Wednesday, 21 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 6

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معنیٰ مفہوم اور دلائل : عیدِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت یا زمانے کی خوشی ۔ اسلام میں شرعا دو عیدیں ہی ہیں جنہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں ۔ کسی اور دن کے ساتھ لفظ عید لگانے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ۔ اگر ممانعت ہے تو آپ وہ ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں ۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی اور دن کو عید کا دن کہتے تھے ؟ ۔ تو اس کا جواب غیرمقلدین وہابی حضرات کے علامہ وحیدالزمان بخاری کی شرح بنام تیسیرالبخاری کی جلد 6 صفحہ 104 پر ایک حدیث لکھی ہےجو اصل کتاب بخاری شریف کی جلد 2 صفحہ 662 پر موجود ہے ۔ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں یہودی لوگ (مثلاً کعب احبار) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے ۔ تم (اپنے قرآن مجید میں) ایک ایسی آیت پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید (خوشی کا دن) مقرر کرلیتے ۔ حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سے آیت ہے ، انہوں نے کہا ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں خوب جانتا ہو ں یہ آیت مبارکہ کب اتری اور کہاں اتری ؟ اور جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوٸی تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہاں تھے ؟ یہ آیت مبارکہ عرفہ کے دن نازل ہوئي اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی قسم ۔ ہم میدان عرفات میں تھے ۔ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھ کو شک ہوا اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن ۔ اس حدیث کو لکھنے کے بعد وحید الزماں نے لکھا ہے قیس بن سلمہ کی روایت میں بالیقین مذکور ہےکہ وہ جمعہ کا دن تھا تو اس دن دوہری عید ہوئی ۔ (تیسیر البخاری جلد 6 صفحہ 104 من و عن)

دوہری سے مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ہے یعنی جمعۃ المبارک بھی "عید" کا دن ہے ۔

مشکوۃ ص 121، رواہ الترمذی۔میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت موجود ہے۔جس میں آپ نے یہودی کو جواباً ارشاد فرمایا کہ اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ۔ حضرت عبداللہ کے جواب کا مقصد یہودی کو یہ بات سمجھانا اور باور کروانا تھا کہ تم ایک"عید" کی بات کرتے ہو جب یہ آیت نازل ہوئی ان دن ہماری دو عیدیں تھیں ۔ یعنی یوم عرفہ اور جمعہ ۔

حضرت عبید بن سباق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جمعوں میں ایک جمعہ میں فرمایا : "اے مسلمانوں کے گروہ یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالی نے "عید" بنایا ہے ۔ تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگانے میں کوئی نقصان نہیں ۔ مسواک لازم پکڑو ۔ (مشکوۃ صفحہ 123)(سنن ابن ماجہ صفحہ 7)

ہمارے نزدیک تو تمام "عیدیں " عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صدقہ ہیں ۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا نہ ہوتے تو نہ عیدُالفطر ہوتی اور نہ عیدُالاضحیٰ ہوتی ۔ یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کی "عید" کے صدقہ میں ہمیں عطا ہوئيں ۔

خالصتاً دینی چیز ہے ۔۔۔۔ یہ کیا ڈھکوسلا ہے ؟ دینی اور غیر دینی ؟ جب قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنی ہوتی ہیں تو پمفلٹ پر لکھتے ہو ۔ میرا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ میرا جینا ، میرا مرنا ، سونا جاگنا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ اور جب مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے تو دینی اور غیر دینی الگ الگ کر دیتے ہو ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کےلیے ہے جو رب سارے جہان کا ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو  بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

مسلمان کا ہر عمل دین میں داخل ہے ۔

غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ آپ نے کسی کافر کو فرمایا کہ مسلمان کو اس کے ہر عمل پر ثواب ملتا ہے ۔ چاہے استنجاء کرے ، چاہے بیوی سے صحبت کرے ۔ اچھی نیت کے ساتھ اور سنّت پر عمل کرنے کےلیے کرے گا تو اس پر ثواب دیا جائے گا ۔ اور بروز قیامت مسلمان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے ۔
پاکستان کاجشن آزادی منانا کیا کوئی عمل نہيں ؟ اگر کوئی عمل نہیں تو لہوولعب میں شمار ہوگا ۔اگر عمل ہے پھر یا اچھا ہوگا یا برا ۔اگر برا ہے تو سزا دیا جائے گا اور اگر اچھا ہے تو جزا دیا جائے گا ۔ یہ اچھا عمل دین میں داخل نہیں ؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کا عمل دین میں داخل نہیں ؟ تو اگر کوئی فوجی ملک پاکستان کےلیے سرحد پر اپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ؟ تمہارے نزدیک ثواب اسی خود کُش بمبار کو ملے گا جو جشنِ میلاد کے جلوس میں بمب باندھ کر خود کو اڑا لے ؟ اور پچاس ساٹھ مسلمانوں کو شہید کر دے ۔ اور اسے ملے گا جو محرم کے جلوس میں بمب باندھ کر اپنے آپ کو اڑا لیتا ہے ؟ اور وہ تمہارے عقیدے کا ہے اس لیے اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ حوریں خدمت کےلیے آجاتی ہیں ۔

لَایُسٸَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسٸَلُوۡنَ
اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہوگا

کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے ، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے ۔

کیونکہ سب اس کے بندے ہیں مملوک ہیں ، سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے ۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد بطریقِ استفہام تو بیخاً فرمایا ۔
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَکُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُلًا ۔
بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ۔
کہ تم نے ان سے کیا کام لیا ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک کتاب لکھی ۔ جس کا نام ہے ۔ درالثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔اس میں نقل فرماتے ہیں : میرے والد نے مجھے خبر دی فرمایا کہ میں میلاد پاک کی خوشی میں میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا ، ایک تھا میں اتنا تنگ دست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر بھنے ہوئے چنے ، وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روبرو وہ بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں ۔ اور آپ ہشاش بشاش ہیں ۔

ایہہ دھرتی نہ ہوندی نہ آسمان ہوندا
جے پیدا نہ عرشاں دا مہمان ہوندا

جب تم قرآن کی نہ سنو اللہ کا کذب تم ممکن گنو مگر جان کی آفت گلے کی غل تو یہ ہے کہ جناب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے نقل فرمائیں ، یہ امام الطائفہ مولوی اسماعیل دہلوی کے نسب کے ، شریعت کے باپ ، طریق کے دادا ۔ اب انہیں نہ مشرک کہے بنتی ہے نہ کلامِ الہٰی پر ایمان لانے کو روٹھی وہابیت ملتی ہے ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب)

دوگونہ رنج و عذاب است جان لیلی را
بلائے صحبت مجنوں و فرقت مجنوں
(لیلی کی جان کو دوقسم کا دکھ اورعذاب ہے ،مجنوں کی صحبت اوراس کی جدائی کی مصیبت)

ہاں اب ذراگھبرا ئے دلوں ، شرمائی چتونوں سے لجائی انکھڑیاں اوپر اٹھایئے اوربحمد اللہ وہ سنیے کہ ایمان نصیب ہو تو سنی ہوجایئے ، جناب شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے ہیں : حدیث آخر ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی ، حضور مالک غیور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں : لما خرج من بطنی فنظرت الیہ فاذا انابہ ساجد ثم رایت سحابۃ بیضاء قد اقبلت من السماء حتی غشیتہ فغیب عن وجھی ، ثم تجلت فاذا انابہ مدرج فی ثوب صوف ابیض وتحتہ حریرۃ خضراء وقد قبض علی ثلٰثۃ مفاتیح من اللؤلوء الرطب واذا قائل یقول قبض محمد علی مفاتیح النصرۃ ومفاتیح الربح ومفاتیح النبوۃ ثم اقبلت سحابۃ اخرٰی حتی غشیتہ فغیب عن عینی ثم تجلت فاذا انابہ قد قبض علی حریرۃ خضراء مطویۃ واذقائل یقول بخٍ بخٍ قبض محمد علی الدنیا کلھا لم یبق خلق من اھلھا الادخل فی قبضتہ ۔ ھذا مختصر ۔ والحمدللہ رب العالمین ۔ جب حضور میرے شکم سے پیدا ہوئے میں نے دیکھا سجدے میں پڑے ہیں ، پھر ایک سفید ابر نے آسمان سے آکر حضور کو ڈھانپ لیا کہ میرے سامنے سے غائب ہوگئے ، پھر وہ پردہ ہٹا تو میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ایک اونی سفید کپڑے میں لپٹے ہیں اورسبز ریشمیں بچھونا بچھا ہے اورگوہر شاداب کی تین کنجیاں حضور کی مٹھی میں ہیں اورایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ نصرت کی کنجیاں ، نفع کی کنجیاں ، نبوت کی کنجیاں ، سب پر محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبضہ فرمایا ۔ پھر اور ابر نے آکر حضور کو ڈھانپا کہ میری نظر سے چھپ گئے ۔ پھر روشن ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سبز ریشم کا لپٹا ہوا کپڑا حضور کی مٹھی میں ہے اورکوئی منادی پکار رہا ہے واہ واہ ساری دنیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مٹھی میں آئی زمین وآسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے قبضہ میں نہ آئی ۔ (الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابو نعیم عن ابن عباس باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ مرکز اہلسنت گجرات الہند جلد ۱ صفحہ ۴۸)

آج کل نبی پاک کی ولادت کی خوشی میں محافل منعقد ہوتی ہیں ۔ جلسے جلوس ہوتے ہیں ، یہ کیا اجتماع ہے ؟ جو اجتماع قیامت کو قائم ہونے والا ہے ۔ اور اس میں جب سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان بیان کی جائے گی ۔

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے

حافظ ابو سعید عبدالملک بن عثمان کتاب شرف النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیٰمۃ وجمع اللہ الاولین والاٰخرین یؤتی بمنبرین من نور فینصب احدھما عن یمین العرش والاٰخر عن یسارہٖ ویعلوھما شخصان فینادی الذی عن یمین العرش معاشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنۃ ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان اسلّمھا الی ابی بکر وعمر لیدخلا محبیھما الجنۃ الا فاشھدوا ثم ینادی الذی عن یسار العرش معشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک خازن النار ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح النار الی محمد ومحمد امرنی ان اسلمھا الی ابی بکر وعمرلیدخلا مبغضیھما النار الا فاشھدوا ۔ او ردہ ایضاً فی الباب السابع من کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکرٍوعمر من کتاب الاکتفاء ۔ روز قیامت اللہ تعالٰی سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا دو منبر نور کے لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے ان پر دو شخص چڑھیں گے ، داہنے والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق ! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ جنت کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کو دوں کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں ۔ سنتے ہوگواہ ہو جاؤ ۔ پھر بائیں والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق ! جس نے مجھے پہچانااس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ دوزخ ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما) کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں ، سنتے ہو گواہ ہو جاؤ ۔ (اس کو بھی کتاب الاکتفاء میں کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکر وعمر میں باب ہفتم میں بیان کیا) ۔ (مناحل الشفاء ومناھل الصفاء بتحقیق شرف المصطفی حدیث ۲۳۸۸ دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۵ /۴۱۹و۴۲۰،چشتی)

جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محترم قارئینِ کرام : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےلیے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کےلیے درست اور رائج الوقت ہو ۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا ، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا ، محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا ، نعت یا خطاب و بیان کی صورت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابل تحسین ، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں ۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی ، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے ۔

کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے : فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ : يَا مُحَمَّدُ! يَا رَسُولَ ﷲِ ! يَا مُحَمَّدُ ! يَا رَسُولَ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے ، سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد ! یا رسول اللہ ! یا محمد ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔(مسلم، الصحيح، 4: 231، رقم: 2009، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)(أبو يعلی، المسند، 1: 107، رقم: 116، دمشق: دار المأمون للتراث،چشتی)(مروزي، المسند: 129، رقم: 65، بيروت: المکتب لاسلامي) ۔ امام رویانی ، ابن حبان اور امام حاکم علیہم الرحمہ کی روایات کے مطابق اہالیان مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے : جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ۔ ﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ۔ امام حاکم اس حدیث مبارکہ کے بارے میں فرماتے ہیں : هَذَا حَدِيثٌ صَحِحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔ یہ حدیث مبارکہ بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا ۔ (روياني، المسند، 1: 138، رقم: 329، القاهرة: مؤسسة قرطبة)(ابن حبان، الصحيح، 15: 289، رقم: 68970، بيروت: مؤسسة الرسالة،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 14، رقم: 4282، بيروت: دار الکتب العلمية)

معصوم بچیاں اور اوس وخزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَاتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ

أَيُهَا الْمَبْعُوْتُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمَطَاعِ

ترجمہ : ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ ﷲ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے ۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی ۔ (ابن أبي حاتم رازي، الثقات، 1: 131، بيروت: دار الفکر،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14: 82، مغرب مراکش وزات عموم الأوقاف)(أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373، بيروت عالم الکتب)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے ۔

مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت آپ کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوئی مگر آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا ، آپ کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے ۔

میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارک ۔ محفلِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی ہے کہ وہ محفل جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا ذکر ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان معجزات اور خصوصی واقعات کا ذکر ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ظہور پذیر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر معجزات ، سیرت و عادات ، اخلاق و فضائل ، خدا داد عظمت و بڑائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی تاکید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ محبت اور تعظیم والے قلبی تعلق استوار کرنے اور ان خاص معاملا ت و فضائل کا نعمت و تقریر کی صورت میں بیان ہو جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخصوص اور تمام مخلوق سے ممتاز فرمایا ہے ۔

جشن میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر خوشی منانا ۔ جلوس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی ہے نہا دھو کر اچھے کپڑے پہن کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نعرہ تکبیر و رسالت لگاتے ہوئے ، نعت و درود پڑھتے ہوئے اور ہر غیر شرعی حرکت سے بچتے ہوئے سڑکوں اور راستوں پر نکلنا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا بیان کرنا اور سننا ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جشن میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جلوسِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے ۔ اب ہم قرآن و سنت کی روشنی میں میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کرتے ہیں ۔

اللہ جل مجدہ قرآن پا ک میں فرماتا ہے : اور قسم ہے والد (ابراہیم یا آدم علیہما السلام) کی اور پیدا ہونے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ۔ (سورۃ البلد آیت نمبر 3)

اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور پیدائش مبارک کا ذکر فرمایا ہے اور یہی ذکر میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ہوتا ہے ۔ سب سے پہلی محفل میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ جل مجدہ نے منعقد فرمائی جس کے متعلق فرمایا ” اے پیارے حبیب  وہ وقت یاد کریں ” جب اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام سے پختہ عہد لیا کے جب میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کر دوں  پھر تمہارے پاس اس عظمت والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہو جائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمھارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 81)

اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے مدد کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اور یہی کچھ محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا ہے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے میلاد اور صفات کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ! اللہ تعالیٰ  نے مخلوقات کو بنایا تو مجھے بہتر مخلوق (انسانوں) میں (ممتاز ار افضل) رکھا پھر انسانوں کے قبیلے بنائے مجھے بہترین قبیلے میں (ممتاز اور افضل) رکھا پھر اللہ تعالیٰ نے گھر بنائے تو مجھے سب سے بہترگھرانے میں (ممتاز ار افضل) رکھا  پس میں اپنی ذات اور گھرانے کے اعتبار سے سب سے افضل ہوں ۔ میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۔قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھنے والا میں ہوں اس دن سب کا خطیب میں ہوں اس دن نا امیدی میں خوشخبری سنانے والا میں ہوں ۔ اس دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ میں اپنے رب کے ہاں بنی آدم میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں ۔ ( ترمذی شریف حدیث ، 1541 تا 1544،چشتی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میلاد شریف کے دن کا اہتمام فرماتے ہوئے سوموار کا روزہ رکھتے صحابہ کے پوچھنے پر ارشاد  فرمایا  میں سوموار کا روزہ اس لئے رکھتا ہوں کہ میں اس دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر کلام الٰہی نازل ہوا ۔ (صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 2750 )

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی ولادت کی خوشی میں جانور ذبح کئے اور صدقہ کیا ۔ (حسن  المقصد فی عمل المؤلد صفحہ نمبر 196)

 حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر نعت پڑھتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اے اللہ روح القدس کے ساتھ ان کی مدد فرما ۔  (مسلم  شریف حدیث 6384)

کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدہ ” بانت سعاد” مسجد نبوی شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے  پڑھا جب انہوں نے یہ کہا ” اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور ہیں اور نور بانٹنے والے ہیں ” تو  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کی بات غور سے سنو ۔ (مستدرک للحا کم حدیث نمبر 6479،چشتی)

مندرجہ بالا احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل و  کمالات  کا خود ذکر کیا۔  روزہ رکھ کر اور صدقہ کر کے میلاد شریف  کا اہتمام فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعتیں پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور نور بانٹنے والا کہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غور سے سننے کا حکم فرمایا یہی کچھ محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ انور سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا تم کس لیے بیٹھے ہو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم بیٹھے اللہ تعالیٰ کی حمد اور ذکر کر رہے ہیں کہ جس نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی اور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تمہارے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتو ں میں فخر فرما رہا ہے ۔ (مسلم حدیث 6875 نسائی حدیث نمبر 5441)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کچھ صحابہ بیٹھے مختلف انبیا ء کرام علیہم السلام کے درجات و کمالات کا ذکر کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ  ہیں اور موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ کلمتہ اللہ ہیں اور حضرت آدم صفی اللہ ہیں  (علیہم الصلوۃ و السلام) اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا یہ تمام حق ہے اور میرے بارے میں سن لو میں اللہ کا حبیب ہوں ۔ (جامع ترمذی شریف حدیث  1550)

ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مل بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اس محفل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لاتے اور اپنے فضائل و کمالات کا ذکر بھی فرماتے ۔ یہی کچھ محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے ترمذی  شریف میں باقاعدہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا الگ باب باندھا ہے اور لکھا ہے ” باب ماجاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” یعنی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باب ۔ (ترمذی شریف جلد 2 ابواب المناقب صفحہ 271،چشتی)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو خوشی کا بڑا روح پرور سماں تھا حضرت انس اور حضرت برا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ تمام اہل مدین اتنے خوش تھے کہ اس دن سے زیادہ خوشی کا دن اور روشن دن ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ (صحیح بخاری حدیث ۔ 2941)

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے باقاعدہ اسلحہ پہن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا یہ نعرے لگائے جا رہے تھے کہ اللہ اکبر ۔ آگئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ آگئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (بخاری شریف حدیث نمبر 3911)

بچے اور بچیاں راستوں اور سڑکوں پر پھیل گئے اور وہ   طلع البدر علینا من ثنیات الوداع  والی محبت و تعظیم اور خوشی سے لبریز دل نواز نعت پڑھ رہے تھے وہ کہہ رہے تھے ہم پر چودھویں کا چاند چڑھ آیا ہے ہم پر اس نعمت ِ عظمیٰ اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا ساری زندگی شکر کرنا لازم ہے ۔ (بہیقی حدیث نمبر 752)

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو مرد اور عورتیں مکانوں پر چڑھ گئے ۔ نو عمر صحابہ اور خدام راستوں پر نکل آئے اور وہ اونچی آواز سے نعرے لگا رہے تھے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (صحیح مسلم شریف 7522)

اس طرح کا استقبال اس دن بھی ہوا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ بدر سے بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے ۔ (سبل الہدیٰ والر شاد جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 64)  اور غزوہ تبوک  سے واپسی پر بھی ایسا ہی استقبال ہوا ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی  جلد نمبر 5 صفحہ نمبر  351،چشتی)

اس سے معلوم ہوا  کہ اس طرح کا استقبال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بار بار کیا اس لیے ہر سال میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جلوس نکالنا درست ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث میں سڑکوں اور راستوں پر نکلنے ۔ نعرہ ہائے تکبیر و رسالت  اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعتیں پڑھنے کا ذکر اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس بھی انہی امور پر مشتمل ہوتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ عزوجل کی نعمت عظمیٰ  ہیں ۔ (سورۃ ابراہیم آیت نمبر 28) ۔ تمام جہانوں کےلیے رحمت ہیں ۔ (سورۃ انبیا ء آیت نمبر 107) ۔ اور اللہ کا فضل ہیں ۔ (سورۃ الجمعہ آیت نمبر 4) ۔ جب اللہ تعالیٰ کی نعمت ، رحمت اور فضل حاصل ہو تو خوشی منانے کا حکم خود اللہ احکم الحاکمین نے دیا ۔ (سورۃ یونس آیت نمبر 58)

مندرجہ بالا آیات و احادیث سے واضح ہو گیا کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل کرنا ، جلوس نکالنا اور خوشی کا اظہار کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کے عین مطابق ہے اور اسی  کے ہم قائل ہیں ۔ اس کے علاوہ اس مبارک موقع پر جو کچھ ہو بھی خرافات اور غیر شرعی حرکات ہیں ان کا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہم تمام خلاف شرع امور سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی تردید کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں اور درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ تمام غیر شرعی حرکات و رسومات  جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن کے حوالے سے اس مقدس عمل کو بدنام کرتی ہیں ان سب کو چھوڑ دیا جائے مثلا ڈھول ، بینڈ ، باجے ، ساز اور گانے اس موقع کے ساتھ قطعاً موافقت نہیں رکھتے اور نہ ہی اسلام میں ان امور کی کوئی گنجائش ہے ۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیاری میں اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر تمام مسلمانوں کو غیر شرعی حرکات سے بچنا لازمی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں کہ میری امت میں کچھ لوگ ضرور آئیں گے جو زنا، ریشمی کپڑوں، شراب اور سازوں کو حرام ہونے کے باوجود حلال ٹھہرائیں گے ۔ (صحیح بخاری شریف حدیث نمبر 5590)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! ساز باجے شیطان کے مؤذن ہیں ۔ (المعجم الکبیر حدیث نمبر 7837)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے مجھے ساز باجے ، گانے بجانے والے آلات توڑنے اور مٹانے  کےلیے بھیجا ہے ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 22218)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساز باجے مٹائیں اور یہ بجائیں ۔ یہ کیسی ہے محبت ؟ یہ کیسی ہے مسلمانی ؟ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس فعل بد اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے بچائے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! جس قافلے (جلوس) میں گھنٹیاں بج رہی ہوں فرشتے اس سے دور ہو جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 5546،چشتی)

گھنٹیاں بج رہی ہوں تو فرشتے ان کی نحوست  کی وجہ سے دور رہتے ہیں تو جب بڑے بڑے ڈھول اور باجے بج رہے ہوں تو اس وقت کیا حال ہو گا ؟ غزو ہ بدر کے روز  جب فرشتے مدد کےلیے اُترے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں کاٹ دینے کا حکم فرمایا تھا تاکہ فرشتے آسکیں ۔ (صحیح ابن حبان حدیث نمبر 4690)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس ایک ایسا مقدس قافلہ ہوتا ہے جس میں کثرت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے اس پاکیزہ ماحول میں ڈھول ، ساز ، باجے جیسی مکروہ اور نحوست بھری چیزیں نہیں ہونی چاہییں کیونکہ ان کے ساتھ شیطان ہوتے ہیں ۔ (سنن ابو داؤد شریف حدیث نمبر 4232) ساز باجوں کے حرام ہونے کے متعلق احادیث حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 149،چشتی)

حضر ت سیدنا امام  ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمة اللہ علیہ جن کے مجدد الف ثانی ہونے اور تمام سلاسل طریقت کے جامع اور مسلمہ بزرگ ہونے میں کسی  کو کلام  نہیں اور جن کا قول ساری امت کے لیے حجت ہے ۔ (ضیاء القرآن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 59) وہ مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں کہ گانے بجانے کے متعلق آیات و احادیث اور فقہی روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص گانے بجانے کا مباح ہونے کے متعلق کوئی منسوخ حدیث یا شاذ روایت بیان کرے تو اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ کسی بھی فقیہ مفتی نے کسی بھی زمانے میں کبھی بھی گانے باجے کے جائز ہونے کے متعلق کوئی بھی فتویٰ نہیں دیا اور صوفیا ء کرام کا عمل کسی چیز کے حلال ہونے یا حرام ہونے میں سند نہیں ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب  نمبر  266 جلد نمبر 1)

ڈھول باجے تو حرام ہیں ہی محبوب الٰہی حضرت سیدنا خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ جو کی سلسلہ عالیہ چشتیہ کے سالار قافلہ ہیں دف  کے بارے میں فوائد الفواد میں فرماتے ہیں کہ دف بجانا ہمارے نزدیک جائز نہیں ( فوائد الفواد ملحضا صفحہ نمبر 344) اور اسی میں ہے کہ مزامیر حرام است یعنی ساز باجے حرام ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 24 صفحہ نمبر 149) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :  نفسانی خواہشات  کی پیروی کرنے والوں کا حضرات اکابرین سلسلہ چشتیہ رحمہم اللہ علیہم کی طرف مزامیر ، ساز باجوں کی نسبت کرنا محض جھوٹ ہے ۔ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا سید فخرالدین زرادی رحمة اللہ علیہ اپنے رسالہ ” کشف القناع”  میں فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ کرام پر لوگ مزامیر اور ساز باجوں کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں ہمارے مشائخ کرام (حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، خواجہ فریدالدین گنج شکر ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، خواجہ معین الدین چشتی رحمہم اللہ علیہم اجمعین ) اس تہمت سے بری ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 157)

تہمت لگانا عام مسلمان پر بھی گناہ کبیرہ ہے تو اولیاء کرام علیہم الرحمہ پر تہمت لگانا اور بھی کتنا بڑا گناہ ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس وبالِ عظیم سے بچائے ۔ (مزید حصّہ نمبر 7 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...