خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 11
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاریخ ولادت و وصالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ سوم : دیابنہ اور وہابیہ نے اعلحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب کے کتر و بیونت کر کے جھوٹ بولا اور لکھا کہ آپ نے 8 ربیع الاوّل یوم ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ لکھی ہے جبکہ اصل کتاب میں اعلحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ نے مکمل تحقیق کے بعد مشہور قول بارہ (12) ربیع الاوّل لکھا ہے اور اسی پر جمہور امت اور اہلِ حرم کا عمل قرار دیا ہے کہ اسی تاریخ کو وہ میلاد مناتے ہیں ۔ (نطق الہلال صفحہ نمبر 411)(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 26)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تاریخ ولادت مکمل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں 12 ربیع الاوّل مشہور ہے اور اسی پر جمہور امت کا عمل لکھا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ نمبر 411 ، 412 ، 408۔چشتی)
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس میں اقوال بہت مختلف ہیں : دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں، مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے، مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔کما فی المواھب والمدارج،جیسا کہ مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے۔علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی علیہما الحمہ فرماتے ہیں : المشھور أنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الأول و ھو قول محمد بن اسحاق امام المغازی وغیرہ“مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے، امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ شرح مواہب میں امام ابن کثیر سے ہے:”ھو المشھور عند الجمھور“جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے۔اسی میں ہے:”ھو الذی علیہ العمل“یہی وہ ہے جس پر عمل ہے۔شرح الہمزیہ میں ہے:”ھو المشھور و علیہ العمل“یہی مشہور اور اسی پر عمل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 26 ، ص 411، 412، رضا فاؤنڈیشن، لاھور،چشتی)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وصال با کمال کی تاریخ میں بھی اختلا ف ہے ۔ مشہورقول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا وصال مبارک بارہ ربیع الاول کو ہوا ، لیکن تحقیق یہ ہے کہ حقیقۃً بحسب رؤیت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرہویں تھی، کیونکہ یہ تو بالاجماع ثابت ہے کہ وفات مبارکہ پیر کے دن ہوئی اور یہ بھی ثابت ہے کہ دس ذوالحجہ کو جمعۃ المبارک تھا، اب اگر حساب کیا جائے ، تو بارہ ربیع الاول کسی بھی اعتبار سے پیر کو نہیں بنتی، لیکن مدینہ شریف میں چونکہ رؤیت نہیں ہوئی تھی، لہٰذا ان کے حساب سے بارہویں تھی اور اسی کو راویوں نے بیان کیا اور یہی جمہور کے نزدیک مقبول ٹھہری ۔
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”قول مشہور و معتمد جمہور دوازدہم (12) ربیع الاول شریف ہے،ابن سعد نے طبقات میں بطریق عمر بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کی:” مات رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت ربیع الأول“یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات شریف روز دو شنبہ ، بارھویں تاریخ ، ربیع الا ول شریف کوہو ئی ۔
کامل ابن اثیر جزری میں ہے : کان موتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یوم الاثنین لثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الأول“ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال بارہ ربیع الاول پیر کے روز ہوا ۔ اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقۃً بحسب رؤیت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی، مدینہ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی، لہٰذا ان کے حساب سے بارھویں ٹھہری، وہی رواۃ نے اپنے حساب کی بنا پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی، یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر و امام بدر الدین بن جماعہ و غیرہم اکا بر محدثین و محققین ہے ۔
تفصیل مقام و توضیح مرام یہ ہے کہ وفات اقدس ماہ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی ، اس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے، جس میں اصلا جائے نزاع نہیں۔۔۔ادھر یہ بلا شبہ ثابت کہ اس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا، اس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالاجماع روز جمعہ ہے۔۔۔ اور جب ذی الحجہ 10ھ کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ کی 12 کسی طرح روز دو شنبہ نہیں آتی کہ اگر ذی الحجہ، محرم ، صفر تینوں مہینے 30 کے لیے جائیں ، تو غرہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرہویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں ، تو غرہ روز یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں اور اگر ان میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے ، تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں چودہویں اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے، تو پہلی پیر کی ہوتی ہے، پھر پیر کی آٹھویں پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں ۔
قول جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لا حل سمجھ کر انہوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا ۔ مگر امام بدر بن جماعہ نے قول جمہور کی یہ تاویل کی کہ اثنی عشر خلتسے بارہ دن گزرنا مراد ہے، نہ کہ صرف بارہ راتیں اور پُر ظاہر کہ بارہ دن گزرنا تیرہویں ہی تاریخ پر صادق آئے گا اور دو شنبہ کی تیرہویں بے تکلف صحیح ہے ، جبکہ پہلے تینوں مہینے کامل ہوں ، کما علمت اور امام بارزی و امام ابن کثیر نے یوں توجیہ فرمائی کہ مکہ معظمہ میں ہلال ذی الحجہ کی رؤیت شام چار شنبہ کو ہوئی، پنجشنبہ کا غرہ اور جمعہ کا عرفہ ، مگر مدینہ طیبہ میں رؤیت دوسرے دن ہوئی ، تو ذی الحجہ کی پہلی جمعہ کی ٹھہری اور تینوں مہینے ذی الحجہ، محرم، صفر تیس تیس کے ہوئے ، تو غرہ ربیع الاول پنجشنبہ اور بارہویں دو شنبہ آئی ۔ (فتاوی رضویہ جلد 26 ، ص415تا421 رضا فاؤنڈیشن، لاھور،چشتی)
اعلحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ کی تحقیق کی آدھی عبارات پیش کرکے اور اپنی طرف سے کتر و بیونت کر کے اس میں خیانت کر کے مکمل عبارات غائب کر کے دیابنہ اور وہابیہ نے 8 ربیع الاوّل ولادت لکھ کر جھوٹی پوسٹیں بنائیں او جھوٹی پوسٹیں بنانے والوں اور خیانت کرنے والو اگر دیانت ، شرم و حیاء کہیں ادھار ملتا ہو تو ادھار لے لو اور خیانت کرنا ، بے حیائی و بے شرمی اور جھوٹ بولنا چھوڑ دو ۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول ہی کو مشہور اورعرب و عجم کے مسلمانوں میں معمول بہ ہے ، تو اس دن خوشی کا اظہار کرنا اور میلاد کی محافل منعقد کرنا ، نہ صرف جائز ، بلکہ محبوب و مستحسن ہے،اس دن ایک قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وصال کا دن ہونے کی وجہ سے بھی ولادت کی خوشی میں کوئی فرق نہیں آئے گا کہ اسلام میں سوگ تومرنے والے کی بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن اور اس کے علاوہ باقی اعزہ و اقرباء کے لیے صرف تین دن تک جائز ہے ، اس سے زیادہ جائز نہیں ، تو صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وصال مبارک پر مغموم اور رنجیدہ تھے ، تو وہ سوگ کی وجہ سے تھے ، اب اتنا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے ہمارے لیے سوگ جائز نہیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی تشریف آوری کی خوشی کےلیے کوئی دن اور مہینہ خاص نہیں اور اس کی کوئی تعیین و تحدید نہیں ہے ، لہٰذا مؤمنین ہر سال ، ہر ماہ اور ہر دن آپ کی تشریف آوری والی نعمت کا شکر بجا لانے کےلیے موقع کی مناسبت سے خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔
سوگ تین دن کےلیے جائز ہے ، اس سے زیادہ جائز نہیں ، مگر جس کا خاوند فوت ہو جائے ، اس عورت کےلیے چار ماہ دس دن کا سوگ ہے ۔ چنانچہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، آپ فرماتی ہیں : نھینا أن نحد أکثر من ثلٰث إلا لزوج “ ہمیں تین دن سے زیادہ سوگ سے منع کیا گیا ہے ، سوائے اس عورت کے ، جس کا خاوند فوت ہو جائے۔(بخاری شریف، جلد 1 صفحہ 170 مطبوعہ کراچی)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، آپ فرماتی ہیں : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم یقول لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاٰخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث الا علی زوج فانھا تحد علیہ أربعۃ أشھر و عشرا“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو ، اس کےلیے یہ حلال نہیں کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ، مگر جس کا شوہر فوت ہو جائے ، وہ اس پر چار ماہ اور دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری شریف جلد 1ص 171 ، مطبوعہ کراچی)
میلاد شریف حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت پاک پر خوشی کا اظہار کرنااور آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت پاک ، حمل شریف ، شیر خوارگی کے واقعات ، نورِ محمد ی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی کرامات ، نسب نامہ ، پرورش کے دوران کے واقعات ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اوصاف و کمالات وغیرہا محاسن کے بیان کانام ہے ، جو شرعاً جائز و مستحسن ہے اور دنیا و آخرت کی ہزارہا نعمتوں و برکتوں کے حصول کا سبب ہے ، اس کا جواز بکثرت آیات و احادیث ، حتیٰ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اقوال و افعال ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین علیہم الرحمہ سے ثابت ہے اگرچہ جواز کےلیے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ اس کی ممانعت شریعت سے ثابت نہیں ہے اور جس کام سے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے منع نہیں فرمایا ، وہ کسی کے منع کرنے سے منع نہیں ہو سکتا ۔ (مزید حصّہ نمبر 12 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment