Thursday, 29 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 21

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 21
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اعتراضات کرنے والوں کو جواب : ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ ، اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا ، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر و برکت ہے ۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و سنت صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور طریقِ جملہ مسلمین بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا ، ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانانِ عالم میں یہ رائج عملِ مولود مقبول ہے ۔

قرآنِ کریم میں ہے : قل بفضل ﷲ و برحمتہ فذالک فلیفرحوا ۔
ترجمہ : تم فرماؤ ﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ (یونس، آیت 58)

واذکرو نعمۃ ﷲ علیکم ۔
ترجمہ : اور ﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ۔ (آل عمران، آیت 103)

واما بنعمۃ ربک فحدث ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔ (الضحیٰ، آیت 12)

کے تحت داخل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلقِ خدا کو ملی ، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت ﷲ تعالیٰ نے انسانوں ، جنوں ، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی ۔

سیدنا عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت کریمہ ’’الذین بدلوا انعمۃ ﷲ کفرا‘‘ ۔ (ابراہیم۔ آیت ۲۸)
ترجمہ : جنہوں نے ﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) ۔ کی تفسیر میں فرمایا ’’ھو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم‘‘ (ﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں ، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں ۔

قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقعِ ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام نے خود فرمائی ۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں : ⬇

وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ۔
ترجمہ : سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔ (سورہ مریم آیت ۱۵)

والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ۔
ترجمہ : اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں ۔ (سورہ مریم آیت ۳۳)

اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے ۔
سورہ آلِ عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے ۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السّلام کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے ۔ پھر انبیائے کرام علیہم السّلام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا ۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے ۔

قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تذکرہ موجود ہے ۔ سورہ آل عمران میں ہے : ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ ۔
ترجمہ : پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔ (سورہ آلِ عمران آیت ۸۰)

حدیث پاک میں بھی میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تذکرہ موجود ہے ۔ حضرت ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سئل عن صوم یوم الاثنین ، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ ۔
ترجمہ : (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوشنبہ (سوموار) کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی ۔ (صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۳۶۸)

محدثین علیہم الرّحمہ نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی ، اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنی ولادتِ مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے ۔ اب اگر کوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے ، صدقات و خیرات کرتا ہے ، واقعہ میلاد کے تذکرہ کےلیے جلسے کرتا ہے ، جشن مناتا ہے ، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے ، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی متابعت اور پیروی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ دیکھ کر فرمایا : ان ﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح ۔
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا ، نجات پائے گا ۔ (التنویر فی مولد السراج المنیر صفحہ نمبر ۶۲۳،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے : انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام ۔
ترجمہ : ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے ۔ (التنویر فی مولد السراج المنیر صفحہ ۶۲۳)

مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائز و مستحسن ہے ۔ اور یہ کہ یہ قرآنِ کریم و احادیثِ مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے ۔ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کےلیے مجلس کا انعقاد عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے ۔

قرونِ ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دن کو عید و خوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشنِ ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا ۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذوناتِ شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں ۔ صاحبِ مجمع البحار علامہ طاہر فتنی علیہ الرّحمہ ، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں ، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں : بحمدہ تعالیٰ ﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سر چشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہِ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہارِ مسرت کا حکم دیا گیا ہے ۔ الیٰ آخرہ)

یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو ، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہو سکتی ، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع و بدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی ، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو ، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو ، اصولِ شرع جس کے جواز کے مقتضیٰ ہوں ، اس کے جواز میں کیا کلام ہو سکتا ہے ؟ چاہے تفصیلاً وہ عمل قرونِ ثلٰثہ میں نہ رہا ہو ، اس لیے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کےلیے صرف اتنا کافی ہے کہ الکہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع نہ فرمایا : لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ ‘‘ کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا ۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرتا اور نئی شریعت گڑھتا ہے ، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہے باقاعدہ اصولِ بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابلِ جواز تممسک باصل ، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں ، بعض حضرات جُہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کر کے دھوکہ کھاتے و دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر ، تو دلیل تم پر چاہیے ۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید و خذیعت ہے ، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا ؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امر و نہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں ، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے ، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے ؟ ۔ (الیاقوتتہ الواسطتہ صفحہ نمبر ۳۔۴)
اسی میں ہے : علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرّحمہ ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی ﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘ ۔
علامہ علی مکی علیہ الرّحمہ رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ ‘‘ غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جواز کا قائل مثل سائل مدعا علیہ ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل ، اس کےلیے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں ۔

نفسِ میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا ۔ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و عہد صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا ۔ اس لیے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے ۔ رہا جشن عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئتِ کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘ یعنی بری ایجاد ۔

علامہ سخاوی علیہ الرحمہ مسلم الثبوت محدث ہیں ، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں : میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مروجہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں ، اس کی بنیاد قرون ثلاثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے ، اس میں جشن مناتے ہیں ، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں ، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں ، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں ۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۶۲،چشتی)

عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لیے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا ۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں ﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ، لہذا مناسب ہے کہ اہلِ اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہو جائے ۔ (الحاوی للفتاویٰ جلد ۱ صفحہ نمبر ۲۶۰،چشتی)

یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد ، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کر کے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا ، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی علیہ الرّحمہ اپنی کتاب مولدُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں لکھتے ہیں : عرب کے شرق و غرب ، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولدُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مجالس منعقد ہوتی ہیں ۔ ماہِ ربیعُ الاوّل کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں ، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں ، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں ، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے ، خرچ کرتے ہیں ۔ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیر و برکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیر و برکت پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت ، رزق میں وسعت ، مال میں زیادتی ، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے ، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے ۔ یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برکت کے سبب سے ہے ‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالمِ اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہلِ اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا ۔

مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمة ﷲ تعالیٰ علیہما (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں : نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہو رہا ہے ۔ ہر سال یومِ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ ﷲ کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا ۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷،چشتی)

میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے : جب ابولہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا ، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا ؟ اس نے جواب دیا مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کی خوشی میں) ثُوَیبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں (صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۶۳،چشتی)

اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شبِ ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کر دی گئی تو امتِ محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے ، میری زندگی کی قسم ﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا ۔ (المواہب اللدنیہ بشرح الزرقانی جلد ۱ صفحہ ۲۶۱)

علامہ زرقانی علیہ الرّحمہ کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو ، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری ، ثُوَیبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا ، جبکہ قرآن کریم کی نصِ قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں ، ان کے اعمال باطل کردیے گئے ، قال ﷲ تعالیٰ ’’ وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا ۔ (سورہ الفرقان: آیت ۲۳) ،، جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔ مگر صحیح حدیث میں ابولہب کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے ۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی علیہ الرّحمہ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں : جس عمل کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکمِ عام سے مخصوص ہے ۔ (عمدۃ القاری جلد ۲۹ صفحہ ۲۴۲ المکتبۃ الشاملۃ)

علامہ کرمانی علیہ الرّحمہ نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات سے ہو ، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے ۔ یہ خصوصیت ﷲ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات سے متعلق رکھی ، عمدۃ القاری ہی میں ہے : اگر آپ کہیں کافروں کے اعمالِ حسنہ تو نیست و نابود کردیے گئے ، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے ، میں کہوں گا کہ (ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برکت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خصوصیت کی وجہ سے ہے ۔ (عمدۃ القاری باب قصۃ ابی طالب جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۳،چشتی)

پوری دنیا کے جلیلُ القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین علیہم الرّحمہ نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عملِ میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، امام سخاوی ، علامہ امام برہان الدین صاحبِ سیرت حلبیہ ، علامہ ابن حجر مکی ، امام ابن جزری صاحب حصن حصین ، حافظ جلال الدین سیوطی ، حافظ ابن رجب حنبلی ، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار ، ملا علی قاری ، شیخ عبدالوہاب متقی مکی ، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہم الرّحمہ جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ از روئے اُصولِ مروجہ عملِ مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرفِ عام خود حجت شرعیہ ہے ۔ جس کی اصل حدیث پاک : مارأہ المسلمون حسناً فہو عندﷲ حسن ، (جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز ﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے ۔

موجودہ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا ، جیسا کہ معترضین و منکرین کا نقطہ نظر ہے ، سخت محرومی ، بددیانتی اور جُہل و بے خبری ہے ۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں یا عہدِ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں تھی ، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن و سنت کے مزاحم اور اُصولِ شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں ؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصفِ اِستحسان رکھتی ہے تو اسے ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : 1 ۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ ،
2 ۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہا و وزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۳۵ مجلسِ برکات،چشتی)

’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے : خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے ۔ عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے ۔ (سیرتِ حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷)

سخت افسوس کی بات ہے کہ ابن تیمیہ اور فاکہانی کی اتباع و پیروی میں وہابیہ و دیابنہ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیر شرعی ایجاد بتاتے ہیں جیسا کہ معترضین و منکرین نے عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تعلق سے اپنے فتوے میں اپنے دل کا بغض اتارا ہے ، جو حد درجہ قابل مذمت ہے ۔ ان نام نہاد مفتیوں نے قرآن و حدیث کے نصوص کو نہیں سمجھا ، فقہاء و محدثین اور معتمد سیرت نگاروں کی واضح و غیر مبہم درجنوں عبارتوں سے صرف نظر کیا جن سے عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جواز و استحسان و باعثِ خیر و برکت ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ، ان معترضین و منکرین نے اپنے خود ساختہ ضابطے سے محدثین کرام و فقہائے عظام کی نئی ایجادات پر کاری ضرب لگائی ۔ یہ منکرین کے مفتی حضرات قرآن و حدیث و شریعت مطہرہ کاے پیروکار نہیں بلکہ ابن تیمیہ ، فاکہانی ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، اسماعیل دہلوی جیسے گروہِ وہابیہ کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ اگر اس وہابیائی ضابطے کو مان لیا جائے جو معترضین و منکرین کہتے ہیں تو پھر شریعت سے امان اٹھ جائے گا ۔ کیا کوئی وہابی دیوبندی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ : ⬇

1 ۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے ؟ جبکہ خاص کتاب ﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ہوا ، نہ عہدِ صحابہ ضی اللہ عنہم میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین رضی اللہ عنہم میں ہوا ۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں ۔

2 ۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے ؟ جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ہوئی نہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہم نے مسجدِ نبوی شریف کی تعمیرِ جدید میں محراب بھی بنوایا ، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے ، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا ۔

3 ۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے ؟ جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے ؟ کس نے شامل کیے ؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں ۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام عضی اللہ عنہم کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے ، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے ۔

4 ۔ بیس رکعت نمازِ تراویح با جماعت پڑھنا ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی ایجاد ، بدعت و گناہ ہے ؟

5 ۔ جمعہ کے دن اذانِ اوّل کا اضافہ بدعت سئیہ ہے ؟ جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ نے کی ۔

6 ۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے ؟ جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے ۔

فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے : ’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے ۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں ، کیا دارالعلوم دیوبند کا جشنِ صد سالہدیوبند منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے ؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا ؟ ان مفتیوں سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشنِ صد سالہ دیوبند کرسچن کی ایجاد ہے ؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے ؟ تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا ؟ خاص کر نماز میں وہابی دیوبندی لاٶڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں ۔ کیا قرآن کریم نے اقامتِ نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبرُ الصّوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے ؟ حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں ، وہابی اصول پر یہ تمام بدعتیں بُری اور ضلالت یعنی گمراہی ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں ۔ اگر وہابیوں کے اعتقاد و عمل ، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکارِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی ، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی ۔ غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی ، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے ۔

پہلی روایت کی رو سے ایجادِ میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے ، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے ، مگر پورے عالمِ اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناجائز و حرام نہیں کہا ، بری بدعت نہیں بتایا ، بلکہ تمام علماء ، فقہا ، محدثین علیہم الرّحمہ اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے ۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہلِ اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی ؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سوادِ اعظم ، جمہور اہلِ اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول لغو و باطل و مردود ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض کی دلیل ہے جبکہ یہود و سعود کے علاوہ پورے عالمِ اسلام میں رائج عمل جشنِ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جائز و مستحسن اور باعث خیر و برکت و علامت محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ (مزید حصّہ نمبر 22 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...