شانِ صدیق اکبر مولا علی و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں کتب شیعہ و کُتُبِ اہلسنّت کی روشنی میں حصّہ چہارم
ابنِ سعید نے زہری سے روایت کیا : رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ سے فرمایا:تم نے حضرت ابوبکر(رَضِیَ اللہُ عنہ) کی شان میں بھی کچھ کہا ہے؟انہوں نے عرض کی: جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا:سناؤ!تو حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ اشعار پڑھے : و ثانی اثنین فی الغارِ المنیف قد طاف عدو بہ اذ صعد الجبلا یعنی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت رسالتِ مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار ہیں۔ جب آپ پہاڑ پر چڑھتے ہیں تو دشمن بھاگ جاتا ہے۔وکان حب رسولُ اللّٰہِ قد علموا من البریہ لم یعدل بہ رجلا تمام لوگ جانتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان کو کتنی محبت ہے ۔ آپ کو اتنی محبت کسی سے بھی نہیں ہوئی۔ان اشعار کو سُن کر رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا اور حضرت انس نے فرمایا: اے حسان! تم نے سچ کہا ۔(تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 168)
ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت مولا علی ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا:آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:میں نے رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : پُلِ صراط سے وہی گزرے گا جس کو علیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے ۔ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرا دئیے اور کہنے لگے : میں آپ کو رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں ؟ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اُسی کو ملے گا ، جو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا ۔ (الریاض النضرہ،1/201)
حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کےمزید ارشاداتِ مبارکہ
جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے افضل کہے تو میں اس کو مفتری کی(یعنی بہتان لگانے والے کو دی جانے والی سزا)دوں گا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،30/383)
اس اُمّت میں نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے بہتر (حضرت) ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(تاریخِ ابن ِعساکر،30/346)
امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : یہ قول حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ سے تواتر سے منقول ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص 34)
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ شکر کرنے والوں اور اللہ پاک کے پسندیدہ بندوں کے امین ہیں، آپ ان سب سے زیادہ شکر کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ پاک کے پسندیدہ ہیں۔(تفسیرطبری، پ4، ال ِعمران الآیۃ: 3،144/455)
ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(مسند بزار3/14، حدیث: 761)
یاد رکھو! وہ(یعنی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ) انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار اور اپنے مال سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں۔(الریاض النضرۃ،1/138)
ہم سب صحابہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/138)
حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔(معجم کبیر ،1/55،حدیث:14)
حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں : بلا شبہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سےسبقت لے گئے : (1)انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا(2)مجھ سے پہلے ہجرت کی(3)رسولِ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کےیارِ غار ہونے کا شرف پایا اور (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔(الریاض النضرۃ، 89/1، تاریخ ابنِ عساکر، 291/30)
حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:میں تو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔(تاریخِ ابن عساکر ، 383/30، کنز العمال، جز:12، 6/224، حدیث:35631)
حضرت علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جس نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کی،قیامت کے دن وہ ان ہی کے ساتھ کھڑا ہوگااور جہا ں وہ تشریف لے جائیں گے وہ بھی ان ہی کے ساتھ ساتھ جائے گا۔(کنزالعمال، جز:13، 6/7،حدیث:36096،چشتی)(تاریخ ابن عساکر، 128/39)
حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اس اُمت میں اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کو جمع کرنا شروع کیا ،نیز رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔(جمع الجوامع، 1/39، حدیث: 158)
ایک بارحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا:پُلِ صراط سے وہ ہی گزرے گا جس کو علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے۔ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرادئیے اور عرض کرنے لگے: کیا میں آپ کو رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں؟ رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کو ملے گا جو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا۔(الریاض النضرۃ،1/207)
حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص مجھے حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے گا میں اس کو مُفتری(یعنی بہتان لگانے والے) کی سزا دوں گا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3/99، تاریخِ ابنِ عساکر، 365/44)
حضرت نزال بن سبرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:ہم لوگ حضرت علی المرتضیٰ، شیرِخدا رَضِیَ اللہُ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور وہ خوش طبعی فرما رہے تھے۔ ہم نے ان سے عرض کی:اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمایئے۔فرمایا: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں۔ہم نے عرض کی: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کے بارے میں بتایئے۔فرمایا : ان کے تو کیا کہنے!یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ پاک نے جبریلِ امین اور پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان سے صدیق رکھا ہے ۔ (مستدرک،4/4،حدیث: 4462)
حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:غزوہ ٔبدر کے روز ہم نے دو عالم کے مالک ومختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک سائبان بنایا، تا کہ کوئی کافر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے، اللہ پاک کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا،صرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے ،پھر کسی کافر کی جرأت نہ ہو سکی کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قریب بھی بھٹکے۔اس لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(کنزالعمال، الجزء: 12، 6/ 235،حدیث: 35685،چشتی)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کا شجاعت و بہادری میں کوئی ثانی نہیں، آپ رتبہ و مقام میں تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم میں سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ آپ کی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت اور احترام کی کوئی مثال نہیں۔ آپ ہر طرح کے مصائب میں رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔ہجرت کے رفیقِ سفر:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے :حضرت جبریلِ امین علیہِ السَّلام نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ عرض کی:یا رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہجرت کریں گے اور وہ صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں۔وصال شریف:عاشقِ اکبر حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ 22 جمادی الاخریٰ،سن 13 ہجری،بروز پیر شریف،63سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔(سنن کبری للبھیقی،3/557، حدیث: 6663) بوقتِ وفات زبانِ مبارک پر آخری کلمات یہ تھے:اے پروردگار!مجھے اسلام پر موت عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ (الریاض النضرۃ، 1/258)
حضرت علی، حیدرِ کرار رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:خیرُ ھٰذہ الاُمَّۃِ بعد نبیھا ابو بکر ثم عمریعنی اس اُمّت میں،اس اُمّت کے نبی کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر ہیں، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ۔(مسندامام احمد ، 1/ 106، مقام صدیقِ اکبر،ص 59)
معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ بھی حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے سب سے افضل ہونے کے قائل تھے۔
حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مجھے پتا چلا ہے کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے رہے ہیں!اگر میں اس معاملے میں مقدم ہوں تو سزا کا حق دار ہوں،تقدیم سے پہلے مجھے سزا نا پسند ہے،(جس نے مجھے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی،جس نے ایسا کہا)وہ جھوٹا ہے۔اس کو وہی سزا دی جائے گی جو جھوٹے کو دی جاتی ہے۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے بہتر حضرت ابوبکر پھر عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(مقامِ صدیقِ اکبر،ص71- فضائلِ صحابہ لامام احمد ،1/633)
معلوم ہوا!جب حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی گئی تو آپ کا منبر پر جلوہ افروز ہو کر غم و غصّے کا اعلان کرنا کوئی عام بات نہ تھی۔آپ کا مبارک انداز بتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ کئی مسائل سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ نہ صرف آپ نے افضل کہنے والوں کا ردّ فرمایا، بلکہ انہیں جھوٹا قرار دے کر سزا کا حق دار بھی بتایا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی،حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ اپنی زبانِ مبارک سے شانِ صدیق بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد زیادہ حق دار ہیں،وہ غار کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔نیز ہم ان کی بزرگی اور بڑائی کے قائل ہیں۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں انہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔(مستدرک ، 3/ 64-سنن کبری للبیہقی، 8/151-مقام صدیقِ اکبر،ص 76)
معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ والہانہ محبت بھرے انداز میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی مدح و ستائش،عظمت و رفعت،منزلت و مر تبت اور امتیازی خصوصیات کو بیان فرمایا،نیز اپنے کلام کو مضبوط کیا کہ انکار کی گنجائش نہ رہی ۔
محترم قارٸینِ کرام ! آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے ہیں کچھ اہلبیت اطہار کی شان میں اپنی زبانیں دراز کر رہے ہیں تو کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں گستاخیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اگر اہل بیت اطہار کو کشتی سے تشبیہ دی گئی ہے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ستاروں سے کہ لوگ کشتی میں بیٹھ کر ستاروں ہی کی مدد سے درست راہ کی طرف رہنمائی پاتے ہیں۔انہی چمکتے ستاروں میں سب سے روشن ستارے، محبوب خدا کے پیارے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر اہلسنت وجماعت کا اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں ۔ آپ کی عظمت و شان، قرآن و احادیث میں وارد ہے اور ان احادیث میں وہ بھی ہیں جن کے راوی مولی مشکل کشا حضرت علی المرتضی کرم الله وجہہ الکریم ہیں اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات بھی ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دم بھرنے والا ،یار غار عتیق من النار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت و رفعت شان کا انکار نہ کر سکے گا ۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایات اور آپ کے ارشادات بیان کرنے سے پہلے شان صدیق رضی اللہ عنہ میں وارد قرآن پاک کی ایک آیت پیش کی جا رہی ہے جس کی تفسیر و تشریح بیان کرنے والے خود فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی (ف۸۱) یہی ڈر والے ہیں۔(پ 24،زمر 33)
آیت کی تشریح بزبان حضرت علی رضی اللہ عنہ : والذي جاء بالحق محمد و صدق به ابو بكر الصديق۔ترجمہ:وہ جو سچ لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں۔ (تفسیر الطبری، تاریخ الخلفاء للسیوطی، صفحہ 42،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہمراہ تھا کہ اچانک حضرت ابو بکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما آتے نظر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا : ھذان سیدا کھول اھل الجنة من الاولین و الآخرین الا النبیین والمرسلین، لا تخبرھما یا علي۔ ترجمہ:یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی! تم انہیں نہ بتانا۔(سنن الترمذی ، 6/ 46)
اس حدیث پر جب امام عشق و محبت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کی نظر پڑی تو آپ کے قلم پر سکون طاری رہے یہ کیونکر ممکن ہے، پھر تحریک قلم فرماکر یوں لکھتے ہیں : ⬇
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں
اے مُرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا : من یھاجر معي؟، قال:ابو بکر، و ھو الصدیق۔ یعنی ہجرت میں میرے ساتھ کون ہوگا ؟، تو انہوں نے کہا : ابو بکر اور وہ صدیق ہیں۔(تاريخ دمشق، 30/ 73)
سایۂ مصطفیٰ مایۂ اِصطَفیٰ
عِزّ و نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اُس اَفْضَلُ الْخَلْقْ بَعْدَ الرُّسُل
ثانیَ اثْنَیْن ہجرت پہ لاکھوں سلام
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اول من اسلم من الرجال ابو بکر۔ ترجمہ : مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 30)
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : والذي نفسي بيده ما استبقنا إلى خير قط إلا سبقنا إليه أبو بكر۔ ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں نے جس خیر کے کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سبقت لے گئے۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 50)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هل أنا إلا حسنة من حسنات أبي بكر۔ ترجمہ: میں تو ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔( تاريخ دمشق لابن عساكر، 30/383)
مولی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: خیر ھذہ الامة بعد نبیها ابو بکر و عمر۔ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ساری امت سے بہتر ہیں۔(مسند احمد ، 2/ 6)
حضرت علی رضى الله عنہ اللہ پاک کے اس فرمان : وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)(ترجمۂ کنزُ الایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنھوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں) کے بارے میں فرماتے ہیں :وہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر رضی اللہُ عنہ ہیں۔(تفسير طبری، 20/205،204،چشتی)
پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضى الله عنہ کی شان تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے آپ کو صدیق نام عطا کیا، چنانچہ ابو یحییٰ کہتے ہیں: میں نے بارہا حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے سنا کہ ”بے شک اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔(تاريخ الخلفاء صفحہ 103)
حضرت علی رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک ابو بکر پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا، اور دار الہجرت (مدینۂ منوّرہ) تک پہنچایا، اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کرایا۔(تاريخ دمشق، 30/63)
حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر تھا اچانک ابو بکر و عمر رضی اللہُ عنہما آتے نظر آئے، تو سیدُ الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں فرمایا: هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالمُرْسَلِينَ، يَا عَلِيُّ لَا تُخْبِرْهُمَا ترجمہ: یہ دونوں انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام کے علاوہ تمام اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں، اے علی ان دونوں کو اس کی خبر نہ کرنا۔(ترمذی، 6/46)
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں
اے مُرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
اسی طرح حضرت سیدنا اِصبغ بن نباتہ رضى الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے امیرُ المؤمنین حضرت علیُّ المرتضی شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ سے استفسار کیا : اس اُمّت میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا : اس اُمّت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی، پھر میں۔(یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہُ عنہ)۔(الرياض النضرة، 1/57)
اللہ پاک ہمیں تمام صحابہ و اہلِ بیت علیہمُ الرّضوان کا ادب و احترام عطا فرمائے اور ان کی سچی پکی محبت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا:” اول من اسلم من الرجال ابوبکر “۔یعنی سب سے پہلے مردوں میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے ۔(تاریخ الخلفا،ص 23)
ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے اسلام کو جہاں تک ہو مخفی رکھتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی یہی حکم تھا، لیکن جب مسلمانوں کی تعداد تقریباً 38 ہو گئی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اسلام کا اعلان فرمایا: اسد الله الغالب، حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرماتے ہیں:” لوگ جب اپنے ایمان کو چھپاتے تھے،مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے“۔(تاریخ الخلفا صفحہ 25،چشتی)
حضرت سیدنا یحییٰ بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کو الله کی قسم اٹھا کر کہتے ہوے سنا کہ” انزل اسم ابی بکر من السماء الصدیق، یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق آسمان سے اتارا گیا“۔(المعجم الکبیر، نسبۃابی بکر الصدیق واسمہ،1/55، الحدیث :14)
ہجرت کی خوشخبری حضرت جبریل علیہ السلام کی زبان سے: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے ساتھ ابوبکر ہجرت کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔(الریاض النصرۃ،1/104)
فاتح خیبر، شیر خدا، علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت کو خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے لوگو! تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (کنز العمال،باب فضائل الصحابۃ، فضل الصدیق،6/235،الحدیث:3569)
حضرت موسیٰ بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہم سب صحابہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرۃ،1/338)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم خلافتِ صدیق اکبر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: " غور سے سن لو ! ہم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا ہے "۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ، امر النبی لابی بکر بامامۃ الناس فی الصلاۃ، 4/27،الحدیث : 4519)
حضرت علی رضی الله عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔(تاریخ مدینہ دمشق، 30/383)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا : عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری محبت کا دعویٰ کریں گے اور ہماری گروہ میں ہونا ظاہر کریں گے، وہ لوگ اللہ کے شریر بندوں میں سے ہیں جو حضرت سیدنا ابوبکر و عمر کو برا کہتے ہیں۔(تاریخ مدینہ دمشق، 26/343،چشتی)
بخاری شریف میں ہے کہ محمد بن حنفیہ نے اپنے والد حضرت علی (کرم الله وجہہ الکریم) سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ابوبکر صدیق رضی الله عنہ (بخاری شریف 3671 )
اور ایک روایت میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ جس کو بھی میں دیکھوں کہ وہ مجھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الله عنھما پر فضیلت دے رہا ہے تو وہ مفتری (جھوٹ گڑھنے والا ) ہے اور میں اسے مفتری کی حد لگاؤں گا۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق ، 30 / 383 )
حضرت علی( کرم الله وجہہ الکریم) حضرت ابوبکر صدیق کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مردوں میں سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر مشرف بہ اسلام ہوئے۔(تاریخ الخلفاء مکتبہ دار ابن حزم ،ص 30 )
ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی نے لوگوں سے پوچھا بتاؤ کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ یہ بتاؤ کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے آپ ہی ارشاد فرمائیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر میں ہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان (چھونپڑ) تیار کیا تاکہ کوئی کافر آپ پر حملہ نہ کرسکے۔ الله کی قسم ہم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ گیا ۔مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ اپنی تلوار لہرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے۔ جو کوئی بھی حملے کے لئے آتا آپ اس پر ٹوٹ پڑتے۔ اس لئے آپ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگوں بتاؤ کہ آل فرعون کا مؤمن اچھا ہے یا ابوبکر صدیق ؟ لوگوں نے اس پر سکوت کیا تو آپ نے فرمایا : لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے؟ الله پاک کی قسم! حضرت ابوبکر کی زندگی کی ایک ساعت آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعت سے بہتر ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے ایمان کو چھپایا اور اس (ابوبکر صدیق) نے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا۔ (اخرجہ البزار فی مسنده)
ابو یحییٰ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا تین دفعہ میں نے حضرت علی کو یہ کہتے سنا ہے کہ الله پاک نے ابوبکر صدیق کا نام اپنے نبی کی زبان پر صدیق رکھا ہے۔(تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 28)
حضرت علی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابو بکر ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع فرمایا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/148)
اسید بن صفوان سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس آیت (وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمہ کنز العرفان : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔) کی تفسیر میں فرمایا : کہ وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور وَ صَدَّقَ بِهٖۤ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 42،چشتی)
ابن عساکر روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت ابو بکر صدیق کو کفنایا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ مجھے کوئی شخص جو اپنے نامہ اعمال لیکر الله پاک کو ملے اس مکفون سے زیادہ محبوب نہیں۔
طبرانی اوسط میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا اس خدائے پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس نیکی میں سبقت لینی چاہی ہے اس میں حضرت ابو بکر صدیق ہی سبقت لے جانے والے رہے ہیں ۔
اور حضرت جحیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میری محبت اور حضرت ابوبکر و عمر رضی الله عنھما کا بغض کسی دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 59)
ابن عساکر حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور میں حاضر تھا غائب نہ تھا، اور نہ میں مریض تھا ۔ تو جس شخص کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لئیے پسند کیا ہم نے اسے اپنی دنیا کے لئیے پسند کیا ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 53)
حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق بلا شبہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی ہیں، اور آپ ثانی اثنین ہیں۔ اور ہم آپ کے شرف کو اور آپ کے خیر ہونے کو جانتے ہیں۔ بے شک آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں نماز کی امامت کا حکم دیا تھا ۔ (المستدرک للحاکم،3/70)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس نیک کام میں آگے بڑھنے کا ارادہ میں نے کیا ، ابو بکر اس کام میں مجھے سے سبقت لے گئے ۔ نیز فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سب سے بہتر ہیں کسی کے دل میں میری محبت اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا بغض یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (رسائل قادریہ صفحہ 59 مکتبہ اہل سنت فیصل آباد)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت علی مرتضیٰ (رضی الله عنہ) نے فرمایا کہ صدیق (رضی الله عنہ) کو رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) نے ہمارے دین کا امام بنا دیا تو ہم نے انہیں اسی دنیا کا امام بنا لیا ۔ (مراۃ المناجیح ، 2 / 203 مکتبہ ادبی دنیا)
سورہ زمر آیت نمبر 33 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : الذي جاء بالصدق محمد والذی صدق به أبو بكر الصديق رضي الله عنه یعنی وہ جو یہ سچ(اسلام) لے کر آئے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری کتاب التفسير /الزمر صفحہ 534)
گویا کہ حیدر کرار نے دنیا والوں کو شان یار غار بتا دیا کہ جس وقت مصطفٰی کریم علیہ السلام کو جھٹلایا جا رہا تھا اس وقت آپ کی تصدیق کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
عن محمد بن الحنفية قال: قلت: لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من؟ قال: عمر حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد (علی کرم اللہ وجہ الکریم) سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،2/522،حدیث :3671)
سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم خود شیخین کریمین رضی ﷲ عنہما کو سب سے افضل مانتے تھے لہٰذا جو علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور شیخین رضی ﷲ عنہما کو افضل نہ جانے وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔
حضرت ابو جحیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو جحیفہ ! ٹھہر جا تجھ پر افسوس ہے کیا میں تجھے یہ نہ بتاؤں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ ابو بکر و عمر ہیں اے ابو جحیفہ ! تجھ پر افسوس ہے میری محبت اور ابو بکر و عمر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور میرا بغض اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق ،44/201)
معلوم ہوا کہ حیدر کرار رضی ﷲ عنہ کا سچا محب وہی ہے جو ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے محبت کرتا ہے اور وہی سچا مومن ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ نہ تو مومن کامل ہے نہ ہی محب مولائے کائنات رضی ﷲ عنہ ہے بلکہ وہ بغض صحابہ رضی ﷲ عنہم کا مریض ہے اللہ عزو جل ہمیں جملہ فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment