Thursday, 8 September 2022

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ ہفتم

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمہ متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم فج روحاء (مدینہ سے چھ میل دور ایک جگہ) میں ضرور بلند آواز سے تلبیہ (لبیک الھم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک) کہیں گے درآں حالیکہ وہ حج کرنے والے ہوں گے ‘ یا عمرہ کرنے والے ہوں گے یا (دونوں کو ملاکر) حج قران کرنے والے ہوں گے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٥٢)

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ صلیب کو مٹادیں گے ‘ اور ان کے لیے نماز جماعت سے پڑھائی جائے گی ‘ وہ مال عطا کریں گے ‘ حتی کہ اس کو ‘ کوئی قبول نہیں کے گا ‘ وہ خراج کو موقوف کردیں گے ‘ وہ مقام روحاء پر نازل ہوں گے ‘ وہاں حج یا عمرہ کریں گے یا قران کریں گے ‘ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت تلاوت کی وان من اھل الکتاب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ حنظلہ کا خیال ہے حضرت ابوہریرہ نے ” قبل موت عیسیٰ “ پڑھا تھا ‘ پتا نہیں یہ بھی حدیث کا جز ہے یا حضرت ابوہریرہ نے خود تفسیر کی تھی ۔ (مسند احمد جلد ٢ صفحہ ٢٩٠‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت،چشتی)
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا ‘ اور جو نبی پہلے مبعوث ہو چکے ہیں ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کی ختم نبوت کے منفی نہیں ہے ‘ جیسے شب معراج تمام نبی مسجد اقصیٰ میں آئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی یا جس طرح جن لوگوں کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں تو ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرب قیامت میں آسمان سے زمین پر نازل ہونا بھی آپ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ تمام انبیاء آپ سے پہلے مبعوث ہو چکے ہیں آپ کے بعد مبعوث نہیں ہوئے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شریعت اسلامیہ پر مطلع ہو کر مسلمانوں میں احکام جاری فرمانا 
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کا علم کیسے ہوا حتیٰ کہ وہ اس علم کے مطابق آپ کی شریعت کے مطابق اس امت میں احکام جاری کر سکیں ‘ تو اس کے متعدد جوابات ہیں ایک جواب یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کا علم تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آپ کی شریعت کا علم تھا اور اسی کے مطابق آپ اس امت میں احکام جاری کریں گے ‘ انبیاء سابقین کو ہماری شریعت کا علم تھا اس کی دلیل حسب ذیل احادیث ہیں : ⬇

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی علیہ الرحمہ متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : وہب بن منبہ نے ذکر کیا ہے کہ جب اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سرگوشی کرنے کےلیے ان کو قریب کیا تو انہوں نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں میں افضل ہے جو لوگوں کےلیے ظاہر کی گئی ہے وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور اللہ پر ایمان رکھیں گے ‘ تو ان کو میری امت بنا دے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ‘ حضرت موسیٰ نے کہا میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں کے آخر میں مبعوث ہوگی اور قیامت کے دن وہ سب پر مقدم ہوگی ‘ تو ان کو میری امت بنا دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ۔ حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت صدقات کو کھائے گی اور اس سے پہلے کی امتیں جب صدقہ دیتیں تو اللہ تعالیٰ ایک آگ بھیجتا جو اس صدقہ کو کھا جاتی ‘ اور اگر وہ صدقہ قبول نہ ہوتا تو آگ اس صدقہ کے قریب نہیں جاتی تھی اے اللہ تو ان لوگوں کو میری امت بنادے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ۔ حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت جب گناہ کا منصوبہ بنائے گی تو اس کا گناہ نہیں لکھاجائے گا اور جب وہ اس گناہ کا کام کرے گی تو اس کا صرف ایک گناہ لکھا جائے گا اور جب وہ نیکی کا منصوبہ بنائے گی اور اس نیکی کو نہیں کرے گی تو اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی اور جب وہ نیکی کرے گی تو اس کو دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اجر دیا جائے گا ‘ اے اللہ تو اس امت کو میری امت بنادے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ۔ (دلائل النبوۃ جلد ١ صفحہ ٣٨٠۔ ٣٧٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

یہ ہماری شریعت کے وہ احکام ہیں جو سابقہ شریعتوں میں نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان احکام پر مطلع فرما دیا ۔ اسی طرح حضرت داٶد علیہ السلام کے متعلق ہے : وہب بن منبہ نے حضرت داٶد علیہ السلام کے متعلق بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف زبور میں وحی کی کہ اے داٶد ! عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گا جس کا نام احمد اور محمد ہوگا ‘ وہ صادق اور سردار ہوگا ‘ میں اس پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ کبھی وہ مجھ سے ملول ہوگا ‘ اس کی امت کو میں نفل پڑھنے پر انبیاء کے نوافل کا اجر عطا فرماٶں گا ‘ اور اس کے فرائض پر انبیاء اور رسل کے فرائض کا جرعطا فرماٶں گا ‘ حتیٰ کہ جب وہ قیامت کے دن میرے پاس آئیں گے تو ان پر انبیاء کی طرح نور ہوگا ‘ کیونکہ میں نے ان پر ہر نماز کے لیے اس طرح وضو کرنا فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر وضو فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح غسل جنابت فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح حج فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا اور ان کو اس طرح جہاد کا حکم دیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں کو جہاد کا حکم دیا تھا ۔ (دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٨٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

یہ بھی ہماری شریعت کے مخصوص احکام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داٶد علیہ السلام کو مطلع فرما دیا تھا ‘ سو اسی طرح جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ہماری شریعت کے احکام سے مطلع فرمادیا ہو اور وہ اس کے مطابق قرب قیامت میں احکام جاری فرمائیں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن مجید میں اجتہاد کر کے احکام جاری فرمانا : ⬇

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ قرآن مجید میں غور کر کے اس شریعت کے تمام احکام کو حاصل کرلیں ‘ کیونکہ قرآن مجید تمام احکام شرعیہ کا جامع ہے ‘ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید ہی کے تمام احکام کو اپنی سنت سے بیان فرمایا ہے اور امت کی عقلیں نبی کی طرح ادراک کرنے سے عاجز ہیں ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اسی چیز کو حلال کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے اور میں اسی چیز کو حرام کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے ۔ (المعجم الاوسط لبطبرانی بہ حوالہ الحاوی للفتاوی جلد ٢ صفحہ ١٦٠،چشتی)

اسی لیے امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس قدر احکام بیان فرمائے ہیں ان سب کو آپ نے قرآن مجید سے حاصل فرمایا ہے ۔ پس جائز ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی طرح قرآن مجید سے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اسلام کے احکام حاصل کر کے اس امت میں نافذ فرمائیں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالمشافہ اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا
 
تیسری صورت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل ہیں اور اس پر حسب ذیل احادیث شاہد ہیں : ⬇

حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عسا کر علیہ الرحمہ المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کعبہ کے گرد طواف کر رہا تھا ‘ میں نے دیکھا کہ آپ نے کسی سے مصافحہ کیا اور ہم نے اس کو نہیں دیکھا ‘ ہم نے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کو کسی سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ‘ اور جس سے آپ نے مصافحہ کیا اس کو کسی نے نہیں دیکھا ‘ آپ نے فرمایا وہ میرے بھائی عیسیٰ بن مریم ہیں میں ان کا انتظار کررہا تھا حتی کہ انہوں نے اپنا طواف مکمل کرلیا پھر میں نے ان کو سلام کیا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر صفحہ ٣٣٩‘ رقم الحدیث : ١١٣٠٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام انبیاء باپ شریک بھائی ہیں ‘ ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین واحد ہے ‘ اور میں عیسیٰ بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں ‘ کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ‘ اور وہ جس وقت نازل ہوں گے تو میری امت پر خلیفہ ہوں گے ‘ جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لوگے ‘ وہ متوسط القامت ہوں گے ان کا سرخی مائل سفید رنگ ہوگا ‘ ان کے سر پر پانی نہ بھی ہو تو یوں معلوم ہوگا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے ‘ وہ دو گیروے رنگ کے کپڑے پہن کر چل رہے ہوں گے ‘ وہ صلیب کو توڑ الیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے اور مال بہت تقسیم کریں گے ‘ جزیہ کو موقوف کردیں گے اور اسلام کےلیے جنگ کریں گے حتیٰ کہ ان کے زمانہ میں تمام بد مذاہب ختم ہوجائیں گے اور زمین میں امن ہوجائے گا ‘ سیاہ سانپ کے ساتھ اونٹ چریں گے اور چیتے بیلوں کے ساتھ گشت کریں گے اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ ‘ اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘ وہ زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے پھر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ (اس حدیث سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ہمارے نبی کی شریعت کو منسوخ کرنے والے ہیں بلکہ منسوخ کرنے والے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں ‘ کیونکہ آپ نے بتا دیا کہ جزیہ اور جہاد کی مشروعیت کی مدت نزول عیسیٰ تک ہے) ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٠ ص ٢٥٩‘ رقم الحدیث : ١١٢٧٤‘ داراحیاء التراث بیروت : ١٤٢١ ھ)

ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے حکم میں ہیں اس لیے یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہِ راست اور بالمشافہ احکام حاصل کیے ہوں ‘ اور نزول عیسیٰ کے بعد چونکہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے اس لیے پھر جہاد اور جزیہ کی ضرورت نہیں رہے گی ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا : ⬇

چوتھی صورت یہ ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی سید نا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر جائیں اور قبر پر جا کر آپ سے استفادہ کریں ‘ اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے : ⬇

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس ذات کے قبضہ وقدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم ضرور نازل ہوں گے ‘ امام اور انصاف کرنے والے حاکم اور عادل ہوں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ لوگوں میں صلح کرائیں گے اور بغض کو دور کریں گے ‘ ان پر مال کو پیش کیا جائے گا تو وہ مال کو قبول نہیں کریں گے ‘ پھر اللہ کی قسم ! اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھے پکار کر کہیں ” یا محمد “ تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا ۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٥٨٤،چشتی)(تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ١١٣١٣)(مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥‘ المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حج یا عمرہ کےلیے جائیں گے اور فج روحاء کے راستہ سے گزریں گے اور میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھ کو سلام کریں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر جلد ٥٠ صفحہ ٢٣٤‘ رقم الحدیث : ١١٣١٢)

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ متوفی ٩١١ ھ اور ان کی اتباع میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ متوفی ١٢٧٠ ھ نے ان احادیث سے اس صورت پر استدلال کیا ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٣۔ ١٦٢)(تفسیر روح المعانی جز ٢٢ ص ٥١۔ ٥٠)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور آپ کی تعلیم سے مستفید ہونا : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٤)

حضرت موسیٰ اور حضرت یونس علیہما السلام کو تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٦)

اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام حج کرتے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١)

اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انبیاء سابقین سے ملاقات ممکن ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملاقات ممکن ہے تو ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کر کے آپ سے اسلام کے احکام حاصل کیے ہوں ۔

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے کہ امام غزالی ‘ علامہ تاج الدین سبکی ‘ علامہ یافعی ‘ علامہ قرطبی مالکی ‘ علامہ ابن ابی جمرہ اور علام ابن الحاج علیہم الرحمہ نے مدخل میں یہ تصریح کی ہے کہ اولیاء اللہ نیند اور بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرتے ہیں اور آپ سے استفادہ کرتے ہیں ‘ ایک مرتبہ ایک فقیہ نے ایک ولی کے سامنے حدیث بیان کی ‘ ولی نے کہا یہ حدیث باطل ہے ‘ فقیہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا ؟ ولی نے کہا تمہارے سر کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے فرما رہے ہیں میں نے یہ حدیث نہیں کہی اور اس فقیہ کو بھی آپ کی زیارت کرادی ‘ سو جب اس امت کے اولیاء کا یہ حال ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مرتبہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادرت سے مستفید نہ ہوں اور آپ کی تعلیم سے مستفیض نہ ہوں ۔ (الحاوی للفتاوی جلد ٢ صفحہ ١٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد،چشتی)

اولیاء کرام کا نیند اور بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادہ کرنا : ⬇

نیز علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
شیخ سراج الدین بن الملقن نے طبقات الاولیاء میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ ‘ نے فرمایا میں نے ظہر کی نماز سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ‘ آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے ! اپنا منہ کھولو ‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں سات مرتبہ لعاب دہن ڈالا اور فرمایا لوگوں کے سامنے وعظ کرو اور حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دو ‘ پس میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا اور میرے سامنے بہت خلقت جمع ہوگئی ‘ پھر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی پھر میں نے دیکھا کہ اس مجلس میں میرے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم وعظ کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا اے میرے ابا جان ! مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی ہے ‘ آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولو ‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ میں نے پوچھا آپ نے سات مرتبہ لعاب دہن ڈال کر مکمل کیوں نہیں کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے ‘ پھر آپ مجھ سے غائب ہوگئے ‘ پھر جب یوں لگا جیسے علوم و معارف کا ایک عظیم سمندر میرے سینہ میں موجزن ہے اور میں اپنی زبان سے حقائق اور دقائق کے یو اقیت اور جواہر بیان کررہا ہوں ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ صفحہ ٥١)

ایک بار ایک مَحفل میں ایک صاحب نے اس واقعہ کو بیان کرنے پر سوال کیا کہ حضرت غوث الاعظم علیہ الرحمہ کے منہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن ڈالنے کے بعد کیا کمی رہ گئی تھی جس کو پورا کرنے کےلیے عبد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ فقیر نے اس کے جواب میں عرض کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن اور آپ کے فیضان میں کوئی کمی نہیں تھی ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن سے استفادہ اور حصولِ فیضان کو سہل اور آسان بنانے کےلیے اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ جس طرح قرآن مجید کے فیضان میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس سے فیضان کے حصول کو آسان بنانے کےلیے اس کی تفسیر کی جاتی ہے اسی طرح احادیث کی افادیت میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان سے استفادہ کو سہل اور آسان بنانے کےلیے ان کی شروح لکھی جاتی ہیں ۔

نیز علامہ آلوسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اور علامہ سراج الدین ابن الملقن علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ شیخ خلیفہ بن موسیٰ النھر ملکی علیہ الرحمہ نیند اور بیداری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہ کثرت زیارت کرتے تھے اور وہ نیند اور بیداری میں نی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت فیض حاصل کرتے تھے ‘ انہوں نے ایک رات میں سترہ مرتبہ آپ کی زیارت کی ‘ ایک مرتبہ آپ نے ان سے فرمایا اے خلیفہ تم میری زیارت کےلیے اتنے بےقرار نہ ہوا کرو ‘ کیونکہ کتنے الویاء تو میرے دیدار کی حسرت میں ہی فوت ہوچکے ہیں ‘ اور شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ علیہ الرحمہ نے لطائف المنن میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے ابو العباس المرسی سے کا آپ نے بہت شہروں میں بہت لوگوں سے ملاقات کی ہے آپ اپنے اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کرلیں ‘ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے اپنے اس ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے اوجھل پاٶں میں تو میں اس ساعت میں خود کو مسلمان شمار نہیں کرتا اور اس قسم کی عبارات اولیاء کرام علیہم الرحمہ سے بہت منقول ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ صفحہ ٥١‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ،چشتی)

ایک وقت میں متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی کیفیت : ⬇

خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تنویر الحوالک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زیارت پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے مجھ کو نیند میں دیکھا وہ مجھ کو عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری مثل نہیں بن سکتا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٩٩٣‘چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٦٦)(مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٧١)

علامہ ابن ابی جمرہ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ متعدد عارفین نے نیند کے بعد بیداری میں آپ کی زیارت کی اور آپ سے سوالات کر کے دینی مسائل کی مشکلات کو سمجھا اور اس حدیث کی تصدیق کی ۔

علماء کا اس میں کافی اختلاف ہے کہ آپ کو بیداری میں دیکھنے والا آپ ہی کے جسم اور بدن کو دیکھے گا یا آپ کی مثال کو دیکھے گا ‘ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے عبارات علماء کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ احادیث اور عبارات علماء سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم مبارک اور اپنی روح کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ اطراف عالم میں جہاں چاہتے ہیں ‘ تشریف لے جاتے ہی اور تصرف فرماتے ہیں ‘ اور آپ اسی حالت میں ہیں جس حالت میں آپ وفات سے پہلے تھے اور اس میں سرموفرق نہیں ہوا ‘ اور آپ زندہ ہوہنے کے باوجود لوگوں کی نظروں سے اس طرح غائب ہیں جس طرح فرشتے ان کی نظروں سے غائب ہیں ‘ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو آپ کی زیارت سے مشرف فرمانا چاہتا ہے تو آپ کے اور اس بندہ کے درمیان جو حجابات ہیں ان کو اٹھا دیتا ہے اور اس سے کوئی چزی مانع نہیں ہے تو پھر آپکی مثال کے قول کی کیا ضرورت ہے ‘ او باقی تمام انبیاء علہم السلام بھی زندہ ہیں ‘ اور ان کو اپنی قبروں سے باہر جانے اور اس جہان میں تصرف کرنے کا اذن دیا گیا ہے او اس پر بہ کثرت احادیث ناطق اور شاہد ہیں ۔

علامہ آلوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میرا ظن غالب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زیارت اس طرح نہیں ہوتی جیسے عام طور پر لوگ ایک دوسرے کو دنیا میں دیکھتے ہیں یہ ایک حالت برزخیہ اور امر وجدانی ہے اس کی حقیقت کو وہی شخص پاسکتا ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو ‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھنے والا آپ کی روح کو دیکھتا ہے اور وہ روح کسی صورت میں متمثل ہو جاتی ہے جب کہ وہ روح اس وقت آپ کے اس جسم مبارک میں بھی ہوتی ہے جو روضہ مبارکہ میں ہے جس طرح حضرت جبریل آپ کے سامنے حضرت وحیہ کلبی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں یا کسی اور صورت میں اور اس وقت وہ سدرۃ المنتہی سے بھی جدا نہیں ہوتے ‘ اور رہا آپ کا جسم مثالی تو اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قدسیہ متعلق ہوتی ہے اور اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ آپ کے غیر متناہی اجسام مثالی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ آپ کی روح واحدہ متعلق ہو اور یہ اس طرح ہو جیسے روح واحدہ کا تعلق ایک جسم کے متعدد اجزاء کے ساتھ ہوتا ہے ‘ اور ہماری اس تقریر سے شیخ ابوالعباس طنجی علیہ الرحمہ کے اس قول کی وجہ ظاہر ہو جاتی ہے کہ انہوں نے آسمان ‘ زمین ‘ عرش اور کرسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھرا ہوا دیکھا اور یہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ متعدد مقربین نے ایک ہی وقت میں متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ ص ٥٣۔ ٥٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

اس اعتراض کا جواب کہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ سے استفادہ کا اس قدر ظہور کیوں نہیں ہوا ؟

اولیاء کرام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو زیارت ہوتی ہے اور وہ آپ سے دینی اور فقہی معاملات میں استفادہ کرتے ہیں اور اپنے اشکالات کو حل کراتے ہیں اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین اور دیگر اکابر صحابہ کرام کو جو اشکالات پیش آتے تھے ‘ مثلا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک کی میراث دینے یا نہ دینے کا مسئلہ تھا ‘ حضرت ابوبکر کی خلافت کا مسئلہ تھا ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے قصاص کا معاملہ تھا جس کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین برپا ہوئیں ‘ تو ان اکابر صحابہ کرام کو آپ کی زیارت کیوں نہیں ہوئی اور انہوں نے آپ سے ان الجھے ہوئے معاملات میں رہنمائی کیوں نہیں حاصل کی ‘ بعد کے اولیاء کرام جن کو نیند اور بیداری میں آپ کی زیارت ہوتی رہی ہے اور وہ آپ سے اپنی مشکلات میں رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں ان سے تو بہر حال ان صحابہ کرام کا آپ سے قرب بہت زیادہ تھا اور بعد کے عارفین اور مقربین سے ان کا مرتبہ بہت بڑھ کر تھا ۔
علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ نیند اور بیداری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور آپ سے استفادہ اولیاء کرام کی باقی کرامات کی طرح خلاف عادت امور سے ہے ‘ اور عہد صحابہ میں ان کرامات اور خلاف عادت امور کا ظہور بہت کم تھا کیونکہ اس دور میں عہد رسالت اور آفتاب نبوت بہت قریب تھا اور جس طرح سورج کی موجود گی میں ستارے نظر نہیں آتے اسی طرح آفتاب رسالت کے ہوتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کرامات کے ستارے نظر نہیں آتے تھے ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ صفحہ ٥٦۔ ٥٥‘ دارلفکر بیروت ‘ ٩ ١٤١ ھ)

ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: ⬇

مرزائیوں نے مرزا قادیانی کی نبوت غیر تشریعی ثابت کرنے کےلیے بعض اکابر صوفیائے کرام مثلاً شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعرانی علیہ الرحمۃ کی عبارات سے استدلال کیا ہے ۔ تحقیق مقام کےلیے ہمیں سب سے پہلے مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلہ میں مرزا قادیانی کے عجیب متضاد بیانات ہیں ۔ کہیں تو مرزا قادیانی اپنے آپ کو غیر تشریعی نبی قرار دیتا ہے اور کہتا تھا کہ جس جس جگہ میں نے نبوت اور رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لیے اسی کا نام پا کر اسی کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے ۔ رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ ان ہی معنوں سے خدا نے مجھے رسول اور نبی کہہ کر پکارا ہے سو اب بھی میں انہی معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ الخ ۔ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴)

اس عبارت میں مرزا قادیانی نے صاف لفظوں میں غیر تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اب اس کے خلاف نبوت تشریعی کا دعویٰ ملاحظہ فرمایئے ۔ ⬇

اگر کہو کہ صاحب الشریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری تو اول تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے ۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کےلیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہو گیا ۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی ۔ (صفحہ ۷۰۶ اربعین ۳)

اس عبارت میں مرزا قادیانی نے کھلے لفظوں میں اپنے آپ کو صاحب الشریعۃ کہا ہے ۔ کہیں سرے سے مکر جاتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی نبوت کا صفایا کر دیتا ہے لکھتا ہے کہ : نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو کہ بحکم خدا کیا گیا ۔ (ازالہ اوھام طبع دوم صفحہ نمبر ۱۱۴،چشتی)

لاہوری مرزائی عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کےلیے مرزا قادیانی کی وہ عبارتیں پیش کر دیتے ہیں جن میں نبوت کا انکار معلوم ہوتا ہے ۔ اور قادیانی مرزائی ! عوام کو بہکانے کےلیے غیر تشریعی نبوت والی عبارتیں دکھا دیتے ہیں ۔ مرزائی اگر مرزا قادیانی کو سچا سمجھتے ہیں تو قطعی طور پر انہیں صاحب شریعۃ مانتے ہوں گے کیونکہ اربعین کی عبارت منقولہ بالا میں مرزا قادیانی نے غیر مبہم طور پر اپنے آپ کو صاحبِ شریعت قرار دیا ہے ۔ لیکن ختمِ نبوت کے دلائل سے تنگ آ کر قادیانی مرزائی اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ مرزا قادیانی غیر تشریعی نبی ہے ۔ صرف تشریعی نبوت ختم ہوئی ، غیر تشریعی جاری ہے ۔

نبوت کی دو قسمیں ’’تشریعی و غیر تشریعی‘‘ جن معنی میں مرزائیوں نے بیان کی ہیں وہ قرآن و حدیث اور دلائل شریعہ کے بالکل خلاف ہیں ۔ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جو صاحب الشریعت نہ ہو ۔ مرزائیوں کو نبوت کی اس تقسیم کے دعویٰ کی دلیل میں نہ کوئی قرآن کی آیت ہاتھ آئی نہ کوئی حدیث البتہ حضرات صوفیائے کرام مثلاً شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی بعض عبارات سے انہوں نے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ۔ اول تو مرزائیوں کو شرم و حیا سے کام لینا چاہیے کہ جن صوفیاء کرام کو مرزا قادیانی نے ملحد اور زندیق قرار دیا ہے ان ہی کے اقوال و عبارات کو مرزا قادیانی کی نبوت کی دلیل میں پیش کر رہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو ’’رسالہ تحریر اور خط‘‘ مرزا قادیانی نے ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کو وحدت الوجود کا حامی بتایا اور وحدت الوجود کے قائلین کو ملحد اور زندیق کہا ۔
قبل اس کے کہ ہم ان حضرات صوفیاء کی عبارات پیش کر کے اس مسئلہ کو واضح کریں اور مرزائیوں کی افتراء پردازی کا جواب لکھیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر صوفیاء کے مسلک اور ان کے مقصد کو باوضاحت بیان کر دیں  ۔ حقیت یہ ہے کہ صوفیائے کرام کی مقدس جماعت کا کام صرف یہ ہے کہ وہ تزکیہ باطن و صفائی قلب کے بعد اپنے دل و دماغ اور روح کو انوارِ معرفت سے منور کریں اور فیوض و برکات سے مستفیض ہو کر خدائے تعالیٰ کی معرفت اور اس کا قرب حاصل کریں ظاہر ہے کہ یہ فیوض و برکات اور انوار و کمالات آفتابِ نبوت ہی کی شعاعیں ہیں اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور رسالت ہی کا فیض ہے ۔ اگر بارگاہِ نبوت سے کسی کو فیض نہ پہنچے اور آفتابِ نبوت کی شعاعیں کسی کے دل کو نہ چمکائیں تو اس کو ہرگز کوئی فضل و کمال حاصل نہیں ہو سکتا نہ اس کے دل میں کوئی نور پیدا ہو سکتا ہے ۔ ہر فضل و کمال کا سرچشمہ صرف نبوت اور رسالت ہے ۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ جب نبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم ہو گئی اور آپ نے بابِ نبوت کو مسدود فرما دیا تو شاید وہ تمام فیوض و برکات بھی بند ہو گئے جو بارگاہِ نبوت سے وابستہ تھے اور نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے کسی کو مقام نبوت سے کسی قسم کا کوئی فیض نہیں پہنچ سکتا ۔ اگر یہ صحیح ہو اور ختم نبوت کا یہی مفہوم لیا جائے کہ نبوت کا دروازہ بند ہو جانے سے مقام نبوت کے تمام فیوض و برکات بند ہو گئے تو صوفیائے کرام کا ریاضت و مجاہدہ کرنا اور صفائی باطن اور تزکیہ نفس کر کے مقام نبوت کے فیوض و برکات اور آفتابِ رسالت کے انوار سے مستفیض و مستنیر ہونے کی امید رکھنا بھی لغو و بے معنی ہو گا اور اس طرح صوفیائے کرام کا تمام سلسلہ تصوف اور جدو جہد سب بیکار اور لغو ہو جائے گی ۔ اس شبہ کو دور کرنے اور مقصد تصوف کو کامیاب بنانے کےلیے صوفیائے کرام کا فرض تھا کہ وہ یہ بتائیں کہ ختم نبوت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مقام نبوت اس طرح ختم ہو گیا کہ اب کسی کو کوئی فضل و کمال نبوت کے دروازہ سے حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہ شبہ وسوسۂ شیطانی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ فیضانِ نبوت جاری ہے اور ہر صاحب فضل وکمال کو اس کی استعداد کے موافق جو کمال ملا ہے یا ملے گا اس کا سرچشمہ مقام نبوت ہی ہے اور ختم نبوت کے معنی صرف یہ ہیں کہ کسی کو امر و نہی کے ساتھ مخاطب نہیں کیا جائے گا اور شریعت نہیں دی جائے گی ۔ اس کو امر و نہی کے ساتھ مخاطب کرنا ہی تشریع ہے ۔ عام اس سے کہ وہ امر و نہی قدیم ہو یا جدید شریعت و نبوت میں کچھ فرق نہیں ۔ نبوت شریعت ہے اور شریعت نبوت ۔ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے کسی امر ونہی سے مخاطب نہ فرمایا ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔ (سورہ البقرۃ، آیت: ۲۱۰) ہر نبی تبشیر اور انذار پر مامور ہوتا ہے اور یہی شریعت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نبی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مقام نبوت کے فیوض و برکات بند ہو گئے لیکن فیوض و برکات نبوت جاری ہونے کا یہ مطلب بھی لینا بالکل غلط اور باطل ہے کہ فیضانِ نبوت سے کوئی نبی بن سکتا ہے ۔ دیکھیے تمام عالم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمتوں سے مستفید ہو رہا ہے اور بارگاہِ الوہیت سے ہر قسم کے فیوض و برکات بندوں کو حاصل ہو رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندے فیضانِ الوہیت سے الوہیت کا درجہ بھی پا سکتے ہیں ۔ حضرات صوفیائے کرام نے اپنی عبارات میں غیر مبہم طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ فیضانِ نبوت جاری ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں کہ نبوت اور شریعت جاری ہے بلکہ امر و نہی کا دروازہ قطعاً مسدود ہو چکا ہے اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اس بات کا دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی بات کا امر فرمایا ہے یا کسی نہی سے مخاطب کیا ہے تو ایسا شخص مدعی نبوت و شریعت ہے ۔ اگر وہ احکام شرع کا مکلف ہے تو ہم ایسے شخص کی گردن مار دیں گے۔ ملاحظہ ہو ۔ (الیواقیت والجواہر جلد دوم صفحہ ۳۸)

فان قال ان اللّٰہ امرنی بفعل المباح قلنا لہ لا یخلوا ان یرجع ذالک المباح واجبا فی حقک او مندوبا وذالک عین نسخ الشرع الذی انت علیہ حیث صیرت بالوحی الذی زعمتہ المباح الذی قررہ الشارع مباحا مامور ابہٖ یعصی العبد بترکہ وان ابقاہ مباحا کما کان فی الشریعۃ فای فائـدۃ لہٰذا الامر الذی جاء بہٖ ملک وحی ہٰذا المدعی ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مباح کام کا امر فرمایا ہے تو ہم اس سے کہیں گے کہ یہ امر دو حال سے خالی نہیں ۔ یہ کہ جس مباح کام کا اللہ تعالیٰ نے تجھے امر فرمایا ہے وہ تیرے حق میں واجب ہو گا یا مندوب ، یہ دونوں صورتیں اس شریعت کے حق میں ناسخ قرار پائیں گی جس پر تو قائم ہے۔ اس لیے کہ جس کام کو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مباح رکھا تھا تو نے اسے اپنی وحی مزعوم کے ساتھ مامور بہٖ یعنی ضروری اور واجب (یا مستحب) قرار دے لیا ، جس کے ترک سے بندہ گنہگار یا تارک افضل ہوتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس امر مباح کو تیرے حق میں مباح ہی رکھا جیسا کہ وہ شرعاً پہلے سے مباح تھا تو تیری اس وحی اور امر سے کیا فائدہ ہوا ؟
اس کے بعد امام شعرانی فتوحاتِ مکیہ سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل فرماتے ہیں : ⬇

وقال الشیخ ایضًا فی الباب الحادی والعشرین من الفتوحات من قال ان اللّٰہ تعالٰی امرہ بشیء فلیس ذٰلک بصحیح انما ذالک تلبیس لان الامر من قسم الکلام وصفتہٖ وذالک باب مسدود دون الناس ۔
ترجمہ : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃاللہ علیہ فتوحاتِ مکیہ کے اکیسویں باب میں فرماتے ہیں جو شخص اس بات کا دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کوئی امر فرمایا ہے تو یہ ہرگز صحیح نہیں ، یہ تلبیس ابلیس ہے ۔ اس لیے کہ امر کلام کی قسم سے ہے اور یہ دروازہ لوگوں پر بند ہے ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : فقد بان لک ان ابواب الاوامر الالٰہیۃ والنواہی قد سدت وکل من ادعاہا بعد محمد ا فہو مدع شریعۃ اوحی لہا الیہ سواء وافق شرعنا او خالف فان کان مکلفا ضربنا عنقہٗ والاضربنا عنہ صفحا ۔ یہ بات تم پر بخوبی واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی اس امر کا مدعی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے امر و نہی پہنچا ہے وہ مدعی شریعت ہے عام اس سے کہ جن اوامر و نواہی کا وہ مدعی ہے وہ ہماری شرع کے موافق ہو یا مخالف ، وہ بہرکیف مدعی شریعت ہی قرار پائے گا ۔ اگر وہ عاقل و بالغ ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں گے ورنہ اس سے پہلو تہی کریں گے ۔ (الیواقیت و الجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۴ طبع مصر)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فتوحاتِ مکیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی ان تصریحات سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ جو شخص اس امر کا مدعی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے امر و نہی کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے وہ مدعی شریعت ہے نیز یہ کہ حضراتِ صوفیاء کرام کے نزدیک شریعت کے معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر و نہی ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ اب مرزا صاحب کی تصریحات سامنے رکھ کر یہ دیکھ لیجئے کہ وہ من جانب اللہ امر و نہی پانے کے مدعی ہیں یا نہیں ۔
نرزا قادیانی کی اربعین ۳ ص ۷۰۶ کی یہ عبارت ہم تفصیل سے نقل کر چکے ہیں کہ مرزا قادیانی نے لکھا کہ یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہو گیا ۔ بس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی ۔

مرزا قادیانی کی اس عبارت سے دوباتیں بالکل واضح ہو گئیں ۔ ایک یہ کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت کے جو معنی بیان فرمائے ہیں مرزا قادیانی نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ دوسری یہ کہ مرزا قادیانی حضرات صوفیاء کرام اور خود اپنی تصریح کے مطابق مدعی شریعت ہیں ۔

اب فقیر ان مرزائی قادیانیوں سے دریافت کرتا ہے جنہوں نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان حضرات کے نزدیک نبوت تشریعی ختم ہو گئی ، غیر تشریعی جاری ہے لہٰذا مرزا قادیانی کا غیر تشریعی نبی ہونا درست ہو گیا ۔ کس حد تک ان عبارات سے آپ کو فائدہ پہنچا ؟ صوفیاء تو آپ کےلیے اغیار کا حکم رکھتے ہیں ۔
خود مرزا قادیانی جو تم لوگوں کا غم خوار ہیں اور جن کی نبوت غیر تشریعی کی خاطر تم لوگوں نے اس قدر پاپڑ بیلے انہوں نے بھی تمہارا ساتھ نہ دیا اور بول اٹھے کہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی اور اس طرح میں صاحب شریعۃ ہوں ۔

مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہوا ۔

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ نبوت تشریعی کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر و نہی پانا ۔ چونکہ وحی منجانب اللہ امر و نہی کے ساتھ مخاطب ہونا ہے اس لیے ہر نبی تشریعی ہوتا ہے ۔ اب اس کے بالمقابل نبوت غیر تشریعی کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں رہتے کہ من جانب اللہ تعالیٰ امر و نہی کا خطاب پانے کے علاوہ جس قدر فضائل و کمالات ہیں مثلاً ولایت ، قطبیت ، غوثیت ، عرفان و قرب الٰہی ، مدارج سلوک وغیرہ انوار و برکاتِ نبوت غیر تشریعی ہیں کیونکہ ان سب کا سر چشمہ مقامِ نبوت ہی ہے ۔ اس لیے اگر صوفیاء نے یہ کہہ دیا کہ نبوت غیر تشریعی جاری ہے یعنی نبوت کے فیوض و برکات بند نہیں ہوئے امتِ مسلمہ انوار و برکاتِ نبوت سے فیض یاب ہو رہی ہے تو یہ قول اپنے مرادی معنی کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ۔
مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ہم مرزا قادیانی کو غیر تشریعی نبی مانتے ہیں مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینا ہے ۔ مرزا قادیانی نے اپنے دعوے کے منکرین کو جہنمی ، نا مسلمان اور غیر ناجی فرقہ قرار دیا ہے وہ لکھتا ہے کہ : ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ (مکتوبات مرزا بنام ڈاکٹر عبد الحکیم در حقیقۃ الوحی ص ۱۶۳)
جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا رسول کو بھی نہیں مانتا ۔ (حقیقۃ الوحی ص ۱۶۳)
(اے مرزا) جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہو گا وہ خدا رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے ۔ (رسالہ معیار الاخیار ص ۸)
خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کےلیے اس (میری وحی) کو مدار نجات ٹھہرایا ۔ (حاشیہ اربعین ص ۷)

ان عبارات سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے منکرین کو کافر جہنمی قرار دیا ۔ اب مرزا قادیانی کی اس عبارت کو بھی پڑھ لیجیے ، نتیجہ آپ کے سامنے ہے لکھتا ہے : یہ نتیجہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والوں کو کافر کہنا ، یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں ۔ لیکن صاحبِ شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث گزرے ہیں کہ وہ کیسی ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا ۔ (تریاق القلوب حاشیہ صفحہ ۳۲۵ طبع دوم،چشتی)

مرزا قادیانی اپنے منکرین کو کافر بھی کہہ رہا ہے اور یہ بھی لکھ رہا ہے کہ صرف اس نبی کا منکر کافر ہوتا ہے جو شریعت اور احکام جدیدہ لائے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا قادیانی احکام جدیدہ اور شریعت کا مدعی ہے ۔

محترم قارٸینِ کرام ازراہِ انصاف بتائیں کہ مرزا قادیانی کی نبوت تشریعی کے دعوے میں اب بھی کچھ کلام کی گنجائش ہے ۔ پھر مرزائیوں کا یہ کہنا کہ مرزا قادیانی غیر تشریعی نبوت کا مدعی ہے سراسر دجل و فریب نہیں تو اور کیا ہے ؟ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...