Thursday, 1 September 2022

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نہم

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نہم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام احمد رضا کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ہر انسان کی یہ صفت ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی سے محبت رکھتا ہے اور جس سے وہ محبت رکھتا ہے اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز جانتا اور مانتا ہے۔ یہ عشق الگ الگ صورتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے کسی کو اپنے والدین سے محبت ہوتی ہے تو کسی کو بیوی بچوں سے کسی کو اپنے مال و متاع سے تو کسی کو اپنی جان سے محبت ہوا کرتی ہے مگر حقیقت میں کامل و اکمل وہی عشق اور محبت ہے جو جان عالم ساری دنیا کے مرکزِ عقیدت سرور کائنات فخرِ موجودات مختار کل عالم علوم خفایا و غیوب جناب احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی جائے اور یہی عشق و محبت ایک مومن مسلمان کیلئے کامیابی کی سب سے بڑی روشن دلیل ہے ۔

سب سے پہلے صحابہءکرام نے اپنے عشق رسول کی وہ مثال پیش کی ہے۔ جس کو رہتی دنیا تک امت مسلمہ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ان مقدس اور پاک نفوس قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ جانے کتنے ہی بزرگان دین نے آنے والی نسلوں کے لئے اپنا عمل اور عقیدہ پیش کر دیا ہے جس کو آنے والی نسلیں اپنے لیے راہ نجات بنائیں ۔ انہیں مقدس اور پاک ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے والی ایک عظیم شخصیت بریلی شریف کی سرزمین پر مولانا نقی علی خاں ابن رضا علی خاں قدس سرھما کے گھر 10 شوال المکرم 1272ھ مطابق 14جون 1856ء کو اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئی۔ پیدئشی نام “محمد“ اور تاریخی نام “المختار“ رکھا گیا۔ جد امجد مولانا رضا علی خاں (متوفی 1282ھ) نے “احمدرضا“ رکھا۔
آپ نے کبھی تعلیم سے جی نہیں چرایا۔ بچپن ہی میں ذہانت کا یہ عالم تھا جس کو مولانا احسان حسین صاحب بیان فرماتے ہیں “میں فاضل بریلوی (امام احمد رضا) کی ابتدائی تعلیم میں ہم سبق رہا ہوں۔ شروع سے ان کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ استاد سے کبھی رابع سے زائد تعلیم حاصل نہیں کی۔ ایک رابع کتاب استاد سے پڑھنے کے بعد بقیہ پوری کتاب ازخود پڑھ کر یاد کرکے سنا دیا کرتے تھے ۔ آٹھ سال کی مختصر عمر میں درسی کتاب ہدایۃ النحو کی شرح تصنیف فرمائی اور وسط شعبان 1286ھ 1869ء میں علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی تھی اور 14شعبان 1286ھ کو 13برس کی عمر میں پہلا فتوٰی مسئلہ رضاعت کے متعلق تحریر فرمایا۔
آپ جہاں ایک بہت بڑے عالم دین، محدث، محقق، مفتی، حافظ، قاری، فقیہ، مجدد تھے وہیں آپ ایک بہت بڑے عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے۔ جناب کوثر نیازی پاکستان فرماتے ہیں “جب اردو زبان میں آنحضرت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ مراد لی جاتی ہے اور جب اعلٰی حضرت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک غلام عاشق امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شخصیت مراد لی جاتی ہے ۔

ضیاءالمشائخ حضرت محمد ابراہیم فاروقی محمد مجددی شور بازار کابل افغانستان کا ایمان افروز تاثر ہے کہ “مولانا احمد رضا خاں قادری حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق اور آں حضور کی محبت میں سرشار تھے۔ ان کا دل عشق محمدی کے سوز سے لبریز تھا چنانچہ ان کے نعتیہ کلام اور نغمات اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں اور مولانا کے اس کلام نے مسلمان مردوں اور عورتوں کے دلوں کو عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نور سے روشن کر دیا ہے۔ (المیزان کا امام احمد رضا نمبر ص 560،چشتی)

جناب ڈاکٹر جمیل جالبی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی فرماتے ہیں۔ “مولانا احمد رضا بریلوی کا امتیازی وصف جو دوسرے تمام فضائل و کمالات سے بڑھ کر ہے وہ ہے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ ۔ (المیزان نمبر)

حضرت صاحبزادہ ہارون رشید ارشاد فرماتے ہیں “اعلٰی حضرت احمد رضا برلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ہر قول اور ہر فعل عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح لبریز معلوم ہوتا ہے گویا خالق کل نے آپ کو احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقوں کے لئے شمع ہدایت بنایا ہے تاکہ یہ مشعل اس جادہ پر چلنے والوں کو تکمیل ایمان کی منزل سے ہمکنار کر سکے ۔ (پیغامات یوم رضا)

جب کوئی صاحب حج بیت اللہ شریف کرکے اعلٰی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو آپ کا پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی ۔ اگر جواب اثبات میں ملتا فوراً ان کے قدم چوم لیتے اور اگر جواب نفی میں ملتا پھر مطلق تخاطب نہ فرماتے ایک بار ایک حاجی صاحب خدمت میں حاضر ہوئے حسب عادت کریمہ اعلٰی حضرت نے پوچھا کیا بارگاہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری ہوئی ۔ وہ آبدیدہ ہو کر عرض کرنے لگے ہاں حضرت (امام احمد رضا) مگر صرف دو روز قیام رہا اعلٰی حضرت نے ان صاحب کی قدم بوسی کی اور ارشاد فرمایا وہاں کی تو سانسیں بہت ہیں آپ نے تو دو دن قیام فرمایا ہے ۔

اعلٰی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ حرمین طیبین کی زیارت فرمائی ۔ پہلی مرتبہ ہمراہ والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ علیہ کے 1295ھ / 1877ء کو اور دوسری مرتبہ 1324ھ / 1905ء کو دوسری مرتبہ جب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو شوق دیدار کے ساتھ مواجہہ عالیہ میں درود شریف پڑھتے رہے ۔ امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امید تھی کہ ضرور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزت افزائی فرمائیں گے اور زیارت جمال سے سرفراز فرمائیں گے لیکن پہلی شب تکمیل آرزو نہ ہو سکی ۔ اسی یاس و حسرت کے عالم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے : ⬇

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

اور پھر مقطع میں اپنے متعلق بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوتے ہیں : ⬇

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کِتے ہزار پھرتے ہیں

مقطع عرض کرنا تھا قسمت جاگ اٹھی ، ارمانوں کی بہار آ گئی ۔ خوشیوں کے کھیت لہلہانے لگے ، ہوائیں معچر ہو گئیں ۔ ایک مومن مسلمان کی مراد یوں پوری ہو گئی اور امام احمد رضا کے عشق کی معراج ہو گئی ۔ تمام رسولوں کے سردار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم بیداری میں اعلٰی حضرت کو اپنا دیدار نصیب فرمایا ۔ امام احمد رضا رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ انور کو دیکھتے ہی پکار اٹھتے ہیں : ⬇

پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بیقرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

دیدار مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو ہر مسلمان کو ہوتی ہے مگر جس کو اس ذات مبارکہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہو جاتی ہے وہ کبھی اویس قرنی بن کر چمکتا ہے تو کبھی امام اعظم ابو حنیفہ، کبھی شیخ کبیر احمد رفاعی، تو کبھی غوث اعظم محی الدین جیلانی، کبھی خواجہ غریب نواز، تو کبھی خواجہ بندہ نواز بن کر دنیا میں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری آپ کے عشق رسول کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں۔ “جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپاتی ہے تو میں نعتیہ اشعار سے بےقرار دل کو تسکین دیتا ہوں ورنہ شعر و سخن میرا مذاق طبع نہیں ۔ (سوانح اعلٰی حضرت)

نعت شریف کا لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ بہت ہی نازک راہ ہے۔ اعلٰی حضرت فرماتے ہیں۔ “حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر (نعت لکھنے) میں بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچا جاتا ہے اور کمی (نعت لکھنے میں) کرتا ہے تو تنقیص (رسالت) ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے ۔ (الملفوظ حصہ دوم)

اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شاعری قرآن و حدیث سے ہٹ کر نہیں تھی چنانچہ حدائق بخشش میں تحریر فرماتے ہیں : ⬇

ہوں اپنے کلام سے نہایت محفوظ
بے جا سے ہے المنۃاللہ محفوظ
قرآن سے میں نے نوت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

شاعر دربار رسالت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنا عشق رسول کچھ اس طرح پیش فرماتے ہیں ۔ بارگاہ رسالت میں عرض گزار ہوتے ہیں : ⬇

واجمل منک لم ترقط عینی
واکمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
ترجمہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے زیادہ حسین و جمیل میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ آپ سے زیادہ صاحب کمال کسی ماں نے جنا ہی نہیں ۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کیے گئے جیسے آپ چاہتے تھے ۔

اور اعلٰی حضرت عظیم البرکت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ارشاد فرماتے ہیں : ⬇

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
لک بدر فی الوجہ الاجمل خط یالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

اعلٰی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے جہاں نعت رسول میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ وہیں آپ نے حمد باری تعالٰی بھی کہی ہے۔ جس سے نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ آپ نے حمد اور نعت کا ایک انوکھا سنگم پیش کیا ہے تحریر فرماتے ہیں : ⬇

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم فرمایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا تجھے حمد ہے خدایا

کتنا پیارا اور کتنا دلکش انداز تحریر ہے ۔ فرما رہے ہیں رب تعالٰی ہم تیری حمد و ثناء کرتے ہیں کہ تونے ہمیں اپنا پیارا محبوب عطا فرمایا جو سراپا رحمت ہیں۔ جن کے لئے قرآن پاک کا ارشاد عالیشان ہے “اور اگر جب وہ (امتی) اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمھارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت فرما دیں ۔ تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔ (سورۃ النساء)

مفسر قرآن حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں : العالم جسد وروحہ النبوۃ ولا قیام للجسد بدون روحہ ۔ (تفسیر روح المعانی)
ترجمہ : تمام جہان ایک جسم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی روح ہیں ۔ جسم کا قیام بغیر روح کے ممکن نہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات کی جان ہیں ۔ اعلٰی حضرت اس پوری تفسیر کو ایک شعر میں تحریر فرماتے ہیں : ⬇

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

امام اہلسنت نے صرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کی جان ہی نہیں فرمایا بلکہ ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا۔ گویا پوری سیرت پاک بیان کر رہے ہوں ، ملاحظہ فرمائیں : ⬇

اللہ کی سر تابقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ

فنافی الرسول کا عالم ملاحظہ فرمائیں ایک جگہ تو تحریر فرمایا کہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کی جان ہیں مگر تبھی امام احمد رضا کے عشق رسول نے کہا نہیں نہیں صرف دنیا کی جان نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تو ایمان کی بھی جان ہے ۔

بروز جمعہ 25 صفرالمظفر 1340ھ مطابق 1921ء کو دو بج کر اڑتیس منٹ پر عین اذان جمعہ کے وقت حی علی الفلاح کا نغمہ جانفزا سن کر داعی اجل کو گویا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے : ⬇

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینہ پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

امام احمد رضا خان قادری اور ذکر اہلبیت رضی اللہ عنہم

اہل بیت عظام و ساداتِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت ، ان سے نسبت و وابستگی بلا شبہ ایک گنج گراں مایہ ہے،بیش بہا ذخیرہ ہے، صحابہ کرام نے اس نسبت کا احترام کیا، عظمت دی، سروں پر رکھا، دلوںمیں بٹھایا، مصنفین و مولفین نے جن کو موضوع سخن و عنوان باب منتخب کیا، مقررین و خطبا نے ان کی عظمتوں کو سراہا، ادبا و شعرا نے جن کی ارادت کو باعث فخر اور تو شۂ آخرت مانا، اپنے اپنے انداز میں انہیں خراج تحسین و تبریک پیش کیا، بندگان خدا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے ا نہیں وسیلہ بنایا، دعائیں کیں، التجائیں کیں، دینی محافل میں ان کے تذکرے ہوئے، ان کے محاسن و کمالات بیان کیے گئے، قرآن و حدیث میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، کیا قرآن مجید نے اعلان نہیں کیا، اللہ عزوجل نے ارشاد نہیں فرمایا ؟ سنو ! ’’تم فرماٶ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، مگر قرابت کی محبت‘‘ ۔ (القرآن الکریم ، شوریٰ ۴۲، آیت ۲۳)

اور حضور اقدس نور مجسم سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو ارشاد فرماتے ہیں : خدا کی قسم! میری قرابت دنیا و آخرت میں پیوستہ ہے‘‘ ۔ (امام احمد بن حنبل ،مسند احمد بن حنبل، ص۱۸؍۳)

ایک دوسری روایت میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ زعم کرتے ہیں کہ میری قرابت نفع نہ دے گی، ہرعلاقہ و رشتہ قیامت میں قطع ہوجائے گا ،مگر میرا رشتہ و علاقہ کہ دنیا و آخرت میںجڑا ہوا ہے‘‘ ۔ (البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، صفحہ نمبر ۸۱؍۷،چشتی)

ہر دور میں ان کی محبت و عقیدت کو دلوں میں بٹھانے کی جد و جہد ہوئی، نسبت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حصول اور اس میں استحکام و پائیداری کے لیے عابد بھی کوشاں نظر آئے، زاہد بھی، غلام بھی، آقا بھی، بادشاہ بھی، رعایا بھی، استادبھی، شاگرد بھی، پیر بھی، مرید بھی۔ در اصل یہی نسبت و قرابت دخول جناں کا سبب ہے، ذریعہ ہے، وسیلہ ہے، رسول اعظم علیہ التحیۃ و الثنا کی بارگاہ میں برگزیدگی و تقرب کا موثر اور قابل اعتماد واسطہ ہے، خوب صورت ہتھیار ہے، جبھی تو کہنا پڑا، ماننا پڑا، اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا : ⬇

لے کے جائے گی جناں میں پاک نسبت آپ کی
کہہ رہی ہے خود غلاموں سے یہ جنت آپ کی

شاعر نے یہ بات دلیل کے بغیر نہ کہی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا اور اہل بیت اطہار کی نسبت والفت کو واشگاف کیا : ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ تعالیٰ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا ۔ (امام احمد رضا قادری جامع الاحادیث صفحہ ۵۹۴؍۴،چشتی)

چودہویں صدی کے مجدد اعظم، امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ و الرضوان واقعی سچے عاشق رسول تھے، مومن کامل تھے، محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کومعمولی ٹھیس پہنچے،جان ایمان کو ذرہ برابر ضرب لگے، وہ ایمان و ایقان کےلیے زہر قاتل ہے، ضرر رساں ہے ۔

امام احمد رضا قدس سرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ گستاخی ناقابل برداشت تھی، جس کا علمی مظاہرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب و رسائل و فتاویٰ و خطوط و مکتوبات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔

امام احمد رضا قدس سرہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک نسبت و ارادت کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی معراج جانا ، حیاتِ سرمدی کا عظیم سرمایہ تسلیم کیا ، اعلان کیا ، پھیلایا ، لوگوں کو بتایا ، سمجھایا ، جبھی تو سب پکار اٹھے : ⬇

ڈال دی قلب میں عظمت مصطفی
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنے ملفوظ وصایا میں ارشاد فرمایا : جس سے اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ توہین پائو پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیار کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جاٶ ، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینک دو ۔ (مولانا ظفرالدین رضوی ،حیات اعلیٰ حضرت، ممبئی، ص۲۸۴؍۳)

امام احمد رضا قادری برکاتی کو اہل بیت و سادات سے بڑی محبت تھی، عقیدت تھی، لگائو تھا، ان کی جوتیوں کو اپنے سر کا تاج سمجھتے تھے، ان کی دل جوئی کو باعث فخر و ایمان کا لازمہ گردانتے، ان کی محبت کو شفاعت کا ذریعہ تسلیم کرتے تھے، کیا انہوں نے نہیں فرمایا:’’یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالیٰ حضرات سادات کرام کا ادنی غلام و خاک پا ہے، ان کی محبت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے ،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سید اگر بدمذہب بھی ہو جائے اس کی تعظیم نہیں جاتی ،جب تک بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے ۔ہاں بعد کفر سیادت نہیں رہتی ،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے اور یہ بھی فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ۔ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ،نہ سیادت کی سند مانگنے کاہم کو حکم دیا گیا ہے اور خواہی نہ خواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو برا کہنا ، مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ (امام احمد رضا قادری،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۲۵؍۱۲)

اپنے فتاویٰ میں متعدد مقامات پر سادات کرام کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی، حکم دیا اور ان کی ناقدری کو حرام قرار دیا، اپنے ایک فتویٰ میں یوں رقم طراز ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے ۔(امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۶۶؍۹،چشتی)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں : سنی سید کی بے توقیری سخت حرام ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو سید کی تحقیر بوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافر ہے ۔ (امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ۱۳۱؍۹)

امام احمد رضا قدس سرہ شاعری میں امام، اقلیم سخن کے تاج دار نظر آتے ہیں، تحدیث نعمت کے بطور جبھی تو ارشاد فرمایا : ⬇

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں

نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ حمد، منقبت، رباعی وغیرہا اصناف سخن میں خامہ فرسائی کی اور خوب لکھا، اپنے قصیدۂ سلامیہ کے اندر سیرت رسول، سراپائے رسول کا اس انداز سے نقشہ کھینچا کہ دل باغ باغ ہو جاتا ہے، مولانا کوثرؔ نیازی نے جس کے بارے میں کہا:’’میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ تمام زبانوںاور زمانوں کا پورا نعتیہ کلام ایک طرف اور شاہ احمد رضا کا سلام ’’مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ ایک طرف، دونوںکو ایک ترازو میں رکھا جائے تو احمد رضا کے سلام کا پلڑا پھر بھی جھکا رہے گا‘‘ ۔ (مولانا کوثر نیازی ،امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت، صفحہ ۲۳،چشتی)

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت اطہار و سادات کرام کی شان والا صفات میں بڑے اچھے انداز و اسلوب میں گلہائے عقیدت پیش کیا، انوکھے لب و لہجے میں ان کا ذکر جمیل کیا، ارشاد فرماتے ہیں : ⬇

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

امام احمد رضا قدس سرہ کو سادات کرام سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی ، آپ کا دل حب اہل بیت سے سرشار رہتا ، اپنے اشعار میںبے شمار جگہوں پر ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ فرمایا : نبی محترم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی لخت جگر،نور نظر خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی عظمت و بزرگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جن کے مقام و مرتبہ کو ناپا نہیں جا سکتا، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا : ان کا نام فاطمہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرما دیا ۔ (امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، صفحہ ۵۹۵؍۴)

دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل نے اس کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اسے اور اس سے محبت کرنے والوں کو آتش دوزخ سے آزاد فرما دیا ۔ (امااحمد رضا قادری ،جامع الاحادیث ص۵۹۷؍۴)

امام احمد رضا نے آپ کی شان اقدس میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا : ⬇

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

سیدہ ، زاہرہ ، طیبہ ، طاہرہ
جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

اسی طرح اور کئی اشعار آپ کے مناقب میں پیش فرمائے، طوالت کے خوف سے بطور نمونہ دو پر اکتفا کیا گیا ، مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کیا کہنا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے علی ! سب سے پہلے وہ چار کہ جنت میں داخل ہوں گے میں ہوں اور تم اور حسن و حسین اور ہماری ذریت ہماری پس پشت ہوگی ۔ (امام احمد رضا قادری ، جامع الاحادیث، صفحہ ۵۹۲ جلد ۴،چشتی)

حضرت علی مرتضیٰ کو حسنین کریمین کے والد ہونے ، جگر گوشۂ بتول رضی اللہ عنہم کا خاوند ہونے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے، شجاعت و بہادری میں آپ کی مثال پیش کی جاتی ہے، آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت علی کے مقابل کوئی جوان نہیں اور ان کی تلوار ذوالفقار کے سامنے کوئی تلوار نہیں ۔ (امام احمد رضا قادری جامع الاحادیث صفحہ نمبر ۵۸۳ جلد نمبر ۴،چشتی)

مولائے کائنات کی شان عالی میں امام اہل سنت یوں لب کشائی فرماتے ہیں : ⬇

مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعیں
ساقی شیر وشربت پہ لاکھوں سلام

اصل نسل صفا ، وجہ وصل خدا
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اہل بیت کی شان میں مدح سرائی کرتے ہیں : ⬇

پارہ ہائے صحف غنچہ ہائے قدس
اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام

آب تطہیر سے جس میں پورے جمے
اس ریاض نجابت پہ لاکھوں سلام

جنتی جوانوں کے سردار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فضائل و مناقب میں بے شمار اقوال رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم موجود ہیں ، ارشاد رسالت ہے : حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں ۔ (امام ابو عیسیٰ، محمد بن عیسیٰ ،ترمذی شریف جلد ٢ صفحہ ۲۱۸)

مزید فرماتے ہیں : حسن و حسین دونوں میرے دنیاوی پھول ہیں ۔ (امام محمد بن اسماعیل بخاری شریف صفحہ ۵۳۰ جلد ۱)

امام احمد رضا قدس سرہ نے احادیث کی ترجمانی کرتے ہوئے کس خوب صورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا اور میدان حشر میں ان کا صدقہ مانگا، فرماتے ہیں  : ⬇

ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجئے رضاؔ کو حشر میں خنداں مثال گل

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہراہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول

ان کے علاوہ الگ الگ کئی مقام پر شہید کربلا امام حسین اور حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جناب میں نذرانۂ عقیدت نچھاور کیا اور ان پر سلام کا گلدستہ پیش کیا ۔ فخر السادات حضور غوث اعظم سید شاہ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں آپ نے کئی منقبتیں تحریر فرمائیں ، کئی قصائد لکھے ، ہاشمی گھرانے کے اس عظیم چشم و چراغ سے التجائیں کیں ، استعانت و استمداد کی ، ارقام فرماتے ہیں : ⬇

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا

نسبت قادری پر آپ کو بے حد ناز تھا ، جبھی تو ارشاد فرماتے ہیں : ⬇

قادری کر ، قادری رکھ ، قادریوں میں اٹھا
قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے

قصیدہ سلامیہ میں بھی حضور غوث کا ذکر جمیل کیا اور سلام محبت پیش فرمایا ۔ مارہرہ مقدسہ کے بزرگ سادات ، اپنے آقائوں کی بارگاہ میں ، پیر و مرشد کی جناب میں قصیدہ سلامیہ میں ، شجرۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں خراج تحسین و محبت پیش کیا ، فرماتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں عرض گزار ہیں : ⬇

دوجہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدیٰ کے واسطے

کیسے آقاٶں کا بندہ ہوں رضاؔ
بول بالے میرے سرکاروں کے

کلام رضاؔ میں ذکر سادات ، اور احترام سادات کے جابجا نمونے ملتے ہیں ، چند کا یہاں تذکرہ کیا گیا ، قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ (مزید حصّہ دہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم اس...