Monday, 16 January 2023

جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی

جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی
محترم قارئینِ کرام : صحابۂ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کی زندگی اور ان کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ اور نمونہ ہے ، اللہ تعالی نے صحابۂ کرام کے ایمان کو معیار اور کسوٹی قرار دیا ، راہ ھدایت پر وہی شخص ہے جس کا ایمان و عقیدہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وعقیدہ کے موافق رہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (مشکوۃ المصابیح ص 554، زجاجۃ المصابیح جلد 5 صفحہ 334)

حدیث أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کے تمام راوی ثقہ ہیں

حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔

اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے ۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی و اذیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی و اذیت ہے

صحابۂ کرام آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ، ان حضرات کا ایک ایک عمل احد پہاڑ کے برابر ثواب رکھتا ہے ، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے اعلی وارفع مقام انہی حضرات قدسی صفات کا ہے ، چنانچہ صحابۂ کرام کی تعظیم و تکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایا اور بد کلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی تو بالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینا اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225، ابواب المناقب، باب فيمن سب أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر:4236،چشتی)(جامع ترمذی مترجم جلد دوم صفحہ 600)

ابی اسحاق عبداللہ الجدلی کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دیتے ہو ، میں نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ہفتم ص 323)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں ، تو اس پر الله کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، 142/12، والسلسلۃ الصحیحۃ: 446/5، حدیث: 2340)

ان حضرات کی شان میں بے ادبی کرنے والا ‘ بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا ، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم. ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539)

مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے : عن ابن عمر یقول : لا تسبوا أصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کو برا نہ کہو ، ان میں سے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوں میں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415،چشتی)

رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کےخرچ کردہ ایک مُدّ (تقریبا 6 سو 25 گرام) بلکہ آدھے مُدّ ـ3 سو 12 گرامٰ کے بھی برابر نہیں ہو سکتا ۔ (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلى الله عليه وآله وسلم ، باب (5)، حدیث: 3673، صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب تحریم سب الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، حدیث: 2540، 2541)

حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقیناً اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقیناً اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے۔(جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709 ،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم ۔
ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘ جس نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539)

ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بُرا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اور تم سے بدتر ہیں ۔ (جمع الفوائد ص ۴۹۱ ج ۲ ،چشتی)

ایک حدیث کو لے کر باقی کا یہودیوں کی طرح انکار کر کے یہودیانہ فطرت سے مجبور لوگو میرا سوال یہ ہے کہ سبِ حضرت مولا علی اور سبِ صحابہ رضی اللہ عنہم سب و اذیتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے دونوں کےلیے حکم ایک ہو گا یا الگ الگ ؟ اگر ایک ہی حکم ہے تو حق کیوں چھپاتے ہو ؟ اور اگر ایک نہیں ہے تو قرآن و حدیث سے دلیل دو گالیوں سے نہیں ؟

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِى ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کو گالی نہ دو تم میں سے اگر کوئي احد پہاڑ کے برار سونا خیرات کرے تب بھی وہ صحابہ کے پاؤ سیر جو خیرات کرنے کی برابری نہیں کر سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر:3673،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظيم وتوقیر کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ادب و تعظیم کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ جنکی نظیر نہیں ملتی ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم و تعظيم کو دیکھ کر اغیار بھی کہنے لگے جو قوم اپنے نبی کا اتنا ادب اور تعظیم کرتی ہو اس قوم سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔

حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ادب وتعظيم کو دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگے میں نے دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھے لیکن کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اس قدر تعظیم کرتے نہيں دیکھا جس طرح صحابۂ کرام اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم کرتے ہيں ، قسم بخدا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب ناک شریف صاف فرماتے تو وہ مبارک پانی زمین پر پہنچنے سے پہلے صحابہ اپنے ہاتوں میں لے لیتے اور اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے،جب آپ کلام فرماتے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے ۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم کو دیکھ کر دشمن بھی صلح پر آمدہ ہوگئے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ اقدس میں ہر وقت پیکر ادب بنکر حاضر ہوتے اور حددرجہ آپ کی تعظیم کرتے ۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَهَبَ إِلَى بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِى بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّى لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ . فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وَالنَّاسُ فِى الصَّلاَةِ ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِى الصَّفِّ ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِى صَلاَتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه يَدَيْهِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مِنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِى الصَّفِّ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فَصَلَّى ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ . فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لاِبْنِ أَبِى قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّىَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الأذان، باب من دخل ليؤم الناس فجاء الإمام الأول فتأخر الأول أو لم يتأخر جازت صلاته . حدیث نمبر:684،چشتی)
مفہوم حدیث : ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے ، پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لا چکے ہیں ، فوراً پیچھے آگئے ، نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دریافت کی اتو عرض گزار ہوئے ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال نہيں کہ آپ کے سامنے نماز بھی پڑھ سکے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بالکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں یہ بھی تو فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں :  آيَةُ الإِيْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بعْضُ الْأَنْصَارِ ۔
ترجمہ : انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے ۔ (صحیح بخاری: ۱۷، ۷۸۴ ۳)(مسلم : ۲۳۵، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۳۹)(سنن نسائی : ۵۰۱۹)

اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا کہ : مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ ۔
ترجمہ : جس نے ان سے محبت رکھی اس کے دل میں میری محبت تھی اس لیے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اسکے دل میں میرا بغض تھا اس لیے ان سے بغض رکھا ۔ (جامع ترمذی: ۳۸۶۲)(مسند احمد : ۱۶۸۰۸)

اللہ عزوجل ہم سب کو اہلبیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سچی محبت عطاء فرماۓ اور غالی فتنہ باز  لوگوں سے ہم سب کو محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...