Wednesday, 21 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 7

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 7
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا : عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر محافلِ نعت ، مجالسِ ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود و سلام پیش کرنے کےلیے خصوصی اِجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں ۔ لوگ اِن محافل میں اِنتہائی عقیدت و اِحترام اور جوش و خروش سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے قلوب و اَذہان کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے معطر کرتے ہیں ۔ اپنے میلاد کے بیان کےلیے خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِجتماعات کا اہتمام فرمایا ۔ اِس ضمن میں متعدد اَحادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : ⬇

1۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ولادت سے قبل اپنی تخلیق کا تذکرہ ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : يا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متی وجبت لک النبوة ؟ ’’ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا ؟

یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوئی ۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِس سوال سے واضح ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے بلکہ وہ عالم بالا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس روحانی زندگی کی اِبتداء کی بات کر رہے تھے جب ﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا تھا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا : وآدم بين الروح والجسد ’’ میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی ۔ (ترمذي الجامع الصحيح کتاب المناقب باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3609،چشتی)(ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر ص : 27، رقم : 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں ۔)(رازي، کتاب الفوائد، 1 : 241، رقم : 581)(ابن حبان، کتاب الثقات، 1 : 47)(لالکائي، اعتقاد أهل السنة، 1 : 422، رقم : 140)(حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 665، رقم : 4210)(بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 130)(سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6 : 569)(ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ ص : 54، رقم : 53 ‘‘ میں بیان کیا ہے)

اِس حدیث سے مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا ۔ اِس طرح حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں آگاہ فرمایا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے میلاد کے بیان کےلیے اِہتمامِ اِجتماع

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی ، اَخلاقی و روحانی ، علمی و فکری ، سیاسی و سماجی ، معاشی و معاشرتی ، قانونی و پارلیمانی ، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے ۔ اس کے علاوہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت پر بھی گفتگو فرماتے۔ درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کےلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا ۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے : جاء العباس إلي رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟ فقالوا : أنت رسول ﷲ، عليک السّلام. قال : أنا محمد بن عبد ﷲ بن عبد المطّلب، إن ﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً ۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے) ۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو ، آپ ﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں ۔ ﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا ۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5 : 543، رقم : 3532)(ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 : 584، رقم : 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں)(احمدبن حنبل نے ’’المسند (1 : 210، رقم : 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 165)(هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 216،چشتی)(بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 169)

اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں : ⬇

(1) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے ۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کےلیے ہوتا تھا ۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں ، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں ۔

(2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوال کیا : ’’میں کون ہوں ؟‘‘ سب نے عرض کیا : ’’آپ پر سلام ہو ، آپ ﷲ کے رسول ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا ۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے ۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا : ’’میں عبد ﷲ کا بیٹا محمد ہوں ۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میں کچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد سے ہے ۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا ۔

(3) مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے ۔

(4) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے ۔

کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین علیہم الرحمہ کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، حسب و نسب ، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے ۔

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں : قلت : يارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن ﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا ۔
ترجمہ : میں نے عرض کیا : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو ۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا ، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا ، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا ، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 584، رقم : 3607)(أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 937، رقم : 1803،چشتی)(أبو يعلي، المسند، 4 : 140، رقم : 1316)

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن ﷲ اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم ۔
ترجمہ : بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا ، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو ، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو ، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو ، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 583، رقم : 3605)(مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتسليم الحجر عليه قبل النبوة، 4 : 1782، رقم : 2276،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 107)(ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 317، رقم : 31731)(أبو يعلي، المسند، 13 : 469، 472، رقم : 7485، 748)(طبراني، المعجم الکبير، 22 : 66، رقم : 161)(بيهقي، السنن الکبري، 6 : 365، رقم : 12852)(بيهقي، شعب الإيمان ، 2 : 139، رقم : 1391)

اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلۂِ نسب بیان فرما دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطفیٰ کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب ، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے ۔

بیانِ شرف و فضیلت کے لیے اِہتمامِ اِجتماع

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت بیان کرنے کےلیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا : ⬇

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : جلس ناس من أصحاب رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ينتظرونه، قال : فخرج حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً : إنَ ﷲ عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر : ماذا بأعجب من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر : فعيسي کلمة ﷲ وروحه، وقال آخر : آدم اصْطفاه ﷲ. فخرج عليهم فسلّم، وقال صلي الله عليه وآله وسلم : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل ﷲ وهو کذلک، وموسٰي نجي ﷲ وهو کذالک، وعيسي روح ﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه ﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب ﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح ﷲ لي فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا فخر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے ، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا ۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا ۔ تیسرے نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ۔ چوتھے نے کہا : آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حلقے میں تشریف لے آئے ، سلام کیا اور فرمایا : میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں ، بے شک وہ ایسے ہی ہیں ۔ اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں ۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں ۔ اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں ۔ آگاہ ہو جاؤ میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں ، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 202، رقم : 3616)(دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 47)(بغوي، شرح السنة، 13 : 198، 204، رقم : 3617، 3625،چشتی)(رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، 6 : 167)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 560)(سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 2 : 705)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال : إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني وﷲ! لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني وﷲ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها ۔
ترجمہ : ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے ، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں ۔ ﷲ کی قسم ! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے ، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1 : 451، رقم : 1279)(بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3 : 1317، رقم : 1401)(بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4 : 1498، رقم : 3857)(بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 : 2361، رقم : 6062)(بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5 : 2408، رقم : 6218،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4 : 1795، رقم : 2296)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 149، 153)(ابن حبان، الصحيح، 7 : 473، رقم : 3168)(ابن حبان، الصحيح، 8 : 18، رقم : 3224)

اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ۔ ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے) ۔ سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے ؟ منبر تو خطبہ دینے کےلیے مساجد میں بنائے جاتے ہیں ، وہاں کوئی مسجد نہ تھی ، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے ۔ اُس وقت صرف مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں منبر ہوتا تھا ۔ اس لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے ۔ مگر در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر شہدائے اُحد کے قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا ، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ساتھ ہی لے کر گئے تھے ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا ؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب کے بیان کےلیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کےلیے تھا جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود منعقد فرما رہے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس اجتماع میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے ۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح دلیل ہے ۔

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کےلیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے ۔ (مزید حصّہ نمبر 8 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم اس...