Wednesday 4 January 2023

سب سے پہلے حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے

0 comments

سب سے پہلے حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے

محترم قارئینِ کرام : محدّثین علیہم الرحمہ کی جماعتِ کثیرہ اس پر زور دیتی ہے کہ حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لائے ۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ عبد اللہ بن عثمان ابوبکر الصدیق جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)


ابن عسا کرنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر ایمان لائے ۔ اسی طرح ابن سعد نے ابو اَرویٰ دوسی سے اسی مضمون کی حدیث روایت کی ۔ طبرانی نے معجم کبیر میں اور عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں شعبي سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اول الاسلام کون ہیں ۔ فرمایا : ابوبکر صدّیق اورحضرت حسّان رضی اللہ عنہما کے وہ اشعار پڑھے جو حضرت صدّیق رضی اللہ عنہ کی مدح میں ہیں اور ان میں آپ کے سب سے پہلے اسلام لانے کا ذکر ہے۔ ابو نعیم نے فرات بن سائب سے ایک روایت کی ہے اس میں ہے کہ میں نے میمون بن مہران سے دریافت کیا کہ ابوبکر پہلے اسلام لائے یا علی رضی اللہ عنہما ؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ابو بکر بَحِیریٰ راہب کے زمانہ میں ایمان لائے ۔ اس وقت تک حضرت علی مرتضیٰ پیدا بھی نہ ہوئے تھے ۔ (تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ فصل فی اسلامہ، صفحہ ۲۵)

صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کثیرہ اس کی قائل ہے کہ سب سے پہلے مومن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور بعضوں نے اس پر اجماع کیا ہے ۔ ذَکَرَہُ الْعَلَّامَۃُ  جَلاَلُ الدِّیْن اَلسُّیُوْطِیُّ رَحِمَہُ اللہُ فِیْ تَارِیْخِ الْخُلَفَاءِ اگرچہ صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم کی کثیر جماعتوں نے اس پر زوردیا ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مومن ہیں ۔ مگر بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلے مومن حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ بعض نے یہ کہا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے ایمان سے مشرف ہوئیں ۔ ان اقوال میں حضرت امام عالی مقام اما م الائمۃ سراج الامۃ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر مشرف بایمان ہوئے اور عور توں میں حضرت ام المومنین خدیجہ اور نو عمر صاحبزادوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔ (تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسلامہ صفحہ ۲۶،چشتی)

ابن ابوخیثمہ نے بہ سند صحیح زیدبن ارقم سے روایت کی کہ سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نماز پڑھنے والے حضرت ابوبکرہیں ۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی اسلامہ صفحہ ۲۵)

عن عائشة عن عمر بن الخطّاب قال کان أبو بکر أحبّنا إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کان خيرنا و سيّدنا ذکر البيان بأنّ أبا بکر الصّدّيق رضي الله عنه أوّل من أسلم من الرّجال ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862)(هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199)(بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251)
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے ۔

عن ابن عمر قال أوّل من أسلم أبوبکر ۔ (طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عن عمرو بن مرة عن إبراهيم قال أبو بکر أوّل من أسلم مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540)
ترجمہ : عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عن يوسف بن يعقوب الماجشون قال سمعت أبي و ربيعة يقولان أوّل من أسلم من الرّجال أبو بکر ۔ (ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577)
ترجمہ : يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عن أبي أرويٰ الدّوسيّ قالوا أوّل من أسلم أبو بکر الصّدّيق ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171)(محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396)
ترجمہ : ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عن الزّهريّ قال هو أوّل من أسلم من الرّجال الأحرار ۔ (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872)
ترجمہ : امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں ۔

عن محمّد بن کعب أنّ أوّل من أسلم من هذه الأمّة برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و أوّل رجلين أسلما أبوبکر الصّدّيق و علي و انّ أبابکر أوّل من أظهر إسلامه ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268)
ترجمہ : محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنہا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔

عن محمّد بن کعب قال أوّل من أسلم أبوبکر و عليّ رضي ﷲ عنهما فأبوبکر رضي الله عنه أوّلهما أظهر إسلامه و کان عليّ رضي الله عنه يکتم إيمانه فرقا من أبيه فاطّلع عليه أبو طالب وهو مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال أسلمت قال نعم قال آزر إبن عمّک يا بنيّ و انصره قال و کان عليّ رضي الله عنه أوّلهما إسلاما ۔ (فاکهی، اخبار مکة، 3 : 219)
ترجمہ : محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اسلام لائے ، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟جواب دیا ہاں! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ۔

قال أبوحاتم فکان أوّل من آمن برسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زوجته خديجة بنت خويلد ثمّ آمن عليّ بن أبي طالب وصدّقه بما جاء به وهو بن عشر سنين ثمّ أسلم أبوبکر الصّدّيق فکان عليّ بن أبي طالب يخفي إسلامه من أبي طالب وأبوبکر لمّا أسلم أظهر إسلامه فلذٰلک اشتبه علي النّاس أوّل من أسلم منهما ۔ (ابن حبان، الثقات، 1 : 52)
ترجمہ : ابو حاتم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی ﷲ عنہا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے ، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے ، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہو گیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ ۔

عن أبي أمامة الباهليّ قال : أخبرني عمروبن عبسة رضي الله عنه قال : أتيت رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو نازل بعکاظ قلت : يا رسول اﷲ من اتّبعک علٰي هذا الأمر؟ قال : إتّبعني عليه رجلان حرّ وّ عبد أبو بکروّبلال‘‘ قال : فأسلمت عند ذٰلک ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419)(طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540)
ترجمہ : حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام ، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا ۔

عن عمرو بن عبسة قال : أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في أوّل ما بعث وهو بمکّة وهو حينئذ مستخف . . . قلت نعم ما أرسلک به فمن تبعک علٰي هذا ؟ قال : ’’عبد و حرّ يعني أبابکر و بلا لا ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418)(حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111)(ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260،چشتی)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410)(بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959)
ترجمہ : حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اﷲ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عن همّام قال : سمعت عمّارا يقول : رأيت رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما معه إلّا خمسة أعبد وّ امرأتان، و أبوبکر ۔ (بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460)(بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644)(حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232)(بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883،چشتی)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131)(ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428)(مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420)
ترجمہ : حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی ﷲ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں ، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا ۔

عن الشّعبيّ قال سألت إبن عبّا س أو سئل : من أوّل من أسلم؟ فقال : أما سمعت قول حسّان رضی الله عنه : ⬇

إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها وأعدلها
بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا
ترجمہ : امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا : ⬇

جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر ، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی ۔ (حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238)(ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416)

عن عبدﷲ بن الحصين التّميميّ أنّ رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال مادعوت أحدا إلٰي الإسلام إلاّ کانت عنده کبوة و تردّد و نظر إلا أبابکر ما عکم عنه حين ذکرته ولا تردّد فيه ۔ (ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27)(ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)(ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44)(محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415)
ترجمہ : عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی ۔

ما کلّمت أحدا في الإسلام إلّا ابٰي عليّ و راجعني في الکلام إلّا ابن اٰبي قحافة فانّي لم أکلّمه في شيء إلاّ قبله و استقام عليه ۔ (حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)
ترجمہ : میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے ، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا ۔

ابن اسحق نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے ابوبکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو میری دعوت پر بے توقف و تامل ایمان لایا ہو ۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی اسلامہ صفحہ ۲۷)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کے وقت سے دمِ آخر تک حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی برکاتِ صحبت سے فیضیاب رہے اور سفر وحضر میں کہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہیں ہوئے اور سوائے اس حج و غزوہ کے جس کی حضور نے اجازت عطافرمائی اور کوئی سفر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدہ نہ کیا ۔ تمام مشاہد میں حضور کے ساتھ حاضر ہوئے۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنے عیال و اولاد کوخدا اور رسول کی محبت میں چھوڑ دیا۔آپ جو دوسخا میں اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں۔ اسلام لانے کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار دینار تھے۔یہ سب اسلام کی حمایت میں خرچ فرمائے۔ بردوں کو آزاد کرانا، مسلمان اسیروں کو چھڑانا آپ کا ایک پیار ا شغل تھا۔ بذل و کرم میں حاتم طائی کو آپ سے کچھ بھی نسبت نہیں ۔ (تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی صحبتہ ومشاہدہ،
صفحہ ۲۷ و فصل فی انفاقہ مالہ علی رسول اﷲ…الخ صفحہ ۲۹،چشتی)

حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم پر کسی شخص کا احسان نہ رہا ، ہم نے سب کا بدلہ کر دیا سوائے ابو بکر کے کہ ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت عطا فرمائے گا اور مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،
الحدیث:۳۶۸۱ جلد ۵ صفحہ ۳۷۴)

زہے نصیب صدیق کے کہ حضور انورسلطان دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی شان میں یہ کلمے ارشاد فرمائے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام میں سب سے اعلم واذکیٰ ہیں ۔ اس کا بارہاصحابہ کرام نے اعتراف فرمایا ہے ۔ قرأتِ قرآن ، علمِ انساب ، علمِ تعبیر میں آپ فضلِ جلی رکھتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کے حافظ ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ،فصل فی علمہ…الخ صفحہ ۳۱۔۳۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862)(هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199،چشتی)(بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251)

حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254)

عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540)

يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577)

ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171)(محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396)

امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں ۔ (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872)

محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ پختہ عمر افراد میں سے تھے اور معاشرے میں سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث معروف بھی تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے اظہارِ اسلام کا ہر ایک پر آشکار ہونا ایک فطری امر تھا، سو اس کی شہرت ہوگئی۔ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نو عمر معصوم بچے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اﷲ عنھا کی طرح پہلے ہی دن سے اسلام قبول کر لیا۔ اغلباً ممکن ہے کہ زمانی اوليّت کے اعتبار سے حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی سب پر مقدم ہوں مگر اعلانی اوليّت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مقدم ہوں ۔

محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما اسلام لائے، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟جواب دیا ہاں! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ۔ (فاکهی اخبار مکة، 3 : 219)

ابو حاتم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنھا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہوگیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ ۔ (ابن حبان، الثقات، 1 : 52)

قاضی شوکانی نے کہا، یہ بات صحیح ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا ۔ (شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 17)

حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419،چشتی)(طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540)

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اﷲ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418)(حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111،چشتی)(ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410)(بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959)

حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460)(بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644)(حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232)(بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411) (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883،چشتی)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131) (ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428)(مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420)

امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا !
إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها وأعدلها
بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا
ترجمہ : جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی ۔ (حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103،چشتی)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238)(ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416)

عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی ۔ (ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27)(ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)(ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44)(محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415)

میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے ، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا ۔ (حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔