Saturday 28 January 2023

ہم نے اتارا ہے قرآن اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں

0 comments
ہم نے اتارا ہے قرآن اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں
محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر 9)
 ترجمہ : بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔

اس آیت میں  کفار کے اس قول ’’اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، بے شک ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم خود  تحریف ، تبدیلی ، زیادتی اور کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو جمع کے صیغہ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے حالا ن کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے ۔ اس کی تو جیہہ میں امام فخرالدین محمد بن عمررازی  علیہ الرّحمہ متوفی 606 ھ فرماتے ہیں : ہر چند کہ یہ جمع کا صیغہ ہے لیکن بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظمت کا اظہار کرنے کےلیے خود کو جمع کے صیغے سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے جب کوئی کام کرتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو وہ اس یوں کہتا ہے کہ ہم نے یہ کام کیا یا ہم نے یہ بات کہی ۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 123 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔ 1415)

یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے ، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ، گویا اس کی حفاظت کےلیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے : رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 9)
ترجمہ : اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

اللہ تعالیٰ جھوٹ سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی نہیں فرماتا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت قطعی کفر ہے اور یہ کہنا کہ ’’ جھوٹ بول سکتا ہے‘‘ یہ بھی کفر ہے ۔ تفصیل کیلئے فتاوی رضویہ کی پندرھویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان قادری علیہ الرّحمہ کی کتاب  ’’سُبْحٰنُ السُّبُوْحْ عَنْ کِذْبِ عَیْبٍ مَقْبُوْحٍ‘‘ (جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عزوجل کے پاک ہونے کا بیان) اور ’’دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنُ السُّبُوْح‘‘ (رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن) کا مطالعہ فرمائیں ۔ اللہ عزوجل نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا ۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا ۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ ، اس کے معانی بھی محفوظ ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ ، اس کا ماحول بھی محفوظ ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ ۔ غرضیکہ اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت کےلیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے ، سب اختیار فرمائے ، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہو گئی ۔ الحمدللہ آج ساڑھے چودہ سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہو سکا ، لاکھ کوششیں کی گئیں ، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی ، اور نہ قیامت تک ہو سکتی ہے ۔ علماء راسخین نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ ہدایت دینے کے بعد ان کے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرے اور ہدایت یافتہ ہونے اور دلوں میں کجی نہ ہونے کا ثمرہ قیامت کے دن ظاہر ہوگا اس لیے انہوں نے کہا کہ وہ قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ‘ اور جزاء اور سزا کے جاری ہونے کےلیے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ‘ اور قیامت کے دن پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا ۔ ” بیشک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا “ اللہ تعالیٰ صالحین کو نیک کاموں پر انعام دینے کی جو خبر دی ہے اس کو وعد کہتے ہیں اور فساق مومنین کو برے اعمال پر سزا دینے کی جو خبر دی ہے اس کو وعید کہتے ہیں ‘ اس پر اتفاق ہے کہ خلفِ وعد محال ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں سے جو ثواب عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے وہ اس کے خلاف نہیں کرے گا ‘ کیونکہ کریم جب کسی انعام کا وعدہ کرلے تو اس کے خلاف نہیں کرتا ‘ اور اگر وہ اس وعدہ کے خلاف کرے تو یہ اس کا عیب شمار کیا جاتا ہے اور اللہ عیب سے پاک ہے ‘ اور اگر مجرم کو سزا کی خبر دے اور پھر اس کو سزا نہ دے اور اپنی وعید کے خلاف کرے تو اس پر اس کی مدح کی جاتی ہے اور اسے اس کے محاسن میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کےلیے خلفِ وعید جائز ہے ” مثلاً اللہ تعالیٰ نے سود خوروں ‘ قاتلوں اور جھوٹوں پر عذاب کی وعید سنائی ہے لیکن اس کے باوجود یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وعید کے خلاف کرے اور کسی مسلمان کو ان گناہوں پر عذاب نہ دے ۔ اب یہ سوال ہوگا کہ اگر خلفِ وعید کو مان لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے کلام کا کاذب ہونا لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ کے کلام کا کاذب ہونا محال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ خلفِ وعید سے کذب لازم نہیں آتا کیونکہ جن آیات میں عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے وہ عدمِ عفو کے ساتھ مقید ہیں یعنی اللہ تعالیٰ قاتل اور سود خور کو دوزخ کا عذاب دے گا بہ شرطِ کہ اس کو معاف نہ کرے اس لیے اگر اللہ تعالیٰ نے فساق مومنین کو معاف کردیا اور عذاب نہیں دیا تو اس کا کلام جھوٹا نہیں ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے اور اس کی صفات کثیر ہیں ۔ جب اس کی تعبیر میں صرف اس کی ذات کا لحاظ ہو تو اس کو واحد کے صغیے کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے اور جب ذات مع صفات ملحوظ ہو تو اس کی جمع کے صیغے کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے اسی طرح تعبیر کرنے والے کے ذہن میں اگر اس کی واحدانیت کا غلبہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو واحد کے صیغے کے ساتھ تعبیر کرتا ہے اور اگر اس کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کے ادب اور احترام کا غلبہ ہو تو وہ اس کو جمع کے صیغے کو ساتھ تعبیر کرتا ہے یہ دونوں تعبیریں جائز ہیں اور ان کی تعبیر کا مدار تعبیر کرنے والے کی اس وقت کی کیفیت پر ہے۔ اس آیت میں قرآن مجید کی حفاظت مراد ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ؟ اس آیت میں لہ کی ضمیر کی مرجع میں دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ ضمیر الذکر کی طرف لوٹتی ہے اس صوسرت میں معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور دوسرا قول یہ ضمیر منزل علیہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف راجع ہے اب اس طرح ہے کہ بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۔ (سورہ المائد : ٦٧) ، اور اللہ آپ لوگوں سے محفوظ رکھے گا ۔ لیکن نظم قرآن کے زیادہ موافق اور اس مقام کے زیادہ مناسب یہ ہے کہ یہ ضمیر الذکر کی طرف راجع ہے یعنی بیشک ہم قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی محافظ ہیں ۔ قرآن کی حفاظت کے ظاہر اسباب ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید کا محافظ ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو جمع کرنے اور اس کو مرتب کرنے میں کیوں مشغول ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حفاظت کے ظاہری اسباب مقرر فرمائے تھے ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید کو لکھ کر محفوظ کیا گیا اور اس کی اشاعت کی گئی اور جتنی اس کی اشاعت کی گئی تھی اتنی دنیا کسی کتاب کی اشاعت نہیں گئی اور قرآن مجید کو حفظ کیا گیا اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو اول سے آخر تک پورا حفظ کیا جاتا ہے اور ہر دور میں میں دنیا میں اس کے بیشمار حافظ ہیں اگر کسی مجلس میں کوئی پڑھنے والا کسی سورت یا کسی آیت سے ایک لفظ کم کردے یا اس میں میں اپنی طرف سے کوئی زیادہ کردے تو اسی مجلس میں لوگ بول اٹھیں گے آپ نے یہ لفظ چھوڑ دیا ہے آپ نے جو لفظ پڑھا ہے وہ قرآن مجید کا لفظ نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن مجید کا چھاپے اور اس میں کوئی لفظ کم یا زیادہ کر دے یا کسی نقطہ میں کی و پیشی کردے یا کسی زیر زبر میں تغیر کردے تو سینکڑوں آدمی آکر اس غلطی کی نشاندہی کریں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ (٤٢) اس قرآن کے پاس باطل نہیں آسکتا نہ اس کے سامنے سے نہ اس کے پیچھے سے ۔

امام عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں : ابو لحسن علی بن خلف نے اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن الکثم سے روایت ہے کہ کہ جب مامون رشید حکمران تھا تو اس نے ایک علمی مجلس منعقد کی ۔ اس مجلس میں ایک یہودی آیا جس نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور بہترین خوشبو لگائی ہوئی تھی ۔ اس نے بہت نفیس اور ادیبانہ گفتگو کی جب مجلس ختم ہو گئی تو مامون نے اس کو بلاکر پوچھا ۔ آیا تم اسرائیلی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ! مامون رشید نے کہا تم مسلمان ہو جاؤ ، میں تمہیں بہت انعام و اکرام دوں گا اور بہت بڑے منصب پر فائز کروں گا۔ اس نے کہا یہ میرا دین ہے اور میرے آباء اجداد کا دین ہے اور یہ کہہ کر چلا گیا پھر ایک سال کے بعد وہ پھر آیا اس وقت وہ مسلمان ہوچکا تھا اس فقہی مسائل پر کلام کیا اور بہت عمدہ بحث کی ۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو مامون نے اس کو بلاکر پوچھا کیا تم پچھلے سال ہماری مجلس میں نہیں تھے اس کہ کیوں نہیں مامون نے پوچھا پھر تمہارے اسلام لانے کا کیا سبب ہے ؟ اس نے کہا جب میں تمہاری مجلس سے اٹھا تو میں سوچا کہ میں ان مذہب کا امتحان لوں اور آپ نے دیکھا کہ میرا خط (لکھائی) بہت خوبصورت ہے میں پہلے تورات کا قصد کیا اور اس کے تین نسخے لکھے اور اس میں اپنی طرف سے کمی پیشی کردی میں یہودیوں کے معبد میں گیا تو انہوں نے تورات کے ہو نسخے مجھ سے خرید لیے پھر میں انجیل کا قصد کیا ، میں نے اس کے بھی تین نسخے لکھے اور ان میں کمی پیشی کردی پھر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ نسخے خرید لیے پھر میں نے قرآن مجید کا قصد کیا میں نے اس کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی پیشی کر دی پھر میں ان کو فروخت کرنے کےلیے اسلامی کتب خانہ میں گیا اور ان پر وہ نسخے پیش کیے انہوں نے ان کو پڑھا اور ان کی تحقیق کی اور جب وہ میری کی ہوئی زیادتی اور کمی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کردیئے اور ان کو نہیں خریدا اس سے میں نے یہ جان لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تغیر نہیں کیا جا سکتا تو یہ میرے اسلام لانے کا سبب ہے ! یحییٰ بن اکثم نے کہا یہ خبر سچی ہے اور قرآن مجید میں اس کی تصدیق ہے انہوں نے کہ اللہ تعالیٰ ن تورات اور انجیل کی حفاظت ان کی علماء کے سپرد کردی ہے فرمایا : إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ ۔ (سورہ المائد : ٤٤) ، بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے جس کے مطابق انبیاء فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے تابع فرمان تھے ان لوگوں کا (فیصلہ کرتے رہے) جو یہودی تھے اور (اسی کے مطابق) اللہ والے اور علماء (فیصلہ کرتے رہے) کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے۔ اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ یہود اور نصارا کو تورات اور انجیل کا محافظ بنادیا گیا تھا اور قرآن مجید کا محافظ خود اللہ تعالیٰ جیسا کہ اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر : 9) بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (تفسیر الجامع الاحکام القرآن جز 10 صفحہ 7 ۔ 6 مطبو عہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ،چشتی)

ہمارے پاس تورات کا 1927 کا ایڈیشن ہے ۔ اس میں ہے ہزاروں قدسیوں کے ساتھ آیا صفحہ 192 اور موجودہ ایڈیشن میں ہے لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا۔ ص 184 ۔ محافظ الشئی لنفسہ کا جواب ۔ اس آیت پر حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرہ العزیز نے ایک اشکال قائم کیا ہے جس کا مولانا فیض احمد صاحب نے ان کے سوانح میں ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں : ایک مولوی صاحب نے مناظرانہ رنگ میں سوال کیا کہ قرآن مجید فرماتا ہے میں کتب سابقہ کا مصداق ہوں مصدقالما معکم) مگر کتب سابقہ بھی کلام الہی ہیں اور قرآن کریم جس سے تصدیق الشئی لنفسہ کا اشکال لازم آتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا : قرآن مجید اور کتبِ سابقہ میں تو زمان و مکان اور لغت اور محلِ نزول کا اختلاف موجود ہے آپ کےلیے موجب اشکال تو یہ چیز ہونی چاہیے کہ قرآن کی محافظت الہیہ کی مثبت ایک ہی آیت : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر : 9)۔(ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں وراد ہوئی ہے جو اپنی محافظت کی دلیل بھی آپ ہے پس فرائیے آپ کے اعتراض کی روشنی میں اس محافظتہ الشئی لنفسہ کے اشکال کا حل کیا ہوگا ؟ (مہرِ منیر صفحہ 460 مطبوعہ پاکستان انٹر نیشنل پر نٹرز لاہور،چشتی)

فقیر کے خیال میں اس اشکال کا یہ جواب ہے کہ الذکر سے مراد قرآن مجید ہے اور الذکر میں اجمالی طور پر پورا قرآن مجید موجود ہے اور پورے قرآن میں یہ آیت یعنی إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر : 9) یہ بھی موجود ہے لہٰذا یہ آیت تفصیلی طور پر محافظ یا محافظت کی مثبت اور دلیل ہے اور اذکر کے ضمن میں اجمالی طور پر جو یہ آیت ہے وہ محفوظ ہے یعنی پورے قرآن کے ضمن میں جس کی حافظ کی گئی ہے لہٰذا اجمال اور تفصیل کے فرق کی وجہ سے محافظتہ الشئی لنفسہ لازم نہیں آئی چونکہ وہ شخص حضرت سے مناظرانہ گفتگو کر رہا تھا اس لیے آپ نے خود اس کا جواب نہیں ذکر فرمایا ۔ قرآن مجید کی حفاظت کا ظاہر سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کی حفاظت کا ظاہری سبب اس کا بہت زیادہ چھپنا اور بہت زیادہ حفظ کرنا اور قرآن مجید کو لوگ تراویح میں قرآن مجید سنانے یا سننے میں حفظ کرتے ہیں اور جو لوگ تراویح میں قرآن مجید سننا یا سنانا چھوڑ دیتے ہیں انہیں قران مجید بھول جاتا ہے ہے اور جس فرقے کے لوگ تراویح نہیں بڑھتے ان میں کوئی حافظ قرآن بھی نہیں ہوتا اور قرآن مجید کو مصحف میں لکھ کر محفوظ کرنے کا مشورہ حضرت عمر نے دیا تھا اور تراویح میں قرآن مجید پڑھ کر سنانے کا طریقہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا حقیقی محافظ تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس کی حفاظت کے ظاہر سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

یاد رہے کہ تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ قرآنِ کریم میں  سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے ، دوسری کسی کتاب کو یہ بات مُیَسّر نہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ حفاظت کئی طرح سے ہے : ⬇

(1) ۔ قرآنِ کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں  مل ہی نہ سکے ۔

(2) ۔ اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو ۔

(3) ۔ ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجر الآیۃ: ۹، ۳ / ۹۵،چشتی)(تفسیر تفسیرکبیر سورہ الحجر الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۲۳)

تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی نے قرآن کے نور کو بجھانے ، اس میں کمی زیادتی ، تحریف اور تبدیلی کرنے یا اس کے حروف میں  شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کی بھی تو وہ کامیاب نہ سکا ۔ قَرَامِطَہْ کے مُلحد اور گمراہ لوگ سینکڑوں سال تک اپنے تمام تر مکر ، دھوکے اور قوتیں صرف کرنے کے باوجود قرآن کے نور کو تھوڑا سا بھی بجھانے پر قادر نہ ہو سکے ، اس کے کلام میں ذرا سی بھی تبدیلی کر سکے نہ ہی اس کے حروف میں  سے کسی ایک حرف کے بارے میں مسلمانوں  کو شک و شبہ میں ڈال سکے ۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں اہلِ بیان،علمِ لسان کے ماہرین ، ائمہ بلاغت ، کلام کے شہسوار اور کامل اساتذہ موجود رہے ، یونہی ہر زمانے میں بکثرت ملحدین اور دین و شریعت کے دشمن ہر وقت قرآنِ عظیم کی مخالفت پر تیار رہے مگر ان میں  سے کوئی بھی اس مقدس کلام پر اثر انداز نہ ہو سکا اور کوئی ایک بھی قرآنِ حکیم جیسا کلام نہ لا سکا اور نہ ہی وہ کسی آیتِ قرآنی پر صحیح اِعتراض کر سکا ۔

آخر میں یہ واقعہ دوبارہ پڑھیں : حضرت یحییٰ بن اَکثَم  علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں ’’ مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس ، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی ۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا ۔ جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا ۔ مامون رشید نے اس سے پوچھا ’’ تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا ؟ اس نے جواب دیا ’’ جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا ، چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی ، اس کے بعد میں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں  نسخے خرید لیے ۔ پھر میں  نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی ۔ جب میں  یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں  گیا تو انہوں نے  بھی وہ نسخے خرید لیے ۔ پھر میں  نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی ۔ جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ان نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں  نے وہ نسخے مجھے واپس کر دیے اور خریدنے سے انکار کر دیا ۔ اس سے میری سمجھ میں  آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں  کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ۔ اس وجہ سے میں  نے اسلام قبول کرلیا ۔ (تفسیر قرطبی سورہ الحجر الآیۃ: ۹، ۵ / ۶، الجزء العاشر) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔