عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ‘ میں نے اپنی کتاب ” انوار اللہ “ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود بموجب حدیث صحیح حقیقی نبی ہیں اور ایسے ہی نبی ہیں جیسے حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام و آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں (لانفرق بین احد من رسلہ) ہاں صاحب شریعت جدیدہ نبی نہیں ۔ جیسے کہ پہلے بھی بعض صاحب شریعت نبی نہ تھے ۔ “ یہ کتاب حضرت مسیح موعود نے پڑھ کر فرمایا ” آپ نے ہماری طرف سے حیدر آباد دکن میں حق تبلیغ ادا کر دیا ہے ۔ “ (اخبار الفضل قادیان ج ٣ ص ٣٨۔ ٣٩‘ مورخہ ١٩ ستمبر ١٩١٥ ء)
غرضیکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول اور نبی تھا اور وہی نبی تھا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبی اللہ کے نام سے پکار اور وہی نبی تھا جس کو خود اللہ نے اپنی وحی میں یا ایھا النبی کے الفاظ سے مخاطب کیا “۔ (کلمۃ الفصل مصنف صاحب زادہ بشیر احمد قادیانی ‘ مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلچز قادیان ص ١١٤ نمبر ٣‘ جلد ١٤)
محترم ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ حضرات (یعنی لاہوری جماعت) صرف مسئلہ خلافت کے منکر ہوتے تو مجھے رنج نہ ہوتا کیونکہ آپ سے پہلے بھی ایک گروہ خوارج کا موجود ہے مگر غضب تو یہ ہے کہ آپ حضرت اقدس (مرزا قادیانی) کو مسیح موعود ‘ مہدی نبی نہیں مانتے ۔ اگر حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو مسیح موعود بھی نہ تھے ۔ (نعوذ باللہ) اور اس لیے آپ کا ماننا نہ ماننا برابر ہے اور ضرور حقیقی نبی تھے اور خدا کی قسم ضرور بہ ضرور نبی تھے اور آپ کے مخالف حضرات کا بھی وہی حشر ہو گا جو دیگر انبیاء کے مخالفین کا ۔ میں اس عقیدہ پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں ۔ (مکتوب محمد عثمان خان قادیانی ‘ مندرجہ المہدی نمبر ١‘ ص ٥٤‘ مولف حکیم محمد حسین قادیانی لاہوری)
ختم نبوت کی تجدید
ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعہد کے اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوں کے گے کہ وہ نبوت صحیح نہیں ۔ (تشحیذ الاذہان قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢‘ صفحہ ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ ء،چشتی)
پس اس وجہ سے (اس امت میں) نبی کا نام پانے کےلیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ۔ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا جیسا کہ احدیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا ‘ وہ پیش گوئی پوری ہو جائے ۔ (حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم کی گئی ہے اس لیے آپ کے بعد اس کے سوا کوئی نبی نہیں جسے آپ کے نور سے منور کیا گیا ہو اور جو بارگاہ کبریائی سے آپ کا وارث بنایا گیا ہو ۔ معلوم ہوا کہ ختمیت ازل سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی ‘ پھر اس کو دی گئی جسے آپ کی روح نے تعلیم دی اور اپنا ظل بنایا ۔ اس لیے مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور وہ جس نے تعلیم حاصل کی ‘ پس بلاشبہ حقیقی حتمیت مقدر تھی چھٹے ہزار میں جو رحمان کے دنوں میں سے چھٹا دن ہے ۔ (ما الفرق فی آدم و المسیح الموعود ضمیمہ خطبۃ الہامیہ ص ب)(روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ١٦‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
اسی طرح مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا کیا گیا ۔ (ما الفرق فی آدم والمسیع الموعود۔ ضمیمہ خطبۃ الھامیہ ص ج)(روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صرف ایک ہی نبی کا ہونا لازم ہے اور بہت سارے انبیاء کا ہونا خدا تعالیٰ کی بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں میں رخنہ واقع کرتا ہے ۔ (تشحیذ الاذہان قادیان ‘ نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ١١‘ ماہ اگست ١٩١٧ ء،چشتی)
ولکن رسول اللہ و خاتم النبین : اس آیہ میں ایک پیش گوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے ۔ اور بجز بروزی وجود کے ‘ جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے ‘ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے۔ اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا ‘ وہ میں ہوں ‘ اس لیے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بےدست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لیے مقدر تھا ‘ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لیے باقی نہیں ۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص ١١‘ روحانی خزائن ص ٢١٥ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا ۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ (کشتی نوح ص ٥٦‘ روحانی خزائن ص ٦١ ج ١٩‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
بروزی کمالات گویا مرزا صاحب خود سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات
غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہٰی مہر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہدہ تھا ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واخرین منھم لما یلحقوا بھم ۔ (اشتہار ‘ ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ‘ ص ٢١٤۔ ٢١٥‘ ج ١٨‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد دہم ‘ مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد قادیانی)
ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردود ہے ۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات معتدبہ کے اظہار و اثبات کےلیے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے ‘ سو اس طرح سے خدا نے میرا نام نبی رکھا ۔ یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا ۔ تاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض کا کامل نہ ٹھہروں ۔(چشمہ معرفت ص ٣٢٤‘ روحانی خزائن ص ٣٤٠ ج ٢٣‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ‘ جو درحقیقت ” خاتم النبیین “ تھے ‘ رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیہ واخرین منھم لما یلحقوا بھم ۔ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الا نبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا ۔ اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں ۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا ۔ (ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ص ٢١٢‘ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
یہ مسلمان کیا منہ لے کر دوسرے مذاہب کے بالمقابل اپنا دین پیش کر سکتے ہیں تاوقتیکہ وہ مسیح موعود کی صداقت پر ایمان نہ لائیں جو فی الحقیقت وہی ختم المرسلین تھا کہ خدائی وعدے کے مطابق دوبارہ آخرین میں مبعوث ہوا ۔ وہ وہی فخر اولین و آخرین ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے رحمۃ للعالمین بن کر آیا تھا اور اب اپنی تکمیل تبلیغ کے ذریعہ ثابت کردیا گیا کہ واقیع اس کی دعوت جمیع ممالک و ملل عالم کےلیے تھی ۔ (اخبار الفضل قادیان ‘ ج ٣‘ نمبر ٤١‘ مورخہ ٢٦‘ ستمبر ١٩١٥ ء)
مرزا قادیانی کا دعویٰ کہ وہ تشریعی نبی ہیں
یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر و نہی بیان کیے اور اپنی امت کےلیے ایک قانون مقرر کیا ۔ وہی صاحبِ شریعت ہو گیا ۔ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ۔ مثلا یہ الہام قل للمؤمنین بغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم یہ براہین احمد یہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی ۔ اور اس پر تیس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو باطل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے ۔ (اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘ روحانی خزائن ص ٤٣٥۔ ٤٣٦ ج ١٧،چشتی)
چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے ‘ فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کےلیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا ۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے ۔ (حاثیہ اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘چشتی)(روحانی خزائن ص ٤٣٥‘ ج ١٤‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
مرزا قادیانی کا جہاد کو منسوخ قرار دینا
جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے ۔ پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کےلیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا ۔(اربعین نمبر ٤‘ ص ١٥)(حاثیہ روحانی خزائین ص ٤٤٣‘ ج ١٧ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا ‘ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا ۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے ‘ و اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے ‘ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں ۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ۔ (تبلیغ رسالت ج ٩‘ ص ٤٧‘ مجموعہ اشہتارات ص ٢٩٥ ج ٣،چشتی)
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(اعلان مرزا غلام احمد قادیانی ‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد نہم ‘ مولف میر قاسم علی قادیانی ص ٤٩‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٩٨۔ ٢٩٧‘ ج ٣)(روحانی خزائن ص ٧٧ ج ٧)
١٤ اگست ١٩٤٧ ء کو جب مملکت پاکستان قائم ہو گئی تو مسلمانوں کو اس مسئلہ سے بےچینی ہوئی کہ قادیانی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مان کر اسلام سے نکل چکے ہیں اور وہ خود بھی اہلِ اسلام کو کافر کہتے ہیں ‘ ان کا اس ملک میں بہ حیثیت مسلمان رہنا اور اس مملکت کے کلیدی عہدوں پر فائز رہنا کس طرح جائز ہے ‘ پاکستان کے ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے پس ١٩٥٣ء میں پاکستان کے تمام علماء کی طرف سے اس سلسلہ میں زبردست تحریک چلائی گئی ۔
١٩٥٣ ء کی تحریک ختم نبوت
مولانا محمد صدیق ہزاروی مجاہد تحریک ختم نبوت مولانا عبدالستار خاں نیازی علیہ الرحمہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں : برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا ۔ اس کنونشن نے کراچی کے مرکزی کنونشن کےلیے مندوبین منتخب کیے ۔ ٢٠۔ ٢١ جنوری ١٩٥٣ء کو کراچی میں مرکزی کنونشن منعقد ہوا ‘ جس میں مطالبات مرتب کیے گئے : ⬇
(١) وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو برخاست کیا جائے ۔
(٢) قادیانیوں کو کافر اقلیت قرار دیا جائے ۔
(٣) قادیانیوں کو کلیدی اسامیوں سے الگ کیا جائے ۔
تحریکِ ختم نبوت میں آپ نے مثالی کردار ادا کیا ۔ آپ کو اس تحریک میں خصوصیت حاصل تھی ‘ وہ یہ کہ آپ اسمبلی کے ممبر تھے ۔ نیز تحریکِ پاکستان میں کام کرنے کی وجہ سے مسلم لیگی کارکنوں سے آپ کے گہرے تعلقات تھے ۔
مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے کراچی میں کنونشن کیا تو اس کے تیرہ نمائندوں میں آپ کا نام بھی تھا ‘ لیکن آپ کو اس میں شامل نہ کیا گیا ‘ کیونکہ انہیں آپ کی تیزی طبع کی وجہ سے خطرہ تھا کہ وقت سے پہلے تصادم نہ ہو جائے ۔
جب تحریک تیز ہوئی اور مجلس عمل کے نمائندے خواجہ ناظم الدین سے کراچی میں ملاقات کرنے گئے تو مورخہ ٢٥ فروری ١٩٥٣ء کو انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔
گرفتاری اور پھانسی
آپ کا پروگرام تھا کہ قصور سے بس کے ذریعے اسمبلی گیٹ تک پہنچ جائیں اور اسمبلی میں تقریر کر کے ممبران اسمبلی کو تحریک کے بارے میں مکمل تفصیلات سے آگاہ کر دیں ‘ لیکن قصور میں آپ جن لوگوں کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ‘ انہوں نے غداری کرتے ہوئے ملٹری کو بتادیا ‘ آپ صبح کی نماز کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اپنے کارکن مولوی محمد بشیر مجاہد کے ہمراہ گرفتار کر لیے گئے ۔
قصور سے گرفتار کر کے آپ کو لاہور شاہی قلعہ لایا گیا ‘ جہاں سے بیانات لینے کے بعد ١٢ اپریل کو آپ جیل منتقل کر دیے گئے اور آپ کو چارج شیٹ دے دی گئی ۔ ملٹری کورٹ میں کیس چلا ‘ جو ١٧ اپریل کو شروع ہوا اور مئی تک چلتا رہا ۔
٧ مئی کی صبح کو سپیشل ملٹری کورٹ کا ایک آفیسر اور ایک کیپٹن آپ کو بلا کر ایک کمرے میں لے گئے جہاں قتل کے نو اور ملزم بھی تھے ‘ مگر ڈی ایس پی فردوس شاہ قتل کا کیس ثابت نہ ہوسکا اور آپ کو بری کردیا گیا ۔
دوسرا کیس بغاوت کا تھا جس میں آپ کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا جو اس طرح تھا : ⬇
you will be hanged by neck till you are dead.
” تمہاری گردن پھانسی کے پھندے میں اس وقت تک لٹکائی جائے گی ‘ جب تک تمہاری موت نہ واقع ہوجائے ۔ “
Is that all ? I was prepared to take more than that. If I would have got One hundred thousan lives. I would have laid down those lives for the cause Of Holy Prophet Mohammad may the peace Glory Of God be Upon Him.
یہی کچھ سزا لائے ہو ‘ اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں ‘ تو میں ان کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر قربان کردیتا ۔
١٤ مئی کو آپ کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی اور پھر مئی ١٩٥٥ ء کو آپ کو باعزت طور پر بری کردیا گیا ۔ (تعارف علماء اہل سنت ص ١٦٤‘ ٥٧ ١ مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ،چشتی)
تحریک ختم نبوت (١٩٥٣ ء) میں آپ کراچی میں مولانا عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمہ (م ١٥ جمادی الاولیٰ ‘ ٢٠ جولائی ١٣٩٠ ھ ‘ ١٩٧٠ ء) اور دیگر علماء کے ساتھ تحریک میں شریک ہوئے ۔ آرام باغ میں جمعہ کے دن تحریک کا آغاز ہا ‘ تو علامہ امام نورانی علیہ الرحمہ پیش پیش تھے ۔ گرفتاری کےلیے رضا کاروں کی تیاری کے علاوہ دیگر ضروری انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کے پہلے اجلاس کے بعد آئندہ اجلاس کے انتظامات کےلیے گیارہ ممبروں پر مشتمل جو بورڈ بنایا گیا ‘ آپ اس کے ممبر تھے ۔
١٩٦٩ ء میں پاکستان آنے کے بعد آپ نے سب سے پہلا بیان قادیانیوں ہی کے بارے میں جاری کیا تھا ۔ آپ نے یحییٰ خان (اس وقت کا صدر) کو مخاطب کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ تمہارا قادیانی مشیر ایم ایم احمد پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔ (تعارف علماء اہل سنت صفحہ ٣٩۔ ٣٨‘ مکتبہ قادریہ لاہور ١٣٩٩ ھ،چشتی)
١٩٧٤ ء کی تحریک ختم نبوت
تحریک ختم نبوت (١٩٧٤ ء) میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کی خاطر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے جو قرار داد ٣٠ جون ١٩٧٧ ء کو پیش کی گئی ‘ اس کا سہرا بھی علامہ شاہ احمد نورانی کے سر ہے ‘ اس قرار داد پر حزب اختلاف کے بائیس افراد ( جن کی تعداد بعد میں ٣٧ ہوگئی) نے دستخط کیے ‘ البتہ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اس قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔ اس تحریک میں آپ کو قومی اسمبلی کی خصوص یکمیٹی اور رہبر کمیٹی کم ممبر بھی منتخب کیا گیا اور آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کی ۔ آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختم نبوت کے مسئلہ سے انہیں آگاہ کیا ۔ اس تحریک میں تین ماہ کے دوران آپ نے صرف پنجاب کے علاقے میں تقریباً چالیس ہزار میل کا دورہ کیا۔ ڈیڑھ سو شہروں ‘ قصبوں اور دیہاتوں میں عام جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ (تعارف علماء اہل سنت صفحہ ٣٩‘ مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ) ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment