Tuesday, 6 September 2022

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ چہارم

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام دراز قد تھے اور ان کے بال گھونگریالے تھے ‘ گویا کہ وہ قبیلہ شنوہ سے تھے اور ان کے داہنے ہاتھ میں مہر نبوت تھی ‘ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ‘ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا میرے شانوں کے درمیان وہ مہر نوبت ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں پر ہوتی تھی ‘ کیونکہ میرے بعد کوئی نبی ہو گا نہ رسول ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٧ ء ٥ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤١٠٥ جدید المتبۃ العصر یہ ١٤٢٠ھ)

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاجزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے کہا وہ کم سنی میں فوت ہو گئے اور اگر ان کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زندہ رہنا مقدر ہوتا تو وہ نبی ہوتے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥١٠‘چشتی)(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٩٤)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣‘ تاریخ دمشق ج ٣ ص ٧٦‘ رقم الحدیث : ٥٧٩‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٧٤٥٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦١٩٤)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نبوت میں سے صرف مبشرات باقی بچے ہیں ‘ مسلمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! مبشرات کیا ہیں ۔ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٩٠)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں ستائیس دجال اور کذاب ہوں گے ‘ ان میں سے چار عورتیں ہوں گی اور میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٣٩٦‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٣٥١‘ دارالحدیث قاہرہ)

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ اور چچا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی سے آزاد کرانے کےلیے آئے اور آپ سے کہا آپ جو چاہے اس کی قیمت لے لیں اور اس کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ! آپ نے ان سے فرمایا میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم لا الہ الا اللہ کی شہادت دو اور اس کی کہ میں خاتم الانبیاء والرسل ہوں میں اس کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا ‘ انہوں نے اس پر عذر پیش کیا اور دیناروں کی پیش کش کی ‘ آپ نے فرمایا اچھا زید سے پوچھو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اس کو تمہارے ساتھ بلامعاوضہ بھیج دیتا ہوں ‘ حضرت زید نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے باپ کو ترجیح دوں گا اور نہ اپنی اولاد کو ‘ یہ سن کر حضرت زید کے والد حارثہ مسلمان ہو گئے اور کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمداً عبدہ و رسولہ ‘ اور ان کے باقی رشتہ داروں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا ۔ (المستدرک ج ٣ ص ٢١٤ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤٩٤٦ طبع جدید)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں انبیاء علیہم السلام کا خاتم ہوں ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٥٩٧ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤١٦٨ طبع جدید)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے درد ہوگیا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ آپ نے مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود نماز پڑھنے لگے اور مجھ پر اپنی چادر کا پلو ڈال دیا ‘ پھر فرمایا اے ابو طالب کے بیٹے ! تم ٹھیک ہو گئے اور اب تم کو کوئی تکلیف نہیں ہے ‘ میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کیا ہے ‘ تمہارے لیے بھی اس چیز کا سوال کیا ہے ‘ اور میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عطا فرمادی سوا اس کے کہ مجھ سے کہا گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٩١٣‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کے رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد جلد ٩ صفحہ ١١٠،چشتی)

بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم قیامت کے دن ستر امتوں کو مکمل کریں گے ہم ان میں سب سے آخری اور سب سے بہتر امت ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٨٧‘ مسند احمد ج ٤ ص ٤٤٧‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٧٦٢)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے آپ سے ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی ‘ آپ نے ان سے فرمایا : آپ اسی جگہ ٹھہریں جہاں آپ ہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ پر اس طرح ہجرت کو ختم کرے گا جس طرح مجھ پر نبوت کو ختم کیا ہے ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٥٨٢٨‘چشتی)(مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٦٩‘ اس کی سند میں اسماعیل بن قیس متروک ہے)

قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت پڑھتے : واذ اخذنا من النبیین میثا قھم ومنک ومن نوح (سورہ الاحزاب : ٧) تو آپ فرماتے مجھ سے خیر کی ابتداء کی گئی ہے اور میں بعث میں سب نبیوں میں آخر ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣١٧٥٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب مجھے آسمانوں کی معراج کرائی گئی تو میرے رب عزوجل نے مجھے اپنے قریب کیا حتی کہ میرے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے سروں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے حبیب ! اے محمد ! کیا آپ کو اس کا غم ہے کہ آپ کو سب نبیوں کا آخر بنایا ہے ‘ میں نے کہا اے میرے رب ! نہیں ! فرمایا : آپ اپنی امت کو میرا سلام پہنچادیں اور ان کو خبردیں کہ میں نے ان کو آخری بنایا ہے تاکہ میں دوسری امتوں کو ان کے سامنے شرمندہ کروں اور ان کو کسی امت کے سامنے شرمندہ نہ کروں ۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٥٣٢١‘ کنزالعمال رقم الحدیث ٣٢١١١‘ تاریخ بغداد ج ٥ ص ١٣٠‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٢٩٦‘ ٢٩٥‘ رقم الحدیث : ٨١١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب حضرت آدم علیہ السلام کو ھند میں اتارا گیا تو وہ گھبرائے پس جبریل نے نازل ہو کر اذان دی ‘ اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ اشھد ان لا لہ الا اللہ دو دفعہ ‘ اشھد ان محمدا رسول اللہ دو دفعہ ‘ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا محمد کون ہیں ‘ حضرت جبریل نے کہا وہ آپ کی اولاد میں سے آخر الانبیاء ہیں ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٧ ص ٣١٩‘ رقم الحدیث : ١٩٧٩‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

امام سیوطی نے مسند ابو یعلی اور امام ابن ابی الدنیا کے حوالہ سے حضرت تمیم داری کی ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے : فرشتے قبر میں مردہ سے سوال کریں گے تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے اور تیرا نبی کون ہے ؟ وہ کہے گا میرا رب اللہ وحدہ لاشریک ہے اور اسلام میرا دین ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نبی ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں ‘ فرشتے کہیں گے تم نے سچ کہا ۔ (الدر المثور ج ٨ ص ٣٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھو تو اچھی طرح پڑھو ‘ تم کو علم نہیں ہے شاید یہ درود آپ پر پیش کیا جائے گا ‘ لوگوں نے کہا اے ابو عبدالرحمان آپ ہمیں تعلیم دیجیے انہوں نے کہا تم اس طرح درود پڑھو : اللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین و امام المتقین و خاتم البیین محمد عبدک ورسولک امام الخیر وقائد الخیر و رسول الرحمۃ ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٠٦‘چشتی)(مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٢٦٧‘ المستدرک ج ٢ ص ٢٦٩)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شفاعت کبری کے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں ‘ میری اللہ کے سوا پرستش کی گئی ہے ‘ آج مجھے صرف اپنی فکر ہے ‘ یہ بتائو کہ اگر کسی سیل بند برتن میں کوئی چیزہو تو کیا کوئی شخص سیل توڑے بغیر اس کو کھول سکتا ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں ‘ حضرت عیسیٰ نے فرمایا پس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور وہ یہاں موجود ہیں اللہ نے ان کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام معاف فرمادیئے ہیں ۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٣٢٨‘ مسند احمد ج ١ ص ٢٨١‘ مسند الطیا لسی رقم الحدیث : ٢٧٩٨)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گوہ سے پوچھا میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا آپ رسول رب العلمین اور خاتم النبیین ہیں ۔ (حافظ عسقلانی ‘ علامہ آلوسی اور مفتی شفیع دیوبندی نے بھی اس حدیث سے استدلال کیا ہے) ۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٩٤٨‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٠٨٦)

ایاس بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر تمام لوگوں سے افضل ہیں مگر وہ نبی نہیں ہیں ۔ (الکامل لابن عدی ج ٦ ص ٤٨٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)

حضرت ابو الطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے رب کے پاس دس نام ہیں ‘ حضرت ابو الطفیل نے کہا مجھے ان میں سے آٹھ یاد ہیں ‘ محمد ‘ احمد ‘ ابو القاسم ‘ الفاتح (نبوت کا افتتاح کرنے والا) الخاتم (نبوت کو ختم کرنے والا) العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہ آئے) الحاشر الماحی (شرک کو مٹانے والا) ۔
(دلائل النبوت لابی نعیم ج ١ ص ٦١‘ رقم الحدیث : ٢٠)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی گئی تو انہوں نے اس میں اس امت کا ذکر پڑھا پس انہوں نے کہا : اے میرے رب ! میں نے تورات کی الواح میں پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں کے آخر میں ہوگی اور قیامت کے دن سب پر مقدم ہوگی اس کو میری امت بنا دے فرمایا وہ امت احمد ہے ۔ (دلائل النبول لابی نعیم ج ١ ص ٦٨ رقم الحدیث : ٣١)

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر دیکھا ایک یہودی کے پاس آگ کا شعلہ تھا ‘ لوگ اس کے گردجمع تھے اور وہ یہ کہہ رہا تھا یہ احمد کا ستارہ ہے جو طلوع ہوچکا ہے یہ صرف نبوت کے موقع پر طلوع ہوتا ہے اور انبیاء میں سے اب صرف احمد کا آنا باقی رہ گیا ہے ۔ (دلائل النبوت لابی نعیم ج ١ ص ٧٦۔ ٧٥‘ رقم الحدیث : ٣٥)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہ جب فوت ہو گئے تو ان پر جو کپڑا تھا اس کے نیچے سے آواز رہی تھی ‘ لوگوں نے ان کے سینہ اور چہرہ سے کپڑا ہٹایا تو ان کے منہ سے آواز آرہی تھی : محمد رسول اللہ النبی الامی خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (رسائل ابن ابی الدنیا ج ٣ ص ٣٨٨‘ مئو سستہ الکتب الثفافیہ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ معراج کی ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں اس میں مذکور ہے کہ مسجد اقصی میں نبیوں نے حضرت جبریل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا :
ھذا محمد رسول اللہ خاتم النبیین۔ یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں ۔ (مسند البز ارج ١ ص ٤٠‘ رقم الحدیث : ٥٥‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٩ )
اسی روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام نبیوں کے خطاب کے بعد یہ خطبہ پڑھا : الحمد للہ الذی ارسلنی رحمۃ للعلمین و کافۃ للناس بشیرا ونذیرا وانزل علی الفرقان فیہ تبیان کل شیء وجعل امتی خیر امتی امۃ اخرجت للناس وجعل امتی وسطا وجعل امتی ھم الا ولون والا خرون وشرح لی صدری وجعلنی فاتحاو خاتما ۔
ترجمہ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں کے لیے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور مجھ پر قرآن نازل کیا جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور میری امت کو تمام امتوں میں بہتر اور کامل بنایا جس کو لوگوں کے سامنے بھیجا گیا اور میری امت کو (قیامت میں) اول اور (دنیا میں) آخر بنایا اور میرے سینہ کو کھول دیا اور مجھے نبوت کی ابتداء کرنے والا اور نبوت کو ختم کرنے والا بنایا ۔
اور اس حدیث کے آخر میں ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : قد اتخذتک خلیلا وھو مکتوب فی التوراۃ محمد حبیب الرحمان وارسلتک الی الناس کافۃ وجعلت امتک ھم الاولون وھم الا خرون وجعلت امتک لا تجوز لھم خطبۃ حتی یشھدوا انک عبدی و رسولی وجعلتک اول النبیین خلقا واخرھم بعثا (الی قولہ) وجعلتک فاتحاو خاتما ۔
ترجمہ : میں نے آپ کو خلیل بنایا ‘ اور تورات میں لکھا ہوا ہے محمد رحمان کے حبیب ہیں اور میں نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنایا اور آپ کی امت کو اول اور آخر بنایا اور جب تک آپ کی امت یہ گواہی نہ دے کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں ان کا خطبہ جائز نہیں ہوگا ‘ اور میں نے آپ کو پیدائش میں تمام نبیوں سے پہلے بنایا اور دنیا میں سب سے آخر میں بھیجا اور آپ کو نبوت کی کی ابتداء کرنے والا اور نبوت کو ختم کرنے والا بنایا ۔ (مسند البز ارج ١ ص ٤٤‘ رقم الحدیث : ٥٥‘چشتی)(مجمع الزوائد ج ١ ص ٧١)

حضرت ابن زمل رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خوب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : رہی وہ اونٹنی جس کو تم نے خواب میں دیکھا اور یہ دیکھا کہ میں اس اونٹنی کو چلا رہا ہوں تو اس سے مراد قیامت ہے ‘ نہ میرے بعد کوئی نبی ہو گا اور نہ میری امت کے بعد کوئی امت ہوگی ۔ (دلائل النبوۃ ج ٧ ص ٣٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٨١٤٦‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٢٠١٨)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ نے الواقعہ : ١٣ کی تفسیر میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٣١٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح درود شریف پڑھو : لبیک اللھم ربی وسعدیک صلوات اللہ البر الرحیم ‘ والملائکۃ المقربین والنبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وما سبح لک من شیء یا رب العلمین علی محمد بن عبد اللہ خاتم النبیین وسید المرسلین و امام المتقین و رسول رب العلمین الشاھد البشیر الداعی ا الیک باذنک السراج المنیر و (علیہ السلام) ۔
(الشفاء ج ٤ ص ٦٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ ‘ نسیم الریاض ج ٥ ص ٥٤۔ ٥٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مدعی نبوت کی تصدیق کرنے والوں کو فقہاءِ اسلام کا کافر اور مرتد قرار دینا
۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور یہ قرآن مجید کی صریح آیات اور حادیث متواترہ سے ثابت ہے اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور اس کا انکار کفر ہے ۔ ⬇

امام محمد بن محمد زالی متوفی ٥٠٥ ھ اس مسئلہ پر بہث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہمیں اجماع اور مختلف قرائن سے یہ معلوم ہوا ہے کہ لانبی بعدی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بند کردیا گیا ہے اور خاتم النبیین سے مراد بھی مطلق انبیاء ہیں ‘ غرض ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوا کہ ان لفظوں میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے اور جو شخص اس حدیث میں تاویل یا تخصیص کرے وہ اجماع کا منکر ہے ۔ (الاقتصادفی الاعتقاد (مترجم) صفحہ ١٦٣‘ محصلاً مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،چشتی)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : اسی طرح ہم اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یا آپ کے عبد کسی نبوت کا دعویٰ کرے (الی قولہ) اسی طرح ہم اس شخصکو کافر کہتے ہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ اس کی طف وحی کی جاتی ہے خواہ وہ نبوت کا دعویٰ نہ کرے ‘ پس یہسب لوگ کافر ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ہیں ‘ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا اور آپ نے اللہ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنایا گیا ہۃ ے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس کا ظاہر مفہوم مراد ہے اور اس کلام میں کوئی تاویل یا تخصیص نہیں ہے ‘ اور ان لوگوں کا کفر قطعی اجماعی اور سماعی ہے ۔ (الشفاء ج ٢ ص ٢٣٨۔ ٢٣٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) ۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ اور امام ملا علی سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ نے بھی الشفاء کی اس عبارت کو مقرر رکھا ہے ۔ (نسیم الریاض ج ٦ ص ٣٥٦۔ ٣٥٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ شرح الشفاء ج ٢ ص ٥١٦۔ ٥١٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

نیز قاضی عیاض بن موسیٰ مالی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : عبد الملک بن مروان الحارث نے نبوت کے دعویٰ دار ایک شخص کو قتل کر دیا اور اس کو سولی پر لٹکا دیا اور متعدد خلفاء اور بادشاہوں نے اسی طرح مدعیان نبوت کو قتل کیا اور اس زمانہ کے علماء نے ان کے اس اقدام کو صحیح قرار دیا ۔ (الشفاء ج ٢ ص ٢٤٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)

علامہ خفاجی حنفی نے اس کی شرح میں کہا کیونکہ مدعیان نبوت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کی تکذیب کی کہ آپ خاتم الرسل ہیں اور آپ کے عبد کوئی رسول مبعوث نہیں ہوگا ۔ (نسیم الریاض ج ٦ ص ٣٩٤ بیروت)

امام ملا علی قاری حنفی نے لکھا کہ ان مدعیان نبوت کو انکے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ۔ (شرح الشفاء ج ٢ ص ٥٣٤)

علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف غزناطی اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں : جس کا یہ مذہب ہے کہ نبوت کسبی ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی یا جس کا یہ مذہب ہے کہ ولی نبی سے افضل ہے وہ زندیق ہے او اس کا قتل کر ھنا واجب ہے ‘ اور کئی لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ان کو لوگوں نے قتل کردیا۔ اور ہمارے زمانہ میں مالقہ (اندلس کا شہر) کے فقراء میں سے ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا تو اس کو سلطان ابن الاحمر بادشاہ اندلس نے قتل کردیا اور اس کو سولی پر لٹکا دیا ۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٤٨٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

علامہ محمد الشربینی الشافعی من القران السابع لکھتے ہیں :
جو شخص ہمار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی مدعی نبوت کی تصدیق کرے وہ کافر ہے ۔ (مغنی المحتاج ج ٤ ص ١٣٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٥٢ ھ،چشتی)

علامہ موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں : جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا یا جس شخص نے کسی مدعی نبوت کی تصدیق کی وہ مرتد ہو گیا ‘ کیونکہ جب مسیلمہ نے دعویٰ نبوت کیا اور اس کی قوم نے اس کی تصدیق کی تو وہ سب اس کی تصدیق کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے ‘ اسی طرح طلیحہ الاسدی اور اس کے مصدقین بھی مرتد ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ تیس کذاب نکلیں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ (المغنی ج ٩ ص ٣٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)

امام محمد بن محمد الغزالی الشافعی المتوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں : نظام معتزلی اور اس کے موافقین صری خبر متواتر کو دین میں حجت قطعیہ مانتے ہیں اور اجماع کے حجت قطعیہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ‘ نظام نے کہا اس پر کوئی عقلی یا شرعی قطعی دلیل نہیں ہے کہ اہل اجماع پر خطاء محال ہے ‘ اور نظام کا یہ قول تابعین کے اجماع کے مخالف ہے ‘ کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ان کا اس پر اجماع ہے کہ جس بات پر صحابہ کرام نے اجاع کیا ہے وہ قطعی حق ہے اور اس کا خلاف ممکن نہیں ہے ‘ پس نظام معتزلی نیاجماع کی حجیت کا انکار کر کے اجماع کے خلاف کیا ۔ اور یہ ایک اجتہادی امر ہے اور میرے اس میں کئی اعتراض ہیں ‘ کیونکہ اجماع کے حجت ہونے میں کئی اشکالات ہیں اور یہ نظام کے عذرہونے کی گنجائش رکھتا ہے ‘ لیکن اگر اجماع کے حجت ہونی پر عدم اعتمادہ کا دروازہ کھول دیا جائے تو اس سے کئی خرابیاں لازم آئیں گی ۔ ان خرابیوں میں سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہمار نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن ہے تو اس کی تکفیر میں توقف کرنا بعید ہو گا ۔ اور اس کو کافر کہنے کی بناء لامحالہ اجماع کی مخالفت پر رکھی جائے گی ‘ کیونکہ آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت کو عقل محال نہیں قرار دیتی ‘ اور وہ جو حدیث میں ہے لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور قرآن مجید میں خاتم النبیین ہے ‘ تو منکر اجماع اس کی تاویل سے عاجز نہیں ہے ‘ وہ کہہ سکتا ہے کہ خاتم النبیین سے مراد یہ ہے کہ آپ اولوا العزم رسولوں کے خاتم ہیں ‘ مطلقاً الانبیاء کے خاتم نہیں ہیں ‘ اور اگر اس پر اصرار کیا جائے کہ النبیین عام ہے تو عام کی تخصیص کرنا بھی کوئی مس بعد چیز نہیں ہے ‘ اور یہ جو آپکا ارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس حدیث میں آپ نے رسول کے آنے کی نفی نہیں کی ہے اور نبی اور رسول میں فرق کیا گیا ہے اور نبی کا مرتبہ رسول سے بلند ہے ‘ منکر اجماع کے پاس اس طرح کے اور بھی ہذیان ہیں۔ اس قسم کے فضول ہذیانوں کی وجہ سے ہمارے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے کہ محض خاتم النبیین کا لفظ اس پر دلیل ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور بعض نصوص صریحہ میں اس سے بھی زیادہ بعید تاویلات کی جاتی ہیں لیکن ان بعید تاویلات کی وجہ سے وہ نصوص باطل نہیں ہوتیں۔۔
تاہم اس منکر اجماع پر اس طرح روکا جائے گا کہ تمام امت نے بالا جماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہی معنی سمجھا ہے (کہ آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن نہیں ہے) اور آپ کے احوال کے قرائن سے بھی یہی بات مفہوم ہوتی ہے کہ آپ کے بعد کبھی بھی کوئی رسول نہیں آ سکتا اور اس میں کوئی تاویل اور تخصیص نہیں ہو سکتی اور اس بات کا انکار وہی کرے گا جو اجماع کا منکر ہوگا ۔ (الاقتصادنی الاعتقاد ص ٢٧٣۔ ٢٧٢‘ دارو مکتبۃ الہلال بیروت ‘ ١٩٩٣ ھ)

ہر چند کہ امام غزالی کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کا آنا کبھی بھی ممکن نہیں ہے اور اس آیت میں تاویل کرنا اور اسی طرح اس حدیث میں تخصیص کرنا ان کے نزدیک باطل اور ہذیان ہے ۔ لیکن اس کو کافر قرار دینے میں ان کو تامل ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کی تکفیر اجماع کی بناء پر ہوگی اور اجماع ان کے نزدیک حجت قطعی نہیں ہے اور جب تک اجماع کو ساتھ نہ ملایا جائے صرف خاتم النبیین کے لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آ سکتا ‘ ہاں اس پر تمام امت کا اجماع ہے لیکن ان کے نزدیک اجماع حجت قطعی نہیں ہے کہ اس کے منکر کو کافر قرار دیا جائے ۔

علامہ ابو عبد اللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے امام غزالی کی اس عبارت سے اتفاق نہیں کیا اور اس پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : الغزالی نے اپنی کتاب ” الاقتصاد “ میں اس آیت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ میرے نزدیک الحاد ہے اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے متعلق مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کو تشویش میں ڈالنا ہے اور یہ بہت خبیث راستہ ہے ‘ سو اس نظریہ سے بچو ‘ اس نظریہ سے بچو ‘ اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٧٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

اور علامہ محمد بن خلیفہ الوثتانی الابی المالکی المتوفی ٨٢٨ ھ نے علامہ قرطبی کی عبارت پر یہ تبصرہ کیا ہے : الغزالی نے ختم نبوت کے متعلق جو اس آیت میں ذکر کیا ہے وہ الحاد ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کو تشویش میں ڈالنے کےلیے خبیث طریقہ ہے ‘ سو اس نظریہ سے بچو ! اس نظریہ سے بچو ‘ یہ ابن بزیزہ کی عبارت ہے ۔

امام غزالی کی عبارت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو ختم نبوت کے عقیدہ کے خلاف وہم پیدا کرے ‘ امام غزالی کے حاسدین نے ان کی طرف یہ تہمت لگائی ہے ‘ اور ابن عطیہ نے ان پر یہ حملہ کیا ہے اور امام غزالی اس تہمت سے بری ہیں ‘ اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس بدعقیدگی سے برأت کا اظہار کیا ہے ‘ کیونکہ یہ بات تو مبتدعین کہتے ہیں کہ نبوت کسبی چیز ہے اور انہوں نے اس مشہور حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ایک جملہ کو زائد ڈال دیا گیا ہے ” عنقریب میرے بعد تیس ایسے آدمیوں کا ظہور ہوگا جن ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر جس کو اللہ چاہے “ اس آخری جملہ (مگر جس کو اللہ چاہے) کو محمد بن سعید شامی نے زائد کیا تھا اور اس کو اس کی زندیقی کی بناء پر سولی دی گئی ‘ بعض لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے نزول کی وجہ سے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے مگر اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین والوں کی طرف رسول بن کر اور مبعوث ہو کر نازل نہیں ہوں گے ۔ (اکمال اکمال المعلم ج ١ ص ٦٠٧۔ ٦٠٦‘ ج ٨ ص ٢٣۔ ٢٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابی کے شاگرد علامہ محمد بن محمد بن یوسف السنوسی الحسنینی بھی حسب معمول اس متام عبار کو بیعنہ نقل کیا ہے ۔
(مکمل اکمال الا کمال مع شرح الابی ج ١ ص ٦٠٧۔ ٦٠٦‘ ج ٨ ص ٢٣۔ ٢٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)

امام غزالی کی ظاہر عبارت پر بہر حال یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان کو انکار ختم نبوت کو کفر قرار دینے میں تامل ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کا کفر ہونا اجماع سے ثابت ہوگا اور اجماع ان کے نزدیک حجت قطعیہ نہیں ہے ‘ تاہم وہ آیت ختم نبوت اور حدیث ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کو باطل اور ہذیان قرار دیتے ہیں ‘ امام غزالی کو اعتراض سے بچانے کےلیے بعض علماء نے امام غزالی کی عبارت کا صرف اتنا حصہ ہی نقل کیا ہے ۔

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : بے شک امت نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لانبی بعدی) اور قرائن احوال سے بالا جماع یہی سمجھا ہے کہ آپ کے بعد ابد تک نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول اور یہ کہ نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے نہ تخصیص ۔ (ختم نبوت (کامل) ص ٣٢٩‘ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٤١٩ ھ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ ‘ متوفی ١٣٤٠ ھ نے امام غزالی سے اعتراض اٹھانے کےلیے ان کی عبارت میں تصرف کرکے اس عبارت کو یوں نقل کیا ہے : یعنی تمام امت محمد یہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ نے لفظ خاتم النبیین سییہی سمجھا کہ وہ بتاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کبھی کوئی نبی نہ ہوگا حضور کے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور تمام امت نے یہی مانا کہ اس لفظ میں نہ کوئی تاویل ہے کہ آخر البیین کے سوا خاتم البیین کے کچھ اور معنی گھڑے ‘ نہ اس عموم میں کچھ تخصیص ہے کہ حضور کے ختم نبوت کو کسی زمانہ یا زمین کے کسی طبقہ سے خاص کیجیے اور جو اس میں تاویل اور تخصیص کو راہ دے اس کی بات جنون یا نشے یا سر سام میں بہکنے برانے یا بکنے کے قبیل سے ہے اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ وہ آیت قرآن کی تکذیب کر رہا ہے جس میں اصلاً تاویل و تخصیص نہ ہونے پر امت مرحومہ کا اجماع ہو چکا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ١٥ صفحہ ٧٢٤ طبع جدید ‘ رضا فائونڈیشن لاہور ‘ ١٤٢٠ ھ،چشتی)
اعلیٰ حضرت پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ انہوں نے امام غزالی کی عبارت میں تحریف کی ہے اور تکفیر کے لفظ کا اضافہ کیا ہے کیونکہ اعلیٰ حضرت نے تمام امت کے اجماع کی بناء پر ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کو امام غزالی کے نزدیک کفر کہا ہے اور اجماع امت کی بناء پر امام غزالی بھی اس کو کافر کہتے ہیں البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اجماع امت سے صرف نظر کر کے صرف خاتم النبیین کے لفظ سے اس کے منکر کا کفر ثابت نہیں ہو گا اور اجماع ان کے نزدیک قطعی حجت نہیں ہے ‘ بہر حال یہ ایک علمی اصلاح ہے اور امام غزالی کے نزدیک بھی آیت ختم نبوت اور حدیث ختم نبوت میں کوئی تاویل اور تخصیص جائز نہیں ہے ۔

منکرینِ ختمِ نبوت کا اجمالی جائزہ

اس وقت دنیا میں بہائی اور قادیانی ہیں جو ختم نبوت کے منکر ہیں ۔ یا امریکا میں کچھ لوگ ہیں جو علی جاہ کی نبوت کے قائل ہیں ۔ بہائی اور علی جاہ کے پیروکار بہت کم تعداد میں ہیں ‘ سب سے زیادہ قادیانی ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار ہیں ان کے دو فرقے ہیں ان کی غالب اکثریت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتی ہے ‘ دوسرا فرقہ مرزا قادیانی کو مجدد اور محدث مانتا ہے اس کو لاہوری جماعت کہا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مرزا کو الہام اور وحی میں اشتباہ ہو گیا ‘ قادیانی فرقہ ان کو کافر کہتا ہے ۔ بلکہ وہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے ‘ ان کے نزدیک جو بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے ۔
مرزا غلم احمد قادیانی مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک گاٶں قادیان میں ١٨٤٠ ء میں پیدا ہوا ‘ وہ لکھتا ہے کہ جب اس کی عمر چالیس سال کی ہو گئی تو اس پر زور شور سے مکالمات الٰہیہ کا سلسہ شروع ہوا۔ (کتاب البریہ صفحہ ١٣٦)

١٨٨٠ ء میں مرزا ایک مبلغ کی حیثیت سے ظاہر ہوا پھر اس نے محدث ہونے کا دعویٰ کیا اور اس نے یہ کہا کہ اس کو الہام کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قُربِ قیامت میں آسمان سے نازل ہونے اور اب تک زندہ ہوے کا جو مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے وہ غلط ہے ۔ اور اس عقیدہ کو ختم نبوت کے منافی قرار دیا اور ١٨٩٠ ء تک برابر کہتا رہا کہ میرے نزدیک نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین اور آخری نبی ہیں ‘ پھر اس نے خود کو مثل مسیح اور مسیح موعود قرارد یا ‘ اور ١٨٩١ ء میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ١٩٠٨ ء تک اس دعویٰ پر قائم رہا اور اسی سال کی عمر میں قے اور اور ہیضہ میں مبتلا ہو کر مرگیا ۔

ان تمام عنوانات پر پروفیسر محمد الیاس برنی نے اپنی کتاب ” قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ “ میں خود مرزا غلام احمد قادیانی اور دیگر صنادید مرزائیوں کی تصانیف کے حوالوں سے لکھا ہے ‘ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی قارئین کی معلومات کےلیے اس کتاب کے ان اقتباسات کو پیش کر رہے ہا جن سے خود مرزا اور دیگر ضادید کے حوالوں سے مر زا کا محدث کا دعویٰ کرنا ‘ پھر مثیل موعود کا دعویٰ کرنا اور ختم نبوت کا اقرار کرنا اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنا اور ختم نبوت کا انکار کرنا واضح ہوتا ہے ۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا ختم نبوت پر ایمان و اصرار ” قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بہ کمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لا نبی بعدی میں بھی نفی عام ہے ۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہو چکی تھی ‘ پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کردیا جائے ۔ کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے ‘ اس کی وحی ہوئی ۔ (ایام صلح “ ص ١٤٦ ” روحانی خزائن “ ص ٣٩٢۔ ٣٩٣‘ ج ١٤ ، مرزا غلام احمد قادیانی)

اور اللہ کو شایان نہیں کہ خاتم النبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہیں شایان کہ سلسلہ نبوت کو دوبارہ از سر نو شروع کردے۔ بعد اس کے کہ اسے قطع کرچکا ہو اور بعض احکام قرآن کریم کے منسوخ کردے اور ان پر بڑھادے ۔ (آئینہ کمالات اسلام “ ص ٣٧٧“ روحانی خزائن “ ص ٣٧٧ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبرئیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اللہ ‘ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو ‘ پیدا ہوجائے اور جو امر ستلزم محال ہو ‘ وہ محال ہوتا ہے ۔ (ازالہ اوہام “ حصہ دوم ص ٥٨٣ ” روحانی خزائن “ ص ٤١٤ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں بھی ارشارہ ہے ۔ پس اگر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کو تمام آنے والوں زمانوں اور ان زمانوں کے لوگوں کے علاج اور دوا کی رو سے مناسب نہ ہوتی تو اس عظیم الشان نبی کریم کو ان کے علاج کے واسطے قیامت تک ہمیشہ کے لیے نہ بھیجتا اور ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نبی کی حاجت نہیں کیونکہ آپ کے برکات ہر زمانہ پر محیط اور آپ کے فیض اولیاء اور اقطاب اور محدثین کے قلوب پر بلکہ کل مخلوقات پر وارد ہیں ۔ خواہ ان کو اس کا علم بھی نہ ہو کہ انہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک سے فیض پہنچ رہا ہے ۔ پس اس کا احسان تمام لوگوں پر ہے ۔ (حمامۃ البشری “ ‘ ٤٩‘ طبع اول ‘ ص ٦٠‘ طبع دوم ‘ روحانی خزائن “ ص ٢٤٣۔ ٢٤٤‘ ج ٧‘ ، مرزا غلام احمد قادیانی)

میں ایمان لاتا ہوں اس پر کہ ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب قرآن کریم ہدایت کا وسیلہ ہے اور میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ ہمارے رسول آدم کے فرزندوں کے سردار اور رسولوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ۔ (آئینہ کمالات اسلام ص ٢١‘ روحانی خزائن ص ٢١ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت جماعت کا عقیدہ ہے ۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں ۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہو گئی ۔ (مرزا غلام احمد قادیانی کا اشتہار ‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٣٠‘ ج امور خہ ٢ اکتوبر ١٨٩١ ء مندرجہ تبلیغ رسالت جالد دوم ص ٢)

محدثیت سے نبوت تک ترقی

ہمارے سید و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی نبی نہیں آ سکتا ۔ اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں ۔ (شہادت القرآن ص ٢٨‘ روحانی خزائن ص ٣٢٣۔ ٣٢٤‘ ج ٦‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

میں نبی نہیں ہوں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفیٰ کی تجدید کروں ۔ (آئینہ کمالات اسلام ص ٣٨٣‘ روحانی خزائن ص ٣٨٣‘ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

میں نے ہرگز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلدی کی اور میرے قول کے سمجھنے میں غلطی کی ۔ میں نے لوگوں سے سوائے اس کے جو میں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور کچھ نہیں کہا کہ میں محدث ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح محدثین سے ۔ (حمامۃ البشری ص ٩٦‘ روحانی خزائن ص ٢٩٦۔ ٢٩٧‘ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا ہے اور کہہ دیا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ ان کا قول قطعاً جھوٹ ہے ۔ جس میں سچ کا شائبہ نہیں اور نہ اس کی کوئی اصل ہے ۔ ہاں میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ محدث میں تمام اجزائے نبوت پائے جاتے ہیں لیکن بالقوۃ ‘ بالفعل نہیں تو محدث بالقوۃ نبی ہے اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا تو وہ بھی نبی ہو جاتا ہے ۔ (حمامۃ البشری ص ٩٩‘ روحانی خزائن ص ٣٠٠‘ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے ۔ (ازالہ اوہام ص ٤٢١‘ روحانی خزائن ص ٣٢٠ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

اس (محدثیت) کو اگر ایک مجازی نبوت قرار دیا جائے یا ایک شعبہ قویہ نبوت کا ٹھہرایا جائے تو کیا اس سے نبوت کا دعویٰ لازم آگیا ۔ (ازالہ اوہام ص ٤٢٢‘ روحانی خزائن ص ٣٢١ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

مسیح موعود کی اہمیت : اول تو یہ جاننا چاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو ۔ بلکہ صدہا پیشنگوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوی بیان نہیں کی گئی تھی ‘ اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا ۔ (ازالہ اوہام طبع اول ص ١٤٠‘ روحانی خزائن ص ١٧١ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثل بھی نبی چاہیے ‘ کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کےلیے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہو گا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا اور اس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرے گا کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان کا امام ہوں ۔ (توضیح المرام ص ١٩‘ روحانی خزائن ص ٥٩‘ ج ٣ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)

مثیل مسیح بننے پر قناعت (م) ۔ اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بہ شدت مناسبت و مشابہت ہے ۔ (اشتہار مندر ج تبلیغ رسالت ‘ جلد اول ص ١٥‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٤ ج ١)

مرزا قادیانی کا حقیقی نبی تک کا سفر

در حقیقت خدا کی طرف سے خدا تعالیٰ مقرر کردہ اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کی رو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو ‘ تمام کمالات نبوت اس میں اس حدتک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں تو میں کہوں گا کہ ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود حقیقی نبی تھے ۔ (القول افصل ص ١٢‘ مصنف میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان)

پس شریعت اسلام نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت (مرزا) صاحب ہرگز مجازی نبی نہیں ہیں ‘ بلکہ حقیقی نبی ہیں ۔ (حقیقۃ النبوۃ ص ١٧٤‘ مصنف میاں محمود احمد خلیفہ قادیان)

حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی مرتد) رسول اللہ اور نبی اللہ جو کہ اپنی ہر ایک شان میں اسرائیلی مسیح سے کم نہیں اور ہر طرح بڑھ چڑھ کر رہے ۔ (کشف الاختلاف ص ٧‘ مصنف سید محمد سرور شاہ صاحب قادیانی) ۔ (مزید حصّہ پنجم می ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...