Wednesday, 25 January 2023

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ پنجم

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ پنجم

سَرزمینِ ہِند میں جہاں عرصۂ دراز سے کفر و شرک کا دَوْر دَوْرَہ  تھا ، اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا  قائم  تھی اور لوگ اَخلاق و کِردار کی  پستی کا شِکار تھے ۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ  ہدایت سے روشناس کروانے ، ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین  میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری رَحْمَۃُ اللہ علیہ کا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے ۔ آپ  رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی وِلادت 537 ھجری بمطابق 1142 عیسوی کو  سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی ۔ (اقتباس الانوار صفحہ 345) ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ سر زمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام  کی تَرْوِیج و اِشَاعَت کا آغاز فرمایا ۔ خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے   اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔ لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل  کر اسلام کے نور میں داخل ہو گئے ، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام ، سادو اَجے پال اور حاکم سبزوار جیسے  ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت (مریدوں) میں شامل ہو گئے ۔ (معین الہند حضرت  خواجہ معین الدین  اجمیری صفحہ 56)

ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ  کی آمد ایک زبردست  اسلامی ، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی ۔ خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 136)

آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اِصلاح  و تبلیغ  کے  ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی  ایسی جماعت تیار کی جس  نے بَرِّاعظیم (پاک و ہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا  عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا ۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ  قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی  رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام  دیے ۔ (تاریخ مشائخ  چشت صفحہ 139 تا 142)

خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا ، حضرت بابا فرید  گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے پاکپتن کو ، شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے ہَانْسی کو  اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیا رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح و تبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی ۔ (تاریخ مشائخ  چشت صفحہ 147 تا 156)

خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے تحریر و تصنیف  کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور   مخلوقِ خدا کی اِصلاح  کا فریضہ سر اَنجام دیا ۔ آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح ، کَشْفُ الاَسْرَار ، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن  کا تذکرہ ملتا ہے ۔ (معین الہند حضرت  خواجہ معین الدین  اجمیری صفحہ 103،چشتی)

خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نےتقریباً 45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی  خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا ۔ آپ کا وِصال 6 رجب627ھ کو اَجمیر شریف (راجِستھان ، ہند) میں ہوا اور یہیں مزارشریف بنا ۔ آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس  میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی  سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ۔

ملفوظات ، اولیاء و صالحین کے اس دلنشین کلام کو کہا جاتا ہے جو وہ تشنگانِ علم و عرفان کے سامنے اپنے گہرے مشاہدات و تجربات اور علوم و معارف لدنیہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور جن کے جمع کرنے کا اہتمام ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبانِ گہربار سے جو موتی نکلے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شانِ عشق نے بڑے اہتمام کے ساتھ اسے ضبط فرمایا اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ، ان موتیو ں کا نام اصطلاح شریعت میں ’حدیث‘ ہے جو قرآنِ حکیم کی علمی اور عملی تشریح بھی ہے اور اسلامی اصولوں میں سے قرآنِ حکیم کے بعد دوسری بڑی بنیاد بھی ، یعنی وہ بڑی بنیاد جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد صحابہ کرام ، تابعین ، فقہائے کرام اور اولیاء کرام رضی اللہ عنہم نسلاً بعد نسل اسلام کی دعوت کو نئے نئے اسلوب کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے ، ان کی پر اثر باتوں سے دلوں کا میل دھلتا رہا، اعمالِ حسنہ اور مضر رسوم و رواج کے درمیان تمیز قائم ہوتی رہی اور حق کی وضاحت کا عمل مسلسل جاری رہا، اولیا اللہ کی مختصر مگر دلنشین باتیں لوگوں میں حیران کن انقلاب برپا کرتی رہیں اور ان کی بدولت مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے تزکیہ نفوس میں بہت گہرے اور دور رس نتائج اور اثرات مرتب ہوئے اور یہ انہیں صاحبِ دل، صاحب علم و عمل، بوریا نشین،درویشانِ خدا مست کی باتوں کا اثر ہے کہ مرور زمانہ کے باوجود دین کی عملی و علمی شکل بالکل نکھری ہوئی ہے اور آج بھی اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے کیلئے دین حق پوری طرح واضح ہے، اولیاء اللہ کی انہیں دلنشین باتوں کا دوسرا نام ’ملفوظات‘ ہے ۔ ملفوظات کے اس لامتناہی اور طویل سلسلے کی اک اہم کڑی ہے ملفوظاتِ خواجہ الہند معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جو "دلیل العارفین” کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔

عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے ایک نہایت اہم بزرگ ہیں ۔ آپ برِّصغیر پاک و ہند میں سلسلہَ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور ’سلطان الہند‘ اور ’غریب نواز‘ کے القاب سے مشہور ہیں ۔ آپ ہندوستان میں اسلام کے اولین مبلغین میں سے تھے اور آپ کی کاوشوں سے لاکھوں افراد دائرہَ اسلام میں داخل ہوئے ۔

ابوالحسن علی ندویدیوبندی لکھتا ہے : ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیاوہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانیِ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے حسنات اور کارناموں میں شمارکئے جانے کے قابل ہے ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۳ صفحہ ۹۲)

نیز ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’آئینِ اکبری‘ میں لکھتا ہے : [آپ] اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا ، ان کے انفاسِ قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی ۔ (بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد۳:۰۳)

تبلیغِ اسلام کے مشن کے دوران آپ نے لمبے لمبے سفر کئے،آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑگئے ۔ آپ نے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی انتھک کاوشیں کیں ۔ آپ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصبیت پر ضرب کاری لگائی ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری : محمد علی چراغ : صفحہ ٣٠،چشتی)

اپنے روحانی کمالات اور علمی و اخلاقی طریقہَ تبلیغ سے آپ نے شمشیرِ کردار سے دلوں کو فتح کیا اور اقلیم ولایت کے ’سلطان‘ تسلیم ہوئے ۔ اپنی مومنانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق سے آپ لوگوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں کرنے لگے اور اپنی اصلاحی مجالس سے دعوتِ دین کا کام کرنے لگے ۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن مجید کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ پر مبنی منہج پرچلانے کا عزم کیا اور اخلاص و امید سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ آپ نے دعوت و اصلاح کے کام کو قرآنی خطوط پر چلانے کی مخلص کوشش کی ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعلی کا یہ فرمان ہمیشہ ان کے زیرِ نظر رہا ہے : اُدعُ اِلیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِا الحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُم بِا الَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ط ۔ (۶۱:۵۲) ۔ ترجمہ: آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے حسین طرزِ تبلیغ کا انتخاب کیا جس میں علم و حکمت بھی ہے اور حسنِ کردار بھی، دلائل کی جولانی بھی اور روحانی اُبھار بھی ۔ ان ہی جیسے نفیس گلوں سے ان کے ملفوظات کا چمن بھی سر سبز و شاداب ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کےملفوظات کو دلیل العارفین کے نام سے ان کے مریدِ خاص اور علمی و روحانی جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ  نے مرتب فرمایا اور راہِ سلوک کے مسافروں پر احسانِ عظیم فرمایا ۔ دلیل العارفین حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ  کی بارہ علمی و عرفانی مختصر مجالس پر مشتمل ہے جن کو مرتِب نے چارقسموں میں منقسم فرمایا ہے،فقر و صواب،مکتوبات و تسبیح،اوراد و وظائف اور فوائدِ سلوک ۔
اپنی پہلی مجلس کا آغاز ہی حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ  اس سہانی گھڑی کے تذکرہ سے کرتے ہیں جب انکی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیعت ہوئی جو ان کی زندگی کو ایک نئے رخ کی طرف لے گئی ۔ اپنے آپ کو حضرت خواجہ کے غلاموں میں سے ایک غلام کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ انکی قدم بوسی اور انکی مجالس میں شرکت کو اپنے لئے سرمایہَ افتخار قرار دیتے ہیں ۔ اس سے یہ صوفانہ اصول نکھر کر سامنے آتا ہے کہ احترام و تعظیم مرشد کے بغیر سالک ایک قدم بھی آ گے نہیں بڑھ سکتایوں نسبتِ شیخ سے دل کے اندھیروں میں علم و عرفان کا چراغ ضوفشانی کرتا ہے ۔ اسی مجلسِ اول میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ  ایک جملہ بیان فرماتے ہیں جو اسلامی تصوف کا زریں اصول تصور کیا جاتا ہے ، آپ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ تعلی کا فرض بجا نہیں لاتا، وہ کبھی اللہ تعلی کے حقوق سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔ اور جو شخص سنّت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ادا نہیں کرتا اور تجاوز کرتا ہے وہ شفاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بے بہرہ رہے گا ۔۔۔ جس نے کچھ پایا ہے خدمت سے پایا ہے ۔ پس مرید کو لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔۔۔شریعت میں ثابت قدم ہو جانے کے بعد دوسرا مرتبہ طریقت ہے ۔ طریقت میں شریعت کے امور بجا لانے کے بعد درجہ معرفت ہے، تو شناخت اور سنائی کا مقام آجاتا ہے، اس مقام پر ثابت قدم ہو جانے کے بعد درجہ حقیقت ہے ۔ یہ وہ مرتبہ ہے کہ جہاں پر جو طلب کیا جاتا ہے وہ پا لیا جاتا ہے ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۵،۶،۹)

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ  کے ان سنہرے الفاظ سے ایک طرف تو ہم دور حاضر کے کئی فتنوں سے نپٹ سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں : ⬇

۱ ۔ اللہ تعلی کی ذات کو مرکز و محور تصور کرتے ہوئے اسکی بندگی و معرفت کے شعور کو پیدا کرنا سالک کا مقصدِ حیات ہے ۔
۲ ۔ خدا تک رسائی واسطہَ رسالت کے بغیر نا ممکن ہے اور خدا کی عبادت و بندگی وہی قابلِ قبول ہے جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مطابق ہے ۔
۳ ۔ سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تجاوز کرنا ، حد سے بڑھ جانا افراط و تفریط کے راستہ پر ڈال دیتا ہے جو سالک کو شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محروم کر دیتی ہے ۔
۴ ۔ شریعت کی پابندی کے بغیر نہ تو طریقت تک پہنچاجا سکتا ہے اور نہ ہی حقیقت تک ۔
۵ ۔ راہِ سلوک پر قدم قدم پر بھٹکنے اور گمراہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے لہذا ایک پابندِ شریعت مرشدکی صحبت ناگزیر ہے اور اس رہبری و رہنمائی کے بغیر حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

جہاں تک دور حاضر کا تعلق ہے ، ہم خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی، اعتدال کی جگہ افراط و تفریط اور امن کی جگہ خون خرابے کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں ۔ دور حاضر کا انسان اپنی مادی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور یوں بے سکونی اور مایوسی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ جب ہم آج اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو اکابر کے سلوک و تصوّف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس نفس پرستی، قبر پرستی ، رسم پرستی اور پیر پرستی کے ایک طوفان کو دیکھتے ہیں جس نے صوفیانہ اخلاق و اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے اور تصوف کو پیسے بٹورنے اور اپنا کاروبار چمکانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جن اکابر نے خود پسندی کو فنا کر کے خداشناسی کو اپنا حرز جان بنانے کی تلقین کی تھی، آج ان اشخاص کو دیومالائی کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کردین و شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ کہیں پر تقویٰ و طھارت کا، کہیں پر نماز و وظائف کا، کہیں پر انفاق و صوم کا اور کہیں پر حجِ بیت اللہ کا مذاق اڈایا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدّین چشتی رحمۃ اللہ علیہ  اپنے ملفوضات میں تصوف کو ہمیشہ قرآن و سنّت کے تابع رکھنے کی وکالت کرتے ہیں اور جاہل صوفیوں اور مکاروں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ آپ علماء اور صوفیاء کے طبقات کو ایک دوسرے سے الگ اور متوازی نہیں سمجھتے بلکہ دونوں سے استفادہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ چونکہ دلیل العارفین کی دوسری اور تیسری مجلس میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ طھارت اور نماز کے فضائل و مسائل کو موضوعِ سخن بناتے ہیں اور دعوتِ علم و عمل دیتے ہیں تاکہ پروردگار عالم کی خوشنودی حاصل ہو ۔ ساتویں مجلس میں سورہ فاتحہ اور قرآنِ مجید کے فضائل و اسرار پر روشنی ڈالتے ہیں اور قرآن مجید اور دیگر اورادو وظائف کو اپنا حرزِ جان بنانے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ نہ صرف وہ عبادات کے باطنی اسرار و رموز پر گفتگو کرتے ہیں بلکہ فقہی اور علمی نکات بھی ساتھ ساتھ بیان کر تے ہیں ۔

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ  تصوف کو خدا پرستی اور خدمتِ خلق کا سنگھم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عبادت، طاعت کی صورت میں یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یارو مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ یہی قرآنی تعلیمات ہیں ۔ محمد علی چراغ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں رقمطراز ہیں : آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے، کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی،سورج جیسی گرم جوشی اور ز میں جیسی مہمان نوازی پیدا کریں ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری;231;: صفحہ ۶۳،چشتی)

ان کی نظر میں خدا کو پہچاننے والا وہی ہے جو دنیا اور اسکے فریبوں سے خود کو بچا کر طاعتِ خالق میں لگ جائے،حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں : محبت کے چار معنی ہیں :ذکر ِ اللہ میں جی جان سے خوش رہنا، ذکرِ اللہ کو ہی بڑا جاننا ، (طمعِ دنیا سے ) قطع تعلق کرنا،اپنی اور جو کچھ بھی اسکے سوا ہے سب کی حالت پہ رونا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے: قُل اِن کَانَ اٰباء کُم وَ اَ بنَا ءَ کُم وَ اِخوَانکُم وَ اَزوَاجکُم ۔ ۔ ۔ الخ ۔ (توبہ : ۴۲)
ترجمہ : آپ فرما دیں : اگرتمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ) اور محبوں کی صفت یہ ہے کہ ان کی محبت ایثار بن جائے، اس کے بعد چار منزلیں طے کریں :محبت، علم ،حیا اور تعظیم ۔ محبت میں سچا وہی ہے جو والدین اور خویش و اقرباء کے بجائے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق پیدا کرے، پس محبت کرنے والا وہ شخص ہے جو کلامِ الٰہی کے حکم پر چلے اور اللہ کے ساتھ محبت کے دعوے میں سچا ہو ۔ ۔ ۔ اللہ کی دوستی اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو اللہ دشمن جانتا ہے ان چیزوں سے دشمنی کی جائے یعنی دنیا اور نفس ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۳۴)

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ  کے اس ارشاد کو سامنے رکھا جائے تو شائد ہی آج و لایت کے اَ ن گنت دعوے داروں میں ہمیں آسانی سے کوئی ولی اللہ نظر آئے ۔ ان کی نظر میں تصوف دنیا و مافیہا اور نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے کیونکہ ایک سچا طالب صرف اللہ کا طلب گار ہوتا ہے اور کسی دوسری طلب سے وہ مانوس نہیں ہوتا ۔ دیکھا جائے تو دور حاضرکا انسان طلبِ دنیا ، ہوائے نفس اور خود پسندی کا اسیر ہے اور یہی نہ صرف اس کے خدا سے دور ہونے کی وجہ ہے بلکہ اس کے سکونِ قلب کے حاصل نہ ہونے کا سبب بھی ۔ آخر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ رحمہ کی حیات اور ان کے پیغام کو ان کے اس قول میں سمیٹا جا سکتا ہے : عارف آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے ، (اپنی روشنی کسی سے اخذ نہیں کرتا) سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے اور جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۸۴)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...