Wednesday, 7 September 2022

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ ششم

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سید محمد حفیظ قیصر لکھتے ہیں : پیپلزپارٹی کے جے رحیم اور شیخ رشیدنے بہت ہنگامہ کیا مگر وزیر اعظم بھٹو ‘ مولانا شاہ احمد نورانی سے مکالمے کے دوران اپنے منشور کے اس جملے کی بناء پر شکست کھاچکے تھے کہ ” اسلام ہمارا دین ہے “۔ اب بھٹو کا موقف یہ تھا کہ اسلام کی بات ہے اور پیپلزپارٹی اس کی مخالفت نہیں کرے گی ۔ آخر مولانا شاہ احمد نورانی کا سچا عشق رسول جیت گیا اور مرزاناصر قومی اسمبلی میں 180 سوالات میں لاجواب ہو کر شکست سے دوچار ہوا ۔ مرزائیت کو اپنے انجام تک پہنچانے والی جو تاریخی قرارداد 30 جون 1974 ء کو پیش کی گئی اس کا متن یہ تھا : ⬇
٭ چونکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو اللہ کے آخری نبی ہیں نبوت کا دعویٰ کیا۔
٭ چونکہ اس کا جھوٹا دعویٰ نبوت قرآن کریم کی بعض آیات میں تحریف کی سازش اور جہاد کو ساقط کر دینے کی کوشش ‘ اسلام سے بغاوت کے مترادف ہے۔
٭ چونکہ مسلم امہ کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہوں یا اسے کسی اور شکل میں اپنا مذہبی پیشوا یا مصلح مانتے ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
٭ چونکہ اس کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو وہ دھوکا دہی سے مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ بن کر اور اس طرح ان سے گھل مل کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
٭ چونکہ مسلمانوں کی تنظیموں کی ایک کا نفرنس جو 6 تا 10 اپریل 1974 ء مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ جس میں دنیا بھر کی 114 اسلامی تنظیموں اور انجمنوں نے شرکت کی اس میں مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ صادر کر دیا گیا کہ قادیانیت جس کے پیروکار دھوکا دہی سے اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ کہتے ہیں ۔ دراصل اس فرقہ کا مقصد اسلام اور مسلم دینا کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنا ہے۔
اس لیے اب یہ اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ انہیں لاہوری ‘ قادیانی یا کسی نام سے بھی پکارا جائے مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو دستور میں ضروری ترامیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
7 ستمبر 1974 ء کو وہ گھڑی آن پہنچی جس کا انتظار 1901 ء سے مسلم امہ کو تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس طرح مسیلمہ کذاب کو اس کے انجام سے دوچار کیا تھا ۔ آج انہیں کی اولاد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کی قرارداد کے مطابق حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیے دیا اور یوں امت مسلمہ کا خواب ٧٣ سال کے بعد حقیقت میں ڈھل گیا ۔ (ایک عالم ایک سیاست دان صفحہ ٣٧۔ ٣٥‘ نورانی پر نٹنگ انڈسٹری کراچی ‘ ١٩٩٩ء،چشتی)

اس اعتراض کا جواب کہ اگر آپ کے صاجزادے حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی بن جاتے : ⬇

قادیانیوں کے اہل اسلام کے دلائل پر بعض اعتراضات ہیں ان میں سے ایک مشہور اعتراض اس حدیث پر ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ (مسند احمد جلد ٣ صفحہ ١٣٣ طبع قدیم)(تاریخ دمشق الکبیر جلد ٣ صفحہ ٧٦‘ رقم الحدیث : ٥٧٩،چشتی)

اس حدیث پر قادیانیوں کا یہ اعتراض ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے نبی بننے سے مانع ان کی موت تھی اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ آپ کے بعد نبی کا آنا محال تھا اس لیے آپ کے بیٹے کو زندہ نہیں رکھا گیا ‘ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کہے اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو ایم اے کر لیتا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم اے پاس کرنا محال ہے ‘ اس لیے میرا بیٹا زندہ نہیں رہا ‘ بلکہ ایم اے پاس کرنا تو ممکن ہے ‘ لیکن چونکہ میرا بیٹا زندہ نہیں رہا اس لیے وہ ایم اے نہیں کر سکا ‘ اسی طرح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی آنا تو ممکن تھا ‘ لیکن چونکہ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ نبی نہیں بنے اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ سو اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد نبی نہیں آسکتا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ” اگر ابراہیم زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے “ اس حدیث میں قضیہ شرطیہ ہے ۔ جیسے یہ قضیہ ہے : اگر سورج طلوع ہوگا تو دن روشن ہوگا اور قضیہ شرطیہ میں جز اول کا ثبوت جز ثانی کے ثبوت کو مستلزم ہوتا ہے ‘ جیسے سورج کا طلوع ہونا دن کی روشنی کو مستلزم ہے ‘ اور جز ثانی کی نفی جز اول کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی یعنی سورج کا طلوع نہ ہونا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ دن روشن نہ ہو ‘ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سورج طلوع ہو لیکن دن اس وجہ سے روشن نہ ہو کہ سخت ابر ہو یا بارش ہو یا سورج کو گہن لگا ہو یا سخت آندھی آئی ہوئی ہو اسی لیے جز اول کی نفی جز ثانی کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی ‘ اس لیے اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ چونکہ حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ سچے نبی نہیں ہوئے ‘ بلکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سچے نبی کا آنا ممکن نہیں تھا اس لیے حضرات ابراہیم کو زندہ نہیں رکھا گیا ۔

سورہ الاعراف : ٣٥ سے اجراء نبوت کا معارضہ اور اس کا جواب
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یبنی ادم اما یا تینکم رسول منکم یقصون علیکم ایتی لا فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون ۔ (الاعراف : ٣٥)
ترجمہ : اے اولاد آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا اور نیک ہوگیا تو ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔
مرزائی قادیانی اس آیت سے اجراءِ نبوت پر استدلال کرتے ہیں اور پھر اجراء نبوت سے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر دلیل کشید کرتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو حکم دیا ہے جب بھی ان کے پاس ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا یعنی جس نے ان رسولوں کے احکام کو مانا اور ان پر ایمان لایا اس پر کوئی غم اور خوف نہیں ہوگا ‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے قیامت تک رسول آتے رہیں گے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے آنے کا کوئی استثناء نہیں بیان فرمایا اور نہ کوئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت جگہ ایک حکم بیان کیا جاتا ہے اور دوسری کسی آیت میں اس حکم کی تخصیص بیان کردی جاتی ہے جس سے وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ اسی طرح بہ ظاہر اس آیت میں قیامت تک رسولوں کی بعثت کا حکم عام بیان فرمایا ہے لیکن جب الاحزاب : ٤٠ میں فرما دیا ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین تو اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرمادیا کہ سورہ الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے سلسلہ کا جو ذکر فرمایا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ سلسلہ نبوت منقطع اور ختم ہو گیا ہے اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آسکتا ہے نہ رسول ‘ نہ تشریعی نبی نہ امتی نبی ‘ نہ کامل نبی نہ ناقص نبی ‘ نہ اصلی نبی اور نہ ظلی ‘ اور بروزی نبی ۔
فقیر اس کی چند نظائر بیان کرتا ہے کہ کسی آیت میں کوئی حکم عام بیان کیا جائے پھر دوسری آیت میں اسکی تخصیص کردی جائے تو پھر وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے عام حکم بیان فرمایا : کل نفس ذآئقۃ الموت ۔ (سورہ العنکبوت : ٥٧)
ترجمہ : ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ۔
اور اِن آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس فرمایا ہے : قل لمن ما فی السموت والارض ط قل للہ ط کتب علی نفسہ الرحمۃ ۔ (سورہ الانعام : ١٢)
ترجمہ : آپ پوچھیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے ؟ آپ کہیے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ‘ اس نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا ۔
فقل سلم علیکم کتب ربکم عل نفسہ الرحمۃ ۔ (سورہ الانعام : ٥٤)
ترجمہ : آپ کہیے تم پر سلام ہو ‘ تمہارے رب نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے : تعلم مافی نفسی ولآ اعلم ما فی نفسک ط انک انت علام الغیوب ۔ (سورہ المائدہ : ١١٢)
ترجمہ : (اے اللہ ! ) تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے ‘ بیشک تو تمام غیوب کو بےحد جاننے والا ہے ۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس کہا ہے اور سورہ العنکبوت : ٥٧ میں فرمایا ہے ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی (العیاذ باللہ) موت کو چکھنے والا ہے ‘ سو اس آیت کے عام حکم کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھی موت آئے گی اور دوسری آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس پر کبھی موت نہیں آئے گی وہ آیت یہ ہے :
وتو کل عل الحی الذی لایموت ۔ (سورہ الفرقان : ٥٨ )
ترجمہ : آپ اس پر توکل کیجیے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی ۔
پس اس آیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ موت کو چکھنے کے عام حکم سے مستثنی ہے ‘ اور اب یہ حکم عام نہیں ہے ‘ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین فرمادیا تو اب سورہ الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے عام حکم میں تخصیص ہو گئی اور اب آپ کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں ۔ اس کی نظیر دوسری یہ آیت ہے : والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء ۔ (البقرہ : ٢٢٨)
ترجمہ : اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ۔
المطلقات جمع کا صیغہ ہے اور اس میں طلاق یافتہ عورتوں کےلیے عام حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تین حیض تک عدت گزاریں ‘ لیکن دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ غیر مدخولہ عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے :
یایھا الذین امنوآ اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدو نھا ۔ (سورہ الاحزاب : ٤٩ )
ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر تم ان کو عمل زوجیت سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہاری عدت گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

اسی طرح وہ طلاق یافتہ بوڑھی عورت جس کو حیض نہ آتاہو وہ کمسن لڑکی جس کا حیض شروع نہ ہوا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے اور طلاق یافتہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور یہ بھی اس عام حکم سے خاص ہیں ان کا ذکر اس آیت میں ہے : الئی یئسن منالمحیض من نسآ ئکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر لا والئی لم یحضن ط واولات الاحمال اجلھن انیضعن حملھن ۔ (الطلاق : ٤)
ترجمہ :تمہاری جو طلاق یافتہ عورتیں حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اور تم کو ان کی مدت میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح (ان کم سن مطلقہ عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے) جن کا ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ‘ اور حاملہ عورتوں کی عدت و ضع حمل تک ہے ۔
پس سورہ البقرہ : ٢٢٨ میں جو مطلقہ عورتوں کی عدت تین حیض فرمائی ہے اس حکم عام سے غیرمدخولہ ‘ سن رسیدہ ‘ کم سن اور حاملہ عورتوں کی عدت کی تخصیص کرلی گئی ہے ‘ اسی طرح سورہ الا عراف : ٣٥ میں جو رسولوں کی بعثت کا عام حکم بیان کیا گیا ہے آیت خاتم النبیین سے اس عام حکم کی تخصیص کرلی گئی ہے اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا جائز نہیں ہے ۔
اس اعتراض کا جواب کہ ختم نبوت کا معنی مہر نبوت ہے اور آپ کی مہر سے نبی بنتے ہیں
مرزائیوں کا ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ خاتم کا معنی آخر نہیں ہے ‘ بلکہ خاتم کا معنی مہر ہے ‘ اور مہر نبوت کا معنی ہے جس پر آپ کی مہر لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے ‘ سو غلام احمد قادیانی پر بھی مہر لگ گئی اور وہ بھی نبی بن گئے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ خاتم کا یہ معنی کرنا درست نہیں ہے کہ اگر خاتم کا معنی مہر ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگادی جائے تو اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہو سکتی ‘ سو نبوت کو بند کر کے اس پر آپ کی مہر لگا دی گئی اب نبوت میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی ۔

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : معنی ختم الغطیۃ علی الشیء والا ستیثاق من ان لا ید خلہ شیء ۔ ختم کا معنی ہے کسی چیز کو ڈھانپنا اور اس کو اس طرح بند کردینا کہ اس میں کوئی اور چیز داخل نہ ہو سکے ۔
نیز لکھتے ہیں خاتمھم اخر ھم ‘ خاتم القوم کا معنی ہے اخرالقوم ‘ وخاتم النبیین ای آخر ھم اور خاتم النبیین کا معنی ہے آخر النبیین ۔ (لسان العرب جلد ١٢ صفحہ ١٦٥۔ ١٦٣‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک نبوت منقطع ہوچکی ہے پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وانا اخر الانبیاء وانتم اخر الا مم ۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٧)
اور قتادہ نے خاتم النبیین کی تفسیر میں کہا ای آخرھم ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٧٦٥)

تصریحات لغت ‘ احادیث صحیحہ اور تابعین کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ خاتم کا معنی مہر کرنا باطل ہے بلکہ خاتم کا معنی آخر ہے ۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز خاتم الحدثین ہیں تو کیا اس کا عرف میں یہ معنی ہوتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی مہر سے محدث بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ شامی خاتم الفقہاء ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ علامہ شامی کی مہر سے فقہاء بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ آلوسی خاتم المفسرین ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے علامہ آلوسی کی مہر سے مفسرین بنتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ احادیث ‘ تفاسیر ‘ لغت اور عرف سب کے اعتبار سے خاتم کا معنی مہر کرنا صحیح نہیں ہے ۔
مرزائی کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ١١٧٦ ھ نے اس آیت کے تحت و خاتم النبیین کے ترجمہ میں لکھا ہے و مہر پیغامبر ان است ۔ (ترجمہ شاہ ولی اللہ ص ٥١٠‘ تاج کمپنی لمیٹیڈ لاہور)
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر مہر اس معنی میں نہیں ہے جیسا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے : جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا ‘ بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے ‘ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کےلیے امتی ہونا لازمی ہے ۔ (حقیقۃ الوحی ص ٢٧‘ روحانی خزائن ج ٢٣ ص ٣٠۔ ٢٩ )

خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام (مرزا غلام قادیانی) نے فرمایا کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی ۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح آنحضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے ۔ (ملفوظات احمد یہ حصہ پنجم صفحہ ٢٩٠)

قادیانیوں نے خاتم کا جو یہ معنی بیان کیا وہ غلط اور باطل ہے اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک مہر سے مراد مہرِ تصدیق نہیں ہے بلکہ مہر سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو بند کر کے اس پر مہر لگادی جائے تاکہ اس میں اور کوئی چیز داخل نہ ہو سکے جیسا کہ لغت ‘ عرف ‘ احادیث اور تفاسیر سے واضح ہو چکا ہے ‘ خود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ایک حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں : سچا خواب انبیاء کے حق میں نبوت کا ایک جزو ہے پس یقین رکھو کہ وہ برحق ہوتا ہے اور نبوت کے اجزاء ہیں اور اس کا ایک جز خاتم الانبیاء کے بعد بھی باقی ہے  ۔ (المسوی جلد ٢ صفحہ ٤٢٦‘ المطبعۃ السفیہ مکہ المکرمۃ ‘ ١٣٥٣ ھ،چشتی)

مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین نے لکھا ہے : ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعود کے اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے وہ نبوت صحیح نہیں ۔ (تشحیذ الاذھان قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ء)

اور خود مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے : پس اس وجہ سے (اس امت میں) نبی کا نام پانے کےلیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ‘ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا ‘ تاجیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا۔ وہ پیش گوئی پوری ہو جائے ۔ (حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦ ج ٢٢‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

اگر مرزائیہ کے دعویٰ کے مطابق بہ فرض محال ختم نبوت کا معنی مہرِ تصدیق ہو اور اس کا معنی یہ ہو کہ جس پر آپ اپنی مہر لگا دیتے ہیں وہ نبی بن جاتا ہے تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کی مہر سے زیادہ س زیادہ نبی بنتے ‘ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مہر سے صرف غلام احمد قادیانی ہی نبی بنا ! صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین جن کی اطاعت پر مقبولیت کی سند اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہم فرما کر عطا کردی وہ نبی نہیں بنے ‘ اگر ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہوتا تو وہ نبی بنتے اور جب وہ نبی نہیں بنے تو معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا معنی مہرِ تصدیق نہیں ہے بلکہ وہ مہر ہے جو کسی چیز کو بند کرنے کےلیے لگائی جاتی ہے ‘ علاوہ ازیں نبی بنانا اور رسول بھیجنا اللہ کا کام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اپنی مہر لگا کر کسی کو نبی بنا کر بھیج دیں ۔

مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح خاتم المحدثین ‘ خاتم المفسرین وغیرہ کہا جاتا ہے اسی طرح آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ جن علماء کو خاتم الحدثین اور خاتم المفسرین کہا گیا ہے وہ مجاز کہا گیا ہے اور آپ حقیقۃ خاتم النبیین ہیں نیز مجاز کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شرعی یا عقلی استحالہ نہیں ہے ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خاتم المہاجرین فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عباس نے مکہ سے سب کے آخر میں ہجرت کی تھی اس کے بعد مکہ دار الاسلام بن گیا تھا سو اس حدیث میں بھی خاتم یہ معنی آخر ہے ۔
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے میری مسجد آخر المساجد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد کی وضاحت دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد ‘ مساجد الانبیاء کی خاتم ہے ۔
(کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٩٩٩)

اس اعتراض کا جواب کہ لا نبی بعدی میں لا نفی کےلیے نہ کہ نفی جنس کےلیے : ⬇

مرزائیوں کا ایک اور مشہور اعتراض یہ ہے کہ لا نبی بعدی میں لا نفی جنس ہے ‘ نفی کمال کےلیے ہے جیسے لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب میں ہے ۔ یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی اسی طرح لا نبی بعدی کا معنی ہے میرے بعد کوئی کامل نبی نہیں ہوگا اور ناقص اور امتی نبی کی نفی نہیں ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح تو کوئی مشرک کہہ سکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ میں بھی نفی کمال کےلیے ہے یعنی اللہ کے علاوہ کامل خدا کوئی نہیں ہے ‘ ناقص خدا موجود ہیں ‘ اور اس کا حل یہ ہے کہ لا نفی جنس کا نفی کمال کےلیے ہونا اس کا مجازی معنی ہے اور نفی جنس کےلیے ہونا اس کا حقیقی معنی ہے اور جب تک حقیقت محال یہ متعذر نہ ہو اس کو مجاز پر محمول نہیں کیا جاتا لا نبی بعدی میں حقیقت متعذر نہیں ہے اس لیے اس کا معنی ہے میر بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اور لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتا میں اس طرح نہیں ہے سورة فاتحہ کے بغیر نماز ہوجاتی ہے لیکن چونکہ سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس لیے نماز کامل نہیں ہوتی اور یہاں حقیقت متعذر ہے اس لیے لا کو نفی کمال اور مجاز پر محمول کیا ہے ۔

اسی طرح مرزائیہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے جب کسری مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٩٦‘ کراچی) ۔ اور کسریٰ ایران کے بادشاہ کو اور قیصر روم کے بادشاہ کو کہتے ہیں اور ان کے بعد بھی ایران اور روم کے بادشاہ ہوتے رہے ہیں ۔
علامہ نووی اس کے جواب میں لکھتے ہیں : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کسریٰ ایران کا بادشاہ تھا اور قیصر روم کا باد شاہ تھا اس طرح وہ بعد میں بادشاہ نہیں ہوں گے اور اسی طرح ہوا ‘ کسریٰ کا ملک روئے زمین سے منقطع ہو گیا اور اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ‘ اور قیصر شکست کھا کر شام سے بھاگ گیا اور مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں کو فتح کرلیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعد میں اس نام کے باد شاہ نہیں گزرے ۔

مرزائیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٣٣٧‘ رقم الحدیث : ٢٦٦٣٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا منشاء یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہونا ہے اس لیے یوں نہ کہو کہ کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ یوں کہو کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا کیونکہ جب مطلقاً یہ کہا جاے کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس کا متبادر معنی یہ ہے کہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ پرانا ‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ان احادیث کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ تصریح ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مبشرات کے سوا میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ‘ صحابہ نے پوچھا اور مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا سچے خواب جن کو کوئی شخص دیکھتا ہے یا کوئی شخص اس کے لیے دیکھتا ہے ۔ (مسند احمد جلد ٦ صفحہ ١٢٩‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٥٨‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق احادیث : ⬇

تیسرا مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے تو پھر ان احادیث کی کیا توجیہ ہوگی جن کے مطابق قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا وہ احادیث حسب ذیل ہیں : ⬇

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے والے ‘ عدل کرنے والے ‘ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ‘ حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا ‘ اور تم چاہو تو (اس کی تصدیق میں) یہ آیت پڑھو :” وان من اھل الکتب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ “” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا “۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨‘چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨)(مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ١٠٩٤٤)(صحیح ابن حبان ج ١٥‘ رقم الحدیث : ٦٨١٨)(مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٩٩‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٠)(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ص ١٤‘ رقم الحدیث : ١٩٣٤١)(شرح السنہ ج ٧ ص ٤١٧٠)

نیز امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩‘چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤)(مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٦)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٨٤١)(شرح السنہ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٤١٧٢)

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہ کر جنگ کرتی رہے گی اور وہ قیامت تک غالب رہے گی حتی کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نازل ہوں گے ‘ ان (مسلمانوں) کا امیر کہے گا آیئے آپ ہم کو نماز پڑھایئے ۔ حضرت عیسیٰ اس امت کی عزت افزائی کےلیے فرمائیں گے نہیں تمہارے بعض ‘ بعض پر امیر ہیں ۔ (مسند احمد جلد ٣ صفحہ ٣٨٤۔ ٣٤٥ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت) ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم اس...