Thursday, 12 January 2023

عالِم کی موت عالَم کی موت ہے فکر انگیز تحریر و پیغام

عالِم کی موت عالَم کی موت ہے فکر انگیز تحریر و پیغام

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلافِ امت نے اہلِ اسلام کو قیامت کے دن کی تیاری کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی نصیحتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ایسی علامات و اسباب کا بھی ذکر کیا جن کے بعد قیامت قائم ہو گی ۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں علاماتِ قیامت کہا جاتا ہے ۔ قیامت کی ان علامات میں سے ایک بہت ہی فکر انگیز علامت علمائے دین کا انتقال فرماجانا بھی ہے ۔ فی زمانہ اگر غور کیا جائے تو یہ علامتِ قیامت اپنا آپ ظاہر کر چکی ہے ۔ علما کا وصال ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے ۔ علما کا دنیا سے جانا دراصل علم کا اُٹھنا ہے اور دنیا کا علم سے محروم ہونا کائنات کا سب سے بڑا نقصان ہے ۔ امامِ اہلِ سنت ، امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قیامت قریب ہے ، اچھے لوگ اُٹھتے جاتے ہیں ، جو جاتا ہے اپنا نائب نہیں چھوڑتا ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا تو نوّے ہزار شاگرد محدّث چھوڑے ، سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا اور ایک ہزار مجتہدین اپنے شاگرد چھوڑے ، محدّث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل ! اور اب ہزار مرتے ہیں اور ایک بھی ( نائب ) نہیں چھوڑتے ۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ 238)


امامِ اہلِ سنّت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بہت ہی قابل فکر و تشویش ہے ۔ یہ بات آپ نے سو سال سے بھی پہلے فرمائی تھی تو آج سو سال بعد بھلا کیا حال ہوگا ؟ وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔


مسندِ احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ ان میں تین چیزیں ظاہر نہ ہو جائیں : (1) علم کا قبض ہونا(2) ولدالزنا کی کثرت اور (3) صقارون، عرض کی گئی یارسول اللہ ! صقارون کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : یہ آخری زمانہ کے لوگ ہیں جن کی باہم ملتے وقت کی تحیت ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہوگی ۔ (مسند احمد جلد 24، صفحہ 391، حدیث: 15628،چشتی)


اس حدیث پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیامت کی یہ نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی عظیم و جلیل القدر عالم دین دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔


خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! علم لے لو اس سے پہلے کہ وہ قبض کرلیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے۔(مسند احمد، جلد36، صفحہ621، حدیث:22290)


علم کا اٹھ جانا کس قدر ناقابلِ تلافی نقصان ہے اس کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جو علم اور اس کے فوائد و ثمرات کو جانتا اور سمجھتاہے۔ ایک عالم دین کا دنیا سے جانا گویا کہ ہمارا وراثت انبیاء سے محروم ہونا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی وراثت علم ہے اور اس وراثت کے حامل علما ہی ہیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم کے اٹھ جانے کی کیفیت اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:”اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا “ یعنی اﷲ پاک علم کو بندوں (کے سینوں) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے ۔ (بخاری، 1/54حدیث:100،چشتی)


واجب الوجود نےممکنات کی دنیااپنی معرفت کےلیے تخلیق فرمائی ہے حدیث قدسی میں ہے کہ : كنت كنزا مخفيا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لاعرف ۔

ترجمہ : میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس مجھے محبت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں تو مخلوق کو پیدا کیا ۔ (تفسیرروح البیان جلد ۶ صفحہ ۶۱ تحت الآیۃ سورۃ الحج ۶۶دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)(جواہرالبحار فی فضائل النبی المختار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جلد ۴ صفحہ ۲۷۵ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،چشتی)(المقاصدالحسنۃ باب الکاف صفحہ ۳۷۷رقم الحدیث ۸۳۶ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،)(مثنوی شریف دفتر اول صفحہ ۷ و دفتر چہارم صفحہ ۱۱۱)(شرح بحرالعلو م لمثنوی الرومی صفحہ ۶۱۸ و دفترپنجم صفحہ ۱۳۲ و دفتر ششم صفحہ ۷۴ و صفحہ ۸۸،)(عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کابنیادی مقدمہ صفحہ ۴)


اب انہی ممکنات کا وجودشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وجود نہیں بلکہ ظل الوجود ہے وہ ممکن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : الممکنات ماتحت رائحۃ الوجود ۔ یعنی ممکنات وہ ہیں جنہیں وجود کی صرف بوا لگی ہو ۔ دیگر علماء فرماتے ہیں کہ : ممکن مستاوی الطرفین ہوا کرتا ہے ‘‘ یعنی اس کا وجود اور عدم یکساں ہے جب کہ واجب الوجود کا وجود ضروری ، عدمِ محال اور شریک الباری کابعدم ضروری اور وجود ممتنع ہے ۔ انہی ممکنات میں زمین و آسمان اور اس میں موجود سب کچھ شامل ہے لیکن ان کی انواع میں تفاوت ہے اور پھر انواع کے تحت افراد میں فرق ہے ۔ نوع کےاعتبارسےانسان کومقام ارفع واعلیٰ عطاکیاگیاہےاورا سے خلیفۃ اللہ فی الارض کہاگیاہےفرمایا : وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً ۔ (سورہ البقرۃ:۳۰) ۔ سو اس کو مکرم و اشرف بنا دیا گیا بنسبت دیگر مخلوقات کے پھراس نوع کے افراد میں فرق کا ہونا ایک لازمی اور منطقی امر ہے ۔


نہ ہرزن زن است نہ ہرمردمرد

خداپنج انگشت یکساں نہ کرد


سراج الامۃ حضرت سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے : الحکایات عن العلمآء و محاسنھم احب الی من کثیرمن الفقہ ۔ ‘‘ علماء راسخین کے واقعات اور ان کے محاسن و فضائل اور صفات حمیدہ کے قصے مجھے فقہ کے بے شمار مسائل سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں یہ اس لیے کہ خاصانِ خدا کے پاکیزہ تذکرے آداب و کمالات کے موتیوں سے مرصع و مزین ہوتے ہیں اور ان نورانی چہروں کی روشن و درخشندہ حکایات کے پڑھنے اور سننے سے مادیات کی تاریکیوں میں مستغرق پریشان دل مادہ پرستی کی کدورتوں سے پاک و صاف ہو کر ایمانی بشاشت و طمانیت اور استقامت علی الشریعۃ کے انوار و تجلیات سے منور ہو جاتے ہیں ۔


احب الصالحین ولست منھم

لعل اللہ یرزقنی صلاحا


مشہور محدث زمانہ امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا : عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ ۔ صلحاءِ امت کے تذکرے کے دوران رحمتیں برستی ہیں ۔ (اخرجہ ابونعیم فی حلیۃ الاولیاءج۷ص۲۸۵،چشتی)(واحمدبن حنبل فی الورع ج ۱ ص ۷۶)(وابن ابی عاصم فی الزہد ج۱ص۳۲۶)(واللالکائی فی کرامات الاولیاء ج ۱ ص ۹۶الرقم ۴۵)(والخطیب البغدادی فی تاریخ بغدادج۳ص۲۴۹)(والذھبی فی السیراعلام النبلاء ج۱۴ص۶۴)(والسیوطی فی تدریب الراوی ج۲ص۱۴۱)


فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ھم القوم لایشقی لھم جلیس ‘‘ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کاہم نشین محروم وبدبخت نہیں رہتا ۔ (اخرجہ الترمذی فی السنن کتاب الدعوات)


امام دارمی شان علمائےکرام کے بارے میں روایت فرماتے ہیں : عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : كَانُوا يَقُولُونَ : مَوْتُ الْعَالِمِ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ مَا اخْتَلَفَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ ۔ (مسند الدارمي المعروف بہ سنن الدارمی ج ۱ ص ۳۵۱ باب فی فضل العلم والعالم دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)

ترجمہ : حضر ت سیدناحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ ہمارے اکابرین فرمایا کرتے تھے کہ عالم کی موت اسلام میں ایک ایسی دراڑ ہے جس کو قیامت تک کوئی چیز بند نہیں کر سکتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ : و قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لموت قبيلة أيسر من موت عالم ۔ ‘‘ ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے آسان تر ہے ۔ (إحياء علوم الدين،باب فضیلۃ العلم ج۱ص۶دار المعرفة بيروت)


یہ اس لیے ہےکہ قبیلے اوربستیاں بسانےکےلیےکوئی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی لیکن ایک عالم بننے یا بنانے کےلیے بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نےاس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : ⬇


ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سےہوتاہےچمن میں دیدہ ورپیدا


وقال عمر رضي الله عنه موت ألف عابد قائم الليل صائم النهار أهون من موت عالم بصير بحلال الله وحرامه ۔

ترجمہ : حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کاارشادپاک ہےکہ قائم اللیل صائم النہار ،، عابدکی موت  ، حلال و حرام کےاحکامات جاننےوالے عالم کی موت سے بہت آسان ہے ۔ (إحياء علوم الدين،باب فضیلۃ التعلیم ج۱ص۹دار المعرفة بيروت،چشتی)


قرآن مجید نے ایمان باللہ اور تقویٰ کو ولایت کا معیار بتایا ہے اور جاہلوں نے جادہ ٔشریعت سے ہٹ کر احکام الٰہی کی مٹی پلید کرنے کو ولایت کا نام دیا ہے حالانکہ عقائد کی کتابوں میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ : لو رأیت شخصاً یطیر فی الھواء و یمشی علی المآء و یاکل النار و یترک سنۃ من سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فھو لیس بولی بل ھوساحرکذاب ۔ ‘‘ اگر تو ایک ایسے شخص کو دیکھے جو ہوا میں اڑتا ہےاور پانی پر چلتا ہے اور آگ کھاتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنتوں میں سےکسی ایک سنت کو چھوڑتا ہے تو وہ ولی نہیں بلکہ جادوگر اور پرلے درجے کا جھوٹا ہے ۔


ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ کریم لوگوں کو علم دینے کے بعد ان سے واپس نہیں کھینچتا، بلکہ علماء کو لےجاتاہے، پس جب بھی کسی عالم کو لے جاتاہے تو اس کے ساتھ اس کا علم بھی چلاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ باقی رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہ ہوگا پس وہ گمراہ ہوں گے۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 32)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا : عالم کی موت ایک ایسی مصیبت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، ایسا شگاف ہے جو بند نہیں ہو سکتا ، ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، ایک عالم کی موت کی نسبت پورے قبیلے کی موت آسان ہے (یعنی جو نقصان پورے قبیلے کی موت سے ہوتاہے، عالم کی موت کے نقصان سے بہت کم ہے) ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ170، رقم:179،چشتی)


امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کریم کے مقرر کردہ حلال اور حرام کی سمجھ رکھنے والے ا یک عالم کی موت کے آگے ایسے ہزارعبادت گزاروں کی موت بھی کم ہے جو دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے ہوں ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص42، رقم:115)


شیرِ خدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے منقول ہے :جب عالم وفات پاتا ہے تو 77 ہزار مقربین فرشتے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام میں ایسا رَخْنَہ ہے جسے قیامت تک بند نہیں کیا جاسکتا۔( الفقیہ و المتفقہ، 2/198، رقم :856)


حضرت سیّدنا سعید بن جُبیر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ علما کا دنیا سے جانا لوگوں کی ہلاکت کی علامت ہے۔( سنن دارمی،1/90، حدیث :241)


حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)


حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31،چشتی)


حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری صفحہ 33)


حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں : عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)


حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)


حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33،چشتی)


حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ پہلے سے دوسرا علم حاصل کرتا رہے گا، پس جب کبھی پہلا فوت ہوگیا اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا تو یہ لوگوں کی ہلاکت ہوگی (یعنی جب علم اگلی نسل تک نہ جائے گا تو گویا وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے)۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ذھاب العلم، جلد1، صفحہ314، حدیث:255)


حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شیاطین نے ابلیس سے کہا : اے ہمارے آقا! کیا معاملہ ہے ؟ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ ایک عالم کی موت پر جتنا خوش ہوتے ہیں عابد کی موت پر نہیں ہوتے؟ ابلیس نے کہا: چلو میرے ساتھ آؤ، وہ سب چل پڑے اور ایک عبادت گزار کے پاس آئے جو نماز پڑھ رہا تھا، (وہ نماز سے فارغ ہوا تو ) ابلیس نے اسے کہا: ہم آپ سےایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ اس عابد نے کہا: نہیں، ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ وہ اسی وقت کافر ہوچکا ہے، پھر وہ ایک عالم کے پاس آئے جو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا باتوں اور خوش طبعی میں مصروف تھا، ابلیس نے کہا: ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟ عالمِ دین نے کہا: پوچھیں، ابلیس نے کہا: کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ انہوں نے کہا: بالکل کرسکتاہے؟ ابلیس نے کہا: کیسے؟ عالمِ دین نے کہا: جب وہ اس کا ارداہ فرمائے گا تو صرف کن فرمائے گا اور ہوجائے گا۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: دیکھا تم لوگوں نے، یہ اپنے نفس کے پیچھے نہیں چلتا اور یہی چیز مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ127، رقم:127،چشتی)


علم حاصل كرو اس سے پہلے کہ یہ قبض کرلیا جائے، علم کاقبض ہونا اہلِ علم کے وصال سے ہوتاہے، عالم اور متعلم یعنی دینی استاد اور شاگرد دونوں خیر میں حصہ دار ہوتے ہیں، ان کے علاوہ تمام کے تمام لوگوں میں کوئی خیر نہیں، بے شک لوگوں میں سے سب سے بڑا غنی وہ عالم ہے جس کے علم کے لوگ محتاج ہوں، پس جو کوئی اس کی طرف حاجت لاتاہے نفع پاتاہے، اگر لوگ اس کے علم سے بے پرواہ ہو جائیں تو بھی عالم کو اپنے علم کا وہ نفع ضرور ملتا ہے جو اللہ کریم نے اس میں رکھا ہے، کیا بات ہے ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علما رخصت ہوتے جارہے ہیں اور بے علم لوگ علم حاصل نہیں کرتے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ علم رکھنے والا پہلا رخصت ہوجائے اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا ہو، اگر علم والا مزید علم کی طلب کرے تو اس سے علم میں اضافہ ہی ہوگا کچھ نقصان نہ ہوگا، اوراگر جاہل علم کی طلب کرے تو علم کو موجود پائے گا، آخر کیا بات ہے کہ میں تمہیں کھانے سے سیر تو دیکھ رہا ہوں لیکن علم سے خالی دیکھ رہاہوں۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ602، رقم:1036)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولِ کریم ﷺ کو فرماتے سنا:طالب علم کو جب راہِ طلبِ علم میں موت آجائے تو وہ شہادت کی موت ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ121، رقم:115)


حضرت سیّدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے: جیسے جیسے علما کا وصال ہوتا جائے گا حق کا اثر کم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ جہالت کی کثرت ہوجائے گی اور علماء رخصت ہوجائیں گے، پس لوگ اپنی جہالت پر ہی عمل کریں گے اور جاہلوں سے ہی دین سیکھیں گے اور راہِ راست سے گمراہ ہوجائیں گے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ 603، رقم:1038)


حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا:میں سمجھتا ہوں کہ آج علم کے دس میں سے نو حصّے چلے گئے۔( معجم کبیر،9/163، رقم:8809)


جب حضرت سیّدنا زید بن ثابت کا وصال ہوا تو حضرت سیدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس طرح علم رخصت ہوتاہے، تحقیق آج علمِ کثیر دفن کردیا گیا۔(مستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، جلد3، صفحہ484، حدیث:5810)


حضرت ابوایّوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب مجھے اہل سنت میں سے کسی فرد کے فوت ہونے کی خبر ملتی ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اعضاء میں سے کوئی عضو جدا ہوگیا ہو۔(حلیۃ الاولیاء، ایوب سختیابی، جلد3، صفحہ9)


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔‘‘(متفق علیہ)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہمابیان کرتےہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا۔اللہ تعالیٰ بندوں کےسینوںمیں سےعلم کو نہیں نکالے گا لیکن علماء کو اٹھا کر علم اٹھالے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے ان سے سوال کیا جائے گا اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے سووہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔(امام ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ صحیح بخار ی ج ۱ ص ۲۰ مطبوعہ نورمحمداصح المطابع کراچی ۱۳۸۵ھ)


قال الحافظ ابن حجر – رحمه الله- في فتح الباري: “فدل هذا على أن ذهاب العلم يكون بذهاب العلماء”.وقد ذكر المفسرون في قوله تعالى: {أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا}(الرعد:۴۱)


قال ابن عباس في رواية: خرابها بموت علمائها وفقهائها وأهل الخير منها. وكذا قال مجاهد: هو موت العلماء. جاء في مجمع الزوائد عن سعيد بن المسيب قال: شهدت جنازة زيد بن ثابت فلما دفن في قبره قال ابن عباس: “يا هؤلاء من سره أن يعلم كيف ذهاب العلم فهكذا ذهاب العلم.. أيم الله لقد ذهب اليوم علم كثير” رواه الطبراني.وجاء في كتاب ’’أخلاق العلماء‘‘ للآجري: قال كعب: عليكم بالعلم قبل أن يذهب، فإن ذهاب العلم موت أهله، موت العالم نجم طمس، موت العالم كسر لا يجبر، وثلمة لا تسد۔قوله: ((لا يقبض العلم)). قال النووي: هذا الحديث يبين أن المراد بقبض العلم ليس هو محوه من صدور حفاظه، ولكن معناه أنہ يموت حملته، ويتخذ الناس جهالاً يحكمون بجهالاتهم فيضلون ويضلون. (شرح النووي على مسلم 16/224.)


قال ابن مسعود: عليكم بالعلم قبل أن يرفع، ورفعه هلاك العلماء، والذي نفسي بيده ليودن رجال قتلوا في سبيل الله أن يبعثهم الله علماء لما يرون من كرامتهم. (مفتاح دار السعادة 1/121.)


يقول ابن مسعود: أتدرون كيف ينقص الإسلام؟ يكون في القبيلة عالمان، فيموت أحدهما فيذهب نصف العلم، ويموت الآخر فيذهب علمهم كله.وعنه رضي الله عنه أنه قال: (أتدرون كيف ينقص الإسلام ؟ قالوا: كما ينقص الثوب، وكما ينقص سمن الدابة، وكما ينقص الدرهم. قال: إن ذلك لمنه. وأكبر من ذلك موت العلماء) (رواه الطبراني، وقال الهيثمي: رجاله موثوقون. مجمع الزوائد 1/202،چشتی)


قوله: ((اتخذ الناس رؤساء جهالاً)).قال عقبة بن عامر رضي الله عنه: (تعلموا قبل الظانين)، قال البخاري: يعني الذين يتكلمون بالظن (ذكره البخاري معلقاً في باب الفرائض)


قال النووي: معناه: تعلموا العلم من أهله المحققين الورعين قبل ذهابهم ومجيء قوم يتكلمون في العلم بمثل نفوسهم وظنونهم التي ليس لها مستند شرعي. (المجموع 1/42].)


كان الإمام أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري في درسِه، وطلابُه من حوله، فورد إليه كتابٌ فيه نعيُ عبدالله بن عبدالرحمن الدارمي، فنكس البخاري رأسه، ثم رفع واسترجع، ودموعه تسيل على خدَّيه، ثم أنشأ يقول : ⬇


عَزَاءٌ فَمَا يَصْنَعُ الجَازِعُ

وَدَمْعُ الْأَسَى أَبَدًا ضَائِعُ


بَكَى النَّاسُ مِنْ قَبْلُ أَحْبَابَهُمْ

فَهَلْ مِنْهُمُ أَحَدٌ رَاجِعُ


تَدَلَّى ابْنُ عِشْرِينَ فِي قَبْرِهِ

وَتِسْعُونَ صَاحِبُهَا رَافِعُ


وَلِلْمَرْءِ لَوْ كَانَ يُنْجِي الْفِرَا رُ

فِي الْأَرْضِ مُضْطَرَبٌ واسعُ


يُسلِّمُ مُهْجَتَهُ سَامِحًا

كَمَا مَدَّ رَاحَتَهُ الْبَائِعُ


وَكَيْفَ يُوَقَّي الْفَتَى مَا يَخَافُ

إِذَا كَانَ حَاصِدَهُ الزَّارِعُ


تعلیم و تعلم کی فضیلت و اہمیت کو ہم جانتے ہیں ، علمائے کرام تعلیم و تعلیم کی وجہ سے باعثِ شرف و فضل ہیں، وہ کسی کو دنیا کا مال نہیں دیتے بلکہ علم سکھاتے ہیں اسی لئے دینِ اسلام میں ان کو فوقیت حاصل ہے، ان کی زندگیاں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو راہِ حق کی جانب بلانے کےلیے ہوتی ہیں،علماء گمراہوں کو ہدایت کی جانب بلاتے ہیں، لوگوں کی جانب سے اذیتوں پر صبر کرتے ہیں، مردہ دلوں کو کتابِ الٰہی کے ذریعے زندہ کرتے ہیں، بصیرت سے اندھوں کو اللہ کے نور سے بینا کرتے ہیں، شیطان کے ہاتھوں قتل ہونے والے کتنے ہی ایسے ہیں کہ جن کو علما نے زندہ کر دیا اور کتنے ہی ہیں کہ جو گمراہی کے گڑھے میں تھے علما نے ان کو راہِ راست دکھائی ۔ یاد رہے کہ جو اپنے نفس کےلیے جیتا ہے جلد مر جاتا ہے اور جو نفس کی بجائے کسی اچھے مقصد کےلیے جیتا ہے تو برسوں زندہ رہتاہے ۔ علما کا وصال فرما جانا ہمارے لیے لمحۂ فِکریہ ہے ، اس لیے اَشد ضرورت ہے کہ ہم علمائے کرام کی قدر و توقیر اور علمِ دین کے حصول کی جانب متوجہ ہوں، اپنے بچوں کو حافظِ قرآن اور عالمِ دین بنائیں ۔ علما ہی کے دَم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک اس دنیا سے علما کو اُٹھالے گا تو ان کی جگہ جاہل بیٹھ جائیں گے اور دین کے حوالے سے ایسی باتیں کریں گے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی دینی تشریحات اور عقائدِ اہلِ سنّت کے مخالفین کی موجودگی ہمارے دور میں عام ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے علاقے اور شہر کے عاشقانِ رسول علمائے کرام کا دامن تھام لے اور ہر طرح کے معاملے میں صرف مفتیانِ اہلِ سنّت سے شرعی راہنمائی لے ۔ نوجوان علما کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت، نئی نسل کی اخلاقی وعلمی تربیت کےلیے تقریر و بیان، تدریس اور تحریر جیسے اہم ترین مَحاذوں پر اپنے اَکابِر کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ کسی عالمِ دین کے وصال پر یہ ذہن نہ بنالیں کہ اب امت ختم ہو گئی ، نہیں نہیں بلکہ جو اہلِ علم ، علمائے کرام و مفتیانِ عظام حیات ہیں ان کو غنیمت جانیں ، ان کے وجود پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کے دامن سے مخلص ہو کر وابستہ ہو جائیں اور جہلا کی بجاۓ ان اہل علم کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں ۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم علمِ دین سیکھنے سکھانے کےلیے کمر کس لیں ، عوام و خواص سبھی کو علمِ دین کی جانب متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہے ، دینی طلبہ کو تو بہت ضرورت ہے کہ دین سمجھنے اور علم کی گہرائی تک جانے کےلیے خوب محنت کریں ۔ طلبا کو یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیان عظام نے یونہی مقام نہیں پایا انہوں نے اپنی زندگیاں علمِ دین کی طلب میں گزار دیں ، علم کےلیے مال خرچ کیا جمع نہیں کیا ، سفر کیے ایک ہی جگہ آرام میں نہیں رہے ، صبر کیا ، رضائے الٰہی پر راضی رہے ، عاجزی و انکساری کو اپنایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...