Monday, 5 September 2022

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ سوم

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اس سے قبل آپ نے اجمالاً پڑھا اب اس موضوع پر قدرے تفصیل پیشِ خدمت ہے : اس کی تحقیق کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں قتادہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت زید بن حارثہ کے متعق نازل ہوئی ہے کہ وہ آپ کے بیٹے نہیں ہیں اور آپ کے چار نسبی بیٹے تھے آپ حضرت قاسم ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت طیب اور حضرت مطہر کے ولد تھے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٤٦٥‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧٦٩٨)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا تو کفار اور منافقین نے اعتراض کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حضرت زید بن حارثہ آپ کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں حتی کہ ان کی بیوی آپ پر حرام ہو جائیں لیکن آپ تعظیم اور تکریم کے اعتبار سے امت کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرما کر کفار اور منافقین کے اعتراضات کو ساقط کردیا ‘ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں جو مرد تھے آپ ان میں سے کسی کے حقیقی والد نہیں ہیں ‘ یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کے والد نہیں ہیں کیونکہ آپ کی چار بیٹیاں تھیں اور آپ ان کے والد تھے اور آپ کے چار بیٹے تھے اور آپ ان کے والد تھے لیکن وہ سب صغر سن میں وفات پا گئے اور ان میں سے کوئی بھی مردہونے کی عمر تک نہیں پہنچا ‘ سو آپ مردوں میں سے کسی یحقیقی والد نہیں ہیں نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں اور یہ چاروں آپ کے نسبی بیٹے تھے مخاطبین کے مردوں میں سے نہ تھے ‘ بعض احادیث میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٦٩)

لیکن آپ نے ان کو مجازاً اپنے بیٹے فرمایا وہ آپ کے نسبی بیٹے نہ تھے ‘ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نسبی بیٹے اور آپ کے نواسے تھے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں اور نہ کسی مرد کے حقیقی والد ہیں ‘ نہ رضاعی والد ہیں ۔ فقیر نے امام ابن جریر اور امام ابنابی حاتم کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار بیٹے تھے لیکن مشہور یہ ہے کہ آپ کے دو بیٹے تھے حضرت قاسم اور حضرت ابراہیم ‘ حضرت قاسم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہم کے بطن سے پیدا ہوئے انہی کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم ہے اور حضرت ابراہیم آپ کی کنیز ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی تمام اولاد قبل از اسلام پیدا ہوئی ‘ صرف حضرت ابراہیم واحد ہیں جو زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے اسی وجہ سے ان کا لقب طب اور مطہر ہے ۔ (سبل الھدی والرشاد جلد ١١ صفحہ ١٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)

علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ آپ کسی مرد کے شرعی والد ہیں نہ رضاعی اور نہ کسی کو آپ نے شرعاً بیٹا بنایا کیونکہ شرعاً بیٹا اس کو بنایا جاتا ہے جو مجہول النسب ہو اور حضرت زید بن حارثہ مجہول النسب نہیں تھے ان کا نسب معروف تھا وہ حارثہ کے بیٹے تھے غرض آپ کسی اعتبار سے کسی مرد کے باپ نہ تھے ‘ نسبی نہ رضاعی نہ متبنی کے کے اعتبار سے ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ صفحہ ٤٥۔ ٤٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین اور آخری نبی ہونے پر صاف اور صریح آیت تو یہی الاحزاب : ٤٠ ہے ‘ اس کے علاوہ قرآن مجید کی اور آیات بھی ہیں جن سے آپ کا خاتم النبیین اور آخری نبی ہونا ثابت ہے : ⬇

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ (سورہ المائدہ : ٣)
ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو تمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بہ طور دین پسند فرمالیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر دین کا کامل اور تمام ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ آپ آخری نبی ہیں ‘ کیونکہ آپ کے بعد کسی اور نبی کا آنا اسی وقت ممکن ہوتا ‘ جب آپ کے دین اور آپ کی شریعت میں کوئی کمی ہوتی جس کمی کو بعد میں آنے والا نبی پورا کرتا ‘ اور جب آپ کا دین کامل اور تمام ہے اور اس کا نامکمل ہونا ممکن نہیں ہے تو آپ کے بعد کسی نبی کا آنا بھی ممکن نہیں ہے ۔

ومآ ارسلنک الا کآفۃ للناس بشیرا و نذیرا ۔ (سورہ سبا : ٢٨)
ترجمہ : اور (اے رسول مکرم) ہم نے آپ کو دنیا کے تمام لوگوں کے لیے (جنت کی) بشارت دینے والا اور (دوزخ سے) ڈرانے والا بنا بھیجا ہے ۔

اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں کے لیے آپ رسول ہیں اگر آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت کو جائز قرار دیا جائے تو لازم آئے گا کہ آپ تمام لوگوں کے لیے رسول نہیں ہیں بلکہ بعض لوگوں کے لیے کوئی اور رسول آئے گا ‘ اور اس سے یہ آیت کا ذب ہوجائے گی اور قرآن مجید کا کاذب ہونا محال ہے ‘ اس سے لازم آیا کہ آپ کے بعد کسی اور نبی کا آنا محال ہے ۔

قل یایھالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۔ (سورہ الاعراف : ١٥٨)
ترجمہ : آپ کہیے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی طرف اللہ رسول ہوں ۔

اس آیت کی بھی حسبِ سابق تقریر ہے کہ اگر آپ کے بعد کسی کا آنا ممکن ہو تو پھر آپ سب کےلیے رسول نہیں رہیں گے ۔

ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ۔ (سورہ الانبیاء : ١٠٧)
ترجمہ : اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔

اس آیت کی بھی اسی طرح تقریر ہے کہ اگر آپ کے بعد کسی رسول کا آنا ممکن ہو تو پھر بعض لوگوں کے لیے وہ رسول رحمت ہوگا اور آپ تمام جہانوں کےلیے رحمت نہیں رہیں گے اور یہ اس آیت کے خلاف ہے ۔

تبرک الذی نذل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا ۔ (الفرقان : ١) ترجمہ : وہ ذات برکت والی ہے جس نے اپنے عبد کامل پر وہ کتاب نازل کی جو حق اور باطل میں فرق کرنے والی ہے تاکہ وہ عبد کامل تمام جہانوں کےلیے (عذاب سے) ڈرانے والاہو جائے ۔

واذ اخذ اللہ میثاق النبین لمآ اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جآء کم رسول مصدق لما معکم لتؤ منن بہ ولتنصرنہ ط قالء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری ط قالوا اقررنا ط قال فاشھدوا وانا معکم منالشھدین ۔ (آل عمران : ٨١)
ترجمہ : اور یاد کیجیے جب اللہ نے تمام نبیوں سے یہ پختہ عہد لیا کہ میں تمہیں جو کتاب اور حکمت عطا کروں ‘ پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائے جو ان (چیزوں) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہیں ‘ تو تم سب اس ضر ضرور ایمان لانا اور تم سب ضرور اس کی مدد کرنا ‘ فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا ‘ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کرلیا ‘ فرمایا پس تم سب (ایک دوسرے پر) گواہ و جاٶ ‘ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ جس نبی کے آنے پر تمام رسولوں سے اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا پختہ عہد لیا گیا ہے وہ تمام رسولوں کے بعد آئے گا ‘ پس اگر آپ کے بعد کسی اور رسول کے آنے کو ممکن مانا جائے تو لازم آئے گا کہ وہی آخری رسول ہو اور اسی کے متعلق تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا گیا ہو بلکہ آپ سے بھی اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا ہو اور یہ بداھۃ باطل ہے ۔

ھوالذی بعث فی الامین رسولامنہم یتلوا علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ ق وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین واخرین منھم لما یلحقوا بہم ط وھو العزیز الحکیم ۔ (الجمعہ : ٣۔ ٢)
ترجمہ : وہی ہے جس نے امی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کے باطن کو صاف کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بیشک وہ اس کے آنے سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے اور اس رسول کو دوسروں کےلیے بھی بھیجا ہے جو (ابھی تک) پہلوں سے نہیں ملے اور وہ بےحد غالب بہت حکمت والا ہے ۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زمانہ کے لوگوں کے بھی رسول ہیں اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کےلیے بھی رسول ہیں ‘ اب اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے بعد کسی اور رسول کا آنا بھی ممکن ہے تو پھر اس رسول پر ایمان لانے والوں کےلیے آپ رسول نہیں ہوں گے اور یہ اس آیت کے خلاف ہے ۔

ومن یشا قق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤ منین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم ط وسآ ئت مصیرا ۔ (سورہ النساء : ١١٥)
ترجمہ : اور جو شخص اس پر ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلے ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا ہے اور اس کو دوزخ میں داخل کردیں گے اور وہ کیسا بر اٹھکانا ہے ۔

عہدِ رسالت سے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا محال ہے سو جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ اس آیت کی وعید کا مصداق ہے ۔

لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقتل ط اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا ط وکلاوعداللہ الحسنی ط ۔ (سورہ الحدید : ١٠)
ترجمہ : تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا ‘ وہ دوسروں کے برابر نہیں ہیں ‘ ان کا ان لوگوں سے بہت بڑا درجہ ہے جنہوں نے اس کے بعد (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور قتال کیا اور اللہ نے ہر ایک سے نیک عاقبت کا وعدہ فرمایا ہے ۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے صحابہ ‘ بعد کے صحابہ سے بہت افضل ہیں ‘ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن ہوتا تو وہ ان صحابہ سے افضل ہوتا کیونکہ نبی غیر نبی سے افضل ہوتا ہے اور ان صحابہ سے اس کا افضل ہونا اس آیت کے خلاف ہے ‘ پس آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعلق احادیث صحیحہ ‘ مقبولہ : ⬇

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے ‘ جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا ‘ مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ‘ لوگ اس گھر کے گرد گھومانے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے ‘ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی آپ نے فرمایا میں (قصر نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٥‘ صیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٦‘ السنن الکبری رقم الحدیث : ١٤٢٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٤٧٩‘ عالم الکتب)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔ (الی قولہ) عنقریب میری امت میں تیس کذاب ہوں گے ‘ ان میں سے ہر ایک کا زعم ہوگا کہ وہ نبی ہے ‘ اور میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (سنن ابوداٶد رقم الحدیث : ٤٢٥٢،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٨٩)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٠٢)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٥٢)(صحیح بخاری ٧١٢١) ۔ میں ہے عنقریب تیس کذاب نکلیں گے ان میں ہر ایک کا زعم ہو گا کہ وہ رسول اللہ ہے)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی مثل اس شخص کی طرح ہے جس نے گھر بنا کر مکمل کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ‘ پس میں آیا اور میں نے اس اینٹ کو رکھ کر اس گھر کو مکمل کردیا ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٩‘ حافظ زین نے کا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١١٠٠٩‘ دارالحد یث قاہر ‘ ١٤١٦ ھ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے چھ وجوہ سے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے (١) مجھے جو امع الکلم عطا کیے گئے ہیں (٢) اور رعب سے میری مدد کی گئی ہے (٣) اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے (٤) اور تمام روئے زمین کو میرے لیے آلہ طہارت اور نماز کی جگہ بنادیا گیا ہے (٥) اور مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے (٦) اور مجھ پر نبیوں کو ختم کیا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٣٣‘چشتی)(سنن الترمذ رقم الحدیث : ١٥٥٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٦٧‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٢)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ کےلیے ہارون تھے ‘ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٤٤١٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٤‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣١‘ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٤٣٥‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٣٤۔ ٢٠٣٥۔ ٣٠٢٦‘چشتی)(المستدرک ج ٣ ص ١٠٩ قدیم ‘ رقم الحدیث : ٤٥٧٥ جدید ‘ سنن بہیقی ج ٩ ص ٤٠ ذ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٢٧‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٧٤٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٦٠)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کا ملکی انتظام ان کے انبیاء کرتے تھے ‘ جب بھی کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی ہوجاتا ‘ اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اور میرے بعد بہ کثرت خلفاء ہوں گے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٣٤٥٥ ‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٧١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٩٤٧‘ عالم الکتب بیروت،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے ‘ پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول ہو گا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢‘ مسند احد ج ٣ ص ٢٦٧‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٣٩٤٧‘ المستدرک ج ٤ ص ٣٩١)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم آخر ہیں اور قیامت کے دن سابق ہوں گے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٧٦ ‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٦٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے (یعنی آخر مساجد الانبیاء ہے) (صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار : ١٣٩٤‘ الرقم المسلسل : ٣٣١٧)

قتادہ بیان رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں پیدائش میں سب سے پہلا ہوں اور بعثت میں سب سے آخر ہوں ۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٩١٦۔ ٣٢١٢٦،چشتی)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین تھا اور بیشک (اس وقت) آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٢٧‘ المعجم الکبیر ١٨‘ رقم الحدیث : ٢٥٢‘ مسند البز اررقم الحدیث : ٢٣٦٥)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے آخر میں بیان کرتے ہیں لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہیں گے یا محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں ‘ اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کاموں کی مغفرت کردی ہے ‘ آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٤٧١٢ ‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٣٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٠٧)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور فخر نہیں ۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث : ٥٠‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٨٣)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمار پاس آئے گویا ہمیں رخصت فرما رہے ہوں پھر تین بار فرمایا میں محمد نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٢‘ احمد شاکر نے کا اس کی سند حسن ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٦٦٠٢‘ دارالحدیث قاہرہ) 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث معراج میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء علیہم السلام کے سامنے فرمایا تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں جس نے مجھے رحمۃ للعلمین بنایا اور تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنایا ‘ مجھ پر قرآن مجید نازل کیا جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور میری امت کو خیرامت بنایا جو لوگوں کے نفع کے لیے بنائی گئی ہے ‘ اور میری امت کو معتدل امت بنایا اور میری امت کو اول اور آخر بنایا ‘ اور اس نے میرا سینہ کھول دیا میرا بوجھ اتار دیا اور میرے لیے مرا ذکر بلند کیا اور مجھ کو افتتاح کرنے والا اور (نبیوں کو) ختم کرنے والا بنایا ۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٥٥‘ مجمع الزوائد جلد ١ صفحہ ٧١،چشتی)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حدیث معراج میں بیان کرتے ہیں کہ جب آپ بیت المقدس پہنچے ‘ آپ نے اپنی سواری کو ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھ دیا پھر آپ نے مسجد میں داخل ہو کر فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی ‘ نماز کے بعد نبیوں نے حضرت جبریل سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں ۔(المواہب الدنیہ ج ٢ ص ٣٦٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں آپ کے دو کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٣٨‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث : ١٩۔ ٧‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٥١٢‘ دلائل النبوۃ ج ١ ص ٢٦٩‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٥٠)

حضرت ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فتنہ دجال کے متعلق ایک طویل حدیث میں) فرمایا : میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٧)

حضرت ابو قنیلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا : میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے سو تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پانچ نمازیں پڑھو ‘ اپنے مہینہ کے روزے رکھو ‘ اپنے حکام کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاٶ ۔ (المعجم الکبیر ج ٢٢ رقم الحدیث : ٧٩٧‘ ج ٨ رقم الحدیث : ٧٥٣٥۔ ٧٦١٧،چشتی)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو ذر ! پہلے رسول آدم ہیں اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٢٦٩)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب نبی ہوتے ۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٨٦‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٥٤‘ المستدرک ج ٣ ص ٥٨‘ المعجم الکبیر ج ١٧ رقم الحدیث : ٨٥٧)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کئی اسماء ہیں ‘ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں اللہ میرے سبب سے کفر کو مٹائے گا ‘ اور میں خاشر (جمع کرنے والا) ہوں جس کے عبد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔
(صحیح بخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٥٤‘چشتی)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٤٠‘ السنن الکبری رقم الحدیث : ١١٥٩٠)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں احمد ہوں ‘ اور محمد ہوں ‘ اور حاشر ہوں اور مقفی (سب نبیوں کے بعد مبعوث ہونے والا) ہوں اور خاتم ہوں ۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٥٦‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٠٦٢)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہو کر فرماتے تھے کیا تم میں سے کسی ایک نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ پھر فرماتے میرے بعد نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں ۔ (سنن ابو داٶد رقم الحدیث : ٥٠١٧) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم اس...