امن ، انسانی حرمت و حقوق ، دھشت گردی اور اسلام حصّہ اوّل
محترم قارٸینِ کرام : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۔ (الاحزاب، 33 : 21)
ترجمہ : فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ۔
ہم انسانی معاشرے کے ان پہلوؤں اور مسائل پر روشنی ڈالیں گے جن کے بارے میں اسلام کی نہایت غلط تعبیر و تشریح کی جا رہی ہے اور فی زمانہ یہ موضوعات پوری دنیا میں زیر بحث ہیں ۔ اسلام چودہ صدیاں قبل بنی نوع انسان کو رشد و ہدایت دینے کے لیے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا لیکن آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ حسنہ تمام دنیا کےلیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانی زندگی کے ہر پہلو میں کئی گنا تبدیلی آنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور شخصیت کی زندگی نمونہ حیات ہے نہ اسلام کے سوا کوئی مذہب کامل رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اور یہ سوال اس لیے نہیں کہ ہم بحیثیت مسلمان خود کو مطمئن کر سکیں بلکہ اس لیے بھی کہ اغیار کو اسلام کی عظمت کا قائل کیا جا سکے ۔ آج ہماری زندگی کا سیاسی و عمرانی پہلو ہو یا معاشرتی و معاشی پہلو، علمی پہلو ہو یا نفسیاتی پہلو ، مذہبی پہلو ہو یا اقتصادی ۔ باوجود ان تمام تبدیلی تبدیلیوں کے انسانیت آج بھی اُسی درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو رہی ہے اور اسلام سے ہی ہدایت اور رہنمائی پاتی ہے ۔ اس کےلیے ہمیں اُس دور اور معاشرے کا مطالعہ کرنا ہوگا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی ۔ اسلام سے قبل خطہ عرب میں ہر سُو ظلم و بربریت کا رواج تھا، قبائلی عداوتیں اپنے عروج پر تھیں ، اخلاق و مروت کا نام و نشان تک نہ تھا، انسانی حقوق اور تکریم کا تصور بھی نہ تھا یہاں تک کہ خواتین کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، معاشرے میں سچائی و رحم دلی اور علم کا نام و نشان بھی نہیں تھا، قوتِ حافظہ پر فخر کیا جاتا تھا، صرف خاندانی تفاخر اور نسلی تعصب کو ترجیح دی جاتی تھی۔ بے حیائی اس قدر عام تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی عریاں حالت میں کیا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دیگر تمام ترقی یافتہ تہذیبیں دم توڑ چکی تھیں، جیسے مصری تہذیب اپنی تمام تر ترقی کے باوجود رُوبہ زوال تھی، اسی طرح یونانی، ایرانی اور ہندی تہذیبیں تھیں جو معاشرے میں مؤثر کردار نہیں رکھتی تھیں ۔ اندریں حالات ربِ کائنات نے بنی نوع انسان پر احسان فرمایا اور اپنے حبیب مکرم نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر بھیجا ۔
اسلامی تعلیمات کا مجموعی خاکہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو برابری، آزادی، سخاوت اور تحمل و رواداری کا درس دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیمی انقلاب کی داغ بیل ڈالی اور معاشرتی مساوات بھائی چارے اور انسانی تکریم کا پرچار کیا۔ وہ معاشرہ جس میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کی جاتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو پہلی وحی سے ہی ایک رب کی پرستش کی تعلیم دی اور انہیں علم کی طرف راغب کیا، لوگوں کو لکھنے کی تعلیم دی اور انہیں embryology سے متعلقہ مضامین سکھائے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا پیغام ہی پیغامِ علم تھا جس کے ذریعے انسان کو شعور عطا فرمایا گیا اور اُسے تکریم انسانیت کی تعلیم دی۔ ارشاد فرمایا :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ۔ (سورہ بنی اسرائيل، 17 : 70)
ترجمہ : اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساوات اور اخوت و بھائی چارے کی فضا قائم کی ، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى ۔ (سورہ الحجرات، 49 : 13)
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ۔ (سورہ النساء، 4 : 1)
ترجمہ : اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرتی و سماجی انصاف کا درس دیا :
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ ۔ (سورہ الاعراف، 7 : 29)
ترجمہ : فرما دیجیے : میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آزادی کا تصور دیا :
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ ۔ (سورہ البقرة، 2 : 256)
ترجمہ : دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔
یہ تو تھا اسلامی تعلیمات کا عمومی خاکہ ۔ اب ہم اس کے چند مخصوص گوشوں پر روشنی ڈالیں گے ۔
اسلام کا تصورِ امن
سب سے پہلے تصورِ امن پر گفتگو کریں گے ۔ عرب معاشرہ تشدد ، ظلم و وحشت اور سفاکی سے بھرپور معاشرہ تھا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا : عن البراء بن عازب رضی الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : أفشوا السلام تسلموا ۔ (مسند احمد بن حنبل، 4 : 286،چشتی)
اِس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا اور انہیں یہ نوید دی کہ اس طرح تم بھی دائرۂ امن میں آجاؤ گے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا، أَفَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَکُمْ ۔
ترجمہ : قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تمہارا ایمان کامل نہیں ہوگا جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ؟ آپس میں سلام کو پھیلاؤ ۔ (سنن ابی داو، کتاب الادب، رقم : 5193)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسرے مقام پر مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا تدخلوا الجنة حتی تسلموا، ولا تسلموا حتی تحابوا وأفشوا السلام تحابوا، وإياکم والبغضة فإنها هی الحالقة. لا أقول لکم تحلق الشعر ولکن تحلق الدين ۔ (الادب المفرد)
ترجمہ : تم اس وقت جنت میںداخل نہیں ہوگے جب تک اسلام نہ لاؤ اور تم اس وقت اسلام نہ لاؤ گے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ (لوگو!) سلام عام کرو تم باہم محبت کرنے لگو گے ۔ اور بغض سے بچو کیونکہ یہ کاٹنے والا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تمہاری گردنیں کاٹے گا بلکہ یہ تمہارا دین کاٹے گا ۔
ان احادیث میں اور دیگر کئی مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس معاشرے کو امن و سلامتی عام کرنے کا حکم فرمایا جہاں جنگ و جدل انسانی گھٹی میں رچی بسی تھی۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلی طور پر ایک پُراَمن اور محفوظ معاشرے کا قیام چاہتے تھے جہاں کسی کی جان، مال، آبرو غیر محفوظ نہ ہو۔ ان احادیث مبارکہ سے مسلمانوں کو باہمی تعلق کا ایک واضح اور صاف راستہ بتایا گیا ۔ جب کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان یہود کے ساتھ بھی نرمی اختیار کرنے کا حکم فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بددعا دے رہے تھے ۔ عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّ يَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوا : السَّامُ عَلَيْکُمْ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ : عَلَيْکُمْ، وَلَعَنَکُمْ اﷲُ وَغَضِبَ اﷲُ عَلَيْکُمْ. قَالَ : مَهْلًا يَا عَائِشَةُ! عَلَيْکِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاکِ وَالْعُنْفَ وَالْفُحْشَ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ کچھ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا : تمہارے اوپر موت ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا : تمہارے اوپر بھی ہو اور اللہ تم پر لعنت کرے اور تم پر اللہ کا غضب ہو۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! جانے دو ، نرمی اختیار کرو ۔ نیز کج خلقی اور بدگوئی سے بچو ۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، رقم : 5683)
بیعت عقبہ اُولی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب سے آئے ہوئے بارہ رکنی وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا : اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ گے ۔ کبھی چوری نہیں کرو گے ۔ کبھی بدکاری نہیں کرو گے ۔ کبھی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہیں کرو گے ۔ کسی پر بہتان نہیں باندھو گے ۔ جو کچھ میں تم سے کہ رہا ہوں اگر وہ اچھا ہے تو اس کی پیروی کرو گے ۔
اہلِ یثرب سے لیے جانے والے پہلے حلف کے نکات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ کی دشمنی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کا کوئی عندیہ دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اخلاقی، معاشرتی و سماجی اصلاح پر زور دیا اور انہیں تکریم انسانیت کی تعلیم دی۔ یہ تعلیمات کا پہلا پیکج تھا جو یثرب سے آئے ہوئے پہلے وفد کو دیا گیا۔ بعد ازاں اُس وفد نے یہ تعلیمات پھیلانا شروع کیں ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما کر گئے تو اہل مدینہ کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کا سمندر موجزن تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان برائیوں سے نجات دلائی جو صدیوں سے ان کے اندر موجود تھیں۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل نکات پر مشتمل پہلا خطبہ دیا : اے لوگو ! اﷲ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تمہارے اعمال کی اصلاح ہوسکے ۔
ہمیشہ ذہن نشین رکھو کہ تمہیں روزِ محشر اُس خداے وحدہ لاشریک کے حضور اپنے اعمال پر جواب دہ ہونا ہے ۔
صدقہ و خیرات کی کثرت کرو ۔
اپنے رویہ اور باتوں میں ہمیشہ نرمی اور رحم دلی اختیار کرو اور اپنے دل کو سخت اور ظالم نہ ہونے دیں ۔
نفرت کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کریں ۔
اپنے نفس، دل اور ذہن کے شرانگیز پہلو سے پناہ مانگیں ۔
قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں ۔
ہمیشہ اپنے وعدوں کی پاس داری کریں ۔
مذکورہ بالا شقیں واضح کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک فلاحی معاشرے کا قیام چاہتے تھے جس کی بنیاد غریب پروری اور احسان پر ہو۔ جہاں لوگ امن و آشتی اور صلح پسندی کے ساتھ رہیں، جہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہوں، کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ یہ نکات آج کے ان رہنماؤں سے سوال کر رہے ہیں جو جہاد کے نام پر امت کے نوجوانوں اور پوری دنیا کو گم راہ کر رہے ہیں۔ نیز یہ نکات مغربی دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو اسلام کو تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔
مدینہ آمد کے بعد اقداماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ آمد کے بعد درج ذیل اقدامات کو تمام امور پر ترجیح دی : ⬇
1 ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ سے خطاب فرماتے ہوئے باہمی محبت و یگانگت کے فروغ اور لوگوں کو اپنے قول و فعل اور رویے میں نرمی اور رحم دلی اختیار کرنے کا حکم دیا ۔
2 ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا کام کیا وہ مواخات کا تھا ، جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت ، اخوت اور امن کی بنیاد پر سماجی استحکام چاہتے تھے ۔
3 ۔ مواخات کے بعد جو کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہ مدینہ کے یہود اور دوسرے غیر مسلم قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدۂ امن تھا، جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کو آئین دیا جو کہ دنیا کا پہلا تحریری آئین تھا ۔
آئینی تاریخ عالم
اگر ہم دنیا کی آئینی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس سے بھی آئینِ ریاستِ مدینہ کی اہمیت و فوقیت دوچند ہو جاتی ہے۔
٭ برطانیہ میں آئینی تاریخ کا آغاز 1215ء میں میگنا کارٹا کی صورت میں ہوا جس میں محدود سطح پر حقوق دیئے گئے۔۔۔ بعد ازاں Bill of Rights آیا جس کے بعد 1700ء میں Act of Settlement پاس ہوا۔
٭ اسی طرح امریکہ کی آئینی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1776ء میں Declaration of Independence بنا۔۔۔ پھر ستمبر 1787ء میں Philadelphia Convention میں امریکہ کا پہلا آئین وجود میں آیا، اس دوران آئینی طور پر غلامی برقرار رہی۔۔۔ 1868ء میں تیرھویں اور چودھویں ترمیم کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔۔۔ 1920ء میں انیسویں ترمیم کے ذریعے عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ یہی حالات آسٹریلوی، فرانسیسی اور جرمن سیاسی نظاموں اور آئین کے ہیں ۔
تاریخ اسلامی آئین سازی
اس مختصر تجزیے کے بعد ہم اسلامی آئین سازی کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مغربی دنیا میں تمام حقوق کو آئینی تحفظ پچھلے ڈیڑھ دو سو سال کے عرصے کے دوران حاصل ہوا جب کہ اسلامی تاریخ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل 63 شقوں پر مشتمل دنیا کا پہلا تحریری آئین دیا۔ اس آئین کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام قوموں اور قبائل، چاہے وہ مسلمان ہوں، یہود ہوں یا عیسائی وغیرہ۔ ان تمام کو ایک قوم قرار دیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا۔۔۔ devolution کے ذریعے حکومت کو وفاقی، صوبائی اور لوکل سطحوں پر قائم کیا۔۔۔ اُس دور میں پہلی آئینی اسمبلی قائم ہوئی اور قوم کا تصور اس زمانے میں دیا جب بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا اور پوری دنیا تہذیب اور انسانی حقوق کے تصور سے ناآشنا تھی۔۔۔ مقامی رسوم و روایات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔۔۔ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی آزادی دی گئی اور دہشت گردی کو قانونی طور پر ban کر دیا گیا۔۔۔ آئین مدینہ کے آرٹیکل نمبر 16 کے ذریعے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی رد عمل کا اظہار فرمایا گیا۔۔۔ مدینہ کو جائے امن قرار دیا گیا اور مدینہ کی حدود کے اندر قتال، دہشت گردی اور ظلم کو جرم قرار دیا گیا ۔
ان تمام تصریحات کے بعد جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو نہایت کرب ناک منظر دکھائی دیتا ہے جہاں چند لوگوں اور گروہوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور نوجوان نسل کو جہاد کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے مغربی لوگوں نے بھی ان چند انتہا پسندوں کے version کو اسلام کی تعلیمات سمجھ لیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
مغرب اور انسانی حقوق
حقوق کا جائزہ لیا جائے گا ۔ حقوق و فرائض کے تعین میں قانونی شخص کا وجود بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ Roger Cotterrell کے الفاظ میں :
The concept of the legal person or legal subject defines who or what the law will recognize as a being capable of having rights and duties. (Roger Cotterrell, The Sociology of Law, 2nd ed. Butterworths, London, 1992, pp. 123,124.)
’’قانونی شخص کا تصور اس بات کی توضیح کرتا ہے کہ بطور ایک شخص کے فرد حقوق اور فرائض کی اہلیت سے بہرہ ور ہے ۔
مغرب اور عورتوں کے حقوق
برطانیہ میں عورت کے حق رائے دہی کے لیے جدو جہد کاآغاز ہی 1897ء میں Millicent Fawcett نے National Union of Women's Sufferage کے قیام سے کیا۔ یہ تحریک اس وقت زیادہ زور پکڑ گئی جب 1903میں Emmeline Pankhurst نے Women's Social and Political Union بنائی اور یہ یونین بعد میں Suffragettes کے نام سے مشہور ہوئی ۔
٭ برطانیہ کے House of Commons نے 1918ء میں 55 کے مقابلہ میں 385 ووٹوں کی اکثریت سے Representation of People Act پاس کیا جس کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ اگرچہ یہ خواتین کے حق رائے دہی کے اعتراف کانقطۂ آغاز تھا مگر ابھی عورتوں کو مردوں کے برابر مقام نہیں دیا گیا تھا کیونکہ عام مردوں کے لیے حق رائے دہی کی اہلیت 21 سال اور مسلح افواج کے لئے 19 سال تھی ۔
٭ امریکہ میں 4 جولائی 1776ء کا اعلان آزادی (The Declaration of Indepedence) جدید جمہوری معاشرے کے قیام کی خشتِ اول سمجھا جاتا ہے مگر اس میں بھی عورت کوبنیادی انسانی حقوق کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ Richard N. Current کے مطابق نو آبادیاتی معاشرے کی عورت ہر طرح کے حق سے محروم تھی۔
٭ اسی طرح جب جیفرسن (Jefferson) نے اعلان آزادی میں The people کا لفظ استعمال کیا تو اس سے مراد صرف سفید فام آزاد مرد تھے۔ اور آج دو صدیوں بعد بھی امریکہ میں عورت مساوی آزادی و مساوات کے لئے مصروف جد و جہد ہے۔ کیونکہ اس ڈیکلیریشن میں men یا him کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، women کے نہیں۔
٭ جان بلم کے الفاظ میں ’’پرانے امریکی مرد، خواتین کو اپنے مساوی نہیں تسلیم کریں گے۔‘‘
٭ یہی وجہ ہے کہ 1848ء میں Seneca Falls میں ہونے والے تاریخی New York Women's Right Convention کے لیے Declaration of Sentiments لکھتے ہوئے Elizabeth Cady Stanton نے اس بات پر زور دیاکہ اعلان آزادی میں عورت کے نجی اور عمومی مطالبے بھی شامل کیے جائیں۔
٭ انیسویں صدی کی امریکہ کی عورتوں کے حقوق کی علم بردار Susan B. Anthonyکو 1872ء میں صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر گرفتار کر لیا گیا اور ایک سو ڈالر کا جرمانہ کیا گیا کیونکہ اسے قانونی طور پر حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔
٭ Susan B. Anthony نے امریکی آئین کے دیباچہ کے درج ذیل مندرجات کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا کہ آئین کی رو سے عورت بھی ایک فرد ہے جسے تمام آئینی حقوق حاصل ہونے چاہئیں : ’’ہم متحدہ ریاستوں کے عوام ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے آئین کی تشکیل اور نفاذ کرتے ہیں تاکہ زیادہ مکمل یونین تشکیل دی جا سکے، انصاف قائم ہو، داخلی امن و استحکام یقینی بنایا جائے، مشترکہ دفاع مہیا ہو، فلاح عامہ کافروغ ہو اوراپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے آزادی کی نعمت کا تحفظ کیا جائے۔‘‘
4 جون 1919ء کو امریکی کانگرس اور سینٹ نے امریکی آئین کا 19واں ترمیمی بل منظور کیا جس میں یہ قرار پایا :
Article IXX : "The right of citizens of the United States to vote shall not be denied or abridged by the United States or by any State on account of sex."
’’آرٹیکل19 : کوئی ریاست یا متحدہ ریاستیں ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے شہریوں کا حق رائے دہی جنس کی بنیاد پر ختم نہیں کریں گی۔‘‘
گویا امریکہ میں خواتین کو 1920ء تک رائے دہی کا حق حاصل نہ تھا، جب انیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس کے تحت یہ حق دیا گیا۔
٭ اسی طرح فرانس میں 1944ء میں عورتوں کو حق رائے دہی دیا گیا۔
٭ آسٹریلیا میں ملک گیر سطح پر خواتین کو رائے دہی کاحق 1926ء میں دیا گیا جبکہ آسٹریلوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پہلی خاتون Edith Cowan تھی جو مغربی آسٹریلیا کی قانون ساز اسمبلی کی 1921ء میں رکن منتخب ہوئی۔
٭ یہی حال دیگر مغربی ممالک کا ہے جہاں پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں عورت کو قانونی شخص تسلیم کیا گیا اور پچاس سو سال قبل اسے حق رائے دہی دیا گیا ۔
اسلام اور انسانی حقوق
اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اسلام نے آج سے 14 سو سال قبل ہی ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے حقوق نہ صرف واضح فرما دیئے بلکہ ان حقوق کی ادائیگی کی تاکید بھی کی۔ انہی انسانی حقوق میں سے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی اور اپنی تعلیمات میں انہیں واضح انداز میں بیان کیا ۔
اسلام اور عورتوں کے حقوق
اسلامی دنیا میں آج سے چودہ صدیاں قبل عورت کو مساوی حقوق دیے گئے۔ نسلی امتیاز ختم کرتے ہوئے اُسے حق رائے دہی دیا گیا۔۔۔ اسلام نے عورت کو انفرادی و اجتماعی حقوق دیے۔۔۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے اسے عائلی حقوق دیے۔۔۔ اسے ازدواجی حقوق دیے۔۔۔ اسے معاشی و سیاسی اور قانونی حقوق دیے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے وقت مرد و عورت نے یکساں طور پر حق رائے دہی استعمال کیا۔۔۔ نیز خواتین کی سیاسی مشیر کے طور پر تقرری کی گئی۔۔۔ اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر اس کی تعیناتی کی گئی۔۔۔ عورت کو دفاعی ذمہ داریوں میں نمائندگی دی گئی، ملٹری آفیسرز کے طور پر ذمہ داریاں دی گئیں۔
٭ عورت کی دی ہوئی امان کو مرد کی امان کے برابر قرار دیا گیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن المرأة تأخذ للقوم، يعنی تجير علی المسلمين ۔ (جامع ترمذی، کتاب السير، 4 : 141، رقم : 1579)
ترجمہ : عورت پوری قوم کے لئے امان دے سکتی ہے یعنی مسلمانوں کی طرف سے امان دے سکتی ہے ۔
عورت کی امان کا صحیح ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں ایک عام بات تھی۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : إن کانت المرأة لتجير علی المؤمنين فيجوز ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الجهاد، 3 : 84، رقم : 2764،چشتی)
ترجمہ : اگر کوئی عورت (مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف بھی) کسی کو امان دے دے تو جائز ہے ۔
٭ اسی طرح اسلامی معاشرے میں عورت کو پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی گئی۔ ایک موقع پر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ سے عورتوں کے مہر کی مقدار متعین کرنے پر رائے لی تو مجلس شوریٰ میں موجود ایک عورت نے کہا : آپ کو اس کا حق اور اختیار نہیں، کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً ۔ (سورہ النساء، 4 : 20)
ترجمہ : اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو ۔
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز واپس لے لی اور فرمایا :
امراة أصابت ورجل أخطاء ۔ (شوکانی، نیل الاوطار، 6 : 170)
ترجمہ : عورت نے صحیح بات کی اور مرد نے غلطی ۔
یہ عورت کو اسلام کی عطا کردہ عزت اور تکریم ہی تھی جس سے وہ معاشرے کا ایک موثر اور باوقار حصہ بن گئی اور اس نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سیاسی و انتظامی اور سفارتی کردار کے علاوہ تعلیم و فن کے میدان میں بھی عورتیں نمایاں مقام کی حامل تھیں۔ روایتِ حدیث، قرات و کتابت، شعر و ادب اور دیگر علوم و فنون میں بھی بے شمار خواتین مہارت اور سند کا درجہ رکھتی تھیں ۔
اسلام اور غیر مسلموں کے حقوق
اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق ۔ یہ اَمر قابل غور ہے کہ اَقلتیوں کامعاملہ صرف اِسلام کے حوالے سے تنقید کی زد میں رہا ہے ۔ حالانکہ تاریخ اسلام اس اَمر کی گواہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی مملکت میں اَقلیتوں کو وہ بلند مقام حاصل رہا کہ بغداد و اسپین اور برصغیر میں اقلیتیں ہر سطح کے ریاستی امور میں بھی شریک رہیں اور مملکت کی اعلٰی ترین ذمہ داریوں پر فائز رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ان تعلیمات کااثر تھا جو غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائیں ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومنوں کے حقوق آپس میں برابر ہیں اور ان کی ادائیگی کے لیے ان میں سے جو اَدنیٰ ہیں وہ بھی کوشش کریں۔ کسی غیر مسلم کے بدلے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور کسی معاہد کو اس کی مدتِ معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
٭ غیر مسلموں کے حقوق کی اَہمیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جن نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔
٭ سنن ابی داؤد میں مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کو مارنے یا اس کی حق تلفی کرنے والے مسلمان کو زجر و توبیخ کی اور اسے ریاست کی طرف سے سزا دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ روزِ قیامت میں خود اُس غیر مسلم کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔ فرمایا : أَلاَ! مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔
ترجمہ : خبردار ! جس نے کسی معاہد (ذِمی) پر ظلم کیا یا اس کے حق میں کمی کی یا اسے کسی ایسے کام کی تکلیف دی جو اس کی طاقت سے باہر ہو یا اس کے ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الامارۃ، رقم : 3052،چشتی)
٭ وہ لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں ہمیشہ غیر مسلموں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی کفار ہی ہر سال اہلِ مدینہ پر حملہ کرتے جب کہ مسلمانوں نے ہمیشہ دفاعی پالیسی اپنائی۔ غزوۂ بدر ہو یا غزوۂ احد یا غزوۂ خندق، تینوں بڑی جنگیں مدینہ منورہ کی سرحدوں پر لڑی گئیں۔ یعنی مسلمان ہمیشہ پُر اَمن رہے ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ جو برتاؤ رہا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا : الیوم یوم الملحمۃ (آج لڑائی کا دن ہے) یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا : اليوم يوم المرحمة ۔ (فتح الباری، 8 : 9. الاستيعاب، 2 : 597،چشتی)
ترجمہ : (آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطاکار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا : لا تثريب عليکم اليوم ، اذهبوا فانتم الطلقاء ۔
ترجمہ : تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو ۔ (الجامع الصغیر : 220، رقم : 368)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایمان لانے سے پہلے بڑا دُشمن ابوسفیان تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من دخل دار أبی سفيان فهو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے) ۔ اللہ تعالٰی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، 3 : 1406، رقم : 1780)
٭ مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا، وہ ابولہب کے بیٹے تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائیں دیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکالا اور معاف فرما دیا ۔ (نصب الرایہ، 3 : 336)
اِس طرح کے بے شمار واقعات و اَحادیث ہیں جن سے اِسلام کی عظمت آشکار ہوتی ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا اور تمام عمر اپنے اوپر ظلم ڈھانے والوں کو چشم زدن میں معاف کر دیا۔
٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إذا قتل المسلم النصرانی قتل به ۔ (شيبانی، الحجه، 4 : 349. شافعی، الام، 7 : 320)
ترجمہ : اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو مسلمان (عوضاً) قتل کیا جائے گا ۔
٭ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے فرمایا : دية اليهودی والنصرانی والمجوسی مثل دية الحر المسلم ۔ (شيبانی، الحجه، 4 : 322. مصنف ابن ابی شيبه، 5 : 407)
ترجمہ : یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دِیت آزاد مسلمان کی دِیت کے برابر ہے ۔
اسی قول کی بنا پر فقہانے یہ اصول تشکیل دیا کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بلا ارادہ قتل کرنے سے لازم آتی ہے ۔ (در المختار، 2 : 223،چشتی)
٭ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : أن دية المعاهد فی عهد أبی بکر وعمر وعثمان رضی الله عنهم مثل دية الحر المسلم ۔ (شيبانی، الحجة، 4 : 351)
ترجمہ : بے شک ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے دور میں ذِمی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی ۔
٭ ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا : متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا ۔ (کنز العمال، 2 : 455)
ترجمہ : تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا ۔
مذہبی آزادی
اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا :
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ۔ (النحل، 16 : 125)
ترجمہ : (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے ۔
اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۔ (البقرة، 2 : 256)
ترجمہ : دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے ۔
شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا : ولنجران وحاشيتهم جوار اللہ و ذمة محمد النبی رسول اللہ علی أنفسهم وملتهم وأرضهم وأموالهم وغائبهم وشاهدهم وبيعهم وصلواتهم، لا يغيروا اسقفا عن اسقفيته ولا راهبا عن رهبانية ولا واقفا عن وقفانيته وکل ما تحت أيديهم من قليل أو کثير ۔ (طبقات ابن سعد، 1 : 228، 358،چشتی)
ترجمہ : نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘
مختلف ادوارمیں گرجا گھر اور کلیسے اسلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزندتک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کےلیے سہولیات فراہم کی ہیں ۔
غیر مسلموں کی کفالت
جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے : أن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم تصدق صدقه علی اهل بيت من اليهود فهی تجری عليهم ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی) وہ انہیں دیا جارہا ہے ۔
٭ حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : بے شک ام المومنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرۃ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم) کے عوض فروخت کیا گیا ۔
٭ عمرو بن میمون، عمرو بن شرجیل اور مرۃ ہمذانی سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔
٭ اسی طرح امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے :
وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته افة من الافات او کان غنيا فافتقر وصار اهل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين و عياله ما اقام بدار الهجرة و دارالاسلام ’’ اگر ان کے ضعیف العمر اور ناکارہ لوگوں یا آفت رسیدہ یا بعد ازغنی فقیر ہو جانے والوں کو ان کے مذہب کے لوگ ان کو خیرات دینے لگیں تو ان سے جزیہ ہٹا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے بیت المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے گا جب تک وہ اسلامی ملک میں رہیں ۔‘‘
اِسی طرح جو ذِمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں : ’’میں نے ان کےلیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا ۔‘‘
اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ لکھتے ہیں : ’’اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے ۔‘‘ (کتاب الخراج : 132)
عملی طور پر اس کی تاریخ اسلامی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلامی بیت المال سے باقاعدہ الاؤنس ملتا رہا ہے۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھا جو اندھا ہو چکا تھا تو آپ نے اس کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر فرما دیا۔ اجتماعی کفالت کے حق اور حقوق عامہ میں اسلامی حکومت کی نگاہ میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں ۔
اسلامی قوانین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور جب کبھی سرکش امراء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علماء و فقہا نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے ۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اُموی نے دمشق کے کلیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق : ’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اورعیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیسہ پر کیے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو ۔‘‘ (فتوح البلدان : 150،چشتی)
یہ اِسلامی تاریخ کے درخشاں باب سے چند ایک مثالیں تھیں جن میں غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری اور تلقین کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے۔ اسلام ہمیشہ امن و سلامتی کا داعی رہا ہے اور اس کے پیروکاروں نے اخوت و بھائی چارے کا پرچار کیا ہے۔ حتی کہ غیر مسلموں سے جنگ کے وقت بھی انہیں یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ ان کے بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور مذہبی پیشواؤں کو گزند نہ پہنچائیں، ان کے درختوں، عبادت گاہوں اور گھروں کو مسمار نہ کریں ۔
افسوسناک امر
افسوس! آج اسلام کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس پر انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ اس سازش میں اَغیار کے ساتھ ساتھ اپنے سے حصے دار ہیں جو کم علمی کے باعث اسلام کا آفاقی پیغام صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اور اَغیار کا آلہ کار بنتے ہوئے ان کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج مٹھی بھر انتہاء پسند نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کی حقیقی روح کو داغ دار کر دیا ہے۔ جہاد اور خلافت کے نام پر فتوے جاری کرنے کی کسی شخص یا گروہ کو انفرادی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے انتہاء پسند و دہشت گرد لوگ دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، آسٹریلیا ہو کہ یورپ، اسرائیل ہو یا بھارت، چین ہو یا جاپان، دہشت گرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، دہشت گرد کا کوئی ملک و علاقہ نہیں۔ دہشت گردی ایک سماجی و معاشرتی رویے کا نام ہے، اس کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، لہذا مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانا سراسر نا انصافی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر اپنے vested interests کی تکمیل کے لیے سادہ لوح انسانوں کو اپنا آلۂ کار بنا رہے ہوں، یا بعض ایجنسیاں ان لوگوں کو استعمال کر رہی ہوں۔ بہر حال اصل حقیقت اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اصل چہروں کی شناخت کرنا ہوگی اور اسلام پر لگائے جانے والے انتہاء پسندی و دہشت گردی کے الزامات دور کرنا ہوں گے۔ ہمیں ان چہروں کو ننگا کرنا ہوگا جو ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اور اگر ہم واقعی دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کی اصل وجوہات کو address کرنا ہوگا۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔ اسلام پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے نفس مسئلہ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ تمام مذاہب اَصلاً اپنے پیروکاروں کو صلح جوئی اور امن کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے ہم کسی مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ ہمیں دیگر معاشرتی قبائل و مذہبی گروہوں کو شناخت دینا ہوگی اور ان کی feelings of isolation کا ازالہ کرنا ہوگا۔ تمام لوگوں کو بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہبی تفریق کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے ۔ تمام افراد اور نوجوانوں کو بالخصوص یورپ کے اندر اپنا مقام پیدا کرنے ، اس ملک اور معاشرے کےلیے مل جل کر کام کرنے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ گھل مل کر رہنا ہوگا کیونکہ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اسلام نے کبھی بھی دوسرے معاشروں سے الگ تھلگ (Isolation) رہنے کی تعلیم نہیں دی ۔ یہ وہ بنیادی اُصول ہیں جن کا درس ہمیں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجہ الوداع کے موقع پر دیا ۔ انسانی مساوات و برابری کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :
يا أيها الناس ! ألا إن ربکم واحد ، وإن أباکم واحد ، ألا لا فضل لعربی علی أعجمی ، ولا لعجمی علی عربی ، ولا لأحمر علی أسود ، ولا أسود علی أحمر إلا بالتقوی ۔ (مسند احمد بن حنبل، 5 : 411)
ترجمہ : اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ ! تمہارا رب ایک ہی ہے اور تمہارا باپ ایک ہی ہے ۔ آگاہ ہو جاؤ ! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ۔ کسی سرخ کو کالے پر برتری حاصل ہے نہ کسی کالے کو سرخ پر برتری حاصل ہے ؛ سوائے پرہیزگاری کے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment