خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 16
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ اور علمائے غیرمقلدین سے ثبوت : حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے اِختلافی و اِعتقادی نوعیت کے چھبیس (26) مختلف سوالات پوچھے تو 1325ھ میں مولوی خلیل احمد سہارن پوری دیوبندی (1269۔ 1346ھ) نے اِن سوالات کا تحریری جواب دیا ، جو ’’المھند علی المفند‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا ۔ اِن جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نام وَر علمائے دیوبند نے اپنے قلم سے کی ، جن میں مولوی محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ) ، مولوی احمد حسن امروہوی (م 1330ھ) ، مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن (م 1347ھ) ، مولوی اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) اور مولوی عاشق اِلٰہی میرٹھی دیوبندی بھی شامل ہیں ۔ اِن چوبیس (24) علماۓ دیوبند نے صراحت کی ہے کہ جو کچھ ’’المھند علی المفند‘‘ میں تحریر کیا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشائخ کا عقیدہ ہے ۔
مذکورہ کتاب میں اِکیسواں سوال میلاد شریف منانے کے متعلق ہے ۔ اس کی عبارت ہے : أتقولون أن ذکر ولادته صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح شرعًا من البدعات السيئة المحرمة أم غير ذلک ؟
ترجمہ : کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ ، حرام (معاذ ﷲ) ہے یا اور کچھ ؟
علمائے دیوبند نے اِس کا متفقہ جواب یوں دیا : حاشا أن يقول أحد من المسلمين فضلاً أن نقول نحن أن ذکر ولادته الشريفة علية الصلاة والسلام، بل وذکر غبار نعاله وبول حماره صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح من البدعات السئية المحرمة. فالأحوال التي لها أدني تعلق برسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرها من أحب المندوبات وأعلي المستحبات عندنا سواء، کان ذکر ولادته الشريفة أو ذکر بوله وبزاره وقيامه وقعوده ونومه ونبهته، کما هو مصرح في رسالتنا المسماة بالبراهين القاطعة في مواضع شتي منها ۔
ترجمہ : حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے ۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے ، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول و براز ، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو ۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے ۔ (المهند علي المفند : 60، 61)
مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی (و 1341ھ) ، (و 1922ء) تحریر کرتے ہیں : جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کےلیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا ۔ (اَحسن الفتاويٰ جلد 1 صفحہ 347 ، 348)
شاہ عبد الرحیم دہلوی (1054۔ 1131ھ) ۔ قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم دہلوی فرماتے ہیں : کنت أصنع في أيام المولد طعاماً صلة بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فلم يفتح لي سنة من السنين شيء أصنع به طعاماً، فلم أجد إلا حمصًا مقليا فقسمته بين الناس، فرأيته صلي الله عليه وآله وسلم وبين يديه هذا الحمص متبهجاً بشاشا ۔
ترجمہ : میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں ۔ (الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 40)
برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) ۔ قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703۔ 1762ء) اپنے والد گرامی اور صلحاء و عاشقان کی راہ پر چلتے ہوئے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحداة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، واﷲ أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذه المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة ۔
ترجمہ : اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، ﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا ۔ (فيوض الحرمين : 80، 81)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسی ہستی کا یومِ میلاد کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ہونے والی محفلِ میلاد میں شرکت کرنا محفلِ میلاد کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کرتا ہے۔ ثانیاً اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حرمین شریفین میں بھی محافلِ میلاد منعقد ہوتی رہی ہیں۔ اگر آج وہاں اِعلانیہ طور پر ایسی محافل منعقد نہیں ہوتیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں کبھی ایسی محافل ہوئی نہیں تھیں۔ اہلِ عشق و محبت تو آج بھی وہاں محبتِ اِلٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترانے الاپ رہے ہیں ۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159۔ 1239ھ) ۔ خاندان ولی ﷲ کے آفتابِ روشن شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی (1745۔ 1822ء) اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں : وبرکة ربيع الأول بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيه ابتداء وبنشر برکاته صلي الله عليه وآله وسلم علي الأمة حسب ما يبلغ عليه من هدايا الصلٰوة والإطعامات معا ۔
ترجمہ : اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے ۔ (فتاوٰي، 1 : 163)
شیخ عبد ﷲ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی (1165۔ 1242ھ)
غیرمقلد وہابی مذھب کے بانی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی (1115۔ 1206ھ / 1703۔ 1791ء) کی کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اُس کا بیٹا عبد ﷲ بن محمد اپنی کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں میلاد شریف کی بابت لکھتا ہے : وأرضعته صلي الله عليه وآله وسلم ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشّرته بولادته صلي الله عليه وآله وسلم. وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ فقال : في النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار برأس أصبعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وبإرضاعها له ۔
قال ابن الجوزي : فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمته يُسر بمولده ۔
ترجمہ : اور ابو لہب کی باندی ثویبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا اور جب اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خبر سنائی تو ابولہب نے اُسے آزاد کر دیا۔ اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر سوموار کو (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں)، اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا ۔
ابن جوزی کہتے ہیں : پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ہر شبِ میلاد اُس ابولہب کو بھی جزا دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے ۔ (مختصر سيرة الرسول صلي الله عليه وآله وسلم : 13)
مولوی احمد علی سہارن پوری (م 1297ھ) دیوبندی میلاد شریف کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے : إن ذکر الولادة الشريفة لسيدنا رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بروايات صحيحة في أوقات خالية عن وظائف العبادات الواجبات وبکيفيات لم تکن مخالفة عن طريقة الصحابة وأهل القرون الثلاثة المشهود لها بالخير، وبالاعتقادات التي موهمة بالشرک والبدعة وبالآداب التي لم تکن مخالفة عن سيرة الصحابة التي هي مصداق قوله عليه السلام : ما أنا عليه وأصحابي وفي مجالس خالية عن المنکرات الشرعية موجب للخير والبرکة بشرط أن يکون مقرونًا بصدق النية والإخلاص واعتقاد کونه داخلاً في جملة الأذکار الحسنة المندوبة غير مقيد بوقت من الأوقات. فإذا کان کذلک لانعلم أحد من المسلمين أن يحکم عليه يکونه غير مشروع أو بدعة ۔
ترجمہ : سیدنا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایت سے ان اوقات میں جو عباداتِ واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان اہلِ قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے، ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں، ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اِرشاد ما انا علیہ واصحابی۔ کی مصداق ہے ان مجالس میں جو منکراتِ شرعیہ سے خالی ہوں سببِ خیر و برکت ہے۔ بشرطیکہ صدقِ نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جاوے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اَذکارِ حسنہ کے ذکرِ حسن ہے، کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ پس جو ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا ۔ (المهند علي المفند صفحہ نمبر 61، 62،چشتی)
مولانا عبد الحی لکھنوی محفلِ میلاد کے اِنعقاد کےلیے دن اور تاریخ متعین کرنے کے بارے آپ لکھتے ہیں : جس زمانے میں بہ طرزِ مندوب محفل میلاد کی جائے باعثِ ثواب ہے اور حرمین، بصرہ، شام، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاول کا چاند دیکھ کر خوشی اور محفلِ میلاد اور کارِ خیر کرتے ہیں اور قرات اور سماعت میلاد میں اہتمام کرتے ہیں۔ اور ربیع الاول کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ان ممالک میں میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں اور یہ اعتقاد نہ کرنا چاہیے کہ ربیع الاول ہی میں میلاد شریف کیا جائے گا تو ثواب ملے گا ورنہ نہیں ۔ (عبد الحي، مجموعه فتاويٰ ، 2 : 283)
امامُ الوابیہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (م 1307ھ) غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین ہیں وہ میلاد شریف منانے کی بابت لکھتے ہیں : اِس میں کیا برائی ہے کہ اگر ہر روز ذکرِ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کر سکتے تو ہر اُسبوع (ہفتہ) یا ہر ماہ میں اِلتزام اِس کا کریں کہ کسی نہ کسی دن بیٹھ کر ذکر یا وعظِ سیرت و سمت و دل و ہدی و ولادت و وفات آنحضرت کا کریں۔ پھر ایامِ ماہِ ربیع الاول کو بھی خالی نہ چھوڑیں اور اُن روایات و اخبار و آثار کو پڑھیں پڑھائیں جو صحیح طور پر ثابت ہیں ۔ (الشمامة العنبرية من مولد خير البرية صفحہ نمبر 5،چشتی)
آگے لکھتے ہیں : جس کو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلاد کا حال سن کر فرحت حاصل نہ ہو اور شکر خدا کا حصول پر اِس نعمت کے نہ کرے وہ مسلمان نہیں ۔ (الشمامة العنبرية من مولد خير البرية صفحہ 12)
حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی (1233۔ 1317ھ) ۔(1817۔ 1899ء) علمائے دیوبند کے پیر و مرشد ہندوستان سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ میں مقیم ہو گئے اور مکہ میں درس دیتے رہے ، پھر وہیں ان کی وفات ہوئی اور جنت المعلیٰ میں مدفون ہیں ۔ حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی چاروں سلاسلِ طریقت میں بیعت کرتے تھے، اور دار العلوم دیوبند کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی (1248۔ 1297ھ / 1833۔ 1880ء) اور دار العلوم دیوبند کے سرپرست مولوی رشید احمد گنگوہی (1244۔ 1323ھ / 1829۔ 1905ء) آپ کے مرید و خلفاء تھے ۔ مولوی اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ / 1863۔ 1943ء) ، مولوی محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ / 1920ء) اور کئی دیگر علماء و مشائخ کا شمار حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی کے خلفاء میں ہوتا تھا ۔
’’شمائمِ اِمدادیہ‘‘ کے صفحہ نمبر 47 اور 50 پر درج ہے کہ حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی نے ایک سوال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِنعقاد کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے ؟ کے جواب میں فرمایا : مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں ، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے ۔ اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا ہے! البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اِختراع کی ہیں نہ چاہئیں۔ اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں، مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے ۔ (شمائم اِمداديه : 47)
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے بھی یہ عبارت ’’اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف الاخلاق (صفحہ 52 ، 53)‘‘ میں نقل کی ہے ۔
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی مزید لکھتے ہیں : ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں ۔ تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں۔ جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں ؟ اور ہمارے واسطے اِتباعِ حرمین کافی ہے ۔ البتہ وقتِ قیام کے اِعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے ۔ اگر اِہتمام تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں کیوں کہ عالم خلق مقید بہ زمان و مکان ہے لیکن عالم اَمر دونوں سے پاک ہے ۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں ۔ (شمائم امداديه صفحہ 50)
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے بھی یہ عبارت ۔ (اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف الاخلاق (صفحہ 58) میں نقل کی ہے ۔
حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی کے مذکورہ بالا بیان کے مطابق حرمین شریفین میں میلاد کی تقریبات کا ہونا اس بات کی حتمی و قطعی دلیل ہے کہ اس پر اہل مدینہ اور اہل مکہ میں دو آراء نہیں تھیں، وہ سب متفقہ طور پر میلاد کا اہتمام کرتے تھے ۔ اور میلاد کے جواز پر اِس قدر حجت ہمارے لیے کافی ہے جو کہ اِنکار کرنے والوں کےلیے برہانِ قاطع ہے ۔
حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی نے اِعتقادی نوعیت کے سات سوالات کے جواب میں اپنی کتاب ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ (دیوبندی مسلک کے بعض علماء ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کے بارے کہتے ہیں کہ یہ حضرت اِمداد ﷲ مہاجر مکی کی تحریر نہیں، حالاں کہ مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے ’’اشرف السوانح جلد3 صفحہ 355 ، 356 ‘‘ میں تصریح کی ہے کہ یہ حضرت اِمداد ﷲ مہاجر مکی کی تحریر ہے ۔ مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے ’’فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 130 ، 131 ‘‘ میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے یہ رسالہ کسی سے لکھوایا اور سُن کر اس میں اِصلاحات کروائیں ۔ گویا اِس میں جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت کا مسلک و مشرب ہے ۔ علاوہ ازیں دیوبند مسلک کے کتب خانوں سے شائع ہونے والے حضرت اِمداد ﷲ مہاجر مکی کے دس رسالوں کے مجموعہ ’’کلیاتِ اِمدادیہ‘‘ میں بھی ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ شامل ہے ؛ جیسا کہ کتب خانہ اشرفیہ ، راشد کمپنی دیوبند (بھارت) نے طبع کیا تھا، اور ادارہ اِسلامیات، لاہور نے بھی شائع کیا ہے) لکھی ۔ کسی نے اُن سے دریافت کیا کہ میلاد کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ اور معمول ہے ؟ تو اِس پر اُنہوں نے جواب دیا : فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں ، بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف اور لذت پاتا ہوں ۔ (فيصله ہفت مسئله صفحہ نمبر 7،چشتی)
ایک جگہ لکھتے ہیں : رہا یہ عقیدہ کہ مجلسِ مولود میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہوتے ہیں، تو اس عقیدہ کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ یہ بات عقلاً و نقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر واقع ہو بھی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے علم ہوا، آپ کئی جگہ کیسے تشریف فرما ہوئے، تو یہ شبہ بہت کمزور شبہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم و روحانیت کی وسعت کے آگے۔ جو صحیح روایات سے اور اہلِ کشف کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ یہ ادنیٰ سی بات ہے ۔ (فيصله ہفت مسئله صفحہ 6)
جو لوگ محفلِ میلاد کو بدعتِ مذمومہ اور خلافِ شرع کہتے ہیں ، اُنہیں کم اَز کم اپنے شیخ و مرشد کا ہی لحاظ کرتے ہوئے اِس رویہ سے گریز کرنا چاہیے ۔
مشہور غیر مقلد وہابی عالم علامہ نواب وحید الزماں (م 1338ھ)(م 1920ء) میلاد شریف کے بارے میں لکھتا ہت : وکذلک من يزجر الناس بالعنف والتشدد علي سماع الغناء أو المزامير أو عقد مجلس للميلاد أو قراء ة الفاتحة المرسومة ويفسقهم أو يکفرهم علي هذا ۔
ترجمہ : ایسے ہی لوگوں کو سماع ، غناء یا مزامیر یا محفلِ میلاد منعقد کرنے یا مروّجہ فاتحہ پڑھنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے یا اُن کے فسق یا اُن کے کفر پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور تشدد کرنا نیکی کی بجائے گناہ حاصل کرنا ہے ۔ (هدية المهدي من الفقه المحمدي صفحہ نمبر 118، 119) ۔ (مزید حصّہ نمبر 17 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment