حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ چہارم
اللہ عزوجل نے انسانوں کی ہدایت کےلیے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام مبعوث فرمائے، حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے لے کر تاجدارِ کائنات ا تک جتنے بھی انبیاء تشریف لائے سب نے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا بھر پور مظاہرہ فرمایا اور راہ بھٹکے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے رہے۔ ظاہرسی بات ہے کفر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور ظلم و عصیاں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لئے راہِ راست پر جلدی آنا آسان تو نہ تھا چنانچہ کبھی دعوتِ دین دینے والے مقدس انبیائِ کرام پر نصیحت کے جواب میں پتھر برسائے گئے اور کبھی نا شائستہ جملوں کے تیر برسا کر ان کے کلیجے کو چھلنی کیا گیا ۔ لیکن اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہر ظلم سہتے رہے اور لوگوں پر شفقت و مہربانی کے بادل بن کر برستے رہے۔
اگر ہم قرآنِ مقدس کا مطالعہ کریں تو بے شمار انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام انسانوں کو خود کے خیر خواہ ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے ۔ جیسا کہ ’’ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ ۔ (سورۂ ، آیت نمبر ۶۲)
ترجمہ : تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھٹکے ہوئے انسانوں کے سامنے حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنا مقصد اور منصب بیان فرمایا۔ اسی طرح سے اگر ہم دوسرے مقام پر دیکھیں تو حضرتِ صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنی قوم سے اس طریقہ کا ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ’’لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النَّاصِحِیْنَ‘‘ ۔
ترجمہ : بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ (سورۂ اعراف، آیت ۷۹)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں قوم کی ہٹ دھرمی اور عدم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ خیر خواہوں سے تم کو کوئی غرض ہی نہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان اور کفر و ضلالت کی تاریکی میں گم ہونے والی قوم بھلے اور برے کی تمیز سے محروم رہتی ہے۔
اگر ہم حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کا جائزہ لیں تو اس قوم کی بے راہ روی اور گمرہی کا اندازہ لگ سکتا ہے۔
اسی طرح سے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول ’’یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ‘‘ اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے اپنی ذمہ داریٔ منصب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمادیا کہ رسالت اور نصیحت ہم نے پہنچا دی اب اگر تم ایمان نہ لائو تو قصور تمہارا ہے۔
ایک اور مقام پر حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا ’’اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ‘‘ تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیر خواہ ہوں۔(سورۂ اعراف، آیت:۶۸)
کفّار کا حضرت ہود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہائی درجے کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شان مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سفہاء اور بد خصال لوگوں سے اس طرح مخاطبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے۔
انسانوں کی خیر خواہی کے لئے شب و روز کاوشیں کرنے والے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دنیا کیا کیا سمجھتی رہی اور کہتی رہی، لیکن صبر و استقامت کے پیکر بن کر وہ لوگوں کو دین حنیف کی طرف بلاتے رہے اور جواباً دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کی پرواہ تک نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خالق عزت اللہ ہے اور بھلائی کی دعوت دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
حرص و دنیا کی لالچ میں اندھی قوم اور ’’دنیا ہی کے لئے جینا دنیا ہی کے لئے مرنا‘‘ اس ضابطہ پر عمل کرنے والی قوم یہ تصور کر تی رہی کہ نصیحت کے عوض میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام شاید ہمیں دعوتِ اسلام دے کر اور دین کی اعلیٰ قدروں سے آشنا کرا کر کچھ مال و منفعت کے خواہش مند ہوں گے تو دولت و ثروت کی لالچ دے کر دعوتِ دین کے فروغ کو روکنے کے لئے انہوں نے کوشش کی حتی کہ تاجدارِ کائنات ا سے جزیرۃ العرب کی جو زمین اور جو دوشیزہ پسند ہو اس کی پیش کش کی گئی لیکن معبودِ برحق کے فرستادہ پیغمبر دردِ انسانیت سے لبریز سینہ لے کر جس مقصد کے تحت اس فرشِ گیتی پر تشریف لائے تھے اس مقصد کو کیسے چھوڑ سکتے تھے، چنانچہ ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرتے ہوئے اللہ کے پیارے محبوب ا نے صاف لفظوں میں فرمایا ’’لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی‘‘ اور واضح کر دیا کہ مال و زر کی حرص تو بہت دور کی بات ہے اگر چاند و سورج بھی میرے ہاتھوں میں رکھ دئے جائیں تو بھی لمحے بھر کے لئے میں اپنے مقصد سے انحراف نہیں کر سکتا۔
ارے جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمادے اور جس کے ارد گرد پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر چلنے کے لئے تیار ہوں اسے کسی انسان سے مال و دولت کی کیا حاجت۔ سچ کہا ہے بریلی کے تاجدار نے ؎
مالکِ کونین ہیں وہ پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی شفقت، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے تیئیس سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربتِ اسلام پلا کر نشۂ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ در گور کرنے پر احساسِ جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا کرکے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزارہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہے ۔ چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغِ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبعِ تابعین نے۔ غرض کہ خلافتِ راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہٰذا جو کام خلیفۂ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتا رہا۔ چوں کہ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کے لئے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فرمایا وہ میدانِ عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوقِ خدا کی وہ خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگی۔ انہیں اولیاء میں سلطان الہند، عطائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزارِ پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔(چشتی)
خواجۂ خواجگاں، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنی مرضی سے ہند کی زمین پر تشریف نہیں لائے بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں سلطان الہند بنا کر ہندوستان کی سرزمین پر اجمیر کے علاقے میں جانے کا حکم عطا فرمایا۔ ہند کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی جو پرتھوی راج سے شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی تھا، اس نے غریب نواز کو جب دیکھا کہ آپ عازمِ اجمیر ہیں تو عرض کرنے لگا اے اللہ کے برگزیدہ بندے! خدا کے لئے تم اجمیر نہ جائو، ابھی ہم پرتھوی راج کی فوج سے شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک وہ کر بیٹھے لہٰذا میری گزارش ہے کہ آپ اجمیر کا ارادہ ترک کر دو ۔
سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمہ نے اس کے کلمات جب سنے تو آپ کا عشق الٰہی جوش میں آیا اور برجستہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی! کان کھول کر سن لے، تم لوگ جب چلے تھے تو تلواروں کے بھروسے پر اور معین الدین چلا ہے تو اللہ کے بھروسے پر ‘‘ کچھ ہی دنوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ بوسیدہ لباس میں ملبوس اور اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے اس عاشق نے صرف اجمیر کی دھرتی ہی کو تکبیر کے لاہوتی نغموں سے مسحور نہ کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کے دلوںمیں شمعِ اسلام کو جلا کر یہ واضح کر دیا کہ جب بھی مادی طاقتوں کا مقابلہ روحانی طاقتوں سے ہوا تو اللہ عزوجل نے اپنے فرمان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ کے مطابق کامیابی انہیں کو عطا فرمائی جن کا دل یادِ الٰہی اور یادِ رسول ا اور دردِ امت میں تڑپتا ہے ۔
حضرت خواجہ خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سر زمینِ ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لا زوال روشنی پھیلا دی، آپ کے آباء و اجداد کو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہا ہے، جس طرح سرورِ عالم ا کا شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ا تک نہ صرف جاہلیت سے پاک و صاف ہے بلکہ ہدایت خلق کےلیے بعض انبیاء علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اسی طرح آپ کا نسب نامہ رسول خدا ا سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کےلیے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں، یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانۂ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی ہیں اور بموجبِ شجرۂ مادری حسنی ہیں۔
غوث الاعظم سے قرابت : حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلی المعروف بہ غوث پاک حضرت عبداللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہِ نور حضرت عبداللہ الحنبلی کی پوتی ہیں۔ ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں۔ اس رشتہ سے غریب نوازکی والدہ غوث الاعظم کی چچا زاد بہن ہیں اور غوث پاک غریب نواز کے ماموں ہیں۔ ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور غوثِ پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں، تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہو جاتی ہے کہ غوثِ پاک کی والدہ غریب نواز کی ننہالی رشتہ میں خالہ اور ددھیالی رشتہ میں بہن ہیں ۔
آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے، مؤلف سیر العارفین نے آپ کا مولد سجستان لکھا ہے۔ بعض نے سنجار متصل موصل لکھا ہے۔ بعض نے متصل اصفہان سنجر لکھا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حسبِ سیر الاقطاب آپ کا آبائی وطن سنجرستان (صوبہ سجستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اور جائے ولادت صفاہان (اصفہان) ہے لیکن آپ کی بود و باش سنجان میں رہی جو سنجر کے نام سے مشہور ہے بقولِ ابوالفضل یہ قصبہ سنجر سیسان سے متعلق ہے۔ یہاں آپ کے خاندان کے افراد اب تک موجود ہیں، اس کے گرد پہاڑ ہیں پھل بکثرت ہوتے ہیں باشندگان نیک خصلت ہیں۔
خلفائے عباسیہ سادات پر مظالم کرتے تھے اس لئے اغلب گمان ہے کہ آپ کے اجداد نے ان کے مظالم سے تنگ آکر دارالخلافت بغداد سے دور سنجر (جس کو ابوالفضل نے سنکر یا سنگر لکھا ہے اور گاف کو جیم سے بدل کر آپ کو سنجری لکھا ہے) میں اقامت اختیار کر لی تھی مگر آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ اصفہان میں تھیں۔ اس سیستان کے سنجری خاندانِ رسالت کی جائے قیام آبائی سابقہ نسبت مکانی کی وجہ سے اصفہان میں بھی سنجر (اصفہان کا مضافاتی محلہ) کہلائی۔
تاریخ و سنہ ولادت: آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں مگر بحوالہ کلمات الصادقین مؤلف مرأت الاسرار نے آپ کا بعمر ۹۷ سال ۶۲۷ھ میں وصال پانا لکھا ہے ۶۲۷ میں سے ۹۷ سال عمر کے کم کر دینے سے آپ کا سنہ ولادت ۵۳۰ھ بر آمد ہوتا ہے یہی سالِ ولادت مؤلف مرأت الانساب (ص:۱۶۰) اور خاندان زبیر کبنوی (جلد اول ص:۳۱۶) وغیرہ نے لکھا ہے۔ مرقعہ خواجگان نے ص:۱۱ پر بحوالہ آئینہ تصوف اور بعض دوسرے تذکرہ نویسوں نے آپ کی تاریخِ ولادت ۹؍جمادی الثانی لکھی ہے۔ ۵۳۰ھ کی یہ تاریخ ۱۵؍مارچ ۱۱۳۶ء روز یکشنبہ سے مطابقت کرتی ہے۔
بعض کے نزدیک آپ کا پورا نام معین الدین حسن ہے مگر بعض کے نزدیک معین الدین ہے اور والدین کے پکارنے کا مختصر نام حسن ہے۔ بعدِ وصال آپ کی پیشانی پر بخط نور ’’ہٰذَا حَبِیْبُ اللّٰہِ‘‘ مرقوم تھا۔ اس لئے یہ دربارِ ایزدی سے عطا کردہ خطاب سمجھا جاتا ہے۔مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ نے دربارِ رسالت میں سلام پیش کیا تو جوابِ سلام کے ساتھ قطب مشائخ بر و بحر کا خطاب عطا ہوا۔ چوں کہ آپ نے ہندوستان میں بفیض رسالت محمدی نبیوں کی طرح خدمت انجام دیں اس لئے بعض پرانے تذکروں میں آپ کا خطاب ہند النبی مرقوم ہے۔ عام طور سے لوگ آپ کو عطائے رسول، خواجہ اجمیر، خواجہ بزرگ ہند الولی، غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند و غیرہ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔بعض حضرات فاتحہ کے موقعہ پر آپ کے نام کے ساتھ تاج المقربین و المحققین، سید العابدین، تاج العاشقین، برہان الواصلین، آفتابِ جہاں، رحمتِ ہندوستاں، پناہِ بے کساں، دلیل العارفین کے القاب لگاتے ہیں۔
چشتی کہلانے کی وجہ تسمیہ : یہ خیال غلط ہے کہ چشتی سلسلہ حضرتِ خواجہ غریب نواز سے شروع ہوا بلکہ اس کی ابتدا حضرتِ خواجہ ابواسحاق سے ہوئی، مبدأ و منشأ چشتیاں حضرت خواجہ ابواسحاق شامی جب بقصدِ حصولِ بیت حضرت خواجہ ممشادعلودینوری کے یہاں بغداد میں حاضر ہوئے اور شرفِ بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے تو حضرت خواجہ ممشاد علودینوری رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ عرض کیا اس عاجز کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج سے ہم تجھ کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلۂ ارادت میں تا قیامِ قیامت داخل ہوگا وہ بھی چشتی کہلائے گا۔ پس حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی حسبِ فرمانِ مرشد چشت (شاقلان جو ہرات سے تیس کوس ہے) میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔ آپ کے سلسلہ کے بزرگان میں سے حضرت خواجہ ابو احمد چشتی، حضرت خواجہ محمد چشتی، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی بھی چشت میں قیام پذیر ہو کر مدفون ہوئے بایں وجہ یہ سلسلہ چشتی کے نام سے مشہور ہوا چوں کہ مذکورہ بالا حضرات حضور خواجہ غریب نواز کے پیرانِ سلسلہ ہیں اس لئے حضرت خواجہ غریب نواز بھی چشتی کہلائے ۔ آپ کا عہدِ طفلی عام بچوں جیسا نہ تھا بلکہ ایامِ رضاعت تک میں شانِ غریب نوازی کا اظہار فرماتے تھے ’’بزمانۂ رضاعت جب کوئی عورت اپنا بچہ لے کر آپ کے یہاں آ جاتی اور اس کا بچہ دودھ کے لئے روتا تو آپ کا اشارہ سمجھ جاتیں اور آپ کا دودھ اسے پلا دیتیں۔ اس نظارے سے آپ بہت بہت خوش ہوتے اور فرطِ مسرت سے ہنستے۔ تین چار سال کی عمر کے زمانہ میں آپ اپنے ہم عمر بچوں کو بلاتے اور انہیں کھانا کھلاتے ۔ ایک عید کے موقع پر حضرتِ خواجہ بزمانہ صغرِ سنی عمدہ لباس پہنے ہوئے نماز کے لئے جا رہے تھے، راستے میں آپ نے ایک نابینا لڑکے کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا، آپ کو اس پر رحم آیا اسی وقت اپنے کپڑے اتار کر اس بچے کو دے دئے اور اس کو اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کبھی کھیل کود میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ آپ کی نشو و نما خراسان میں ہوٸی ، ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ہیں مگر حال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا بعد ازآں آپ سنجر کے مدرسے میں داخل ہو گئے یہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت علم حاصل کر لیا ۔ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کر رہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا اور خوشۂ انگور سے ان کی تواضع کی۔ خواجہ کے حسنِ سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہو گیا انہوں نے اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دیا، اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی، کیف و سر مستی کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کر کے ساری قیمت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی اور خراسان کی طرف نکل گئے ۔ (ماہنامہ استقامت کا اولیاء نمبر، جولائی ۱۹۷۷ء، ص:۶۳)۔(مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment