Saturday 7 January 2023

شانِ صدیق اکبر مولا علی و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں کتب شیعہ و کُتُبِ اہلسنّت کی روشنی میں حصّہ دوم

0 comments
شانِ صدیق اکبر مولا علی و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں کتب شیعہ و کُتُبِ اہلسنّت کی روشنی میں حصّہ دوم

وہب سوائی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے دوران خطبہ یہ فرمایا اس امت میں سب سے بہتر کون ہے ؟ 
میں نے کہا امیر المومنین!آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  ہی ھیں،آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں،نبی علیہ السلام کے بعد اس امت میں سب سے بہتر شخص ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا تھا ۔ (مسند الامام احمد بن حنبل حدیث نمبر 846)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللّٰہ کے محبوب علیہ السلام کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا اور نبی علیہ السلام کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے قائم کیا ۔ (جمع الجوامع روایت نمبر 157)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دی ہے یہ گفتگو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم تک پہنچ گئی آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ منبر پر تشریف لے آئے  اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہیے کہ کسی کو سزا دی جب تک مقدمہ سامنے نہ آئے۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پہ چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 369)

حضرت سیدنا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی بارگاہ میں حاضر ھو کر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ھیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی زیارت کی ہے تو وہ کہنا لگا نہیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم  کی زیارت کی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر تو آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا اقرار کرتا تو میں تیری گردن اور اگر تو ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 36153)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اس امت میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔ (المعجم الاوسط ج چہارم حدیث نمبر 5421،چشتی)

اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی خدمت میں عرض کی اے امیرالمومنین رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کیا پھر کون ہے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا میں (علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم) ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 44 ص 196)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے میں نے کہا میرے ساتھ مدینہ طیبہ میں کون ہجرت کرے گا ؟ عرض کیا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد امر امت کے والی ہوں گے اور وہ آپ علیہ السلام کی تمام امت سے افضل ہیں ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32588)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے میرے مرتبے اور ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا ابوبکر کھڑے ھوجاؤ اور لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ آپ نے مجھے نماز پڑھانے کا حکم نہیں دیا،لہذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر راضی کیوں نہ ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب حدیث 43٫ریاض النضرۃ  ج 1 ص 81)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اللّٰہ نے ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ہم سب سے بہتر جانا، اور اسے ہم پر ولایت دے دی ۔ (مستدرک حاکم حدیث نمبر 4756)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ لااجد احدا فضلنی علیٰ ابی بکر و عمر الا جلدته حدالمفتری یعنی جسے میں پاؤں گا کہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم سے افضل کہتا ہے تو اسے مفتری کی سزا کے طور پر اسی کوڑے ماروں گا ۔ (فضائل الصحابہ لاحمد، الموتلف و المختلف 92/3)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو فرماتے ھوے سنا کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (الریاض النضرۃ ج 1 صفحہ 136)

حضرت ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک آدمی نے کہا مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی نسبت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے زیادہ محبت ہے۔آپ نے فرمایا ایسی باتیں کرنی ہے تو ہماری مجلس میں مت بیٹھو،اگر تمھاری بات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے سن لی تو وہ تمھاری پشت پر کوڑے ماریں گے ۔(حلیتہ الاولیاء لابی نعیم جلد 6 صفحہ 492،چشتی)

حضرت المرتضی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کو فرماتے ھوے سنا کہ اس امت میں میرے بعد(حضور علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (کنز العمال روایت نمبر 36139)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ھوے سنا اس امت میں میرے (نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص نمبر 72 روایت نمبر 106 
ترجمہ جہانگیری،چشتی)

ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)

بزبان مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما افضل ہیں ۔ (سنن ابن ابی داؤد حدیث 4629)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام لوگوں سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے ہیں یہ ان کے نماز کے ساتھی ہیں ثانی اثنین ہیں ہم ان کی شرافت و بزرگی کے معترف ہیں بلکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خود اپنی  حیات طیبہ میں ان کی امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین حدیث 4422)

عبد خیر کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے۔ یہ گفتگو حضرت تک پہنچ گئی، آپ منبر پر تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہئے کہ کسی کو سزا دے جب تک مقدمہ اس کے سامنے نہ آئے ۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پر چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 369،چشتی)

مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت صدیق اکبر کو افضلیت صدیق پر قائم بتانا ۔ (مجمع الزوائد حدیث 14334)

حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہو سکتا ہے ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 36141)

مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا ۔ (2) مجھ سے پہلے ہجرت کی ۔ (3) سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے یار غار ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم کی ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 30 صفحہ 291)

ایک شخص سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تو نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کی ہے ؟  اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا  اگر تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھنے کا اقرار کرتا میں تیری گردن اڑا دیتا اور اگر تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنزالعمال جلد  13 حدیث 36153،چشتی)

حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)

حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)

ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)

حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)

اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق، جلد 30، ص 382)

حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی،چشتی)

ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)

جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)
حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)

افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 ص 428)

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا تو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)

مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، صفحہ 338 سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

مولا علی کے امام ہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما

حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے مرتبے اور ابوبکر کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا : ابوبکر کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کونماز پڑھاؤ آپ نے مجھے نماز پڑھا نے کا حکم نہیں دیا ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی الله عليه و آلہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر کیوں نہ راضی ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حدیث:۴٣)(الریاض النضرۃ جلد ١ صفحہ ٨١)

حضرت سیدنا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقاعدہ مسجد میں لوگوں کے سامنے بیعت کی تھی ۔ بخاری شریف میں آتا ہے : فقال علی لابی بکر موعدک العشية للبيعة فلما صلی ابو بکر الظهر رقی المنبر فتشهد فسر بذالک المسلمون وقالوا اصبت ۔ (شرح، بخاری، 906)
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا میں پچھلے پہر آپ کے پاس بیعت کے لیے حاضر ہوں گا ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر ادا کی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے ، توحید و رسالت کی گواہی دی ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال، بیعت میں تاخیر اور آپ کی معذرت تاخیر بیان فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے توحید و رسالت کی گواہی دی اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ اس پر سارے مسلمان خوش ہوئے اور کہا اے علی (رضی اللہ عنہ) آپ نے بہت اچھا کیا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے ۔

شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے ۔ (کتاب سلیم بن قیس: ۲۲۸،چشتی)

شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے : پھر علی علیہ السلام نماز کےلیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (الاحتجاج: ۱/۱۲۶)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پانچوں نمازیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کیا کرتے تھے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر راضی و متفق اور ان سے محبت و الفت رکھتے ہیں ۔ (الاحتجاج للطبرسی صفحہ نمبر ۵۳)(کتاب سلیم بن قیس صفحہ نمبر ۲۵۳،چشتی)(مرآۃ العقول للمجلسی صفحہ ۲۸۸ ط ایران)

شیعہ عالم طوسی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : بظاہر وہ (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) مسلمان ہی لگتے تھے ۔ (تلخیص الشافی صفحہ نمبر ۳۵۴ مطبوعہ ایران)

شیخ طوسی لکھتا ہے : یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے ۔ (تلخیص الشافی : ۳۵۴، طبع ایران)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)

نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ دوسری جلد صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)

حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت نہ کی کا جواب

شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)

اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ (مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣)

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں ۔ (رضی اللہ عنہ)

اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔

بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔

عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔
ترجمہ : حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ نمبر 448،چشتی)

اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔

باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔

شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کو حق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔

اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟ ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔