خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 4
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دینی دنیاوی اور اخروی فائدے : اسلام ایک آفاقی اور فطری مذہب ہے اور اس کے ہر قانون ورسم میں مسلمانوں کے لیے بے شمار فائدے چھپے ہیں ، جیسے حج ، عیدین ، جمعہ ، نماز پنج گانہ ، زکوٰة اور روزہ وغیرہ ۔ اسی طرح عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے سے بھی مسلمانوں کو بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں ، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ تو یہاں تک ہے کہ غیر مسلموں کو بھی ہمارے نبی آقاے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانے کا فائدہ پہنچ گیا ۔
اب آیئے دیکھتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے سے کون سے دینی ، دنیاوی اور اخروی فائدے حاصل ہوتے ہیں : ⬇
عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دینی فائدے : ⬇
(1) چوں کہ عید میلاد النبی میں ذکر مصطفی اور سیرت طیبہ کے حالات بیان کیے جاتے ہیں اور ان بیانات سے مسلمانوں کے اخلاق و عادات درست ہوں گے ۔
(2) محبت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حاصل ہوگی ۔
(3) مسلمان اکٹھے ہوں گے ، آپسی محبت ، اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا ہوگی ، در و دیوار اور سڑکوں اور گلیوں میں ذکر الٰہی اور نعت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دھوم مچے گی اور قیامت میں راستہ کے وہ در و دیوار، پتھر و کنکر وغیرہ مومن کے گواہ بنیں گے ۔
(4) غیر مسلموں کو تاریخِ اسلامی اورمسلمانوں کے طرز ایمانی کا پتہ چلے گا ۔
(5) حلیۂ مبارک بیان کیا جائےگا تو قلب و نظر میں انوار پیدا ہوں گے ۔
(6) مسلمانوں کے اندر ایمانی جذبہ بیدار اور محبّت رسول میں اضافہ ہوگا ۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دینی فوائد اس میں مضمر ہیں ۔
عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دنیاوی فائدے : ⬇
(1) سال بھر تک کھانے میں برکت ہوگی ۔ (ان شاءاللّٰہ) جیسا کہ علامہ امام ابن حجر علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیف “نعمةا الکبریٰ “میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے ۔
(2) عزت و وقار میں اضافہ ہوگا ۔
(3) غریبوں کا پیٹ بھر جاتا ہے ، غریب لوگ وہ کھانے جو اپنی غریبی کی وجہ سے نہیں کھا سکتے انہیں کھانا میسر ہو جاتا ہے ۔
(4) گھروں ، بازاروں و سڑکوں کی سالانہ طریقے سے صفائی اور زیب و زینت ہو جاتی ہے اور ثواب بھی مل جاتا ہے ۔
عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اخروی فائدے : ⬇
(1) گناہوں کی معافی ۔
(2) درجات کی بلندی ۔
(3) عذاب میں تخفیف : جیسا کہ صحیح بخاری شریف کتاب النکاح باب و امّھاتکم الّتی ارضعنٰکم جلد ۲ صفحہ ۷۶۴ میں روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی خبر جب ابو لہب کی باندی نے اسے دی تو اس نے اپنے بھتیجے کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی باندی کو آزاد کر دیا ۔ اگرچہ اس کی موت کفر پر ہوئی اور اس کی برائی میں پوری ایک سورت نازل ہوئی ، لیکن میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اظہارِ مسرت کی برکت سے ہر سوموار کو اسے پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے اور اس کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے ۔
اس سلسلے میں یہ روایت بھی بہت مشہور ہے ، جس کے راوی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات ابو لہب کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا : مرنے کے بعد مجھے طرح طرح کے عذاب دیے جاتے ہیں ۔ لیکن سوموار کے دن عذاب میں کمی ہو جاتی ہے اور وہ صرف اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوش خبری میری باندی ثویبہ نے مجھے سنائی تھی تو میں نے اس خوشخبری کے بدلے خوش ہو کر اس کو آزاد کر دیا تھا حافظ الشام شمس الدین محمد بن نصر علیہ الرحمہ نے اپنے عربی نعتیہ کلام میں کیا خوب کہا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے : ⬇
جب ایک کافر جس کی مذمت و برائی میں پوری سورت “تبّت یدا” نازل ہوئی ، اورجو ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اس کے بارے میں ہے کہ حضور کی ولادت پر خوشی کے اظہار کی برکت سے ہر سوموار کو اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔
تو تمہارا کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جو زندگی بھر احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت پر خوشی مناتا رہا اور کلمۂ توحید پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا ۔
خلاصہ یہ کی ہر مومن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش پر خوشی منانی چاہیے کیونکہ عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب عیدوں کی عید ہے ۔ جن کی وجہ سے عید اور دوسرے تیوہار بلکہ کائنات کی ساری ہی نعمتیں ہمیں میسّر آئییں اُن کی تشریف آوری کی خوشی ہمیں بہترین طریقے سے منانی چاہیے ۔
ہاں ! اس بات کی خوب رعایت کی جائے کہ جلسہ و جلوسِ عیدِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں غیرشرعی امور سے ہر حال میں احتراز کیا جائے جیسا کہ ہم پہلے تفصیل سے عرض کر چکے ہیں ۔
بارگاہِ خداوندی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سچی محبّت کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
اے رب یہ کس دنیا کے لوگ ہیں جو ذکر میلاد سے روکتے ہیں
انصاف کریں ، جس آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعریف و توصیف ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے ۔ جن کا ذکر ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے کیا ۔ جن کا ذکر اللہ نے ہر ذکر سے بلند تر کر دیا ۔ جن کا نام اپنے نام کے ساتھ ساتھ رکھا ۔ جن کی اطاعت اپنی اطاعت ، جن کی محبت اپنی محبت اور جن سے دشمنی اپنی دشمنی قرار دی ۔ جس کی آمد پر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی کو ہر چیز سے بہتر قرار دیا ۔ کیا منشاء قدرت یہی تھا کہ ان کا ذکر نہ ہو ؟ یقینا ایسا نہیں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار اس نے تمام آسمانی کتابوں میں کردیا ہے ۔
بعض علم و تقویٰ کے مدعی اور دین کے خادم ، دین کا نام لے کر اپنے من پسند پروگرام کرتے ہیں ۔ اپنے بڑوں کی برسیاں اپنے مدرسوں کے سالانہ جلسے بلکہ صد سالہ جشن مناتے ہیں ۔ مختلف بزرگوں کے ایام دھوم دھام سے مناتے ہیں ، قرآن و حدیث کے نام پر سیمینار منعقد کرتے ۔ جلوس نکالتے اور چراغاں کرتے ، ریلیاں کرتے اور ان پر آتش بازی کے مظاہرے کرتے ہیں ۔ لاکھوں روپے ان اللوں تللوں پر پھونک دیتے ہیں ۔ صدقات و خیرات کے طور پر جمع کی گئی دولت کو رنگین پروگراموں کی نذر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ دین کے نام پر کر رہے ہیں ۔ جو اپنے آپ کو موحد ، پابند شریعت اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھکتے نہیں ۔
پوچھیے ان پروگراموں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین علیہم الرّحمہ اور خیرالقرون میں کس کس نے کیا تھا ؟
اگر اس کا ثبوت کہیں بھی نہیں ، پھر آپ کے یہ تمام افعال بدعت و حرام کیوں نہیں؟
جبکہ اسی دلیل سے آپ ذکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محافل کو بدعت کہتے ہیں ۔
آپ جو چاہیں دین میں اختراعات کریں ، آپ کو اجازت ہے اور مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد پر جشن مناکر قرآن و سنت کے تقاضے پورے کریں ، آپ اسے بدعت و ناجائز کہیں ۔ آخر کیوں ؟
جائز کہنے کےلیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ ناجائز کہنے کےلیے دلیل درکار ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یومِ میلاد منانا بدعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایام سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ ، دلیل شرعی پیش کیجیے ۔ دونوں میں کیا فرق ہے ۔ کس دلیل سے ایک جائز بلکہ لازم اور دوسرا بدعت ہو گیا ؟
براہِ کرم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیے ، لوگوں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا میلاد ، سیرت طیبہ اور تعلیمات مقدسہ کو بیان کریں تاکہ سچی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مقدس زندگی کے رنگ میں ڈھال سکیں ۔ دین کا بول بالا ہو ، سچے فضائل و کمالات اتنی کثرت سے بیان کریں کہ غلط و موضوع روایات ختم ہوجائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت پر اتنا زور دیں کہ نوجوانوں کے دلوں سے ہر جھوٹی محبت ختم ہو جائے ۔ صدقہ و خیرات ، قرآن خوانی و نعت خوانی اور سیرت و صورت محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہر جگہ اتنا زور و شور سے تذکرہ کریں کہ شیطانی آوازیں پست ہو کر ختم ہو جائیں ۔ گھروں کو ، دکانوں کو ، بازاروں اور کارخانوں کو ، اداروں و راستوں کو اتنا سجائیں کہ ہر ایک پر عظمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم واضح ہو ۔ کھانے کھلائیں ، مشروب پلائیں ، ناداروں کو کپڑے پہنائیں ، نادار طلبہ کو کتب اور فیس دیں اور اس سب کا ثواب صاحب میلاد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں نذر کریں ۔ یاد رکھیں اگر محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد پر خوشی منانا گوارا نہیں تو کوئی خوشی نہ منائیں اگر یہ جشن منع ہے تو ہر جشن حرام ہے ۔ اگر آمد محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اظہار خوشی نہیں کرتے تو کسی تقریب پر خوشی زیب نہیں دیتی ۔
اے اہلِ اسلام : عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمہارے لیے سب سے بڑی مذہبی و سیاسی تقریب ہے ۔ خوشیاں منانے کا یہ سب سے بڑا موقع ہے ۔ چراغاں کرنے ، جھنڈیاں لگانے اور تقریبات منعقد کرنے کا اس سے بڑا اور مقدس کوئی دوسرا موقع نہیں و بذالک فليفرحوا خوشیاں منانی ہیں تو بس اسی پر مناؤ ۔ جشن منانے ہیں تو اس پر مناؤ هو خير مما يجمعون ۔ (سورہ یونس : 58) یہ اظہار مسرت ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں ۔ خواہ نماز ، روزہ ، خواہ دنیا کا مال و اسباب ہو ، خواہ دیگر نیکیاں ہوں ۔ اس نیکی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں کہ ہر نیکی اس کے وسیلہ سے ملی ہے ۔ اسی نیکی کی برکت سے کافر تک فیضیاب ہوئے ۔ مسلمان تو ان کے اپنے ہیں ، وہ کیسے محروم رہ سکتے ہیں ۔ (مزید حصّہ نمبر 5 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment