رجب کے کونڈے ایصالِ ثواب ہیں حصّہ دوم
کہنے کی وجہ و احکام ۔ اہلسنت کے نزدیک جیسے ہر فاتحہ جائز ہے اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ نیاز جائز ہے اور کونڈوں کی نیاز کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نیاز کونڈوں میں رکھا جاتا ہے اس بنا پر اسے کونڈے کی نیاز کہا جاتا ہے ۔ اور چونکہ کونڈے ایصال ثواب کی ایک صورت ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بے شمار دلائل ہیں ۔ عقائد کی مسلمہ کتاب شرح عقائد نسفی میں ہے : وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم ۔ زندوں کا فوت شدہ کےلیے دعا کرنا یا صدقہ و خیرات کرنا فوت شدہ کےلیے نفع کا باعث ہے ۔ مسلمان عام طور پر 22 رجب کو بالخصوص حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایصال ثواب کےلیے ہی کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور قرآن مجید و فاتحہ وغیرہ پڑھواتے ہیں ، جس کو ” کونڈے “ کہا جاتا ہے ۔ یہ شرعاً بالکل جائز ہے ۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کونڈوں کے متعلق فرماتے ہیں : اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصالِ ثواب کےلیے پور یوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کررکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے ۔ (بہار شریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 643 مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
مزید فرماتے ہیں : امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کونڈے بھرنا اور اس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ، جائز ہے ۔اس کی اصل یہی ہے کہ ایصال ثواب جائز ہے ۔حدیث اور فقہ سے اس کا جواز ثابت ہے جب تک کسی خاص صورت میں ممانعت ثابت نہ ہو ۔ اس کو ناجائز بتانا اللہ ورسول اور شریعت پر افترا کرنا ہے ۔ (فتاوی امجدیہ جلد 1 حصہ 1 صفحہ 365 مکتبہ رضویہ کراچی)
مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رجب کے کونڈوں کے بارے فرماتے ہیں :’’اس مہینہ کی۲۲تاریخ کو ہندوپاک میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ، سوا پاؤشکر، سوا پاؤگھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں۔(اسلامی زندگی صفحہ نمبر 76 مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
مزید فرماتے ہیں : رجب کے مہینہ میں۲۲تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور برکت والی ہے۔مگر اس میں سے یہ قید نکال دو کہ فاتحہ کی چیز باہر نہ جائے اور لکڑی والے کا قصّہ ضرور پڑھا جائے۔(اسلامی زندگی صفحہ 80 مکتبۃ المدینہ کراچی)
امام اجل علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:اتفق اھل السنۃ علی ان الاموات ینتفعون من سعی الاحیائ۔ ہل سنت کا اسپر اتفاق ہے کہ مرنے والوں کو زندوں کے عمل سے فائدہ پہنچتا ہے ۔
مذہب حنفی کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ شریف میں ہے : ان الانسان لہ ال یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوتا او صوما او غیرھا عند اھل السنۃ والجماعۃ۔
بے شک انسان اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے شخص کو پہنچا سکتا ہے خواہ نماز کا ہو یا روزہ کا ہو یا صدقہ و خیرات وغیرھا کا یہ اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے ۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کونڈوں کی نیاز جو کہ 15یا 22 (بعض لوگ 27رجب کو بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے خاندان میں) رجب میں اما م جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کےلیے کی جاتی ہے نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحسن ہے ۔کیونکہ یہ ایک ایصالِ ثواب ہے اور ایصال ثواب کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ ہاں اس میں بعض لوگوں نے اُسی جگہ کھانے کی پابندی لگا رکھی ہے یہ بے جا اور غلط پابندی ہے جیسے گھر سے باہر کھانا نہ بھیجا جائے وغیرہ ۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایصال ثواب کے لئے پوڑیوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہیں مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام داستان عجیب ہے ، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھاتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں وہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلا کر ایصال ثواب کریں ۔
مفتی احمد یا رخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ رجب کے کونڈوں پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : رجب کے مہینہ میں 22 (15 یا 27) تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور برکت والی ہے ۔ اس سے پہلے آپ ارشادفرماتے ہیں : اس مہینہ کی 22 تاریخ کو یوپی میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ ، سوا پاؤ شکر ، سوا پاؤ گھی کی پوریاں بنا کر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں ۔ اس رسم میں صرف دوخرابیاں پیدا کردی گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ فاتحہ دلانے والوں کا عقیدہ ہوگیا ہے کہ اگر فاتحہ کے اول لکڑی والے کا قصہ نہ پڑھا جائے تو فاتحہ نہ ہوگی اور یہ پوریاں گھر سے باہر نہیں جاسکتیں اور بغیر کونڈے کے یہ فاتحہ نہیں ہوسکتی ۔ یہ سارے خیال غلط ہیں ۔
بعض لوگ اس سے منع کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے تو شیعوں نے اس کا جشن اس طرح منایا تھا کہ کونڈوں میں کھانے رات کو ایک دوسرے کے گھر بھیجے تھے (معاذ اللہ) ۔ ہمارے یہاں اہل سنت والے جو رجب کے کونڈوں کا اہتمام کرتے ہیں وہ قطعاََ سیدنا حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہاد ت کے جشن میں نہیں کرتے بلکہ وہ سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصال ثواب کے لئے کرتے ہیں ،جس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی یہ شیعوں سے مشابہت ہے ۔ اور رہی بات اختلاف تاریخ کی تو ایصال ثواب کے لئے کوئی مخصوص تاریخ متعین کرنا بھی ضروری نہیں۔چاہے ١٥ کو کریں ٢٢ کو کریں یا ٢٧ کو ،جس دن آپ کو زیادہ سہولت ہو اس دن کرلیں ۔
لیکن خیال رہے کہ کونڈوں کی نیاز کے موقع پر جو کہانی عام طور پر سنائی جاتی ہے وہ من گھڑت ہے اس کی کوئی اصل نہیں لہذا نہ وہ کہانی پڑھی جائے نہ ہی سنی جائے۔ اسی طرح بعض جگہ یہ قید لگاتے ہیں کہ یہیں بیٹھ کر کھاؤ کہیں اور نہ لے جاؤ یہ قید بھی بے جا اور عبس ہے۔ ان باتوں سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح بعض یہ قید لگاتے ہیں کہ مٹی کے برتن وغیرہ میں کونڈے کی نیاز ضروری ہے، یہ قید بھی ضروری نہیں بہر حال ان قیودات سے اجتناب کیا جائے اور خالص ایصال ثواب کو مد نظر رکھا جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دارین میں فلاح عطا فرمائے ۔ محض اس بات کی وجہ سے اس ختمِ پاک کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کہ 22 رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا دن ہے ۔ اس دن حضرت امام جعفر صاد ق رضی اللہ عنہ کا وصال نہیں ہوا ، کیونکہ اولاً تو 22 رجب کوحضرت امیر معاویہ کی تاریخ وفات قرار دینا کوئی یقینی امر نہیں ہے ، بلکہ یہ آپ کی تاریخ وفات کے بارے منقول اقوال میں سے ایک قول ہے ، کیونکہ مؤرخین کااس بات پر تو اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال شریف ساٹھ ہجری میں ہوا ، لیکن تاریخ کیا تھی ؟ اس میں چار اقوال ہیں : (1) یکم رجب المرجب (2) 4 رجب المرجب (3)15رجب المرجب (4) 22 رجب المرجب ۔
المحبر جلد 1،صفحہ21پرآپ کی تاریخ وفات یکم رجب،مشاہیر علماء ۔ الامصار جلد 1 صفحہ 86 پر 15 رجب اورتاریخ خلیفہ بن خیاط، جلد1، صفحہ226 پر 22رجب لکھی ہے جبکہ تاریخ طبری جلد5،صفحہ324پر مذکورہ تینوں اقوال اور البدایہ والنہایہ میں چارا قوال مذکورہیں ۔البدایہ والنہایہ میں ہے :’’لا خلاف أنہ رضی اللہ عنہ، توفی بدمشق فی رجب سنۃ ستین.فقال جماعۃ:لیلۃ الخمیس للنصف من رجب سنۃ ستین. وقیل:لیلۃ الخمیس لثمان بقین من رجب سنۃ ستین.قالہ ابن إسحاق وغیر واحد.وقیل:لأربع خلت من رجب.قالہ اللیث.وقال سعد بن إبراهیم:لمستهل رجب ۔ ترجمہ:اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رجب 60ہجری میں دمشق میں وصال فرمایا ۔ ایک جماعت کا قول ہے کہ جمعرات کی رات 15رجب 60ہجری کو ،ایک قول یہ ہے کہ جمعرات کی رات 22رجب 60ہجری کو ،یہ ابن اسحاق اوردیگر کا قول ہے ،ایک قول ہے کہ 4رجب کو ،یہ لیث کا قول ہے ، سعد بن ابراہیم نے کہا : یکم رجب کو ۔ (البدایہ والنهایہ ترجمۃ معاویہ جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 458 دارهجر،چشتی)
اگر بالفرض 22 رجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کا دن ہو ، تب بھی اس وجہ سے اس دن حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کرنا ممنو ع نہیں ہوسکتاکہ ایک دن میں کسی بزرگ کا انتقال ہونا ، اس دن کسی دوسرے بزرگ کو ایصال ثواب کرنے کی ممانعت کی وجہ نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح اِس دن حضرت امام جعفر کا وصال نہ ہونے سے اس دن آپ کو ایصال ثواب کرنا تو ممنوع نہیں ہوجائے گا کہ ایصال ثواب احادیث سے مطلقا ثابت ہے ۔ جب بھی کیا جائے درست ہے ۔چاہے وہ وصال کا دن ہو یا نہ ہواور یہ بات بالکل واضح ہے۔
مزید یہ کہ کونڈوں کے ختم کو بدمذہبوں کا طریقہ کہہ کر ممنوع قرار دینا اور اس سے بدمذہبوں سے تشبہ سمجھنا بھی باطل ہے ، کیونکہ کفار و بدمذہبوں سے مشابہت کے ممنوع ہونے کے بارے قاعدہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ وہی تشبہ ممنوع ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کا شعارخاص ہو یااس چیز میں فی نفسہ شرعاً کوئی حرج ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔درمختار اور بحرالرائق میں ہے:(والنظم للثانی)’’التشبیہ بأھل الکتاب لا یکرہ فی کل شیء وإنا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ھو التشبہ فیما کان مذموما وفیما یقصد بہ التشبیہ کذا ذکرہ قاضی خان فی شرح الجامع الصغیر ۔
ترجمہ : ہرچیز میں اہل کتاب سے مشابہت مکروہ نہیں جیسے ہمارے اور ان کے کھانے پینے کے طور طریقے۔ ان سے تشبہ اُن کاموں میں حرام ہے جومذموم یعنی برے ہیں یاجن میں مشابہت کاارادہ کیاجائے،امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر میں ایسے ہی ذکر فرمایا ہے ۔ (البحرالرائق ،کتاب الصلوۃ ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 11 دارالکتاب الاسلامی،چشتی)
علامہ ملا علی قاری منح الروض میں فرماتے ہیں :’’اناممنوعون من التشبیہ بالکفرۃ واھل البدعۃ المنکرۃ فی شعارھم لامنھیون عن کل بدعۃ ولوکانت مباحۃ سواء کانت من افعال اھل السنۃ اومن افعال الکفر واھل البدعۃ فالمدار علی الشعار‘‘ترجمہ: ہمیں کافروں اورمنکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیاگیاہے ،ہر بدعت میں مشابہت سے منع نہیں کیا گیا ہاں اگر وہ بدعت جو مباح کادرجہ رکھتی ہو اس سے نہیں روکاگیا خواہ وہ اہل سنت کے افعال ہوں یاکفار اوراہل بدعت کے۔ لہٰذا مدارِکارشعار ہونے پرہے۔(منح الروض الازهر علی الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ التشبہ بغیر المسلمین صفحہ 496 دارالبشائر الاسلامیہ)
یہاں پر تشبہ کی نیت کا نہ ہونا تو ظاہر ہے اور مدعی نے اس کو وجہ ممانعت بھی نہیں قرار دیا اور فی نفسہ ایصال ثواب کرنے میں شرعی طور پر کوئی قباحت بھی نہیں ۔رہی یہ بات کہ کونڈوں کا ختم دلانا بدمذہبوں کا شعار خاص ہے یا نہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان کا شعارخاص نہیں ہے ، بلکہ 22 رجب کو کونڈوں کا ختم دلانا بہت مقامات پر سنی مسلمانوں میں بھی رائج ہے ۔ہاں جو شخص اس کا دعوی کرے کہ کونڈوں کا ختم بدمذہبوں کا شعارخاص ہے ، تو اس پر لازم ہے کہ ثبوت پیش کرے ورنہ بدمذہبوں کے ہر فعل سے مشابہت ممنو ع نہیں۔سیدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نماز عید کے بعد معانقہ کے عدم جواز پربطور دلیل پیش کی ہوئی ایک عبارت ، جو اس بات پر مشتمل تھی کہ’’ نمازکے بعد مصافحہ کرنا سنت ِروافض ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : یوں ہی مصافحہ بعد نماز فجر وعصر اگر کسی وقت کے روافض نے ایجاد کیا اور خاص ان کا شعار رہا ہو، اور بدیں وجہ اس وقت علماء نے اہلسنت کے لئے اسے ناپسند رکھا ہو تو معانقہ عید کا زبردستی اسی پر قیاس کیونکر ہو جائے گا، پہلے ثبوت دیجئے کہ یہ ’’رافضیوں کا نکالا اور انہیں کا شعار خاص ہے۔‘‘ورنہ کوئی امر جائز کسی بدمذہب کے کرنے سے ناجائز یا مکروہ نہیں ہوسکتا ۔ لاکھوں باتیں ہیں جن کے کرنے میں اہلسنت وروافض بلکہ مسلمین وکفار سب شریک ہیں۔ کیا وہ اس وجہ سے ممنوع ہوجائیں گی ؟
بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ بد مذہبوں سے مشابہت اُسی امر میں ممنوع ہے جو فی نفسہٖ شرعا مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد 8 صفحہ 624 رضا فاؤنڈیشن،چشتی)
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں۔ فقہائے اسلام فرماتے ہیں : الاصل فی هذا الاباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او صدقه او غيرها عند اهل السنه والجماعه، لما روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و الاخر عن امته ممن اقربو حدانية الله تعالیٰ ۔ (فتح القدير جلد 3 صفحہ 65)
ترجمہ : اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے ۔
کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہٰذا کار ثواب ہے ۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں ۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں ، اس جگہ کھائیں ۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے ۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور ، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے ۔ جو چاہے کھائے ۔ سب کو دیں ، ثواب مل جائے گا ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment