قیامِ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بخاری شریف سے بھی ثابت ہوتا ہے ، جیسا کہ بخاری شریف میں حدیث موجود ہے : عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 102 كتاب ألأذان باب وضع الیمنی علی الیسریٰ في الصلاة)
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں بازو پر رکھے ۔
اس حدیث میں ، یضع ، کا لفظ ہے یعنی آدمی اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے ، اور بعض احادیث مبارکہ میں ، فأخذ ، کا لفظ ہے یعنی دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑا ۔ ان دونوں پرایک وقت میں عمل صرف اور صرف احناف کے طریقے سے ہی ممکن ہے ۔ جیسا کہ علامہ بدرالدين عینی رحمة الله علیہ نے فرمایا : و استحسن كثير من مشائخنا الجمع بينهما بأن يضع باطن كفه علي كفه اليسري و يحلق بالخنصر و الإبهام علي الرسغ ۔ (عمدةالقاري شرح صحیح البخاري جلد 5 كتاب ألأذان باب وضع اليمني علي اليسري في الصلاة،صفحہ 407)،بيروت،چشتی)
ترجمہ : ہمارے کثیر مشائخ علیہم الرّحمہ نے اس کو اچھا سمجھا کہ دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے وہ اس طرح کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے تاکہ رکھنے والی پر عمل ہوجائے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے گھیرا بنا کر بائیں ہاتھ کے جوڑ کو پکڑے تاکہ پکڑنے والی پر بھی عمل ہوجائے ۔ اور اس عمل سے آسانی کے ساتھ ہاتھ ناف کے نیچے باندھا جائے گا، سینے پر نہیں ۔
اور یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ بخاری میں نہ ہو تو صحیح نہیں ، باوجود کہ دیگر صحیح احادیث مبارکہ میں صراحتاً ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔ جیسا کہ "کتاب الآثار امام محمد" میں ہے : محمدقال اخبرنا ابو حنیفۃ عن حماد عن ابراھیم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کان یعتمذ باحدی یدیہ علی الاخری فی الصلاۃ یتواضع اللہ تعالی قال محمد ویضع بطن کفہ الایمن علی رسغہ الایسر تحت السرۃ فیکون الرسغ فی وسط الکف ۔
ترجمہ :حضرت امام ابرھیم نخعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں اپنیے ایک (یعنی دائیں) ہاتھ کو دوسرے (یعنی بائیں) ہاتھ پر اللہ تعالی کےلیے تواضع (اور عاجزی) اختیار کرتے ہوٸے رکھ لیا کرتے تھے ۔ حضرت امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندرونی حصے کو بائیں ہاتھ پر گٹ پر ناف کے نیچے رکھ لے جس سے اس کےبائیں ہاتھ کے گٹ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے درمیان آجاےگا ۔ (کتاب الآثار امام محمد جلداول صفحہ ۱۴۰)
حضرت امام محمد رحمہ اللہ اپنا مسلک بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں : قال محمد ینبغی للمصلی اذاقام فی صلاتہ ان یضع باطن کفہ الیمنی علی رسغہ الیسری تحت السرۃ ویؤمن ببصرہ الی موضع سجودہ وہو قول ابو حنیفۃ رحمہ اللہ ۔
ترجمہ : نماز پڑھنے والے کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ جب نماز میں کھڑا ہو تو اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا اندرونی حصہ اپنے بائیں ہاتھ کے گٹ پر ناف کے نیچے رکھ لے اور (کھڑے ہونے کی حالت میں) اپنی نظر کو اپنے سجدے کی جگہ رکھے ۔ یہی امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کاقول ہے ۔ (موطاامام محمد جلداول صفحہ ۳۱۸،چشتی)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن عامر بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السرۃ ۔
ترجمہ : وائل بن حجر اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز میں دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر زیر ناف باندھتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلداول صفحہ ۳۹۰)
عون المعبود شرح سنن ابی داؤد میں ہے : فان قلتم اخرج ابن ابی شیبۃ عن وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السرۃ وسندہ جید ورواتہ کلھم ثقات فھذا حدیث صحیح فی الوضع تحت السرۃ (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جلداول'صفحہ نمبر ۳۷۶)
مسندامام احمد میں ہے : عن ابی جحیفۃ عن علی رضی اللہ عنہ قال ان من السنۃ فی الصلاۃ وضع الکف علی الکف تحت السرۃ ۔ (مسندامام احمد جلد اول صفحہ نمبر۱۱۰،چشتی)
جوہر النقی میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار وتاخیر السحور ووضع یدالیمنی علی الیسری فی الصلوۃ تحت السرۃ ۔ (جوہر النقی جلددوم'صفحہ نمبر ۳۲)
حضرت شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمہ "المبسوط"میں تحریر فرماتے ہیں : فاما موضع الوضع فالافضل عندنا تحت السرۃ ۔
ترجمہ : ہمارے نزدیک دونوں ہاتھ کو ناف کے نیچے رکھنا افضل ہے ۔ (المبسوط جلداول باب کیفیۃ الدخول فی الصلوۃ صفحہ ۲۴)
فقہ کی مشہورومعروف کتاب "بدائع الصنائع" میں ہے : واما محل الوضع فماتحت السرۃ فی حق الرجل والصدر فی حق المرءۃ ۔
ترجمہ : نماز میں ہاتھ رکھنے کی جگہ مرد کے لئے ناف کے نیچے اور عورت کے لئے سینہ پر ہاتھ رکھنا ہے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع جلداولصفحہ نمبر ۲۰۱)
جملہ احادیث مبارکہ واقوال فقہاء علیہم الرّحمہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ۔
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کی تحقیق
بارہوی صدی میں پیدا ہونے والی فرقہ پرست قوم جس کے وجود کا مقصد ہی امت مسلمہ کی تکفیر و تضلیل کرنا ہے، یہ ایک زمانہ سے بلکہ جب سے معرض وجود میں آئی اسی وقت سے اس بات کا دعوی کرتی آرہی ہے کہ وہ اور اس کے قدم سے قدم ملاکر چلنے والے لوگ ہی قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے ہیں، ان کے سوا جتنے لوگ ہیں، خواہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی اتباع کرنے والے ہوں، یا امام دارالہجرہ امام مالک علیہ الرحمہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں، یا امام شافعی علیہ الرحمہ اور ان کے ماننے والے ہوں، یا امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ اور ان کے پیروکار ہوں، اگرچہ یہ حضرات قرون فاضلہ کے جید علما ، فقہا، محدثین اور مجتہدین عظام میں سے ہیں، جن کے آرا کی اتباع ساری دنیا کے لوگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، مگر پھر بھی یہ فرقہ پرست قوم عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ان حضرات کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں کو شیوخ پرست بلکہ نفس اور خواہش پرست جیسے القاب سے متصف کرتی ہے، اورانہیں احادیث ضعیفہ پر عمل کرنے کا الزام دیتی ہے،حالانکہ یہ قوم اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرے تو ضرور اسے نظر آجائے گا کہ وہ خود تعصب اور نفس پرستی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، عام امت مسلہ کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے،اور اس کے ماننے والے بعض لوگ تعصب کا ایسا عینک پہنے ہوئے ہیں کہ اگر اہل سنت و جماعت کے موقف کی حدیث ہے تو وہ موضوع یا ضعیف ہے، اگرچہ محدثین و ناقدین کے نزدیک صحیح و حسن ہو، اور اگر ان کے موقف کی حدیث ہے تو وہ صحیح و حسن ہی ہے ، خواہ وہ نقاد اور ماہرین کے نزدیک ضعیف ہی کیوں نہ ہو، جب سے اس فرقہ کا وجود ہوا ہے ، اس نے امت مسلہ پر ظلم و بربریت کا پہاڑ ہی توڑا ہے ، البتہ اس فرقہ کو امت مسلمہ کے دشمنوںکفار سے بڑی محبت ہے، انہیں اپنے دیار میں بیٹھاکر پالتی پوستی اور جوان کرتی ہے، مگر اسے ذرہ برابر اپنی پشیمانی کا احساس نہیں ہوتا،اللہ تعالی انہیں ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
اس فرقہ پرست کے بعض متبعین میں سے ایک ذاکر ناٸیک ہے ۔ جسے نہ تو قرآن صحیح سے پڑھنا آتا ہے، اور نہ ہی حدیث اور اصول حدیث سے اسے کوئی آگہی- وہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ نماز کی حالت میں سینے پر رکھنے کے متعلق ابن خزیمہ والی روایت کردہ حدیث صحیح ہے!! اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض احباب کے ذریعہ پتہ چلا کہ اس فرقہ پرست کے بعض نیپالی متبعین کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جب سے مجھے پتہ چلا کہ سینہ پر ہاتھ رکھنے سے متعلق چالیس حدیثیں وارد ہیں، میں سینے پر ہاتھ رکھنے لگا!!! نیز ان کے بعض متبعین سینے پر ہاتھ رکھنے میں اتنا غلو اور تشدد کرتے ہیں کہ ہاتھ کو گلے تک پہونچا دیتے ہیں، دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ اپنا گلا اپنے ہاتھوں خود ہی گھوٹ رہے ہیں! اس فرقہ پرست کا یہ غلواور تشدد اس حد تک پروان چڑھ چکا کہ وہ اپنے سوا کسی کو حق پر ہی نہیں سمجھتی !!! خیر یہ مضمون نماز کی حالت میں سینہ پر ہاتھ باندھنے والی روایات کی تحقیق و تحلیل پر مشتمل ہے ، اس فرقہ پرست کے نزدیک ان روایتوں میں سے قوی ترین روایت ابن خزیمہ کی اپنی صحیح میں روایت کردہ حدیث ہے جس کی تحقیق آپ عنقریب ملاحظہ فرمائیں گے ،قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ تعصب کا عینک اتار کر اس مقالہ کو بغور پڑھیں، پھر فیصلہ کریں کہ یہ روایتیں اصول حدیث کی روشنی میں صحیح ہیں یا حسن یا ضعیف،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ و طفیل میں مسلمانوں کو گمراہ گر علما سے محفوظ، اور انہیں سنیت پر قائم و دائم رکھے ، اور اسی پر خاتمہ نصیب فرمائے آمین ۔
حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ : ابن خزیمہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: نا موسی، نا مؤمل، نا سفیان، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حجررضی اللّٰہ عنہ قال:(صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ)
ترجمہ : وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ، آپ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھک ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا ۔
سند پر کلام : اس حدیث کی سند میں ایک راوی مؤمل بن اسماعیل ہیں، میرے علم کے اعتبار سے یہی وہ ایک روای ہیں جو سفیان ثوری سے لفظ (علی صدرہ) کے ذکر کرنے میں منفرد ہیں، باقی دوسرے راویوں نے سفیان ثوری سے روایت کرنے میں اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا ہے ، قارئین ان حضرات کے اسما ملاحظہ فرمائیں : عبد اللہ بن الولید (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۱) (۲)عبد الرزاق صنعانی (مصنف عبد الرزاق، رقم: ۲۵۲۲) اور عبد الرزاق سے امام احمد بن حنبل نے روایت کی ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۸) (۳)ابو نعیم فضل بن دکین (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۷) (۴)محمد بن یزید مخزومی (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۶۹۱) (۵)محمد بن یوسف (سنن النسائی، رقم:۱۲۶۴) (۶)وکیع بن الجراح (مسند احمد، رقم:۱۸۸۴۵) (۷)یحی بن آدم (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۶۷) (۸)محمد بن عبد اللہ بن یزید مقریء (سنن النسائی، رقم: ۱۱۵۹) ۔ یہ آٹھ حضرات علیہم الرّحمہ جنہوں نے اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا جس کو روایت کرنے میں مؤمل بن اسماعیل منفرد ہیں ۔ نیز اس حدیث کی روایت کرنے میں ایک جماعت نے سفیان ثوری کی متابعت بھی کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کے اسما یہ ہیں : ⬇
سفیان بن عیینہ (مسند الحمیدی، رقم: ۹۰۹، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۳) (۲)محمد بن الفضیل (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۸، ۷۱۳) (۳)عبد الواحد بن زیاد (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۰) (۴)زہیر بن معاویہ (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۶) (۵)شعبہ بن الحجاج (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۵ ، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری، رقم:۲۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم:۶۹۷، ۶۹۸) (۶)عبد العزیز بن مسلم (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۵) (۷)زائدہ بن قدامہ (سنن الدارمی، رقم: ۱۳۹۷، مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۰، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۰، سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۷،صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۸۰، ۷۱۴، المنتقی لابن الجارود،رقم: ۲۰۸) (۸)عبد اللہ بن ادریس(قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۱، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۹۱۲، سنن الترمذی، رقم: ۲۹۲، سنن النسائی، رقم:۱۱۰۲، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۷، ۶۴۱، ۶۹۰، ۷۱۳) (۹) بشر بن المفضل (سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۶، ۹۵۷، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۸۶۷، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۵) (۱۰)سلام بن سلیم (مسند الطیالسی، رقم: ۱۰۲۰) (۱۱)خالد بن عبد اللہ (السنن الکبری للبیھقی، رقم: ۲۷۸۴،چشتی) ۔ ان سب نے اس حدیث کو ’’عن عاصم بن کلیب، عن کلیب، عن وائل‘‘ روایت کیا مگر کسی نے بھی اس زیادتی یعنی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
نیز اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے کلیب کے علاوہ (۱)علقمہ بن وائل و مولی لھم نے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۶ ، صحیح مسلم، رقم:۴۰۱، مستخرج ابی عوانہ، رقم:۱۵۹۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۹۰۵، السنن الکبری للبیھقی، رقم:۲۵۱۵)اور (۳) عبد الجبار بن وائل نے بھی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۳، سنن الدارمی، رقم:۱۲۷۷)اور ان لوگوں نے بھی لفظ (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا۔
اس زیادتی یعنی (علی صدرہ)کا سفیان ثوری ، عاصم بن کلیب، اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی روایت میں وارد نہ ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسماعیل بن مؤمل کو اس زیادتی کی روایت کرنے میں وہم ہوا ہے، لہذا یہ زیادتی صحیح اور قابل قبول نہیں۔
مناسبت کے پیش نظر ضروری سمجھتا ہوں کہ راوی مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ذکر کردئے جائیں تاکہ ان کی زیادتی والی روایت کا حکم صحیح طور پر بیان کیا جاسکے، قارئین کرام آپ ان کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں : ⬇
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مؤل بن اسماعیل صدوق، سنت کے معاملہ میں شدید کثرت سے سے خطا کرنے والے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی کتابیں دفن کردیں، اور حافظہ پر اعتماد کرکے حدیث بیان کئے جس کی وجہ سے آپ سے غلطی واقع ہوئی) (الکاشف، رقم: ۵۷۴۷) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (ابن معین سے مروی ہے کہ وہ ثقہ ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں: (منکر الحدیث ہیں) اور امام بخاری جس کے بارے میں ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا حلال نہیں، یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں: (سلیمان بن حرب ان کی تعریف کرتے تھے اور ہمارے شیوخ ان سے قریب رہنے کی وصیت کرتے تھے، مگر ان کی حدیث ان کے اصحاب کے مشابہ نہیں، اہل علم پر واجب ہے کہ ان کی حدیث سے احتراز کریں کیونکہ وہ اپنے ثقات شیوخ سے مناکیر روایت کرتے ہیں، اگر وہ یہ مناکیر ضعفا سے روایت کرتے تو اسے ان کے عذر کے منزل میں رکھ دیا جاتا) اور ابن سعد فرماتے ہیں: (ثقۃ، کثیر الغلط) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ غلطی بہت کرتے ہیں، اور ابن قانع فرماتے ہیں: (صالح یخطی) یعنی صالح ہیں مگر خطا کرتے ہیں، اور امام دارقطنی فرماتے ہیں:( ثقۃ، کثیر الخطا) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ خطا بہت کرتے ہیں، اور اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: (ہم سے ثقہ مؤمل بن اسماعیل نے حدیث بیان کی) اور محمد بن نصر مروزی نے فرمایا: (مؤمل بن اسماعلی اگر کسی حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہوں تو توقف ضروری ہے، کیونکہ ان کا حافظہ خراب ہے، اور غلطی بھی بہت کرتے ہیں)(تھذیب التھذیب، رقم: ۶۸۲) اور اما ذہبی رلکھتے ہیں:( ابو زرعہ فرماتے ہیں: فی حدیثہ خطأ کثیر) (میزان الاعتدال، رقم: ۸۹۴۹) یعنی ان کی حدیث میں کثرت سے خطا پائی جاتی ہے، ابن حجر عسقلانی ان کے بارے میں خلاصہ کلام کے طور پر فرماتے ہیں: (صدوق سیء الحفظ)(تقریب التھذیب، رقم: ۷۰۲۹) یعنی فی نفسہ سچے ہیں مگر ان کا حافظہ خراب ہے۔
حکم : ان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے خلاصہ کلام کے طور پر فرمایا: صدوق سیء الحفظ، اور ایسے وصف سے متصف راوی کی حدیث ضعیف ہوتی ہے، اور جب ضعیف راوی ثقہ یا ثقات کی مخالفت کرے تو وہ روایت منکر کہلاتی ہے، اور اس کے بالمقابل جو حدیث ہوتی ہے اسے معروف کہا جاتا ہے، لہذا یہاں پر مؤمل بن اسماعیل کی روایت جس میں (علی صدرہ) کا ذکر ہے ضعیف و منکر ہوگی، اور جنہوں نے (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے وہ معروف ہوگی، اور محدثین کے نزدیک عمل معروف حدیث پر ہوتا ہے منکر پر نہیں، اور اگر ہم متشددین اور غیر مقلدین کا طریقہ اختیار کریں اور صرف امام بخاری کے قول ’منکر الحدیث‘ کولے لیںتو ہمیں یہ کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوگی کہ مؤمل بن اسماعلی سے حدیث ہی روایت کرنا جائز نہیں، چہ جائے کہ ان کی حدیث پر عمل کیا جائے! کیونکہ جن کے بارے میں امام بخاری ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا جائز ہی نہیں! نیز اس حدیث کی سند میں سفیان ثوری ہیں جن کا مذہب و عمل خود اس روایت کے خلاف ہے، اور جب راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کو لیا جاتا ہے، اور یہی اکثر حفاظ کرام، محققین و ناقدین امام یحی بن معین، یحی بن سعید اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے(الاشفاق علی احکام الطلاق للکوثری،ص۴۴)امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے) (شرح علل الترمذی، ص ۴۰۹) ان تمام احوال کے باجود صاحب عون المعبود اور صاحب تحفۃ الاحوذی کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا عجیب و غریب بلکہ حد درجہ تعجب خیز ہے!! بہر حال یہ حدیث ضعیف اور قابل عمل نہیں، و اللہ اعلم۔
بہت سارے لوگ ابن خزیمہ کا اس روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کرنے کی وجہ عام طلبہ و علما اور عوام کو دھوکا دینے اور مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اور طرح طرح کا حیلے تلاش کرتے ہیں، ذیل میں حیلے اور ان کے جواب ملاحظہ فرمائیں : ⬇
ابن خیزیمہ علیہ الرحمہ اور اس حدیث کی تصحیح ۔
مخالفین کبھی یہ کہتے ہیں، اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے خود کی ہے، چنانچہ صاحب العون عظم آبادی لکھتے ہیں: (ابن سید الناس رحمہ اللہ نے ترمذی کی شرح میں وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ذکر کیا، اور فرمایا: ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے) اور صاحب تحفۃ الاحوذی مبارکپوری نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ: (علامہ محمد قاسم سندھی رحمہ اللہ نے ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کی جانب سے اس حدیث کی تصحیح کئے جانے کا اعتراف کیا ہے)
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے، اس کے بعض الفاظ کے صحیح ہونے میں کلام نہیں، البتہ جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو سینہ پر رکھا، اس پر ضرور کلام ہے، اور جس کی تصحیح ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے کی ہے، اور جس کو ابن سید الناس رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، اسی کو ابن حجر علیہ الرحمہ نے بھی ’فتح الباری‘ میں ذکر کیا ہے، آپ فرماتے ہیں:سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میںحضرت وائل رضی اللہ عنہ کی روات کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ((ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھر کفہ الیسری، و الرسغ من الساعد))(ج۲ ص۲۲۴) اسی کو ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے،اور حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں ((علی صدرہ)) کا اضافہ ہے، ابن حجر علیہ الرحمہ ’فتح الباری‘ میں اس کے حوالہ سے فرماتے ہیں:( ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے، اس میں ((انہ وضعھما علی صدرہ)) اور بزار نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، اس میں ہے: ((عند صدرہ)) مگر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس زیادتی کے ساتھ روایت کردہ حدیث کو صحیح نہیں قرار دیا، نہ تو فتح الباری ، اور نہ ہی التلخیص الحبیراور نہ ہی الدرایہ میں، کہیں بھی آپ نے اس حدیث کی تصحیح نہیں فرمائی، اسی طرح امام نووی علیہ الرحمہ نے شرح المھذب، الخلاصہ اور شرح مسلم میں ان کی تصحیح کا ذکر نہیں کیا، اگر ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے اس زیادتی والی روایت کردہ حدیث کی تصحیح فرمائی ہوتی تو یہ دونوں حضرات ضرور نقل کرتے ، کیونکہ انہیں اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لئے اس کی زیادہ ضرورت تھی، لہذا ان کا ذکر نہ کرنا اس بات پر دال ہے کہ ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے اس ((وضعہما علی صدرہ)) والی روایت کی تصحیح نہیں فرمائی ہے ، واللہ اعلم ۔
یہ حدیث ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کی شرط پر ہے !! بعض لوگ مغالطہ میں ڈالنے کےلیے کہتے ہیں : اس حدیث کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیاہے، لہذا یہ حدیث ان کی شرط پر صحیح یا حسن ہوگی ۔ یہ قول درست نہیں، کیونکہ ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کا اپنی صحیح میں احادیث ذکر کرنے کا منہج وہی ہے جو امام ترمذی کا اپنی سنن اور امام حاکم علیہ الرحمہ کا اپنی کتاب مستدرک میںہے، ہر ایک اپنی کوشش اور جہد کے مطابق ہر حدیث پر منفرد حکم لگاتا ہے، پس جس طرح امام ترمذی اور حاکم علیہ الرحمہ کا سکوت صحت یا ضعف پر دلالت نہیں کرتا، اسی طرح ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کا اپنی صحیح میں حدیث ذکر کرنا اور سکوت اختیار کرنا بھی حدیث کی صحت یا ضعف پر دلالت نہیں کرتا، لہذا جس نے حدیث کوصرف اس وجہ سے صحیح قرار دیا کہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کواپنی صحیح میں ذکر کیا ہے، وہ متساہل ہے، خطاکار ہے، خاص کر اس صورت میں جبکہ آپ نے اس حدیث پرکوئی حکم ہی نہ لگایا ہو۔ یہاں پر صحیح ابن خزیمہ کی احادیث کے بارے علمائے کرام کی آراء کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، ملاحظہ فرمائیں : ⬇
صحیح ابن خزیمہ محدثین کی نظر میں:ابو بکر محمدبن اسحاق بن خزیمہ نیشاپوری(ت ۳۱۱ھ)جلیل القدر عالم اور محدث تھے ، جس کے نتیجہ میں یہ کتاب عالم وجود میں آئی، محدثین اور فقہا ئے کرام کے نزیک بہت اہمیت کی حامل ہے، مگر چونکہ ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کی حدیث کی صحت کے لئے شرطیں اعلی نہ تھیں، اور آپ نے صحیح اور حسن کو ایک درجہ میں رکھا، جس کی وجہ سے محدثین کرام نے ان کی کتاب کو صحیحین، سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کا درجہ نہ دیا،بلکہ اس کو سنن ترمذی اور حاکم کی مستدرک کے ساتھ ضم کردیا، لیکن اس کا مطلب قطعا یہ نہیں کی ان کی تصحیح کا کوئی اعتبار نہیں، بلکہ ضرور اعتبار ہے مگر یہ تصحیح صحیح اور حسن کے درمیان دائر ہوتی ہے،اور یہی غالب ہے۔
امام سخاوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: (وکم فی کتاب ابن خزیمۃ أیضا من حدیث محکوم منہ بصحۃ، وہو لا یرتقی عن رتبۃ الحسن۔ اھ)(فتح المغیث للسخاوی، ج۱ ص۳۱) ترجمہ:(صحیح ابن خزیمہ میں بھی بہت ساری ایسی حدیثیں ہیں جس پر آپ نے صحت کا حکم لگایا ہے، مگر وہ صرف حسن ہیں)
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ امام ترمذی اور حاکم کی طرح حدیث کے باریں میں سکوت اختیار کرتے ہیں، اور یہ سکوت کبھی ایسی حدیث پر بھی ہوتا ہے جو ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے آپ کے سکوت اختیار کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث صحیح یا حسن ہی ہے، جیسا کہ دور حاضر کے مطلب پرست لوگ گمان کرتے ہیں، کیونکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے، امام زیلعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:( ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث کی تخریج کی ہے، اس میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز میں سورئہ فاتحہ کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کی) (نصب الرایۃ، ج ۱ص ۳۲۵) اس حدیث کو حاکم علیہ الرحمہ نے مستدرک میں ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کے طریق سے روایت کی ہے، اس میں ایک راوی ’عمربن ہارون‘ ہیں، ان کے بارے میں ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: محدثین و ناقدین کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے، اور امام نسائی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: وہ متروک ہیں، اس بیان سے واضح ہوگیا کہ صحیح ابن خزیمہ خالص صحیح احادیث پر مشتمل نہیں، بلکہ اس میں صحیح، حسن اور بعض حدیثیں ضعیف بھی ہیں، البتہ غالب وصف اس کی احادیث کا صحاح اور حسان ہونا ہے۔
زیر بحث حدیث کی سندسے اقوی دوسری سند موجود ہے!!
بعض حضرات یہ دعوی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں: زیر بحث حدیث مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ ایک دوسرے طریق سے مروی ہے جو اس سے اقوی ہے!
یہ صرف دعوی ہے جس کی دلیل اور برہان کا دور دور تک پتہ نہیں، اگر ایسا ہوتا تو اس مذہب کے مؤیدین اسے ـضرور ذکر کرتے، مگروہ اس اقوی طریق کے ذکر کرنے عاجز ہیں، کیونکہ اس اقوی روایت کا وجود نہیں، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صرف مؤمل بن اسماعیل کے طریق سے ہی روایت کی ہے، اگر اس کے علاوہ کوئی قوی طریق ہوتا تو یقینا امام بیہقی رحمہ اللہ اسے ـضرور ذکر کرتے، کیونکہ آپ کی وہ شخصیت ہے جس نے امام شافعی علیہ الرحمہ کے مذہب کی دلائل بطون کتب سے جمع کرنے کی انتھک کوشش کی ہے، اگر اقوی طریق ہوتا تو اسے چھوڑکر ضعیف حدیث ہرگز اپنے مذہب کے استدلال میں ذکر نہیں کرتے۔ ابن قیم جوزیہ فرماتے ہیں: مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے، اگر اس سے اوقوی طریق موجود ہوتا تو ابن قیم اس طرح انکار نہیں کرتے، بلکہ اس اقوی دلیل کو ذکر کرنے کا التزام کرتے، بہر حال علما اور محدثین کرام کے اقوال اور طرز استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث کا اس سے اقوی طریق موجود نہیں، اور اگر مدعیان کے پاس اس سے کوئی اقوی روایت ہو تو ضروری ہے کہ اسے سامنے لائیں تاکہ ناقدین قواعد حدیث کی روشنی میں پرکھ کر اس کا حکم بیان کرسکیں، اور یہ پتہ کرسکیں آیا وہ قابل عمل ہے یا نہیں، اور رہا صرف دعوی تو یہ بغیر دلیل کے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
بعض مخالفین کا مغالطہ اور اس کا جواب:ابن حجر عسقلانی اللہ فرماتے ہیں : (وائل بن حجر کی حدیث کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے، یہی حدیث صحیح مسلم میں بغیر لفظ علی صدرہ کے موجود ہے) (الدریۃلابن حجر، رقم: ۱۴۶)اور اسی قول سے صاحب تحفۃ الاحوذی مبارکپوری نے استدلال کیا کہ: (جو سند و متن ابن خزیمہ کی روایت میں ہے وہی سندو متن بغیر (علی صدرہ) کے صحیح مسلم میں بھی موجود ہے، اور صحیح مسلم کی اسناد صحیح ہے، اس لئے صحیح ابن خزیمہ کی اسناد بھی صحیح ہونی چاہیے)
یہ ایک طرح سے مغالطہ ہے، کیونکہ اگر متن کو سند کے ساتھ ذکر کیا جائے پھر یہ کہا جائے کہ یہی حدیث صحیح مسلم میںہے، تو اس طرح یعنی اتحاد سند کا قول کیا جاسکتا تھا، اگرچہ اس صورت میں بھی اشتباہ باقی رہ جاتا ہے، کیونکہ محدثین کرام کا طریقہ کار رہا ہے کہ جب باقی اسناد کے ساتھ مخرج متحد ہوتا ہے تو اس صورت میں وہ اس طرح کا جملہ استعمال کرتے ہیں، لیکن اگر متن کا ذکر کریں، اور سند کا بالکل ذکر ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں اتحاد سند کا قول نہیں کیا جاسکتا، یہاں پرفتح الباری سے ابن حجر رحمہ اللہ کا قول نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، آپ فرماتے ہیں: (و حدیث وائل عند أبی داؤد، و النسائی ثم وضع یدہ الیمنی علی ظہر کفہ الیسری، و الرسغ مع الساعد، و صححہ ابن خزیمۃ و غیرہ، و أصلہ فی مسلم بدون الزیادۃ)(نصب الرایہ ج۲ ص۲۲۴)
ابن حجر رحمہ اللہ اپنے اس قول سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث ابو داؤد اور نسائی رحمہما اللہ نے روایت کی ہے، اور ابن خزیمہ وغیرہ نے اس کی تصحیح بھی کی ہے، اور اس کی اصل یعنی مفہوم حدیث بغیر زیادتی ((علی صدرہ)) کے صحیح مسلم میں موجود ہے، انکی مراد قطعا یہ نہیں کہ جو سند و متن ابو داؤد اور نسائی رحمہما اللہ کی ہے وہی صحیح مسلم کی بھی ہے، اوریہی مفہوم و مفاد اس قول کا بھی ہے جس سے صاحب تحفت الاحوذی مبارکپوری نے استدلال کیاہے، اس لئے یہ کہنا کہ: صحیح مسلم کی سند صحیح ہے اس لئے صحیح ابن خزیمہ کی سند بھی صحیح ہونی چاہئے درست نہیں۔
اور برسبیل تنزل اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی زیادتی متن والی جو سند ہے وہی سند صحیح مسلم کے اصل حدیث کی ہے، پھر تو یہ سب سے بڑی دلیل ہوگی کہ متن کی زیادتی غلط ہے، اگرچہ راوی ثقہ ہو، اسے اس زیادتی کے ذکر کرنے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ صحیح مسلم اور ابن خزیمہ کی سند کے شیخ ایک ہی ہوں اس کے باوجود صحیح ابن خزحمہ میں زائد متن کا ذکر ہو، اور صحیح مسلم میں نہ ہو، بہر کیف امام مسلم رحمہ اللہ کا اسناد کے اتحاد کے باوجود -جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں- اس زائد متن کا ذکر نہ کرنا، اسے چھوڑ دینا ، اور حدیث کو بغیر اس زائد متن کے روایت کرنا، اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزیک زیادتی وہم ہے، راوی نے اس کے ذکر کرنے میں خطا کی ہے۔
ابن قیم جوزیہ ’الھدی‘ میں امام مسلم پر متکلم فیہ راویوں سے روایت کرنے کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:امام مسلم رحمہ اللہ کا متکلم فیہ سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ اس قسم کے راویوں سے وہی حدیث لیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث راوی کے پاس محفوظ ہے، جیسا کہ کبھی ثقہ کی بعض حدیث کو نہیں لیتے، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس ثقہ راوی کو اس حدیث کے روایت کرنے میں غلطی واقع ہوئی ہے، بلکہ امام مسلم علیہ الرحمہ کبھی کبھی اس کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: حماد کی حدیث میں بعض حرف زائد ہے، ہم نے اس کا ذکر قصدا چھوڑدیا)
اعتراض : اگر یہ کہا جائے کہ شوکانی ’النیل‘ میں لکھتے ہیں : شافعی حضرات اپنے موقف پر اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی تصحیح کے ساتھ کی ہے، وہ وائل رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ہے، آپ فرماتے ہیں: صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فوضع یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ) ۔ (نیل الأوطار للشوکانی، باب ماجاء فی وضع الیمین علی الشمال، ج۲ ص۲۲۰)
اگر شوکانی ابن خزیمہ کی تصحیح ذکر کرنے سے سکوت اختیار کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، جیسا کہ حافظ ابن حجر اور امام نووی رحمہما اللہ اور دیگر حضرات جنہوں نے اس حدیث کو ذکر کیا مگر سکوت اختیار کیا اور ابن خزیمہ کی تصحیح کو ذکر نہیں کیا، کیونکہ اگر انہوں نے تصحیح فرمائی ہوتی تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جن کے پاس صحیح ابن خزیمہ کا اصل نسخہ تھا، جس کی وجہ سے انہوں اپنی کتابوں میں ان کی تصحیحات خوب ذکر کی ہیں، ضرور اس حدیث پر ان کی تصحیح نقل کرتے، اور رہی شوکانی صاحب کی بات تو ان کے پاس صحیح ابن خزیمہ تھی ہی نہیں، اس کے باوجود تصحیح ذکر کرنا عجیب ہے، شاید انہیں ابن سید الناس کے قول سے اشتباہ ہوگیا، یا یہ سمجھ بیٹھے کہ جو بھی حدیث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ذکر کی ہے اس کی انہوں نے تصحیح فرمائی ہے، بہرحال ان کا یہ قول ’رکانہ‘ کی حدیث کے بارے میںذکر کردہ قول کی طرح ہے، آپ کہتے ہیں: (ابو داؤد نے فرمایا:یہ حدیث حسن صحیح ہے) حالانکہ ابوداؤد کے تمام نسخوں میں مجھے یہ تصحیح نہیں ملی، و اللہ اعلم ۔ حاشیۃ نصب الرایۃملخصا، ج۱ ص ۳۱۵،چشتی)
حدیث ہلب رضی اللہ عنہ : حدثنا یحی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ہلب عن أبیہ قال: رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ قال : یضع ہذہ علی صدرہ)
ترجمہ : حضرت ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہوکر کبھی داہنی طرف تو کبھی بائیں طرف مڑ جاتے تھے، راوی فرماتے ہیں: میں نے انہیں کہتے ہوئے دیکھا:حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے ۔ (مسند احمد، رقم: ۲۱۹۶۷)
سند پر کلام : اس حدیث کی سند میں ایک راوی قبیصہ متکلم فیہ ہیں، ان کے بارے میں امام مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجہول ہیں، سماک کے سوا کسی نے ان سے روایت نہیں کی ، امام نسائی فرماتے ہیں: مجہول ہیں، اورسماک کے تفرد کو امام مسلم نے بھی الوحدان میں ذکر کیا ہے، اور امام عجلی نے فرمایا: ثقہ ہیں، اور ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے)(تہذیب الکمال للمزی،رقم:۸۴۶، تہذیب التہذیب للعسقلانی، رقم:۶۳۵،چشتی) ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ان کے بارے خلاصہ کلام کے طور پرفرماتے ہیں: مقبول ہیں (التقریب، رقم:۵۵۱۶) اور یہ قبولیت مطلقا نہیں بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ راوی کے حدیث کی کوئی متابع موجود ہو، ورنہ مقبول نہیں بلکہ لین الحدیث قرار دئے جائیں گے (التقریب ص ۱۴) اور موجودہ راویت میں قبیصہ روای کی (علی صدرہ) ذکر کرنے میں کوئی متابع موجود نہیں، لہذا ان کے لین الحدیث ہونے کے ساتھ ان کی روایت کردہ یہ حدیث ضعیف ہوگی۔ و اللہ اعلم۔
صاحب عون المعبود لکھتے ہیں : اور راوی مجہول العین کی حدیث مقبول ہے جبکہ راوی کی توثیق روایت کرنے والے علاوہ کسی اور نے کی ہو، ابن حجر رحمہ اللہ ’شرح النخبۃ‘ میں فرماتے ہیں : اگر راوی کا نام ذکر کیا گیا اور اس سے صرف ایک ہی راوی نے روایت کی ہے تو وہ مجہول العین ہے، ہاں اگر اس سے روایت کرنے والے اس منفرد کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق کی ہے تو اصح یہ ہے کہ وہ مجہول العین نہیں) اور یہاں پر قبیصہ کی توثیق امام عجلی اور ابن حبان نے کی ہے، لہذا یہ حدیث مقبول ہوگی)
صاحب العون کا یہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے توثیق کے بعد صرف مجہول العین ہونے کی نفی فرمائی ہے، رہی بات اس کے مقبول ہونے کہ تو اس کے بارے میں کوئی صراحت نہیں فرمائی، البتہ آپ تقریب التہذیب میں فرماتے ہیں : راوی مقبول ہے جبکہ اس کے حدیث کی متابع موجود ہوورنہ وہ لین الحدیث ہے ۔ آپ کے اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ امام عجلی متساہل کا انہیں ثقہ قرار دینا، اور ابن حبان متساہل کا انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کرنا اس روای کی حدیث قبول کرنے کے لئے کافی نہیں، بلکہ اس راوی کی روایت قبول کرنے کے لئے اس کی روایت کا متابع بھی ہونا ضروری ہے ۔
نیز اس حدیث کا مدار سماک پر ہے، ان سے روایت کرنے میں راویوں کا اختلاف ہے، سماک سے چار لوگوں نے روایت کی، اور ان میں سے کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا، ان کے نام یہ ہیں : ⬇
شعبہ بن الحجاج (مسند الطیالسی، رقم: ۱۰۸۶، مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۳۱۰۹، مسند احمد، رقم: ۲۱۹۷۳، سنن ابی داؤد، رقم: ۱۰۴۱) (۲) زائدہ بن قدامہ (مسند احمد، رقم: ۲۱۹۸۲) (۳) شریک بن عبد اللہ نخعی (مسند احمد، رقم: ۲۱۹۱۷) (۴) ابو الاحوص سلام بن سلیم (سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۰۹، ۹۲۹، سنن الترمذی، رقم: ۲۵۲، ۳۰۱) ان میں سے بعض نے حدیث کو مختصرا روایت کیا ہے۔
اور سفیان ثوری نے اس حدیث کو سماک سے روایت کی ہے، سفیان ثوری سے بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف ہے، یحی بن سعید قطان نے صرف ان سے اس زیادتی کا ذکر کیا ہے، وایت کرنے والوں کے نام یہ ہیں:
(۱) یحی بن سعید قطان( مسند احمد، رقم: ۲۱۹۶۷) (۲)عبدالرزاق (المصنف، رقم: ۳۲۰۷) (۳) عبد الرحمن بن مہدی (سنن الدارقطنی، رقم:۱۱۰۰)(۴) وکیع ابن الجراح (مسند احمد، رقم:۲۱۹۶۸، مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: ۳۹۳۴) ان تین حضرات نے زیادتی کا ذکر نہیں کیا!
اگر برسبیل تنزل مان لیا جائے کہ راوی قبیصہ مقبول ہیں -اگرچہ صحیح یہی ہے کہ ان کی روایت کے متابع نہ ہونے کی وجہ سے وہ لین الحدیث اور ان کی حدیث ضعیف ہے-تو کیا ثقہ کی زیادتی مقبول ہوگی ؟ آنے والی سطور میں ملاحظہ فرمائیں :
کیا ثقہ کی زیادتی مطلقا مقبول ہے ؟
اس روایت میں سفیان ثوری کے شاگردوں میں سے یحی بن سعید ثقہ (علی صدرہ) کی زیادتی کے ساتھ روایت کرنے میں منفرد ہیں، اور ثقہ کی زیادتی مقول ہوگی یا نہیں، اس باب میں مختلف قیود و شروط کے ساتھ مختلف مذاہب ہیں، میں یہاں دو مشہور مذہب ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں : ⬇
پہلا مذہب:(معظم فقہا و محدثین کی رائے یہ ہے کہ ثقہ کی زیادی مطلقا مقبول ہے) مگر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مطلق قول کو مقید کیا، اور فرمایا: (ثقہ کی زیادتی اس صورت میں مقبول ہے جبکہ اس کی اس زیادتی کی وجہ سے مد مقابل کی روایت کا انکار لازم نہ آئے)(فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص۱۷۵، ۱۷۷)
اس مذہب کے اعتبار سے اس روایت میں مذکور (علی صدرہ) کی زیادتی مقبول ہونی چاہئے، کیونکہ زیادتی کی روایت کرنے والے یحی بن سعید ثقہ ہیں، نیز ان کی اس روایت سے مدمقابل راویوں کی روایت کا رد بھی لازم نہیں آتا، اس لئے یہاں پر یہ زادتی مقبول ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔
دوسرا مذہب:اور بہت سے دیگر فقہا و محدثین مثلا ابن خزیمہ اور ابن عبد البر وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ زیادتی کا ذکر کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ ثقاہت میں، نہ ذکرکرنے والے راوی کے مساوی، یا اس سے اوثق، یا ذکر کرنے والے متعددثقات ہوں، اور نہ ذکرکرنے والا ایک ہی ثقہ ہو، تو ایسی صورت میں زیادتی مقبول ہوگی، اوراگر اس کا برعکس یعنی زیادتی کا ذکر کرنے والا، نہ ذکر کرنے والے سے ثقاہت میں مساوی نہیں بلکہ کم ہو، یا ذکر کرنے والے ثقات کی تعداد کم ہو، تو ایسی صورت میں یہ زادتی مقبول نہیں ہوگی (فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص ۱۷۶،چشتی)
اس مذہب کے اعتبار سے لازم آئے گا کہ یہاں پر زیادتی والی روایت مقبول نہ ہو، کیونکہ یحی بن سعید اگرچہ سفیان ثوری سے روایت کرنے والوں میں اثبت ہیں، مگر وہ زیادتی کی روایت کرنے میں تنہا ہیں، اور روایت نہ کرنے والے وکیع بن الجراح اور عبد الرحمن بن مہدی سفیان ثوری کے شاگردوں میں اثبت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ بھی ہیں،امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یحی بن معین رحمہ اللہ سے اصحاب ثوری کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں کون اثبت ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ پانچ ہیں: یحی بن سعید، وکیع بن الجراح، عبد اللہ بن المبارک، عبد الرحمن بن مہدی، اور ابو نعیم فضل بن دکین) ۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب، ص۲۹۸)
اس مذہب کے اعتبار سے یہ زیادتی والی روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
حکم:مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ اس حدیث کی سند میں ایک روای قبیصہ متکلم فیہ ہونے کے ساتھ لین الحدیث ہیں، اور اس حدیث کی روایت کرنے میں ان کی کسی نے متابعت نہیں کی ہے ، اس لئے ان کہ یہ روایت مقبول نہیں بلکہ ضعیف ہوگی،اور اگر برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے قابل قبول ہے،تو بھی یہ حدیث قابل احتجاج نہیں،کیونکہ سفیان ثوری جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کا مذہب خود اس حدیث کے خلاف ہے، امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے) ۔ (شرح علل الترمذی، ص ۴۰۹) نیز یہ کہ سفیان ثوری کے تلامذہ میں سے یحی بن سعید کے علاوہ دیگر تلامذہ اور سماک کے تلامذہ کی روایت میں یہ لفظ یعنی (علی صدرہ) ثابت و محفوظ نہیں، نیز اس حدیث کو اپنی کتاب ’مسند‘ میں ذکر کرنے والے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عمل خود اس حدیث کے برخلاف ہے، آپ کا اس حدیث کے خلاف عمل کرنا اگرچہ حدیث کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا ہے مگر اس بات پر ضرور دال ہے کہ یہ حدیث قابل عمل و احتجاج نہیں، کیونکہ اگر قابل احتجاج ہوتی تو امام احمد بن حنبل -جو اگر کسی باب میں صحیح حدیث کے بجائے ضعیف ہو تو وہ اس ضعیف پر بھی عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں- ضرور اس حدیث پر عمل کرتے، نیز اس باب میں ابھی ابھی محدثین و محققین کے موقف کا بیان گزراکہ اگر راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کو لیا جائے گا ،بہر حال یہ روایت بھی ضعیف اور زیر بحث مسئلہ میں قابل احتجاج نہیں۔ واللہ اعلم۔
فائدہ : صاحب عون المعبود اور صاحب تحفۃ الاحوذی کا (علی صدرہ) والی اس روایت کو دوسرے جرح کے اقوال سے صرف نظر کرتے ہوئے صحیح قرار دینا محل نظر ہے، خاص طور سے اس صورت میں جبکہ جرح کے مقبابلہ میں راوی قبیصہ کو ثقہ قرار دینے والے امام عجلی اور ابن حبان متساہلین میں سے ہوں!! واللہ اعلم۔
روایت طاؤس رحمہ اللہ:حدثنا أبو توبۃ، حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید، عن ثور، عن سلیمان بن موسی، عن طاؤس قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :(( یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری، ثم یشد بینہما علی صدرہ و ہو فی الصلاۃ)) (سنن أبی داود، رقم: ۷۵۹)
ترجمہ : حضرت طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کرسینے پر مضبوطی سے باندھ لیتے تھے ۔
سند پر کلام:اولا: ہیثم بن حمید، متکلم فیہ ہیں، ابوداؤو نے ان کی توثیق کی ہے، اور علی بن مسہر نے فرمایا: ضعیف، قدری ہیں(میزان الاعتدال للذہبی، رقم: ۹۲۹۸) ثانیا: سلیمان بن موسی، امام بخاری نے فرمایا: ان کے پاس مناکیر ہیں، اور ابوحاتم نے فرمایا: محلہ الصدق، اور ان کی حدیث میں بعض اضطراب ہے، اور امام نسائی نے فرمایا: قوی نہیں ہیں، اور ابن عدی نے فرمایا: وہ میرے نزدیک ثبت صدوق ہیں(میزان الاعتدال، رقم: ۳۵۱۸) ثالثا: یہ حدیث مرسل ہے، کیونکہ طاؤس تابعی ہیں، آپ نے جن سے یہ حدیث سنی ہے ان کا ذکر نہیں کیا۔
حکم: ضعیف ۔اس مسئلہ میں ابن قیم جوزیہ کی رائے ملاحظہ فرمائیں، آپ لکھتے ہیں:امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نماز کی حالت میں ناف کے اوپر اور ناف کے نیچے رکھنے کی روایت ملتی ہے، ابوطالب فرماتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا ، نماز کی حالت میں نمازی ہاتھ کہاں رکھے گا؟ آپ نے فرمایا: ناف پر یا ناف سے نیچے رکھے گا، بہر حال آپ کے نزدیک اس مسئلہ میں وسعت ہے، چاہے ناف سے اوپر یا ناف پر یا ناف سے نیچے رکھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نماز کی حالت میں ہاتھ کو ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے، اس طرح کی وضاحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، مگر یہ روایت صحیح نہیں،ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضرورصحیح ہے، اور مزنی کی روایت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہاتھ ناف کے تھوڑا نیچے رکھا جائے، اسے سینہ کے اورپر رکھنا مکروہ ہے، کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تکفیر یعنی سینے پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا ہے، اور مؤمل بن اسماعیل نے اگرچہ علی صدرہ کا ذکر کیا ہے، مگر عبد اللہ بن الولید نے اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیا اور علی صدرہ کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح سے شعبہ اور عبد الواحد نے سفیان ثوری کی مخالفت کی اور علی صدرہ کا ذکر نہیں کیا۔
خلاصہ بحث : (الف) وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ پہلی حدیث ضعیف ہے (ب) اور ہلب رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ دوسری حدیث بھی ضعیف ہے(ت) اور طاؤس رحمہ اللہ کی روایت مرسل ہے، اور مرسل غیر مقلدین کے نزدیک قابل احتجاج نہیں (ث) غیر مقلدین کے طریقہ کار کے پیش نظر سینے پر ہاتھ رکھنے والی ساری احادیث ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل احتجاج نہیں، لہذا ان کے لئے ان روایات ضعیفہ پر عمل روا نہیں، مگر وہ عمل کرتے ہیں!! (ج) اگر غیر مقلدین پر رحم کھایا جائے -جو امام ترمذی رحمہ اللہ کو متساہل کہتے نہیں تھکتے- تو امام ترمذی رحمہ اللہ کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان غیر مقلدین کی قوی تر دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لئے ہلب رضی اللہ عنہ اور طاؤس کی روایت شاہد بن سکتی ہے، اس لئے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن لغیرہ تک پہونچ جائے گی، مگر میرے نزدیک پھر بھی اس باب کی حدیث پر عمل کرنا روا نہیں ، اس کے چند وجوہات ہیں:پہلی اور دوسری حدیث کی سند میں سفیان ثوری ہیں، ان کا عمل خود اس روایت کے خلاف ہے ، اور ایسی صورت میں عمل رویت پر مقدم ہوگا، امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے)(۲) دوسری حدیث کی تخریج امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں کی ہے مگر ان کا عمل خود اس حدیث کے برخلاف ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن قیم جوزیہ کے بیان سے واضح ہے(۳) بلکہ ائمہ ثلاثہ اور ان کے تمام متبعین کا عمل اس حدیث کے برخلاف ہے، اور شوافع اگر چہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں، مگر وہ اس حدیث کے ظاہری معنی پر عمل نہیں کرتے ، بلکہ تاویل یا دوسری روایت کے پیش نظر سینے کے نیچے ہی ہاتھ باندھنا مستحب قرار دیتے ہیں، بہر کیف بارہویں صدی میں پیدا ہونے والی غیر مقلدیت سے پہلے پوری دنیا انہیں ائمہ کرام کی اتباع کرتی تھی، اور آج بھی اکثریت انہیں قرون فاضلہ اور سلف صالح علما کی اتباع کرتی ہے، لہذا پوری امت محمدیہ کے خلاف جانا جائزودرست نہیں، امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اگر امت مسلمہ کا کسی حدیث کے ترک عمل پر اجماع ہوجائے تو اس کا چھوڑ دینا اور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے) ۔ (الاشفاق علی احکام الطلاق للکوثری صفحہ ۴۶)
یہاں زیر بحث مسئلہ کی روایات سے استدلال نہ کرنے پر اجماع تو نہیں ، لیکن اگر شوافع کا ان روایات کے ظاہری معنی پر عمل نہ کرنے کو لے لیا جائے تو یہاں پر ان روایات کے موافق عمل نہ کرنے پر صورت اجماع ضرورہے، کیونکہ شوافع خود وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کے ظاہری معنی پر عمل نہیںکرتے ، بلکہ دوسری حدیث -جس میں وارد ہے کہ سینے کے نیچے ہاتھ رکھا جائے- اسے اس روایت کے لئے مفسر مانتے ہیں ، اور سینے کے نیچے ہاتھ رکھنے کو مستحب جانتے مانتے ہیں ۔ (اسنی المطالب فی شرح روض الطالب لزکریا انصاری شافعی جلد ۱ صفحہ ۱۴۵)
بہر حال بارہویں صدی ہجری میں پیدا ہونے والی غیر مقلدیت سے پہلے پوری امتِ مسلمہ کم از کم ان روایات کے ظاہری معنی کے موافق عمل نہ کرنے پر متفق تھی ، اس لیے آج بھی ان روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز و درست نہیں ہوگا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment