ ہم اہل سنت انہیں شیر خدا ، مانتے ہیں ۔ جو اپنی جان تو دے سکتا ہے مگر کسی باطل کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسے گندے خیالات سے بچائےآمین ۔
مدت خلافت
اسلام دشمن عناصر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے انتظار میں تھے کہ جیسے آپ کا وصال ہو ، ہم اپنی طاقت وقوت لے کر اٹھیں اور اسلام کو صفحئہ ہستی سے نا بود کر دیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ان لوگوں نے طرح طرح کے عجیب و غریب فتنے کھڑے کر دیے ۔ کچھ مکار صفت لو گوں نے نبوت کا دعوی کردیا اور مسلمانوں سے ٹکڑانے کےلیے فوجی طاقتیں جمع کر لی ۔ تو کچھ لوگو ں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیااور کچھ لوگوں نے مدینہ منورہ کو مر کز ماننے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے پورے عرب میں ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی اس کے ساتھ کفار و مشر کین کی بیرونی طاقتوں نے اسلامی حکومت کے سر حدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اندرونی اور بیرونی دونوں اعتبار سے شدید مشکلات در آئیں ۔ مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خداداد فہم و بصیرت اور شجاعت و بہادری سے سارے فتنوں کو سر کیا ۔ اور تمام فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اسلام اور اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا اور اسلامی حکومت کے دائر ے میں تو سیع کے ساتھ بہت سارے کار ہائے نمایاں انجام دئے۔خاص طور سے آپ نے قرآن مجید ، جو اب تک اکٹھا ایک جگہ جمع نہ ہو سکا تھا جمع کروایا ۔ آپ نے کل دو سال سات مہینے کارِ خلافت انجام دیا ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۱۷)
وصال پُر ملال
آپ کا وصال۲۲/جمادی الآخرہ سن ۱۳/ہجری میں ہوا ۔ آپ کی وصیت تھی کہ غسل ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس دے ۔ سو انہوں نے غسل دیا ۔ حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہم نے جنازہ کی نماز پڑھائی ۔ اوررات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو اقدس میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ آپ کی کل عمر شریف ۶۳سال کی ہوئی ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۰۹ ) ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment