اللہ عزوجل نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل کی یہ سنت ہے کہ وہ ایسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت کو خود ہی نہ بدلنا چاہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ-وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗۚ-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ(11)
ترجمہ : آدمی کے لیے بدلی والے فرشتے ہیں اس کے آگے اورپیچھے کہ بحکمِ خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں اور جب اللہ کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ۔
آج اگر ہم خود کو دیکھیں تو یہی وجہ ہے کہ ہمارے حالات نہیں بدلتے کیونکہ ہم خود ہی نہیں بدلنا چاہتے ۔ آج اس معاشرے میں اگر کوئی ایک دھوکہ دے تو اسکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی وہی شروع کر دیتے ، چوری کرنا دوسروں کا حق مارنا ، مجبوری کا فائدہ اٹھا کر پیسے اینٹھنا ۔ غرض یہ چیز ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے کہ جو جیسے چاہتا ہے بس اپنا فائدہ ہو جس میں وہی کرتا ہے اور لوگ اس کو روکنے کے بجائے وہی کام شروع کر دیتے ۔ ہم یہ تو چاہتے کہ ہمارے حالات بدل جائیں مگر ہم خود بدلنا نہیں چاہتے ۔ اس قوم کے بگاڑ میں اس قوم کا ہی اپنا ہاتھ ہے ۔ ہم اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی بے ایمانی اور دھوکہ دہی کرنا نہیں چھوڑتے ۔ ہر برائی کی جڑ خود ہم سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔ اگر کسی بھی برائی کو ختم کرنا ہے تو خود سے شروع کرنا ہوگا نہ کہ دوسروں سے ۔ ہمارے معاشرے میں منافقت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جو غلط کام ہم خود کر رہے ہوتے اسی پر دوسروں کو کھلم کھلا لعنت ملامت کرتے ہیں آخر ہم دوسروں پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان کیوں نہیں جھانکتے ۔ لوگوں کو جج کرنا ہمیں خوب آتا ہے مگر ہر انسان خود کو کیوں اسی مقام پر نہیں رکھتا ؟ پھر ہمیں اپنے معاشرے سے ڈھیروں شکایتیں ہیں مگر ان شکایتوں کو ہم خود میں سے دور کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ دوسروں کو ان کے غلط کام پر ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرنا خوب آتا ہے مگر ہماری اپنی باری کبھی آتی ہی نہیں ۔ آج اگر ہمیں اپنے معاشرے سے چھوٹی برائیوں سے لیکر بڑی برائیوں تک کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں خود سے ہی شروع کرنا ہوگا جو کام اگر کوئی دوسرا کرے اور ہمیں برا لگے دیکھیے کہ وہی کام کہیں آپ خود بھی تو نہیں کرتے ؟ اگر کرتے ہیں تو پہلے خود کے اندر سے اس برائی کو دور کریں تبھی وہ برائی باقی معاشرے سے بھی. دور ہوگی وگرنہ کبھی نہیں ۔ ہر برائی کو دور کرنے کی ابتدا خود سے کریں پہلے خود کو بدلیں اسکے بعد ہی حالات بدلیں ورنہ حالات بدل جانا ایک خواب ہی رہے گا ۔
آج ہمارے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لے چکی ہیں ۔ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ وہ تعلیمات جو اللہ اور اسکے رسول نے ہمیں دیں انہیں تو ہم بس کتابوں میں پڑھنا پسند کرتے ہیں اسکے آگے اپنی زندگی میں اسے لاگو کرنے کا تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔وہ تعلیمات وہ زندگیوں کے نمونے ہمارے لیے مشعل راہ تھے. مگر ہم نے ان سب کو بس کتابوں اور تاریخ کا حصہ بناکر رکھدیا جبکہ ان ساری تعلیمات کو آج ہماری زندگیوں کا حصہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔جو ہمارے لیے مشعل راہ تھا، اسے تو ہم نے پس پشت ڈال دیا پھر جب ہم ناکام ہیں تو اسکا، سارا قصور وار ہم دوسروں کو سمجھتے ہیں جبکہ قصور وار تو ہم ہی ہیں ۔ ہم اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے ۔دھوکہ دینا نہیں چھوڑتے توبڑے معاملات میں ہم کیسے سچ بول پائیں گے ؟
آج اگر کوئی اور بھی سچائی پہ گامزن ہوتا ہے تو ہم اسکا ساتھ تک نہیں دے پاتے یہی وجہ یے کہ حق کیا ہے ہم یہ جان ہی نہیں پاتے ۔ ہر چمکتی چیز کی طرف ہم دوڑتے ہیں ہر گناہ کی طرف ہم بھاگے بھاگے جاتے ہیں ۔ ہم اپنا مقصد زندگی تو بھول ہی گئے ۔ ہماری زندگی کا مقصد پیسے کمانا ، نام کمانا چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو بس یہی رہ گیا ہے ۔۔ اچھائی اور برائی کی تمیز کو الماری میں لاک کرچکے ہیں جسکی چابی بھی ہم نے جان بوجھ کر کھودی ہے ۔ ہماری زندگی کا مقصد تو اصل میں اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنا تھا جس کیلیے ہمیں اس دنیا میں آزمائش کیلیے بھیجا گیا ۔۔۔مگر ہم نے اپنا مقصد زندگی بھلادیا اور اس زندگی کو دائمی سمجھ لیا ہے ۔ اس معاشرے کو بدلنے کیلیے خود سے آغاز کیجیے کہ جب تک آپ خود کو بدلنا نہیں چاہیں گے تو ہمارا حال یہی رہے گا
بقول شاعر : ⬇
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کو بدلنے کا
معقبات کے متعدد محامل معقبات کے معنی ہیں : ایک دسرے کے پیچھے آنے والے اور جمہور مفسرین کے نز دیک اس سے مراد رات اور دن کے فرشتے ہیں، رات کے فرشتے آتے ہیں تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آگے پیچھے آتے ہیں اور فجر کی نماز میں عصر کی نماز میں جمع ہوجاتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب پوچھتا ہے حالا ن کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جب ان کو چھو ڑا تو وہ نماز پڑھ رہا تھے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے ۔ (صحیح البخاری رقم الحیث :555،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث :632)(سنن النسائی رقم الحدیث :487 ۔ 486)(الموطا رقم الحدیث :413)
اس آیت کی دو سری تفسیر یہ ہے کہ معقبات سے مراد وہ فرشتہ ہیں جو انسان کے دائیں بائیں ہوتے ہیں ۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بتاء یے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اور یہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر (حاکم) ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب تم ایک برائی کرتے ہو تو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پو چھتا ہے، میں لکھ لوں ؟ وہ کہتا ہے نہیں ! ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے لے ! جب وہ تین مرتبہ پو چھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو ! ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اور یہ اللہ سے کس قدر کم حیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ۔ (سورہ ق : ١٨) وہ زبان سے جو بات بھی بات کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اور دو فرشتے تمہارے سامنے اور تمہاری پیچھے سے ہوتے ہیں اللہ فرماتا ہے لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۔ (سورہ الرعد : ١١) ۔ اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جوں اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اس کی حفا ظت کرتے ہیں اور ایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہو تو وہ تمہیں سر بلند کرتا ہے اور جب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہو تو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے۔ اور دو فرشتے تمہارے ہو نٹوں پر ہیں وہ رتمہارے لیے صرف محمد صلوات کی حفا ظت کرتے ہیں اور ایک فرشتہ تمہاتے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اور دو فرشتے تمہاری آنکھوں پر مقرر ہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتے پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتوں کے علاوہ ہیں، ہر آدمی پر بیس فرشتے مقرر ہیں اور ابلیس دن میں ہوتا ہے اور اس کی اولاد رات میں ہوتی ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15352،چشتی)(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 557 ۔ 558)(الدرالمنثور جلد 4 صفحہ 615 ۔ 616)
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو نیند اور بیداری میں اس کی جنابت، انسانوں اور حشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوا اس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔ (جامع البیان رقمالحیث 15369)
ابو مجاز بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مراد (ایک جگہ) سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ اس وقت نماز پرھ رہے تھے۔ اس نے کہا آپ اپنی حفاظت کرلیں کیونکہ مراد کے لوگ آپ کے قتل کی سازش کر رہے ہیں حضرت علی نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہیں جو ان مصاء ب سے تمہاری حفا ظت کرتے ہیں جو تمہارے لیے مقدر نہیں کیے گے اور جب تقدیر آجاتی ہے تو وہ مصاء ب کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور موت بہت مضبوط ڈھال ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15317)
امام ابن ابی حاتم نے عطا سے روایت کیا ہے کہ یہ کراما کاتبین ہیں جو اللہ کی طرف سے ابن آدم کی حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :12188)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ امام عبدرحمن محمد ابن ابیحاتم متوفی 327 ھ امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی 516 ھ اور حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ نے لکھا ہے کہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ معقبات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات اور دن میں نقصان پہنچانے والوں سے حفا ظت کرتے ہیں پھر انہوں نے دو یہو دی شخصوں عامر بن اطفیل اور ربد بن ربیعہ کا قصہ بیان کیا ہے جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس کو ہم نے تفصل سے اس سورت کے تعارف میں ذکر دیا ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15374،چشتی)(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحد یث :12193)(معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 6 ۔ 7)(الدرالمنثور جلد 4 صفحہ 616 ۔ 617)
من امر اللہ کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اور اس کی اعانیت سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ فرشتوں میں از خود یہ طاقت اور قدرت نہیں ہے کہ کسی انسان کی آفات اور مصائب سے حفا ظت کریں اور نہ کسی اور مخلوق میں یہ طا قت ہے کہ وہ کسی کی مصاء ب سے حفا ظت کرسکے مگر جس کو اللہ تعالیٰ یہ قدرت اور طاقت عطا فرماے ۔
فرشتوں کو جو انسانوں پر مقرر کیا گیا ہے اس کی متعدد وجوہات اور حکمتیں ہیں : ⬇
(1) شیاطین انسانوں کو برے کاموں اور گناہوں کی طرف راغب کرتے ہیں اور یہ فرشتے انسانوں کو نیک کو موں اور عبادات کی طرف راغب کرتے ہیں۔
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے، صحا بہ نے پو چھا یا رسول اللہ ! آپ کے ساتھ بھی ! آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری مدد فرمائی وہ مجھے نیکی کے سوا کوئی مشورہ نہیں دیتا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2814،چشتی)(مسند احمد ج 1 ص 397، طبع قدیم، مسنداحمد رقم الحدیث :3697، عالم الکتب)(سنن الدارمی رقم الحدیث :2737)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث :5143)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :658)
(3) ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے دل میں کبھی بغیر کسی ظاہری سبب کے کسی کام کی قوی تحریک پیدا ہوتی ہے اور پھر انجام کا ریہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کام میں اس کے لیے نیکی اور خیر ہے اور کبھی انجام کار اس پر منکشف ہوتا ہے کہ اس کام میں اس کے لیے آفت اور مصیبت ہے اور یہ کام فی نفسہ معصیت ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے کام کا محرک اس کے حق میں خیر اور نیکی کا ارادہ کرنے والا ہے تھا اور وہی فرشتہ ہے اور دوسرے کام کا محرک اس کے حق میں برائی اور گناہ کا ارادہ کرنے والا تھا اور وہی گمراہ کرنے والا اور شیطان ہے۔
(4) انسان کو جب یہ علم ہوگا کہ فرشتے اس کی نیکیوں اور براء یوں کو لکھ لیتے ہیں تو وہ گناہ کا ارتکان کرنے سے ڈرے گا۔
(5) فرشتے جن نیکیوں اور برائیوں کو لکھتے ہیں ان کے رجسٹروں کا قیامت کے دن میزان میں وزن کیا جاے گا اور جس کی نیکیوں کا پلڑاجھکا ہو اہو گا اس کی آسانی سے نجات ہو جاے گی۔ قرآن مجید میں ہے :
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ ۔ (سورہ الانبیاء : ٤٧) ۔ اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو (میں اعمال ناموں کو) رکھیں گے، پس کسی شخص پر ظلم نہیں ہوگا، اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے (بھی) لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں ۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (٨) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ۔ (سورہ الاعراف : ٩) ۔ اس دن اعمال کا وزن کرنا برحق ہے، پھر جن (کی نیکیوں) کے پلڑے بھاری ہوے سو وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور جب ( کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوے سو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں مبتلا کیا، کیونکہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں، زبان پر (پڑھنے میں) ہلکے اور میزان میں بھاری ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7563)(صحیح مسلم رقم الحدیث :2694)(سنن الترمذی رقم الحدیث :3467)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3806)(مسند احمد رقم الحدیث :7167، عالم الکتب)(مصنف ابن ابی شیبہ ج 10 ص 288)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 831 ۔ 841)(شرح السنہ رقم الحدیث :1264)
(6) جب انسان کو مسلسل یہ تجربہ ہوگا کہ اس کے دل میں نیکی اور گناہ سے بچنے کی زبر دست تحریک پیدا ہوتی ہے پھر اچانک اس پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے اور اس کا سارا منصو بہ دھرے کا دھرے رہ جاتا ہے اور وہ گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اس پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ فرشتے اس کے دل میں نیکی کے دواعی اور محر کات پیدا کرتے ہیں لیکن تقدیر کے آگے ان کا پس نہیں چلتا اور جب فرشتے قضاء و قدر کے آگے مجبور ہیں۔ سلاطین، حکام اور سرمایہ دار لوگ جو اپنی جان اور مال کی حفا ظت کے قوی انتظامات کرتے ہیں لیکن اگر تقدیر میں ان کی جان ومال کا نقصان ہونا ہو تو ساتے انتظام دھرے رہ جاتے ہیں اور تقدیر غالب آجاتی ہے۔ امریکہ کے صدر کی حفاظت سے بڑھ کر اور دنیاوی انتظام کیا ہوسکتا ہے لیکن امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی کو گو لی مار کر ہلاک کردیا گیا، اند راگاندھی کو اس کے معتمد محافظوں نے گو لی مار کر ہلاک کردیا اور بنگلا دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن کو اس کی حاظتی حصار سے نکال کر گو لی مار دی گئی، اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ ۔ (سورہ الرعد : ١١) ۔ اور اللہ جب کسی قوم کو مصیبت میں ڈالنے کا ارادہ کرے تو اس کوئی روکنے والا نہیں ہے اور اس کے سوا کوئی ان کا مددگار نہیں ہے ۔ تقدیر تو اٹل ہے لیکن ہمارا یہ منشاء نہیں ہے کہ حفا ظت کے اسباب کو با لکل اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان اسباب پر تکیہ نہیں کر چاہیے ۔
نعمت کی ناقدری والوں سے اللہ کا نعمت واپس لینا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اللہ کسی قوم کی نعمت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدل دیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کو آزادی، سلامتی، استکام خوشی حالی اور عافیت کی نعمت عطا فرماتا ہے اور وہ نعمت ان سے اس وقت تک سلب نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانی کرکے اپنے آپ کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہیں کردیتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الأنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ۔ (سورہ الانعام :6) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلی کتنی ان قوموں کو ہلاک کردیا جن کو ہم نے زمین میں ایسی قوت دی تھی جو تم کو نہیں دی اوار ہم ان پر موسلادھار بارش نازل کی اور ہم نے دریا بناے جو ان کے (باغوں کے) نیچے سے بہتے تھے پس ہم نے ان کو ان کے گنا ہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسر قوم پیدا کی دی ۔
جمہور مفسرین علیہم الرحمہ کے نزدیک ان فرشتوں سے دن اور رات میں حفاظت کرنے والے فرشتے مراد ہیں ، انہیں بدل بدل کر باری باری آنے والا اس لیے کہا گیا کہ جب رات کے فرشتے آتے ہیں تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر سورہ الرعد الآیۃ : ۱۱، ۷ / ۱۷)
فرشتوں کی یہ تبدیلی فجر اور عصر کی نماز کے وقت ہوتی ہے اور جو لوگ یہ دونوں نمازیں ادا کرتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ فرشتوں کی تبدیلی کے وقت وہ حالتِ نماز میں ہوتے ہیں ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات اور دن کے فرشتے تم میں باری باری آتے رہتے ہیں اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں پھر جو تمہارے پاس آئے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان کا رب عَزَّوَجَلَّ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیہما، ص۳۱۷، الحدیث: ۲۱۰(۶۳۲))
امام مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ حفاظت پرمامور ہے جو سوتے جاگتے جن و اِنس اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر ستانے والی چیز کو اس سے روک دیتا ہے سوائے اس کے جس کا پہنچنا مَشِیَّت میں ہو ۔ (تفسیر خازن سورہ الرعد الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۵۵)
اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ حفاظت کرنے کی قدرت عطا فرمائے وہ بھی حفاظت کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے حفاظت کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود کسی کوجو اَذِیَّت یا تکلیف پہنچ جاتی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا پہنچنا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہوتا ہے اور جو چیز اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے خلاف نہیں کرتے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے بلاؤں اور آفتوں سے حفاظت کرنے والا ماننا اور ان سے حفاظت کی اِلتجا کرنا درست ہے اور اگر التجا کے باوجود حفاظت نہ ہو تو ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا غلط و باطل ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
اس آیت میں قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے ۔ (تفسیر صاوی سورہ الرعد الآیۃ : ۱۱، ۳ / ۹۹۴)
قوموں کے زوال سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ کا قانون
قدرت کا یہی اٹل قانون سورۂ اَنفال میں ہے : ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔ (سورہ انفال:۵۳)
ترجمہ : یہ اس وجہ سے ہے کہ اللّٰہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔
آپ مسلمانوں کی تا ریخ پر ایک نظر ڈالیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو باربار اپنی عظیم نعمتوں سے نوازہ، ایک وقت تھا جب ایشیاء، افریقا اور یورپ تین براعظموں کے علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن مسلمانوں نے اپنی نا اہلی سے ان حکومتوں کو اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کو گنوادیا، اسپین میں مسلمانوں نے اٹھ سو سال حکومت کی لیکن انہوں نے اپنیررنگا رنگ عیا شیوں رقصوسرود کی محفلوں اور شراب وکباب کی مجسلوں میں اپنی آزادی سلامتی اور استحکام کو غرق کردیا۔ انہوں نے اپنے قوی اتحاد اور مرکزیت کو طواء ف الملوکی اور چھو ٹے چھوٹے ٹکڑوں پر اقتدار حاصل کرنے کے شوق میں صء ع کردیا اور اب پورا اسپین عیسائی قومیت میں ڈھل چکا ہے اور وہاں براے نام مسلمان رہ گے ہیں غرناطہ اور قرطبہ نے بڑے نام ور اسلام کے اسکالر پیدا کیے۔ قاضی عیاض اندلسی، امام ابن عبد البر، علامہ ابو العباس قرطبی، علامہ ابو عبداللہ قرطبی علامہ ابی، علامہ سنوسی، قاضی ابوبکر ابن العربی اور علامہ باجی یہ سب بہت پاے کے محقق تھے، تفسیر، حدیث اور فقہ میں ان کی عظیم اور ضخیم تصنیفات ہمارے پاس موجود ہیں جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسپین میں اسلامی علوم پر کتنا عظیم کام ہو رہا تھا۔ میں جب ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو یہ سوچ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آج ان کے مقابر ان کے مکا تب، ان کے مدارس اور ان کی مساجد ویران ہوچکی ہیں۔
ماضی بعید کی تاریخ کا ذکر چھوڑیں، قریب کے حالات کو دیکھیں۔ ہم نے اسلام کے نام پر یہ خطہ زمین حاصل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آزادی دی سلامتی اور استحکام کے ساتھ اقتدار عطا فرمایا اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے : الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمُورِ ۔ (سورہ الحج : ٤١) ۔ ان لوگوں کو اگر ہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں (تو) وہ نماز قائم کریں اور زکوہ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور تمام کاموں کا انجام ہی کے اختیار میں ہے ۔
اسلامی تاریخ میں اس قانون کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا ، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنتِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہو جانا ، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں کے پہلے قبلے ’’بیتُ المقدس‘‘ کا یہودیوں کے قبضے میں چلے جانا ، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو جانا ، عراق اور افغانستان پر غیروں کا قبضہ ہو جانا ، مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں ہیں ۔ چاہیے تھا کہ مسلمانوں نے جس وعدہ اور جس نعرہ سے یہ ملک مانگا تھا یہ اس کو پورا کرتے اور نماز اور زکوہ کا نظام قائمکر تے لیکن جب چوبیس سال تک انہوں نے اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اسلام کو نافز کرنے بجاے حکام سے لکر عوام تک سب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں دن رات مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے آدھا ملک لے لیا۔ اب باقی آدھا ملک بھی اندرونی اور بیرونی خطرات کی زد میں ہے لوٹ کھسوٹ قتل اور غارت گری کا بازار گرم ہے دشمن ہماری سرحدوں پر اپنی فو جوں کی تعداد بڑھا رہا ہے اور ہم ایک دوسرے سے دست بازو و گریبان ہیں اور انارکی لاقانونیت کا دور دورہ ہے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے اور ان کا شکر بجا لانے کی تق فیق دے ، ہمارے عوام اسلام کے احکام پر عمل کریں اور یہی لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں ، نماز اور زکواہ کا نظام قائم کریں ، اسلامی حدود اور دیگر احکام کو جاری کریں اللہ اس باقی ماندہ پاکستان کو سلامت رکھے اور اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment