Sunday 15 January 2023

فضائل و مناقب حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

0 comments
فضائل و مناقب حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : جن خوش نصیبوں  نے اىمان کے ساتھ نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائىط، چاہے یہ صحبت اىک لمحے کےلیے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے ۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام  رضیَ اللہُ عنہم عادل ، متقی ، پرہیز گار ، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانے کے ساتھ ساتھ بے شمار فضائل و کمالات رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد جس جماعت کو مقدس ، محترم ، ذی شان بنایا ہے ، وہ جماعت ان عظیم ہستیوں کی جماعت ہے جنہوں نے ایمان کی حالت میں امام الانبیاء صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم و علیہم السلام  کی زیارت کی ہے ، اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوا ہو ۔ اس جماعت کو حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقدس لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی افضلیت کی جانب حدیثِ مبارکہ میں واضح اشارہ ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم فرماتے ہیں : لاتسبوا أصحابي ، فلو أن أحدکم أنفق ذھباً ما بلغ مد أحدھم ولا نصیفہ ۔  ( الجامع الصحیح للبخاری، ج:۵، ص:۸، رقم الحدیث: ۳۶۷۳) 
ترجمہ : میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو ، اگر تم میں سے کوئی ایک اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تب بھی میرے صحابہ کے مد کے اور نہ ہی نصف کے برابر پہنچ سکتا ہے ۔

ویسے تو ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی شان نرالی ہے ، ہر صحابی رضی اللہ عنہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے ، لیکن ان میں بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے ، جیسا کہ صاحبِ ’’ الجوہر الہریریۃ من کلام خیر البریۃ‘‘ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا ارشاد مبارک نقل کیا ہے : بعضھم أي من الصحابۃؓ أقوی من بعض‘‘ ( الجوہر الہریریۃ لأبي یوسف محمد زید ، ج:۴،ص:۳۰) ۔ ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جو ایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے  پوچھا : رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں ؟ تو حضرت سیّدنا علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا : حضرت ابو بکر صدیق   رضیَ اللہُ عنہ ۔ (بخاری،ج2،ص522، حدیث:36717)

اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کےلیے قرآنِ مجید میں ’’صَاحِبِہٖ‘‘ یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ“ (دو میں سے دوسرا) فرمایا ۔ (سورہ التوبۃ آیت نمبر 40) ۔ یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا ۔

آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا ، آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا ۔ جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رفیقِ ہجرت تھے ۔ اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار رہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 46)

حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نام و نسب

عن عروة ، قال : أبو بکر الصّدّيق ، إسمه عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة. شهد بدرا مع رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم وأمّ أبي بکر رضي الله عنه، أمّ الخير سلمٰي بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالک وأمّ أمّ الخير، دلاف وهي أميمة بنت عبيد بن النّا قد الخزاعي. وجدّة أبي بکر، أمّ أبي قحافة أمينة بنت عبد العزّٰي بن حرثان بن عوف بن عبيد بن عويج بن عديّ بن کعب ۔
ترجمہ : حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں حضور صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے ساتھ شریک ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے ۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید اللہ بن الناقد الخزاعی ہیں ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دادی (ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی والدہ) کا نام امینہ بنت عبد العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے ۔ (طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 51، رقم : 1)(ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 40) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے،چشتی)(طبری نے ’تاریخ الامم والملوک (2 : 350) ‘میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے)

عن الزّهريّ قال أبوبکر الصّدّيق إسمه عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب بن فهر ۔
ترجمہ : زہری سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4403)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12870)

وأمّا نسبه فهو عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب يجتمع مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم في مرة بن کعب و عدد اٰبائهما الٰي مرة سوآء ۔
ترجمہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نسب عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب ہے جو کہ مرہ بن کعب پر حضور صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے مل جاتا ہے اور مرہ تک دونوں کے آباء کی تعداد برابر ہے ۔ (عسقلاني، فتح الباري، 7 : 9،چشتی)(نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 472)(مبارک پوري، تحفة الأحوذي، 10 : 96)

عن عائشة أمّ المؤمنين رضي اللہ عنها قالت : اسم أبي بکر الّذي سمّاه أهله به عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو لٰکن غلب عليه اسم عتيق رضي اللہ عنه ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام گھر والوں نے عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا لیکن آپ کی شہرت عتیق کے نام سے تھی ۔ (شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 70، رقم : 4)

عن اللّيث بن سعد قال إنّما سمّي أبوبکر رضي الله عنه عتيقا لجمال وجهه وإسمه عبد اللہ بن عثمان ۔
ترجمہ : حضرت لیث بن سعد اللہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام عتیق آپ رضی اللہ عنہ کی خوبروئی کی وجہ سے رکھا گیا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبد اللہ بن عثمان ہے ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 1 : 52، رقم : 4)(ھيثمي نے ’ مجمع الزوائد (9 : 41) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 69)(عسقلاني، الإصابه، 4 : 170)

عن أبي حفص عمرو بن علي أنّه کان يقول کان أبو بکر معروق الوجه وکان إسمه عبد اللہ بن عثمان ۔
ترجمہ : حضرت ابو حفص عمرو بن علی سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک ہلکا تھا اور آپ کا اسم مبارک عبد اللہ بن عثمان تھا ۔ (هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41)

عن عامر بن عبد اللہ بن الزّبير عن أبيه قال کان إسم أبي بکر عبد اللہ بن عثمان ۔
ترجمہ : حضرت عامر اپنے والد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ بن عثمان تھا ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279، رقم : 6864)(هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2171)

عن موسٰي بن عقبة قال : لا نعلم أربعة أدرکوا النّبي صلي الله عليه وآله وسلم و أبناؤهم إلّا هؤلآء الأربعة : أبوقحافة، و أبوبکر، و عبدالرّحمٰن بن أبي بکر، و أبو عتيق بن عبدالرّحمٰن و إسم أبي عتيق محمّدث ۔
ترجمہ : حضرت موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ ہم ایسے چار افراد کو نہیں جانتے کہ جنہوں نے خود اور ان کے بیٹوں نے بھی نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو دیکھا ہو (یعنی انہیں شرف صحابیت نصیب ہوا ہو) سوائے ابوقحافہ ، ابوبکر ، عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور ابو عتیق محمد بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھم کے ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 11)(حاکم، المستدرک، 3 : 540، رقم : 6008)(حاکم، المستدرک، 3 : 544، رقم : 6024،چشتی)(بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 130، رقم : 392)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 77، رقم : 22)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 51)(سيوطي، تاريخ الخلفاء : 107)(نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 275، رقم : 344)

نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا : مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 177 حدیث نمبر 466)(تفہیم البخاری جلد 1 صفحہ 818)

نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشادفرمایا : جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی ۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی : یَارسولَ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا ، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ابوبکر ! میری اُمّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہو گے ۔ (سنن ابو داؤد جلد 4 صفحہ 280، حدیث نمبر 4652)

ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہم کو بُلایا ، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کیے ۔ حضرت سیّدنا عباس رضیَ اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا : جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام نے کہا : اے عتیق ! تجھے مبارک ہو ، جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہِ السَّلام نے کہا : اے رفیق ! تجھے مبارک ہو ، تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا : اے صدیق ! تجھے مبارک ہو ۔ (الحاوی للفتاویٰ جلد 2 صفحہ 51)

حضرت سیّدنا ابو دَرْدَاء رضیَ اللہُ عنہ کا بیان ہےکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا : کیا تم اس کے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد  ابوبکر سے افضل کسی شخص پر نہ تو سورج طلوع ہوا اور نہ ہی غروب ہوا ۔ (فضائل الخلفاء لابی نعیم صفحہ 38 حدیث نمبر 10،چشتی)

ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت سیّدتنا عائشہ رضیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں : میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دینِ اسلام پر عمل کرتے تھے ، کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کے دونوں کناروں صبح و شام  ہمارے گھر تشریف لاتے ۔ پھر حضرت ابوبکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالیں ، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھے اور (بلند آواز سے) قرآنِ مجید پڑھتے تھے ، مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور حضرت ابوبکر کی طرف دیکھتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد1 صفحہ 180 حدیث نمبر 476)(تفہیم البخاری جلد ج 1 صفحہ 829)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا : جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل( گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ591 حدیث نمبر 3904)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ حضرت صدیقِ اکبر رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا : تم میرے صاحب ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 378 حدیث نمبر 3690،چشتی)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا : میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی : ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے) ، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اوراُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں ۔ (جمع الجوامع جلد 11 صفحہ 39 حدیث نمبر 160)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے ، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 374 حدیث نمبر 3681)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اُونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی : یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر سوار ہوجائیے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہوگئے پھر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا : اے ابوبکر ! اللہ پاک تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائے ۔ عرض کی : وہ کیا ہے ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 166)

حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ تمغہ حاصل ہے کہ امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کو اپنا خلیل بنانے کی آرزو کی ہے ، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۷۳ھ) اپنی کتاب’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں روایت کرتے ہیں : قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’ ولو کنت متخذاً خلیلاً، لاتخذتُ أبابکر خلیلاً ۔ (سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۷۰،رقم الحدیث:۹۳)
ترجمہ : رسول اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے فرمایا : اگر میں کسی کو دوست بناتا ، تو ابوبکر کو دوست بناتا ۔

امام ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن الحسن علیہما الرحمہ (متوفی۴۱۸ھ) اس بات کو مزید وضاحت سے نقل کرتے ہیں ، جیسا کہ آپ اپنی کتاب ’’شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ‘‘ میں روایت کرتے ہیں : عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ خرج رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم عاصباً رأسہٗ بخرقۃ في  مرضہ الذيمات فیہ ۔۔۔ قال: ’’لو کنت متخذًا من الناس خلیلاً، لاتخذت أبابکر ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، ج:۷، ص:۳۴۷، رقم الحدیث:۲۴۰۸)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم باہر نکلے اس مرض میں جس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصال ہوا اس حال میں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سر مبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر میں لوگوں میں سے کسی کو دوست بناتا ، تو میں ابوبکر کو دوست بناتا ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کتنا تعلق تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کو اپنا دوست بنا نے کی بات کر رہے ہیں ۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے زمین پر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد سب سے افضل انسان ہیں، اسی بات کی جانب امام الأنبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے کلام میں اشارہ کیا ہے،جس کو امام ابوبکر بن ابی عاصم الشیبانی ؒ(متوفی:۲۸۷ھ) اپنی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘میں روایت کرتے ہیں:
’’عن أبيالدرداء قال: رأٰني رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم   وأنا أمشي بین یدي أبي بکر، قال: ’’لِمَ تمشيأمام من ہو خیر منک؟ إن أبابکر خیر من طلعت علیہ الشمس وغربت ۔ (کتاب السنۃ، ج:۲،ص:۵۷۵، رقم الحدیث:۱۲۲۴) 
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : مجھے نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا : تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے ؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر سب سے افضل ہیں ۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی ۲۴۱ھ) اپنی کتاب’’فضائل الصحابۃ‘‘ میں اس بات کو حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ الکریم کے حوالے سے مزید واشگاف الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں : خطبنا علي علٰی ھذا المنبر، فحمد اللّٰہَ وذکرہٗ ماشاء اللّٰہ أن یذکرہٗ ۔۔۔فقال: ’’إن خیرالناس بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  أبوبکر۔‘‘   (فضائل الصحابۃ ، ج:۱، ص:۳۵۵، رقم الحدیث: ۴۸۴) 
ترجمہ : حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہٗ الکریم ایک دن خطبہ کےلیے منبر پر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی ، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ : بے شک لوگوں میں سے رسول اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی ہے ۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، اس بات کے نہ صرف اور صحابہ کرامs معترف تھے ، بلکہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ الکریم بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو افضل الخلائق بعد الأنبیاء تصور کرتے تھے ۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم ا للہ وجہہٗ الکریم کے ساتھ محبت کے دعویداروں کو اُن کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے ۔

ہر صحابی رضی اللہ عنہ جنتی ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کےلیے اپنی رضا اور خوش نودی کا اعلان کیا ہے ، لیکن بعض ایسے بھی خوش نصیب ہیں ، جنہیں نبوت نے اپنی زبانِ مبارک سے نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی ، جیسے : عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کو نہ صرف آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جنت میں اپنا رفیق ہونے کی بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں ، جیسا کہ امام ابوبکر محمد بن حسین الآجری بغدادی علیہ الرحمہ (متوفی۳۶۰ھ) اپنی کتاب ’’الشریعۃ‘‘ میں آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا اسی طرح کا فرمان نقل کرتے ہیں : عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ، قال: رفع رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یدہٗ ، وقال: ’’اللّٰھم اجعل أبابکر معي في درجتي یوم القیامۃ، فأوحٰی إلیہ أني قد استجبت لک ۔ (الشریعۃ، ج:۴،ص:۱۷۸۷،رقم الحدیث:۱۲۷۵) 
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے (ایک مرتبہ) اپنے ہاتھ کو (اللہ کے دربارمیں) اُٹھایا اور فرمایا : اے اللہ ! ابوبکر کو قیامت کے دن میرے ساتھ درجہ عطا فرما ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی گئی کہ ہم نے آپ کی دعا کو قبول کرلیا ہے ۔

اس ارشاد مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جنت میں نبی کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے رفیق ہوں گے ، کیوں کہ اس کی نہ صرف آ پ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے دعا مانگی ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دعاکو قبول بھی کیا ہے ۔

آپ رضی اللہ عنہ  کا وصال 22 جُمادَی الاخریٰ 13ھ شب سہ شنبہ (یعنی پیر اور منگل کی درمیانی رات) مدینۂ منورہ (میں) مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ (63) سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت سیّدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ (کتاب العقائد صفحہ 43) ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد جلد 3 صفحہ 157) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔