Thursday 26 January 2023

خصائص و کمالات حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ

0 comments
خصائص و کمالات حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص و امتیازات سے ممتاز فرمایا ، آپ کو فضائل و کمالات کا جامع علوم و معارف کا منبعِ رشد و ہدایت کا مصدر ، زہد و ورع ، شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا ، آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بعثتِ نبوی سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، تاریخ کی تعیین نہیں ملتی ، لیکن بعض حضرات  13 رجب کی تاریخ بتلاتے ہیں، تاہم یہ صرف اندازہ اور تخمینہ ہے اور ان حضرات نے جس واقعہ سے اندازہ لگاکر مذکورہ تاریخ پر استدلال کیا ہے ، اس پر شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی علیہ الرحمہ نے رد کیا ہے ، بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی ، لیکن یہ قول بھی مرجوح ہے ، راجح قول کے مطابق بیت اللہ کے اندر حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کے علاوہ کسی اور شخص کی ولادت نہیں ہوئی ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش عام الفیل کے ۳۰ سال بعد ۱۳ رجب المرجب کو بروز جمعہ ہوئی درج ذیل کتب میں اسی حوالے سے لکھا ہے : ⬇

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ میں اصحاب فیل کے حملہ کے تیس برس اور ۱۳ رجب المرجب کو جمعۃ المبارک کے دن ہوئی ۔ (خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۱۱۷ بحوالہ نورالابصار) 

آپ کی ولادت مکہ معظمہ میں بعد از ۳۰ سال عام الفیل یوم جمعہ ۱۳ رجب المرجب کو ہوئی ۔ (اسلامی حیرت انگیز معلومات صفح ۳۶۳)(اوراق غم صفحہ نمبر ۱۴۶)(نزہۃ المجالس)

جب ۱۳ رجب المرجب کی تاریخ کو آپ کی ولادت ثابت ہے تو جلوس نکالنے یا جشن منانے میں حرج نہیں بشرطیکہ شرع کے خلاف نہ ہو کیونکہ کسی بھی خدا رسیدہ کے یوم پیدائش پر یا اس کے علاوہ اس کی یادگار میں جائز و مستحسن ہے مگر اہل سنت کا معمول یہی ہے کہ یوم پیدائش پر ہی جلوس وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں لہٰذا جلوس نکالنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی نکالنے والوں پر کوئی حکم ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہما اور لاکھوں صحابہ کرام اہل بیت سادات کرام رضی اللہ عنہما میں سے اکثر کی متعین تاریخ ولادت مستند باسند کتابوں میں نہیں آئی اور سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ کے اندر ہونے کا واقعے کی اگرچہ صحیح متصل سند نہ ملی ۔ مگر مجموعی طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد نظریات نکال کر فقط اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی ولادت اندازاً تیرہ رجب کعبہ میں ہوئی اور یہ خصوصیت صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نہیں بلکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوےۓ تھے ۔صحابہ کرام کی تاریخ پر لکھی ہر کتاب بلکہ اس کے علاوہ بہت کتابوں میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی لکھا ہے ۔ صحیح مسلم کتاب البیوع باب الصدق فی البیع والبیان میں امام مسلم فرماتے ہیں : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ ، سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (صحیح مسلم تحت الحدیث،1532,3850،چشتی)

ایسے الفاظ کی وضاحت بھی ضرور بیان کی جائے کہ جس سے غلط بے بنیاد نظریات کی تردید ہو ۔ مثلاً وحی یا تقابل ولادت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا رد کیا جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہونے کو بیان کیا جائے تو ساتھ میں یہ بھی بیان کیا جائے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی کعبہ کے اندر ہوئی ۔ اس طرح غلط بے بنیاد نظریات خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کب ہوئی اور کہاں ہوئی ؟ اس بارے میں اہلِ سنت اہلِ تشیع اور دیگر مسالک کی کافی کتب کا بغور مطالعہ کیا اور فقیر اس نتیجے پر پہنچا کہ : پہلے کے زمانے میں متعین تاریخ ولادت کا اہتمام نہ تھا ، سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا علی اور بہت سارے صحابہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہما کی تاریخِ ولادت مستند کتابوں میں نہیں آئی ۔ حتیٰ کہ جو 13 رجب مشہور ہے اس کی تحقیق و تفصیل دیکھی جائے تو 13 رجب اندازہ کرکے بتائی گئی ہے ۔ تیرہ رجب کی ولادت کی تاریخ کا جس واقعہ سے اندازہ کیا گیا اس کے متعلق تفصیل آگے آ رہی ہے ۔ پھر اس اندازے کو بعد کی دو چار کتابوں مین اندازے کا تذکرہ کیے بغیر اتنا لکھ دیا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما تیرہ رجب میں پیدا ہوئے ۔ جس واقعے سے 13رجب ولادت کا دن ہونے کا اندازہ لگایا گیا اسی واقعے سے یہ ثابت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کعبے کے اندر ہوئی ۔ شیعہ کتب میں واقعہ درج ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کو وحی ہوئی ، کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جائے ، کیونکہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا وقت قریب ہے۔وہ کعبے میں گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی کی ولادت ہوئی ۔ کچھ کتب میں اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا ۔ 15 رجب حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کے دن کے موقعے پر چار پانچ دن کےلیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا ۔ باپردہ خواتین 15 رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں ۔ اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ 13 رجب کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کعبہ گئی ہوں گی ۔ پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت بی بی مریم کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا حکم دیا گیا ۔

تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165،166 میں شاہ عبد العزیز علیہ الرحمہ نے مذکورہ روایت ، مذکورہ واقعہ کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا ۔ فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں ، حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم رضی اللہ عنہا کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو۔ہرگز نہیں ۔ اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کےلیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو ۔ ہرگز نہیں ۔ وہ ایک اتفاق تھا ۔ وحی کا کہنا تو کفر ہے ۔ شاہ صاحب نے 13 رجب پر گفتگو نہیں فرمائی ۔ البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتفاقاً عورتوں کے ساتھ سیدنا علی کی والدہ رضی اللہ عنہما بھی کعبہ کی زیارت کو گئی ہوں اور وہاں اتفاقاً دردِ زہ زیادہ ہو گیا ہو اور اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔

کئی کتب میں سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے کعبہ میں پیدا نہ ہونے کا لکھا ہوا ہے ۔ چند اہلسنت کتابوں میں بغیر سند و ثبوت کے آپ کی ولادت کعبہ میں ہونے کا لکھا ہے ۔ عقائد افضلیت حلال حرام وغیرہ بنیادی معاملات میں صحیح مستند روایات ضروری ہیں جیسا کہ درج ذیل دو اصولوں واضح ہوتا ہے ۔ جبکہ تاریخ ، فضائل ، پیدائش وغیرہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اتنی سختی نہیں ۔ مسلک المقتسط اورفتاوی شامی اور فتاوی رضویہ سے دو قیمتی اصول یہ ہیں : ⬇

(1) مسلک المتقسط وغیرہ کتب میں ہے کہ : الاصل ھوالنفی حتی یتحقق الثبوت ۔ ترجمہ : اصل کسی چیز کی نفی ہے جب تک کہ ثبوت متحقق نہ ہو جائے ۔ (المسلک المتقسط صفحہ 110)(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 198)

(2) امام احمد رضا خان قادری علیہ الرّحمہ فتاوی شامی کی عبارت کو دلیل بناتے ہوے فرماتے ہیں : اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ بہت سی جگہوں میں مذکور ہے تو بھی کثرت نقول مستلزم صحت کو نہیں پہلے ایک شخص کو غلطی ہو جاتی ہے اور بعد کے لوگ اس کی غلطی بظنِ صحت نقل کرتے چلے جاتے ہیں ۔ شامی جلد 4 صفحہ 351 میں ہے : قد یقع کثیراان مؤلفایذکر شیئاخطاً فینقلونہ بلا تنبیہ فلیکثرالناقلون واصلہ لواحد مخطئ ۔
ترجمہ : اکثر ایسا واقع ہوا ہے کہ مؤلف سے کوئی غلطی ہوگئی تو لوگ اسے بلا تنبیہ نقل کرتے رہتے ہیں حتی کہ اس کے ناقلین کثیر ہوجاتے ہیں حالانکہ اصل کے اعتبار سے ایک مخطی ہوتا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جدید جلد 6 صفحہ 199,198،چشتی)

کچھ علما فرماتے ہیں کہ اہلسنت کی کسی معتبر کتاب میں باسند نہیں لکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔ بعض کتب میں اگر لکھا ہے تو بِلاسند کے یا پھر امام حاکم کو غلطی لگی ۔ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ لکھا پھر ان کی پیروی میں مشہور ہو گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مولود کعبہ ہیں ۔ لہٰذا یہ شہرت یہ کئ کتب میں بِلادلیل آنا معتبر نہیں ۔ فقیر کی رائے فی الحال یہ ہے کہ اگر تاریخِ ولادت میں باسند روایت کی شرط لگائی جائے تو غالباً سیدنا حکیم بن حزام کے مولود کعبہ ہونے کی بات بھی مشھور و کئ کتب میں موجود تو ہے مگر متصل سند نہیں ۔ تاریخ ولادت کے معاملے میں معتبر نسب دان یا تاریخ دان کا کہنا لکھنا ہی کافی ہونا چاہیے ۔ لہٰذا شیعہ کے مرچ مسالے غلط سوچ و نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے ۔

الإصابة في تمییز الصحابة  میں ہے : علي بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف القرشي الهاشمي أبو الحسن. أول الناس إسلاما في قول كثير من أهل العلم. ولد قبل البعثة بعشر سنين على الصحيح، ‌فربي ‌في ‌حجر النبي صلى الله عليه وسلم و لم يفارقه ۔ (العين بعدها اللام، ج:4، ص:464، ط:دار الكتب العلمية)

تهذيب الأسماء و اللغات للنووي  میں ہے : ولد حکیم (بن حزام) في جوف الکعبة، و لایعرف أحد ولد فیھا غیرہ، و أما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنه ولد فیھا، فضعیف عند العلماء ۔ (حرف الحاء المهملة، ج:1، ص:166، ط: دار الکتب العلمیة)

السیرة الحلبیة   میں ہے : و قيل : الذي ولد في الكعبة حكيم بن حزام. قال بعضهم: لا مانع من ولادة كليهما في الكعبة، لكن في النور: حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبة و لايعرف ذلك لغيره. و أما ما روي أن عليًّا ولد فيها، ‌فضعيف ‌عند ‌العلماء ۔ (باب: تزوجه صلى الله عليه وسلم خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، ج:1، ص:202، ط:دار الكتب العلمية،چشتی)

حضرت شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ ان کو وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضعِ حمل کریں ، در حقیقت ایک بے لطف جھوٹ ہے ، کیوں کہ اسلامی یا غیر اسلامی کسی بھی فرقہ کے نزدیک بھی وہ نبی نہیں تھیں ۔۔۔ الخ ۔ (تحفۂ اثنا عشریہ اردو، ص:165/ 166، ط:دار الاشاعت)

حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے ، چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّظْرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبَادَةٌ -
ترجمہ : سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا : علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر:4665)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ صاحبزادوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ ابِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْانْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ارْقَمَ يَقُوْل:اوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِیٌّ ۔
ترجمہ : ایک انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (صاحبزادوں میں)سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)
اسی جامع ترمذی شریف میں روایت ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094)

حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے،چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لیے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے ۔
آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمایا : اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ ۔ ترجمہ : اے علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 ،چشتی)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا۔معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ ﷲُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ ﷲَ أَمَرَنِیْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَۃَ مِنْ عَلِیٍّ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی ﷲ عنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،8،ص،497،حدیث نمبر:10152،چشتی)

حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام اور بزرگان دین کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ اور رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہا جاتا ہے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ ان عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص"کرم اللہ وجہہ" کہا جاتا ہے ، اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ) فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ"کرم اللہ وجہہ"۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔ جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹا دیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ" (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے) کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم صفحہ 85)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:"مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی" ۔ ترجمہ : سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،6،ص،47، حدیث نمبر:5973،چشتی)

حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر " . وأنی أظن ہذا مما لم یجب .
ترجمہ : سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کےلیے ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)

غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ . ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی (رضی اللہ عنہ) کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا ! فَأُتِیَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ۔ جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا،اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر:3701)

فاتح خیبر، حیدر کرار،صاحب ذو الفقار،شیریزداں،شان مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجوان افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا۔ أخرجہ ابن عساکر . ترجمہ : سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے)دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا،یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا، یہاں تک کہ چالیس( 40) افراد نے اسے اٹھایا ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے،حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالی عنہ )کو دیکھ لے ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی جلد 1 صفحہ 75،چشتی)

سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کو عشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی : وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔
ترجمہ : اور علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جنت میں ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر:138،چشتی)

آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین ،معجم اوسط طبرانی اورمعجم صغیر طبرانی وغیرہ میں روایت ہے : عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر : 4604)(المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، حدیث نمبر :5037)(المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد،حدیث نمبر: 721)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے : وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 68،چشتی)

حضرت مولائے کائنات کی فیاضی بارگاہ الہی میں مقبول ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ ترجمہ : جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں) رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)

اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے : عن ابن عباس فی قولہ ( الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً وعلانیۃ) قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً ، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً . سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔
سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر ۔ (الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ 274)
آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کےلیے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔

حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنے شہزادوں کو قربان کیا ۔

اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی او ر معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کےلیے یہ بشارت عنایت فرمائی : وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
ترجمہ : یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الزخرف۔72)
چونکہ جنت کو مومنین کے لئے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ،اسی لئے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کے لئے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّۃَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلاَثَۃٍ عَلِیٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ ۔ ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا جنت تین افراد کی مشتاق ہے (1) (حضرت) علی (رضی اللہ عنہ) (2) (حضرت) عمار (رضی اللہ عنہ)(3) (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہ) (جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166،چشتی)

جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے : استخلف یوم قتل عثمان وہو یوم الجمعۃ لثمانی عشرۃ خلت من ذی الحجۃ سنۃ خمس وثلاثین ۔
حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سنہ پینتیس (35) ہجری ، 18 ذوالحجہ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘میں ہے : وکانت خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشہر وایاما ۔ آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال ، حرف العین فصل فی الصحابۃ)

مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوفہ کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہاوند میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا : دس (10) اہل اسلام شہید ہوں گے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس (10) لوگ بچیں گے۔

شہادت کی بشارت : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی ، چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن جابر بن سمرۃ ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی : إنک مؤمر مستخلف وإنک مقتول ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کیے جانے والے ہو ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 347،چشتی)

شہادت عظمیٰ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں : ضربہ عبد الرحمن بن ملجم المرادی بالکوفۃ صبیحۃ الجمعۃ لثمانی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر رمضان سنۃ اربعین ومات بعد ثلاث لیال من ضربۃ ۔ ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس (40) ہجری ، سترہ (17) رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اورحملہ کے تین (3) دن بعد (بیس 20) رمضان المبارک کو) آپ کی شہادت عظمی ہوئی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

غسل مبارک : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل مبارک اور نمازجنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں : وغسلہ ابناہ الحسن والحسین وعبد اللہ بن جعفر وصلی علیہ الحسن ۔ ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ،چشتی)

حضرت مولائے کائنات کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو شہادت کا منصبِ رفیع عطا فرمایا، ابن ملجم شقی کے حملہ کرنے کے بعد صبح صادق کے وقت آپ نے فرمایا کہ میرا چہرہ مشرق کی سمت پھیر دو!جب چہرۂ مبارک مشرق کی جانب پھیر دیا گیا تو آپ نے فرمایا:ائے صبح صادق؛تجھے اس ذات کی قسم جس کے حکم سے تو نمودار ہوتی ہے!بروز قیامت تو گواہی دینا کہ جس وقت سے میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ہے ؛اس وقت سے آج تک کبھی تو نے مجھے سوتا ہوا نہ پائی،تیرے نمودار ہونے سے قبل ہی میں بیدار ہوجاتا۔

پھر سجدہ ریز ہوکر آپ نے دعا کی؛الہی!قیامت کے دن جبکہ ہزارہا انبیاء وملائکہ ،صدیقین وشہداء تیرے عرش عظیم کو دیکھ رہے ہوں گے؛ اس وقت تو گواہی دینا کہ جب سے میں نے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لایا؛ کبھی آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ (الریاض النضرہ ، فضائل خلفائے راشدین وغیرہ)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقہ وطفیل حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے بے پناہ محبت کرنے والا بنائے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے بے انتہاء عقیدت والفت رکھنے والابنائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں مستفیض فرمائے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔