Saturday 24 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 14

0 comments
خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 14
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن و حدیث اکابرین امت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ۔ (سورہ ابراہیم ، 5)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں ۔ جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے ۔

بلاشبہ اللہ تعالٰی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالٰی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا ، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو) ۔ (الضحی 11،)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالٰی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی ۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالٰی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمم کی سنت بھی ۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالٰی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے ۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا ۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201،چشتی) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے ۔ (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114،)

صدر الافاضل علامہ سیّد نعیم الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالٰی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالٰی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان ،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالٰی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں کہ
اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں

محدثین و علماء اسلام کی حمایت میں آراء

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ،چشتی) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے )

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے ۔

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد ئیے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالٰی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے)۔ (مشکوٰۃ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) یہ حدیث ( الو فابا حوال المصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703۔ 1762ء) اپنے والد گرامی اور صلحاء و عاشقان کی راہ پر چلتے ہوئے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحداة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، واﷲ أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذه المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة.
ترجمہ : اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، ﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا ۔ (شاه ولي ﷲ ، فيوض الحرمين : 80، 81)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسی ہستی کا یومِ میلاد کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ہونے والی محفلِ میلاد میں شرکت کرنا محفلِ میلاد کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کرتا ہے ۔ ثانیاً اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حرمین شریفین میں بھی محافلِ میلاد منعقد ہوتی رہی ہیں ۔

میں تو کیے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بیان

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے والد ہر سال میلاد مناتے تھے ایک سال لنگر کےلیے کچھ نہ تھا بھنے چنے منگوائے ان پر میلاد پڑھا اور تقسیم کر دیئے رات کو خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم بہت خوش تھ ۔ (رسائل شاہ ولی اللہ الدر الثمین صفحہ 199 ، بائیسویں حدیث،چشتی)

نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ میلاد مناتے تھے : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مکہ ولادت کے دن میلاد منا رہے تھے میں نے دیکھا یکا یک انوار نازل ہو رہے تھے جب غور کیا تو دیکھا یہ وہ فرشتے ہیں جو ایسی محافل پر انوار و رحمت لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ (فیوض الحرمین صفحہ نمبر 115)

اے اہل ایمان شاہ صاحب کی اس گواہی و بیان سے معلوم ہوا حرمین مقدسہ پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ بڑی دھوم دھام سے میلاد مناتے تھے کیا نجدی قابضوں کا عمل ہمارے لیئے بہتر ہے یا 13 سو سالہ مسلمانوں اور اکابرین ملت اسلامیہ علیہم الرّحمہ کا عمل مبارک فیصلہ خود کیجیئے ۔

میں تو کئے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰ ﷺ بیان
ارے اس کو کبھی نہ چھیڑنا سنی بڑا دبنگ ہے

خاک ہوجایں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر انکا سناتے جایں گے

سب سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کرلیں
میلاد کا مطلب کیا ہے ؟

دلیل کے اعتبار سے اس کو کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جو نہ کر سکے اس کے لئے کیا حکم ہے ؟

معترض کے ہر اعتراض کا جواب ان تین باتوں کی روشنی میں بآسانی دیا جا سکتا ہے ہم اس موضوع میں ہر بات کو مختصر اور واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کریں گے لہٰذا تمام پڑھنے والوں کی بارگاہ میں عرض ہے کے تمام دلائل کو اپنے پاس کاپی کرلیں تا کہ معترض کو خود ہی جواب مل جائے ۔

میلاد کا مطلب ہے پیدائش یا ولادت اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بلخصوص ولادت کے واقعات بیان کرنا اور بالعموم آپکی سیرت نسب آپ کے کمالات و برکات و معجزات و واقعات کو بیان کرنا اس مفہوم کو بھی اچھی طرح ذھن نشین فرمالیں ۔

میلاد کا حکم شرعی

مستحب ہے اور یہ شریعت کے اصولوں میں سے ایک ہے

مستحب

وہ کام ہےجس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی کیا ہو اور اس کو سلف صالحین نے پسند کیا ہو ( شامی ج ١ ص ٥١١ ) اس کےکرنے میں ثواب نہ کرنے میں گناہ بھی نہیں اس کو نفل مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں ۔ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ ولا یسیئی تارکہ(شامی ج ١ ص٥٩ )مطلب یہ ہے کہ میلاد 1 مستحب عمل ہے جس کے کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے پر گناہ نہیں جو کوئی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نہ کرسکے تو اس پر ملامت نہیں نہ ہی اس سے سوال کیا جاےگا کہ کیوں نہ کیا ؟

میلاد کا مطلب اور اسکو کرنے اور نہ کرنے کا حکم بھی ہم نے بیان کردیا اب سوال یہ ہے کہ میلاد ثابت کہاں سے ہے تو جواب یہ ہے کہ مستحب عمل کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ تمام بحث آپ کتاب سعید الحق شرح جاء الحق کے باب بدعت میں پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح کوئی عمل اگر شریعت کے خلاف نہ ہو تو اسے کرنے کا ثواب ہے اور نہ کرنے کا گناہ نہیں ۔

اب ان شاء اللّه عزوجل ہم میلاد کے ثبوت و دلائل پیش کریں گے جس کےلیے پہلے بیان کی گئی 3 باتوں کا ذھن نشین ہونا بہت ضروری ہے ۔

سوال : ابھی تو اپ نے کہا کہ مستحب عمل پر دلیل کی حاجت نہیں پھر خود ہی دلائل کی بات کر رہے ہیں ؟
جواب : ہم یہ باتیں اسلئے بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے سنی بھائیوں کے عقائد مضبوط ہوں اور ان سے بدمذ ھبی دور ہو اور انھیں عقائد اہل سنت سے متعلق آگاہی حاصل ہو ورنہ بدمذہبوں پر ان دلائل کا کچھ اثر نہ ہوگا ۔

قرآن مجید سے دلائل

ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو ۔ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)

معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں ، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس ﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں ۔ کان، ہاتھ، پاؤں ، جسم ، پانی ، ہوا ، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے ۔ خود ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر ﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ ۔ (النحل:18)

معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی ۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں ۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہم سے بھی ﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں ۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ ﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے ۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے ؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ۔ ترجمہ : ﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے ۔ (سورۂ آل عمران آیت 164)

ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا ۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا ؟ ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ : تم فرماؤ ﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ، اسی پر چاہیے کہ وہ خوشی کریں ۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ۔ (سورۃ یونس آیت 58)

لیجیے ! اس آیت میں تو ﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے ۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں ۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کےلیے ۔ (الانبیاء :107)

مسلمان اگر رحمة للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے ۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن منائیں ۔

میلاد کو عید کہنا کیسا ؟

ترجمہ : عیسیٰ بن مریم نے عرض کی، اے اللہ! اے رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ (سورہ المائدة:114)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان سے خوان یعنی نعمت اترنے کے دن کو عید کہا اپنے اگلے پچھلوں کے لئے تو وہ نبی جو تمام کائنات کے لئے رحمت و نعمت ہو انکی تشریف آواری کا دن کیوں نہ عید ہو ؟؟؟ بلکہ وہ تو عیدوں کی عید ہے ۔

میلاد بدعت نہیں

مفہومِ احادیث

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنا نسب اور پیدائش کا تذکرہ ممبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا ۔ (ترمذی ج 2 ص201 )

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پیدائش کے ساتھ دیگر نبیوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا ۔ (مسلم ج2 ص245،چشتی) غزوہ تبوک سے واپسی پر حضرت ابن عباس رضی اللّه عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں عرض کی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں ارشاد ہوا بیان کرو اللّه تمھارے منہ کو ہر آفت سے بچائے پس انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ (دلائل النبوت لالبیہقی ج5 ص47،48)

کیا وہ کام جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دعا دیں بدعت ہوسکتا ہے ؟

اپنی آمد کا جشن تو خود آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منایا ہے ۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں ؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ ۔ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)

مخالفین کہتے ہیں کہ کیا میلاد صحابہ رضی اللہ عنہم نے منایا ؟ ہم پوچھتے ہیں کہ جب آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی آمد کا جشن خود منائیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عمل کافی نہیں ؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا ۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری ؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ ۔ (بخاری شریف جلد 2ص 764،چشتی)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟

حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ ۔ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃ ﷲعلیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ ۔ (بیان المولد النبوی ص 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول ص 23)

جھنڈے اور جلوس

ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدینے میں آمد پرصحابہ نے جلوس نکالا (ابو داود ج2 ص 300)

سیدتنا آمنہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا ۔ (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول ص 109)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے ۔ ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبۃ ﷲ کی چھت پر ۔ (بیان المیلاد النبی ، محدث ابن جوزی ص 51)(خصائص الکبریٰ جلد اول ص 48)(مولد العروس ص 71)(معارج النبوت جلد دوم ص 16)

ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف علیہم الرّحمہ کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبد ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کر سکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن کیوں فائدہ حاصل نہیں کر سکتا ؟

بلکہ ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرما دے گا ۔ اللہ بغضِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بچائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 15 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔