خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 13
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر ابلیس نے غم منایا : امام یوسف صالح شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد جلد اول باب سوم کا ترجمہ)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 430 ہجری لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (حلیۃ الاولیاء جز ثالث صفحہ نمبر 299 عربی،چشتی)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 391،چشتی)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 723)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 166،چشتی)
امام ابو طاہر بن یعقوب فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بصائر ذوی التمیز فی لطائف کتاب العزیز جلد نمبر 1صفحہ 132)
امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (لطائف المعارف صفحہ نمبر 334،چشتی)
امام محمد بن عبد اللہ شبلی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (آکام المرجان فی احکام الجان صفحہ نمبر 179)
امام محدث عبد الرّحمٰن سہیلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (الرّوضُ الاُنُف فی شرحالسّیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 149 عربی)
اب جس کا دل چاہے بارہ (12) ربیع الاول کو ابلیس کے ساتھ رہ کرگزارے اور جس کا دل چاہے ، امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محفل میلاد منعقد کرتے ہوئے اظہار مسرت کرے ۔
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
الحمدللہ مسلمانان عالم ہر سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یوم ولادت کو عقیدت و احترام اورجوش و جذبے سے مناتے ہیں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مطلب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانا ہے اوراس خوشی کے اظہار کے لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی فہم و بساط کے مطابق مختلف ذرائع اور طریقے استعمال کرتے ہیں جس میں جھنڈیاں لگانا ، چراغاں کرنا ، قرآن خوانی ، نعت خوانی ، درود و سلام و سیرتِ طیبہ کے بیان کی محافل کا انعقاد کرنا ، لنگر تقسیم کرنا ، گلیوں بازاروں کو سجانا وغیرہ اُمور شامل ہیں ۔ اللہ عزوجل نے خود ایسے دنوں کی اہمیت یاد دلانے کا حکم دیا اور ان کو عام دنوں سے ممیز اور ممتاز فرمایا۔چنانچہ آیت قرآنی ہے : وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ ، اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاٸیں ۔ (پارہ13،ابراھیم:05) ۔ ایک آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے دن ، وفات کے دن اور دوبارہ اٹھنے کے دن پر سلامتی نازل فرمائی ۔ وَ سَلٰم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ و َ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبؑعَثُ حَیًّا ، اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔(پارہ16، مریم: 15) ۔ قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا منقول ہے ۔ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ۔ اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا ، جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا ۔ (پارہ16،مریم:33) ۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت و وصال کے دن عام دنوں جیسے نہیں ، مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت و وصال کے دن پر سلامتی نازل فرمائی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ویسی سلامتی کی دعا فرمائی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت و وصال کے دن پر کس قدر سلامتی نازل ہوتی ہو گی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روکنا در حقیقت رب تعالیٰ کے انعام و اکرام ، فیوض و برکات اور سلامتی سے محروم کرنا ہے ۔ اب کچھ عرصہ سے بعض مدعیانِ اسلام نے احکام قرآنی کے برعکس و برخلاف عیدِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رد میں اشتہارات ، پمفلٹ ، رسالے تقسیم کرنا ، ایس ایم ایس کرنا اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے اور یوں میلاد شریف کے متعلق عوامُ النّاس کے قلوب و اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعیِ مذموم کرتے ہیں ۔ اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر چلتے ہوئے اہلِ علم حضرات سے چھپ چھپ کر کم علم مسلمانوں سے بحث کرتے ہیں اور اہلِ علم حضرات سے کتراتے ہیں ۔ ان کی بے سروپا باتوں سے کچھ ان پڑھ یا کم علم مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے جنم لینے لگتے ہیں ۔ ہم اس مضامین میں ان مسلمان بھائیوں کے وساوس رفع کرنے ، علمی تشنگی مٹانے کےلیے منکرینِ میلاد کی طرف سے اب تک قائم کردہ اعتراضات کو مع جواب تحریر کر رہے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں : ⬇
اعتراض نمبر 1 : میلاد منانا شرک ہے ۔ استغفراللہ العظیم ، جاہلوں سے رب تعالیٰ کی پناہ ، منکر میلاد بغضِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کس قدر علمی خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے کہ عیدِمیلاد پر شرک کا فتوی چسپاں کر دیا جب کہ عیدِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مطلب ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانا ہے اور رب تبارک و تعالی کی شان تو لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ ہے ۔ یعنی نہ اُس کو کسی نے جنا اور نہ اُس نے کسی کو جنا ۔تو میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا تو درحقیقت شرک کی جڑ کاٹنا ہے ۔ لہٰذا ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر خوشی منانے کو اَن پڑھ ، جاہل ، متعصب ہی شرک کہہ سکتا ہے ۔ منکرِینِ میلاد سے سوال : (۱) کسی کام کو شرک کہنے کےلیے دلیل قطعی کی حاجت ہے اگر میلاد شریف کے شرک ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل قطعی ہے تو بیان کرو ، ورنہ بلا دلیل شرک کا فتوی لگا کر جہنم کے حق دار مت بنو ۔ (۲) اگر عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا شرک ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تم لوگ ۱۲ ربیع الاول کے دن ’ عیدِ میلادُ اللہ‘ کے قائل ہو ، کیا تمہارے نزدیک رب کی پیدائش ثابت ہے ؟ والعیاذ باللہ تعالی ۔
اعتراض نمبر 2 : میلاد منانا بدعت ہے یہ اعتراض بھی معترض کی جہالت کی دلیل ہے ، کیونکہ بدعت اس کام کو کہتے ہیںجس کی کوئی حقیقت اسلام میں نہ ہو جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کی خوشی منانا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر پاک کی محافل کا انعقاد کرنا تو عین اسلام ہے اور اس کا قرآن و حدیث میں منقول ہونا اور انبیاء علیہم السلام و صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول ہونا ہم ثابت کر چُکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ یہاں ایک حدیث مبارکہ کو بیان کرنا ضروری ہے جس کو منکرینِ میلاد دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدّ ۔ اس کاترجمہ یوں کرتے ہیں : جس نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔(بخاری: 2499، مسلم:3241، سنن ابی داود:3990) ۔ جبکہ درست ترجمہ یہ ہے ’’ جس نے دین میں وہ بات پیدا کی جو دین کی قسم سے نہیں (بلکہ دین کی ضد اور مخالف ہے) تو وہ مردود ہے ۔ اگر ان حضرات کے مطابق ترجمہ کیا جائے تو صحیح مسلم شریف کی اس حدیث مبارکہ کا کیا معنی کیا جائے گا جس میں اسلام میں اچھی اچھی بدعتیں (یعنی نئے کام) ایجاد کرنے کی اجازت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تعلیم فرمائی ہے : مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہ‘ مِثْلُ أَجْرِ َمنْ عَمِلَ بِہَا وَ لاَ یُنْقَصُ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْیئٌ ۔ ترجمہ : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا اس کےلیے اس کا اجر ہے اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ، اور ان کے اجر میں کچھ کمی نہ کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم: حدیث: 4830،چشتی)(سنن ابن ماجہ : حدیث: 203)(مسند احمد:18387، مصنف عبد الرزاق حدیث:21025)(معجم کبیرطبرانی:حدیث: 2384)(سنن دارمی:حدیث: 521) ۔ پس ثابت ہوا کہ میلاد شریف کو بدعت کہنا بے بنیاد ہے اور معترض کی علم دین سے جہالت کی دلیل ہے ۔
منکرینِ میلاد سے سوال : اگر میلاد منانا بدعت ہے تو رائیونڈ اجتماع ، مرید کے اجتماع ، جشن صد سالہ دیوبند ، ختم بخاری ، مقابلہ حسن قرأت ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کانفرنسز ، دفاعِ پاکستان کانفرنسز ، طلبا کانفرنسز ، یوم یکجہتی کشمیر ، مفتی محمود (والد مولوی فضل الرحمن دیوبندی) کی برسی منانا کیسے جائز ہے ؟
اعتراض نمبر 3 : کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میلاد منایا ؟ دورِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں یہ دن 23 مرتبہ ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 2 مرتبہ ، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں 10 مرتبہ ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں 12 مرتبہ ، علی رضی اللہ عنہ کے دور میں 5 مرتبہ آیا ، کیا انہوں نے میلاد منایا ؟ ’ شرم تم کو مگر نہیں آتی‘ اے منکرینِ میلاد تیری چوری پکڑی گئی ۔ ہر وقت رَٹ تُو قرآن و حدیث کی لگاتا ہے اور جب میلاد کی بات آئی تو خاص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فعل سے دلیل کیوں طلب کی حالانکہ خود تمہارے لوگوں نے لکھا ہے کہ ’’ مدعی سے صرف دلیل طلب کی جائے گی نہ کہ دلیل خاص ۔ (انوارات صفدر، جلد1، صفحہ 363 مطبوعہ اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ، پاکستان) ۔ مشہور دیوبندی مناظر امین صفدر اوکاڑوی نے لکھا ہے : مدعی سے خاص دلیل کا مطالبہ کرنا کہ یہ خاص قرآن سے دکھاؤ یا خاص ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث دکھاؤ یا خاص فلاں فلاں کتاب سے دکھاؤ یہ محض دھوکا اور فریب ہے کتاب و سنت نے دلیل خاص کی ہرگز پابندی عائد نہیں کی ، اَن پڑھ لوگوں سے اس قسم کی شرائط پر دستخط لیے جاتے ہیں جو شرعاََ باطل ہوتی ہیں یہ خاص مرزا قادیانی کی سنت ہے ۔ (مجموعہ رسائل جلد 1 صفحہ 165 مطبوعہ ادارہ غلام احناف لاہور) بہر حال ہم اولاََ قرآن پاک سے بیان میلاد ثابت کرتے ہیں ، اللہ عزوجل نے اپنے پاک کلام میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا میلاد (تشریف آوری کا) بیان فرمایا ہے ۔ چند آیات پیش خدمت ہیں : فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ۔ تو ہم نے اسے اسحاق کی خوش خبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی ۔ (پارہ 12، ھود:71) ۔ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْییٰ ۔ بے شک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا ۔ (پارہ 3، ال عمران:39) ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ۔ اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح ، مریم کا بیٹا ۔ (پارہ 3، ال عمران:45) ۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بزبان عیسیٰ علیہ السلام : مُبَشِّرًا بِرِّسُوْلِ یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہٗ اَحْمَدْ ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(پارہ22، الصف:06) قرآن پاک اور بیان میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثٰقَ النّبِیّٖٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃِِ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْل’‘ مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ ‘ اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔ (پارہ 3، ال عمران:81) ۔ قَدْ جَآئَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْر ’‘ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا ۔ (پارہ 6،المائدہ:15) ۔ یَاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِیْرًا وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا ۔ اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تم کو بھیجا حاظر و ناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والاآفتاب۔(پارہ22، الاحزاب:46۔45) ۔ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْن ۔ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کےلیے ۔ (پارہ17، الانبیا:107) ۔ وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا ۔ (پارہ19، الفرقان:56) ۔ لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْل’‘ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص’‘ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَٶُف’‘ الرَّحِیْم ’‘ بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراںہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان ۔ (پارہ11، یونس:128) ۔ یٰایُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ بُرْھَان مِّنْ رَّبِّکُمْ ۔ اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی ۔ (پارہ06، النسا :174) قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد شریف کی قسم ارشاد فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ وَالِدٍ وَّمَا وَلَدْ ۔ قسم ہے والد کی اور قسم ہے مولود کی ۔(پارہ30، البلد:3) ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’وَلَدْ‘‘ سے مراد ذات مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ (المظہری ج1،ص264،چشتی)(الکشاف، ج4،ص255)(غرائب القرآن للنیشاپوری،زیرآیت)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ عزوجل کا ’فضل‘، ’رحمت‘ اور ’نعمت‘ ہیں اور فضل، نعمت اور رحمت کے ملنے پر قرآنی حکم ہے کہ خوشیاں منائی جائیں، اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کیا جائے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْر’‘مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اوراسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔(پارہ11،یونس:58)وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (پارہ 30، الضحیٰ: 11)
منکرینِ میلاد سے سوال : کیا وہابی دیوبندی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کواللہ عزوجل کی نعمت ، فضل اور رحمت تسلیم نہیں کرتے ؟ اگر کرتے ہیں تو پھر حکمِ قرآنی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا چرچا کیوں نہیں کرتے ؟
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں اپنا میلاد بیان فرمایا : پہلی حدیث : اِنِّیْ عِنْدَ اللّٰہِ مَکْتُوْب’‘ خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ لَمُنْجَدِل’‘ فِیْ طِیْنَتِہٖ وَسَاُخْبِرُکُمْ بِأَوَّلِ اَمْرِیْ دَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ وَ بَشَارَۃُ عِیْسٰی وَ رَؤیَا اُمِّیْ اَلَّتِیْ رَأَت حِیْنَ وَضَعَتْنِیْ وَ قَدْ خَرَجَ لَھَا نُوْر’‘ اَضَائَ لَھَا مِنْہُ قُصُوْرُ الشَّامَ ۔ بے شک میں اللہ عزوجل کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی کے خمیر میں تھے اور میں تمہیںپہلے کی خبر دیتا ہوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ،عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کا خواب ہوں جو کہ انہوں نے میری وقت ولادت دیکھا بے شک اُن سے ایک نور خارج ہوا جس سے اُن کے لئے شام کے محلات روشن ہو گئے ۔ (مسند احمد حدیث:16525)(مستدرک للحاکم:4140)(معجم الکبیر للطبرانی :15032)(صحیح ابن حبان:6150)
دوسری حدیث : فَقَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَالُوْا اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ السَّلَامُ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ ثُمَّ جَعَلَھُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ ثُمَّ جَعَلَھُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَھُمْ بُیُوتًا فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ بَیْتًا وَّ خَیْرِھِمْ نَفْسَا ۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام سے پوچھا: میں کون ہوں؟صحابہ ء کرام نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میں محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق بنائی تو مجھے بہترین مخلوق میں رکھا، پھر اس کے دو گروہ بنائے تو مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر قبیلے بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر ان قبائل کو گھروں میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین گھرانے اور خاندان میں رکھا ۔(ترمذی :3455،3541)(مسند احمد:1692)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امام بخاری کے استاد امام احمد بن حنبل لکھتے ہیں ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مَا اَجْلَسَکُمْ ۔ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا جَلَسْنَانَدْعُوا اللّٰہَ وَ نَحْمَدُہٗ عَلٰی مَا ھَدَانَا لِدِیْنِہٖ وَ مَنَّ عَلَیْنَا بِکَ ۔ ہم اللہ عزوجل کا ذکر کرنے اور اس نے ہمیں جو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اس پر اس کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ، اس کا ذکر کرنے کےلیے یہ جلسہ منعقد کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللَّہِ مَا اَجْلَسَکُمْ اِلَّا ذٰلِکَ ۔ بخدا تم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہو؟صحابہ نے عرض کیا : اللّٰہِ مَا اَجْلَسَنَا اِلَّا ذٰلِکَ بخدا ہم اسی وجہ سے بیٹھے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اَمَا اِنِِّیْ لَمْ اَسْتَحْلِفْکُمْ تُھْمَۃً لَّکُمْ وَ اِنَّمَا اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُبَاھِی بِکُمُ الْمَلَائِکَۃَ ۔ میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی لیکن ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ عزوجل تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔(مسند کبیر للطبرانی، رقم: 16057)(مسند امام احمد بن حنبل رقم: 16960)(نسائی، جلد2، ص310، رقم:5428)
مسلم شریف اور ترمذی شریف میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حدیث منقول ہے ۔
محترم قارئین کرام : میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر صحابہ کرام کی خوشیاں ملاحظہ کیں خود حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال نہیں بلکہ ہر پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنے میلاد کی خوشی منائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’ اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ (صحیح مسلم، رقم: 1977،چشتی)(ابوداؤد، رقم:2071، مسندا حمد بن حنبل، رقم الحدیث : 22997،22952 ،22917 ، 22908، 22904)
یہ تو چند ایک حوالہ جات قرآن و حدیث سے پیش کر دیے ورنہ محفلِ میلاد کے جواز پر یہی دلیل کافی ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں اس سے منع نہیں کیا گیا اور یہ عام قاعدہ ہے کہ جو چیز منع نہ ہو وہ جائز ہوتی ہے ۔ اسی قاعدے کو وہابی مولوی ثناء اللہ نے مسجدوں میں محراب کے جواز پر بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ (فتاوی ثنائیہ، جلد1،ص 476،مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ، لاہور)
الحَمْدُ ِلله فقیر چشتی نے قرآن و حدیث و تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم سے میلاد کے دلائل پیش کیے اب ذرا خبر منکرینِ میلاد کے گھرکی بھی خبر لینی ضروری ہے ۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے دلیل کا تقاضا کرنے والوں کے نزدیک صحابہ کا قول و فعل حجت (دلیل) نہیں ۔ چند حوالے پیش خدمت ہیں : وہابی مولوی محمد جوناگڑھی نے اپنی کتاب ’’طریق محمدی‘‘ میں لکھا ’’ بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان میں غلطی کی ۔ (طریق محمدی، صفحہ 78، مطبوعہ مکتبہ محمدیہ چیچہ وطنی)
وہابیوں کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری طلاق ثلاثہ کے بارے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو رد کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ ہم اسے کیوں مانیں ہم ’’فاروقی‘‘ تو نہیں ، ہم محمدی ہیں ہم نے ان کا کلمہ تو نہیں پڑھا ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد2،صفحہ 252مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ، لاہور)
وہابیوں کے نزدیک فعل صحابہ حجت نہیں وہابیوں کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین دہلوی نے لکھا ہے ’’ فہم صحابہ حجت شرعی نہیں ہے ۔ (فتاوی نذیریہ جلد1، ص622مطبوعہ اہل حدیث اکیڈمی، کشمیری بازار لاہور)
مزید لکھتا ہے : اس سے حجت نہیں لی جا سکتی کیونکہ صحابی کا قول ہے ۔ (فتاوی نذیریہ، جلد1،ص340)
وہابی نظریہ : صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن و سنت کے خلاف قانون جاری کیا : مولوی رئیس ندوی غیرمقلد وہابی لکھتا ہے : ایک سے زیادہ واضح مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں حضرت عمر یا کسی بھی خلیفہ راشد نے نصوص کتاب و سنت کے خلاف اپنے اختیار کردہ موقف کو بطور قانون جاری کر دیا تھا ۔ (تنویر الآفاق، ص 108مطبوعہ صہیب اکیڈمی، کوٹلی ضلع شیخوپورہ)
وھابی عقیدہ : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رائے بھی حجت نہیں : وھابی مولوی محمد جوناگڑھی اپنی کتاب طریق محمدی میں لکھتا ہے : جس دین میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رائے حجت نہ ہو ، اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے ۔ (طریق محمدی صفحہ 59مطبوعہ مکتبہ محمدیہ ، چیچہ وطنی)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ : جب وہابیہ کے نزدیک نبی و صحابہ کی بات دلیل نہیں تو پھر محفل میلاد کے جائز ہونے کےلیے صحابہ کرام کے فعل سے دلیل کا تقاضا کیسا ؟
منکرینِ میلاد سے سوال : اب ہم منکرینِ میلاد کا سوال انہیں پر لوٹاتے ہیں ، قرآن و حدیث میں دکھاؤ کہ اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت شریفہ کی محفل کرنے سے منع کیا ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی 63 سالہ حیات ظاہری میں اس عمل سے منع کیا ہو ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 2 مرتبہ ، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں 10 مرتبہ ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں 12 مرتبہ ، علی رتضی رضی اللہ عنہ کے دور میں 5 مرتبہ آیا ، کیا انہوں نے میلاد سے روکا ؟ اگر نہیں تو پھر وہابیہ و دیابنہ کا آج میلاد سے روکنا ، پمفلٹس چھاپنا ، اشتہارات آویزاں کرنا ، کتب تحریر کرنا ، ایس ام ایس کرنا کہاں سے ثابت ہے ؟ لاؤ کوئی ایک دلیل ہی لاو ۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعََلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ ۔
اعتراض نمبر 4 : اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں یہ دن ’’عید‘‘ کیسے ہے ؟ اور اگر عید ہے تو اس میں کتنے رکعت نماز ادا کرنی چاہیے اس کی تکبیرات کتنی ہیں ؟
جاب : یہ کہنا کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں سراسر جہالت ہے ، حالانکہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ جمعہ ، ایام تشریق، یوم عرفہ بھی عید کا دن ہے احادیث ملاحظہ فرمائیں : ⬇
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا یَوْمُ الْجُمعۃ عید ۔ یعنی جمعہ کا دن عید ہے ۔ (مستدرک للحاکم، جلد1، ص603)
جمعہ ایسی عید ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحٰی سے بھی افضل ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے : اِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ سَیِّدُ الْاَیَّامِ وَاَعْظَمُھَا عِنْدَاللّٰہِ وَ ھُوَ اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ یَوْمِ الْاَضْحٰی وَ یَوْمِ الْفِطْر ۔ جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے ہاں تمام سے عظیم ہے اور یہ اللہ کے ہاں یوم الاضحٰی اور یوم الفطردونوں سے افضل ہے ۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الجمعہ، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:1084،چشتی)(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم الحدیث:814)(معجم الکبیر للطبرانی : 4511-4512)
حضرت عقبیٰ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یَوْمُ عَرَفَۃَ وَ یَوْمُ النَّحْرِوَ اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ عِیْدُنَا اَھْلَ الْاِسْلَامِ وَھِیَ اَیَّامُ اَکْلٍ وَّ شُرْبٍ ۔ عرفہ کادن ، قربانی کا دن اور تشریق کے دن ہمارے عید کے دن ہیںاور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔(المستدرک للحاکم، جلد1، صفحہ 600)
اس کے علاوہ قرآن پاک میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا منقول ہے:رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنَ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَ نْتَ خَیْرُالرّٰزِقِیْنَ ۔ اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے نعمتوں کا دسترخوان نازل فرما تاکہ وہ ہمارے لیے عید قرار پائے اور وہ تیری طرف سے نشانی بنے اور تُو بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے ۔ (پارہ7،مائدہ: 114)
غور طلب بات : حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو دسترخوان نازل ہونے کے دن کو’’ عید‘‘ قرار دیں تو جس دن فخر موجودات ، باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا میں جلوہ گر ہوں وہ دن کیونکر نہ عید قرار پائے ؟ رہا سوال نماز مع اضافی تکبیرات کا ، تو یہ اللہ عزوجل کا اس امت پر فضل در فضل ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے میں اس دن کوئی اضافی عبادت فرض نہ کی ۔ جہاں تک منکرین کے اعتراض کی بات ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قاعدہ قرآن و سنت میں کہاں منقول ہوا کہ جو دن عید کا ہوگا اس میں لازماً اضافی عبادت بھی امت پر واجب ہو گی حالانکہ ایامِ تشریق ، یوم عرفہ ، جمعہ بھی عید کے دن قرار پائے تو اس دن کون سی اضافی عبادت لازم ہوئی ؟
منکرینِ میلاد سے سوال : مذکورہ بالا احادیث کی رُو سے تو اہل اسلام کی پچاس (50) سے زائد عیدیں ثابت ہوتی ہیں آپ نے دو (2) عیدوں کی قید کہاں سے لگائی ؟
اعتراض نمبر 5 : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم ولادت 12 ربیع الاول کو نہیں بلکہ 9 ربیع الاول ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت شریفہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین کی آرا مختلف ہیں مگر جس تاریخ پر کثیر ائمہ محدثین و علمائے سِیر نے اتفاق کیا و ہ بارہ ربیع الاول ہی ہے ، حوالہ جات پیش خدمت ہیں : سند صحیح کے ساتھ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ ، جلد1، ص274 میں لکھی ہے ،امام ذھبی نے تلخیص المستدرک جلد2، ص 603، السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد1، ص 167، شعب الایمان للبیہقی جلد 2، ص 458، تاریخ الاممہ والملوک جلد1، ص125، دلائل النبوۃ جلد1، ص 74، عیون الاثر، جلد1، ص39، تاریخ ابن خلدون جلد 2، ص 4، مواھب اللدنیہ جلد 1، ص 142 وغیرہ بے شمار کتب تاریخ و سیرت میں مذکور ہے۔ خود منکرینِ میلاد کے سرکردہ حضرات کی کتب سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولاد ت شریفہ کی تاریخ 12 ربیع الاول ثابت ہے ۔ چنانچہ مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے ارشاد العباد فی عیدالمیلاد، صفحہ5، ابوالحسن علی الحسینی ندوی دیوبندی نے السیرۃ النبویہ، ص 99، مفتی شفیع کراچوی دیوبندی والدمفتی تقی عثمانی دیوبندی نے سیرت خاتم الانبیاء ، ص10، سلیمان ندوی نے رحمت عالم ، ص 8، اسلم قاسمی دیوبندی ولد قاری طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے سیرت پاک صفحہ22، ولی رازی دیوبندی نے ھادی عالم صفحہ43، مولوی مودودی نے سیرت سرور عالم ، صفحہ 93، نواب صدیق حسن خان بھوپالی وھابی نے الشمامۃ العنبریۃ ، ص17 اور مولوی عبد الستار وہابی نے اکرام محمدی ، ص270، پر تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہی لکھی ہے تفصل ہم لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔
منکرینِ میلاد سے سوال : اگر آپ کی بات مان بھی لیں کہ میلاد شریف کی تاریخ 9 ربیع الاول ہے تو کیا آپ حضرات 9 ربیع الاول کو عید میلاد منا یا کریں گے ؟
اعتراض نمبر 6 : یہ مانا کہ ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی تو وصال بھی تو 12 ربیع الاول کو ہوا ، اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رو رہے تھے لہٰذا اس دن خوشی منانا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟
جواب : ہم اس ضمن میں منکرینِ میلاد ہی کے گھر سے حوالہ جات پیش کرتے ہیں : مولوی اشرفعلی تھانوی نے نشرالطیب کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ وصال پیر کو ہوا اس روز بارہ (12) کسی طرح نہیں آتی ۔ (نشرالطیب، ص 349) حافظ سعید کی جماعۃ الدعوۃ (اہل حدیث تنظیم) نے وصالِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ یکم ربیع الاول11 ہجری لکھی ہے ۔ (مجلہ الدعوۃ مارچ 2007، ص14) ۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے والد مفتی شفیع دیوبندی نے لکھا ہے کہ وفات کسی طرح بھی 12 ربیع الاول کو نہیں بنتی ۔ (سیرت الانبیاء ، جلد1، ص 119) ۔ قدیم مورخ موسیٰ بن عقبہ جو ثقہ ترین مورخ تھے اس نے بھی یکم ربیع الاول لکھی ہے ۔ علامہ سہیلی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ، علامہ شبلی نعمانی اور سید سلمان ندوی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں تفصیلی بحث کر کے یکم ربیع الاول کو ہی یوم وفات قرار دیا ہے ۔ (سیرت النبی جلد2 ، ص104، قصص النبیین مترجم جلد 5، ص 351 ، مکتبۃ العلم، لاہور)
اگر فرض کر لیں کہ وصال 12 ربیع الاول کو ہی مان لیا جائے تو یاد رکھیں سوگ صرف تین (3) دین ہے سوائے بیوہ کےلیے ۔ (بخاری رقم :1281)(مسلم: 2730،چشتی)(ابوداؤد:1954، ترمذی: 1116)(نسائی: 3443)(ابن ماجہ:2072)
یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک لمحہ کےلیے موت کا ذائقہ اپنی شان کے لائق چکھنے کے بعد زندہ ہیں جیسا کہ صحیح احادیث مبارکہ میں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی دنیا کی سی ہے جیسا کہ المھند علی المفند صفحہ ۳۸مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور) میں آپ لوگوں نے تسلیم کیا ہے ۔ اگر 12 ربیع الاول کو ہی یومِ ولادت اور یومِ وصال تسلیم بھی کر لیا جائے تو پیدائش کی خوشی منائی جائے گی اور وفات کا غم نہیں کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد کے مطابق جمعہ کو سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی تخلیق ہوئی اور اپنی عمر مبارک گزار کر جمعہ کو ہی ان کا وصال ہوا ۔ (ابوداؤد:1047، نسائی: 1375)(ابن ماجہ: 1084، مسند احمد: 16262) ۔ اور جمعہ کو اللہ نے مسلمانوں کےلیے عید بنایا ہے ۔ (ابن ماجہ:1098)(موطا امام مالک: 131)
دیوبندی مولوی اشرفعلی تھانوی نے لکھا ہے : یہ وفات بھی امت کےلیے مظہر رحمتِ الٰہیہ ہوئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سبب رحمت ہیں تو خود کس درجہ موردِ رحمت ہوں گے تو یہ وفات خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے بھی نعمتِ عظمی ہوئی ۔ (نشرالطیب صفحہ 196 مطبوعہ مکتبہ لدھیانوی، کراچی)
دیوبندی عالم شیخ عبدالرحمن اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انتقال فرمانے کے بعد بھی زندہ ہیں بلکہ پہلی حیات سے انتقال فرمانے کی حیات زیادہ قوی ہے ، اس لیے غمی کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ بھی اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے ۔ (روزنامہ جنگ، لاہور27فروری1987جمعہ میگزین صفحہ 22 )
سوگ کے بارے دیوبندیوں وہابیوں کے امام اسمعیل دہلوی کا قول : وہابی حضرات ذرا اپنے امام کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ اسمعیل دہلوی نے لکھا ہے : عورت کو اپنے خاوند کے مر جانے پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا فرض ہے اگر نہ کرے تو گناہ گار ہوگی اس کے سوا تمام سوگ حرام ہیں خواہ وہ کسی پیغمبر پر ہو یا صدیق پر یا شہید پر موت یا قتل یا شہادت کے دنوں میں ہو یا اور دنوں میں اس حکم میں کسی کی تخصیص نہیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 120 مطبوعہ اسلامی اکادمی اردو بازار ،لاہور)
منکرینِ میلاد سے سوال : دیوبندی وہابی حضرات کو کل قیامت کے دن اللہ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ جمعہ کو ہی تخلیق آدم اور وصال کے باوجود عید کیوں بنایا گیا اور خوشی کا دن بنا کر سوگ اور افسوس سے منع کیوں کر دیا گیا ؟
اگر مان لیا جائے کہ12 ربیع الاول کو وصال ہے تو آپ حضرات کوئی غم کی مجلس کا ہی انتظام کر لیا کریں ۔
اعتراض نمبر 7 : اس دن چراغاں کرنا درست نہیں ۔
جواب : امر خیر میں خرچ کرنا ہر گز اسراف نہیں ۔ عربی کا مقولہ ہے : لَاخَیْرَ فِیْ الْاِسْرَافِ لَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْر ۔ یعنی اسراف میں کوئی خیر نہیں اور نیکی کے کام میں خرچ کرنا اسراف نہیں ۔غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی حسبِ توفیق چراغاں کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان تو ایسی ارفع و اعلیٰ ہے کہ ان کی ولادت کے موقع پر خود ربّ قدیر نے چراغاں فرمایا اور ایسا چراغاں کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس روشنی میں شام کے محلات دیکھ لیے ۔ حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ (مسند احمد،حدیث:16525)(مستدرک للحاکم:4140)(معجم الکبیر للطبرانی :15032)(دلائل النبوۃ للبیہقی: جلد 1، ص 20)(شعب الایمان: 1374)(صحیح ابن حبان:6150)
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : لَمَّا حَضَرَتْ وِلَادَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَاَیْتُ الْبَیْتَ حِیْنَ وَقَعَ قَدِ امْتَلَائَ نُوْرًاوَ رَاَیْتُ النُّجُوْمَ تَدْنُوْا حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّھَا سَتَقَعُ عَلَیَّ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے موقع پر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا گھر نور سے معمور ہو گیا اور میں نے ستاروں کو دیکھا کہ زمین سے اتنے نزدیک آ گئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ مجھ پر گر جائیں گے ۔ (دلائل النبوۃلابی نعیم، ج۱،ص40، دلائل النبوۃ للبیہقی ج۱،ص111،چشتی)(الخصائص الکبریٰ، ج1،ص45)(مجمع الزوائد، ج8، ص 220)(نشر الطیب،ص44)
تاہم چراغاں کرنے کےلیے چوری کی بجلی استعمال کرنا حرام ہے ۔
منکرینِ میلاد سے سوال : کیا چراغاں کرنا مطلقََا یعنی بالکل حرام ہے یا صرف میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے چراغاں کرنا حرام ہے اور اپنے خاندان کی تقریبات یعنی شادی اور مذھبی و سیاسی تقریبات وغیرہ کے موقع پر کرنا جائز ہے ؟ اگر اس موقع پر جائز ہے اور یہاں ناجائز تو کوئی ایک حدیث خواہ ضعیف ہی ہو پیش فرما دیں ۔
اعتراض نمبر 8 : جھنڈا لگانا کہاں سے ثابت ہے ؟
جواب : ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھنڈے لگانا سنتِ جبریل امین علیہ السلام ہے ۔ (الخصائص الکبری للسیوطی، جلد 1 صفحہ 82)
شاہ فیصل کی لاہور آمد پر وہابی ہفت روزہ ’’تنظیم اہل حدیث ‘‘ نے شہر بھر کو جھنڈیوں سے سجانے کی اپیل کی۔(ہفت روزہ’’ تنظیم اہل حدیث‘‘30ذی الحجہ 1385ھ)
منکرینِ میلاد سے سوال : کیا صرف میلاد کا جھنڈا لگانا ناجائز ہے اور اپنے ملک اور تنظیم کا جھنڈا لگانا جائز ہے ؟ سپاہ صحابہ اور جماعۃ الدعوۃ ، جماعت اسلامی ، اسلامی جمیعت طلبہ کا جھنڈا کہاں سے ثابت ہے ؟
اعتراض نمبر 9 : جلوسِ میلاد بے اصل ہے ؟
جواب : یہ بھی آپ حضرات کا فریب ہے ، ہجرتِ مدینہ کے موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ’موضع غمیم‘ پہنچے تو حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ اپنے ستر (70) ساتھیوں کے ساتھ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا داخلہ جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے اور اپنے عمامہ کو نیزے پر ڈال کر جھنڈا بنایا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آگے آگے روانہ ہوئے ۔ (وفاء الوفا جلد 1 صفحہ 243،چشتی)
دیوبندی حضرات نے بھکر میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یومِ وفات پر جلوس نکالا ۔ (روزنامہ جنگ لاہور مورخہ 6 نومبر 1996، صفحہ:2،کالم:5)
دیوبندی امیرِ شریعت سید عطا اللہ بخاری نے عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جلوس نکالا ۔ (روزنامہ آزاد لاہور 26 ستمبر 1957)
ہفت روزہ رسالہ ’’لولاک‘‘ کے ایڈیٹر مولوی تاج محمود دیوبندی 9 جنوری 1982کے شمارہ میں لکھتے ہیں : ربوہ میں بھی عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سلسلہ میں جلوس نکالا گیا ، جس کی قیادت مولوی اللہ وسایا دیوبندی ، مولوی اللہ بخش دیوبندی ، مولوی احمد چاریاری امام مسجد محمدیہ اور قاری شبیراحمد نے کی ۔
جماعت اسلامی کے بانی مودودی نے غلافِ کعبہ کا جلوس نکالا ۔(ترجمان القرآن،اپریل 1963)
شاہ فیصل کی لاہور آمد پر جلوسِ میلاد کے منکرین نے شاہ فیصل کے اعزاز کےلیے بھر پور جلوس کی ترغیب دلائی اور تمام سرکاری اور پرائیوٹ ادارے بند رکھنے کی اپیل کی ۔ (ہفت روزہ’’ تنظیم اہل حدیث‘‘30ذی الحجہ 1385ھ)(الاعتصام، لاہور23ذی الحجہ 1385ھ،چشتی)(ترجمان الاسلام،30ذی الحجہ 1385ھ)(نوائے وقت،27ذی الحجہ،1385ھ)(مشرق، لاہور،30 ذی الحجہ 1385ھ)
ہندو پنڈت جواہر لال نہرو 25 ستمبر 1956ء کو سعودی عرب کے دورہ پر گیاتو شاہ سعود ، وزرا ، فوجی افسران اور عوام نے بھر پور استقبال کیا اور ’’مرحبا نہرو رسول السلام‘‘ اور ’’جے ہند‘‘ کے نعروں سے استقبال کیا اور جلوس کی شکل میں نہرو کو شاہ سعود کے محل میں لے جایا گیا ۔(روزنامہ جنگ کراچی 27/28 دسمبر1956)
ہندوصدر ڈاکٹر راجندر پرشاد 13جولائی 1957ء کودارالعلوم دیوبند کے دورہ پر گئے تو دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی اور قاری طیب مہتمم دارالعلوم نے استقبال کیا ، ہار پہنائے ، جلوس کی شکل میں دارالعلوم لے کر گئے اور تمام راستے کو خوشنما دروازوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجارکھا تھا اور دارالعلوم پہنچنے پر ’’اللہ اکبر دارالعلوم زندہ باد‘‘ کے نعروں سے اسقبال کیا ۔(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ستمبر 1957)
دیوبندیوں نے اپنے شیخ القرآن مولوی غلام اللہ خان کی آزاد کشمیر آمد پر جلوس نکالا، گولہ بازی کی، گیٹ، بازاروںاور مقام تقریر کو سجایا۔(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی،اگست 1963)
منکرینِ میلاد کے جلوس نکالنے کے واقعات بہت زیادہ ہیں ، اب ہم صرف حوالہ جات پیش کر رہے ہیں ۔ (روزنامہ تعمیر، روالپنڈی،2جون،1957)(تنظیم اہل حدیث، 26اپریل1968)(الافاضات اشرفعلی تھانوی حصہ 6،ص166)(ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘،لاہور، 22ستمبر1961)(زمیندار، 27مئی1951)
منکرینِ میلاد سے سوال : کیا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے موقع پر جلوس نکالنا ناجائز ہے ؟ اور 5 فرور ی کو یوم یکجہتی کشمیر پر کشمیر ریلی ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی ، گو امریکہ گو ریلیاں نکالنا جائز ہے ؟ جماعتِ اسلامی آئے روز احتجاجی ریلیاں اور دھرنوں کی کال دیتی ہے یہ کہاں سے ثابت ہیں ؟
اعتراض نمبر 10 : عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ابتداء ایک فضول خرچ ، عیاش طبع بادشاہ ملک مظفر ابوسعید (شاہ اربل) کی ایجاد ہے ؟
جواب : اول تو عرض ہے کہ میلاد کی ابتداء رب تعالی نے خود فرمائی اور پھر ہر دور کے انبیائے کرام علیہم السلام اس کا درس دیتے رہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا میلاد بیان فرمایا جیسا کہ دلائل کے ساتھ وضاحت کی جاچکی ہے ، ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہِ اربل علیہ الرحمہ حکومتی سطح پر میلاد منانے کا اہتمام کرتا تھا ، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سب سے اول شاہ اربل نے حکومتی سطح پر عید میلاد منانے کو رواج دیا بلکہ امام عزالدین ابن اثیر شیبانی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ سن 484ھ میں جلال الدولہ سلطان ملک شاہ سلجوقی جنگی مہمات سے فارغ ہو کر دوسری مرتبہ بغداد آیا تو اس نے خوب دُھوم دھام سے میلاد منایا۔(الکامل فی التاریخ،جلد8، ص349)
اس کو امام ذہبی نے بھی تحریر کیا ہے ۔ (تاریخ اسلام حوادثات صفحہ 484)
مولوی حسن مثنی ندوی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔(سیارہ ڈائجسٹ، رسول نمبر:جلد2، ص 411)
شاہ اربل کے کردار کے متعلق ہمیں تمہارے مولویوں کی بجائے اپنے جلیل القدر عظیم الرفعت ائمہ و محدثین حضرات کی رائے عزیز ہے۔حافظ ابن کثیر ، امام جلال الدین سیوطی،شیخ ابن خلکان، امام ذہبی،امام قزوینی ،شیخ مبارک حفیانی،امام ابوشامہ ،شیخ محمد قادسی اور سبط ابن جوزی نے شاہ اربل کو نہایت سخی، عادل،کفایت شعار،بہادر، جرات مند، داناحاکم تحریر کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔ (الحاوی للفتاوی،جلد1، ص190،189،حسن المقصد للسیوطی، وفیات الاعیان، جلد3،ص539،العبرفی خبرمن غبر،جلد2،ص224،سیر الاعلام النبلائ،جلد16،ص275،آثار البلادواخبار العباد،ص290،شذرات الذہب،جلد5، ص140)
منکرینِ میلاد سے سوال : بچہ بچہ جانتا ہے کہ قرآن پاک پر اِعراب ایک نہایت ہی فاسق و فاجر حاکم حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے تو کیا وہابی ، دیوبندی حضرات اس کے لگائے گئے اِعرا ب والے قرآن پڑھنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں یا نہیں ؟
مزید یہ کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ۶۴ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواہش کے مطابق کعبۃ اللہ میں دو دروازے شرقاً غرباً لگوا دیے ، حجاج نے اس کو بھی ختم کر کے دوبارہ قریش مکہ کی بنیادوں پر تعمیر کروا دی اور آج تک کعبۃ اللہ کی عمارت انہی بنیادوں پر ہے ، کیا وہابیہ دیوبندیہ حضرات کے نزدیک اس فاسق فاجر کی قائم کردہ عمارت کا طواف کرنے سے حج بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟
اعتراض نمبر 11 : شاہ اربل نے ایک کذاب دنیا پرست مولوی عمر بن حسن دحیہ کلبی کو ایک ہزار درہم کا لالچ دے کر یہ بدعت ایجاد کروائی ؟
جواب : لعنۃ اللہ علی الکاذبین ۔علامہ عمر بن حسن دحیہ کلبی المعروف شیخ دحیہ علیہ الرحمہ پر یہ سراسر بہتان ہے ، ہم اس بابت بھی تمہارے دو ٹکے کے بازاری مولویوں کی نہیں بلکہ اپنے جلیل القدر ائمہ و محدثین کی رائے عزیز رکھتے ہیں چنانچہ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے شیخ دحیہ کلبی رحمۃ اللہ علیہ کی میلاد پر لکھی گئی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر کا مطالعہ کیا اور اس سے نہایت ہی قیمتی اور خوبصورت باتیں نوٹ کرلیں ۔ (البدایہ جلد 13 صفحہ 155،چشتی) ۔ حافظ ابن کثیر نے آپ کو نہایت ہی ’’صالح‘‘ اور’’ زاہد‘‘ لکھا ہے، شیخ جمال عزون نے آپ کو’’ عالم‘‘ اور’’ حافظ حدیث‘‘ لکھا ہے ۔ (مقدمۃ الایات،101) ۔ شیخ ابن نجار، شیخ منصور بن سلیم سکندانی، امام ابن سیدالناس،اما م ذہبی، امام ابن ملقن نے آپ کی تصانیف کو نہایت سراہا ہے ۔ (حاشیۃ المختصر المحتاج،جلد3، ص99، الذیل علی تکملۃ الاکمال،ص 349، میزان الاعتدال، جلد3، ص188، البدرالمنیر، جلد1، ص291)
اعتراض نمبر 12 : جو میلاد نہیں مناتا اس کو گستاخ کہا جاتا ہے ۔
جواب : العیاذ باللہ تعالی ۔ یہ بھی آپ لوگوں کا بہتا ن ہے ورنہ اہلِ سنت میلاد نہ منانے والوں کو گستاخ نہیں کہتے ، ہاں یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ میلاد نہ منانے والے گستاخ ہی ہیں ۔ اور یہ گستاخ ہونا ان کا میلاد نہ منانے کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے ہے جس کا بیان یہاں کرنا مناسب نہیں ۔ آپ حضرات (وہابی، دیوبندی) اگر میلاد منا بھی لیں تو بھی گستاخی کے زمرے سے نہیں نکل سکتے جب تک ان صریح کلمات شنیعہ سے توبہ نہ کرلو جو کہ تم لوگوں نے شانِ الوہیت و رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اپنی کتب میں رقم کر رکھے ہیں ۔تاہم تمہارے ہی سرکردہ مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی نے لکھا ہے کہ : جو میلادکی خوشی نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔(الشمامۃ العنبریۃ، ص12مطبوعہ فاران اکیڈمی،اردو بازار لاہور)
منکرینِ میلاد سے سوال : اہل سنت میں سے کئی حضرات ایسے ہیں جو اپنی مفلسی کی وجہ سے محافلِ میلاد کا انعقاد نہیں کر پاتے مگر وہ خود کو گستاخ نہیں سمجھتے آخر کار یہ کھٹکا آپ ہی کے دل میں کیوں پیدا ہوا ؟
محترم قارئین کرام : آپ نے منکرینِ میلاد کے اعتراضات اور ان کے مختصر جوابات ملاحظہ فرمائے اور اب آپ کو چاہیے کہ ہر جواب کے آخر میں منکرینِ میلاد پر قائم کیے گئے سوالات کا جواب ان سے طلب کریں ۔ جو کہ ان شاء اللہ تا صبحِ قیامت نہں دے سکیں گے ۔
عیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جواز پر منکرینِ میلاد کے اکابرین کی رائے : ⬇
اب فقیر چشتی عیدِ میلاد کے جواز پر کچھ حوالہ جات منکرینِ میلاد کے اکابرین سے پیش کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں : حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مرشد علماۓ دیوبند فرماتے ہیں : محفلِ مولود شریف میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ صفحہ 13)(امداد المشتاق صفحہ 88،چشتی)(شمائم امدادیہ صفحہ 68 ۔ پر بھی ذکر و قیام کو درست کہا ہے ۔ مزید اسی کتاب کے صفحہ 5 پر فرمایا : مولود شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں ، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے ۔
مفتی رشید دیوبندی نے لکھا : جب ابو لہب جیسے کافر کےلیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی جو کوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسب وسعت آپ کی محبت میں خرچ کرے تو کیونکر اعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا ۔ (احسن الفتاوی ج1ص347)
رشید گنگوہی نے خلیل انبیٹھوی کو کتاب ’’تواریخِ حبیب الہٰ‘‘ دے کر محفلِ میلاد میں وعظ کےلیے بھیجا ۔ (تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 284)
تمام اکابرینِ دیوبند کی مصدقہ کتاب ’’المہند علی المفند‘‘ کے صفحہ 46 مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی میں ہے : ذکر میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے اور منکراتِ شرعیہ سے پاک مجلسِ مولود سببِ خیر و برکت ہے ۔
قاسم نانوتوی دیوبندی سے پوچھا گیا آپ میلاد نہیں کرتے مولانا عبد السمیع کرتے ہیں کہا ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت زیادہ ہے دعا کرو ہمیں بھی زیادہ ہو جائے ۔ (سوانح قاسمی جلد 1 صفحہ 471)(سفر نامہ لاہور ولکھنو صفحہ 228)(مجالس حکیم الامت ص124)
وہابیوں دیوبندیوں کے مرشد اول ، سیداحمد رائے بریلوی نے کشتی میں میلاد منایا ، ذکر ولادت باسعادت کے قصائد پڑھے اور اختتام پر ’’حلوہ‘‘ تقسیم کیا ۔ (مخزن احمدی صفحہ 85)
ثناء اللہ امر تسری غیرمقلد وہابی لکھتا ہے : بارھویں (میلاد شریف کرنا ) ایصال ثواب کی نیت سے درست ہے اختلاف اٹھ جاتا ہے ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 71)
عبداللہ لاہوری غیرمقلد وہابی لکھتا ہے : میلاد شریف کرتے وقت قیام کرنا مستحسن سمجھتے ہیں ۔ (اہلحدیث کا مذہب ص35)
وحید الزمان غیرمقلد وہابی لکھتا ہے: فاتحہ و میلاد کا انکار جائز نہیں ۔ (ھد یۃ المھدی صفح 118)
مزید اس نے محفلِ میلاد کو اچھی چیز قرار دیا ہے ۔ (تیسیر الباری جلد 2 صفحہ 177)
مزید لکھا : کرسمس کے دن جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت ہے خوشی کرنا ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت والے دن کی خوشی کرنے کی طرح ہے اور ہم تو حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور تما م نبیوں علیہم السلام کی ولادتوں کے دن خوشی کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔(ھدیۃ المھدی صفحہ 46)
مزید لکھا ہے : معتبر قول یہی ہے کہ محفلِ میلاد جائز ہے ، کیونکہ یہ ثواب کی نیت سے ہی ہوتی ہے ۔پھر اس میں بدعت کا کیا دخل ہے ۔ (ھدیۃ المھدی صفحہ 46 )
نواب صدیق خان غیرمقلد وہابی نے کہا : جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کا حال سن کراور آپ کے میلاد کی خوشی نہ ہو وہ مسلمان نہیں ۔ (الشمامۃ العنبریہ صدحہ12)
وہابیوں کا شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتا ہے : اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے دن کی تعظیم کا معاملہ ہے مسلمان یہ چیز یا تو عیسائیوں کی تقلید میں کرتے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے یومِ ولادت میں عید مناتے ہیں یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت و تعظیم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی اس بدعت پر نہیں بلکہ اس محنت اور اجتہاد پر انہیں ثواب دے گا ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم ترجمہ و تلخیص بنام فکرو عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے ، ص 73مترجم مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی)
ابن تیمیہ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتا ہے : ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وقت کی تعظیم اور اسے عید بنانے میں بعض لوگوں کو ثوابِ عظیم حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہ ثواب ان کی نیک نیتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم کی وجہ سے ہو گا ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم صفحہ 77 مطبوعہ دارالسلام ، لوئرمال سیکرٹریٹ ، لاہور)
مولوی ابتسام الٰہی ظہیر غیرمقلد وہابی کہتا ہے : بعض حلقے ہمارے مسلک کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ شاید ہم عیدِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کے حق میں نہیں ہیں ، یہ سراسر غلط اور بہتان ہے ۔ (روزنامہ جنگ فورم رپورٹ، 29اپریل2005ء)
عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کے متعلق کچھ گزارشات : ⬇
فقیر چشتی کچھ گزارشات عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کے متعلق احبابِ اہل سنت سے کرنا چاہتا ہے ، تاکہ کامل آداب کے ساتھ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فیوض و برکات کو حاصل کیا جا سکے اور منکرینِ میلاد کو بھی اعتراض کا موقع نہ مل سکے ۔ 1۔ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دن قرآن خوانی ، محافلِ نعت ، محافلِ درود ، جلوسِ میلاد میں ادب و احترام کے ساتھ باوضو شرکت کریں ۔ 2 ۔عیدِ میلاد منانے کے ساتھ ساتھ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنانے کا ذہن بنائیں ۔ 3 ۔محافل اور بازاروں ، محلوں کی سجاوٹ کےلیے زبردستی مت کریں ۔ (مزید حصّہ نمبر 14 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment