Saturday, 24 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 15

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 15
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ابن تیمیہ کی نظر میں : اہلِ اسلام کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانا ، سال کے تمام ایام میں بالخصوص ماہ ربیع الاول میں اجر و ثواب کی نیت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شمائل و خصائل کو بیان کرنا اور ایصال ثواب کے نذرانے پیش کرنا اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کے میلاد منانا ایک کار خیر اور باعث اجر و ثواب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور محدثین ، مفسرین ، مورخین علیہم الرّحمہ سب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک امر خیر جانتے ہیں اور اس کے منانے والوں کےلیے الله عزّ وجل کی جانب سے اجرعظیم کی امید رکھتے ہیں ۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ حدیث پڑھ لیجیے دین میں اچھے کام کے رائج کرنے والوں پر اجر : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ۔ (رواہ مسلم كتاب الزكاة ١٠١٧،چشتی)
ترجمہ : جو شخص اسلام میں اچھے طریقے کو رائج کرے گا ، تو اس کو اس کا ثواب ملے گا، اور ان لوگوں کے عمل کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے ایجاد کردہ فعل پر عمل کرتے رہیں اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں واقع نہیں ہوگی ، اور جو شخص اسلام میں کسی برے عمل کو رائج کرے گا تو اس پر اس عمل کو رائج کرنے کا بھی گناہ ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کا بھی جو اس کے بعد اس طریقے پر چلتے رہے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی ۔

اہلِ بدعت یعنی غیر مقلدین جنہوں نے عقائد میں طرح طرح کی بدعات نکال لی ہیں .اور دین کے ہر مسئلے میں ان کا اسی طرح پوری امت سے علیحدہ ہی رہنے کا ان کا عزم ہے ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بدعت بدعت کہ کر رٹ لگائے رکھتے ہیں پر ان غیر کے مقلدوں کے پاس اس کی حرمت کی دلیل نہیں فقط یہ کہنے کہ " كل بدعة ضلالة " یا پھر "من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد " سے استدلال باطلہ کرنے کے . من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد ، اس حدیث کی شرح میں محدثین علیہم الرّحمہ کے اقوال میں نقطہ یہ ہے کہ اس میں ما لیس منه کی قید ہے . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب الإيمان » باب الاعتصام بالكتاب والسنة."ما ليس منه فيه إشارة إلى أن إحداث ما لا ينازع الكتاب والسنة ۔
ترجمہ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی نئی بات کا نکالنا جو کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو مذموم (نا پسندیدہ) نہ ہو گی ۔

امام شافعی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں : مَا أَحْدَثَ وَخَالَفَ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً أَوْ إِجْمَاعًا أَوْ أَثَرًا فَهُوَ الْبِدْعَةُ الضَّالَّةُ. وَمَا أُحْدِثَ مِنَ الْخَيْرِ وَلَمْ يُخَالِفْ مِنْ ذٰلِكَ فَهُوَ الْبِدْعَةُ الْمَحْمُوْدَةُ ۔ (إعانة الطالبين جلد 1 صفحہ 594،چشتی)
ترجمہ : جو چیز نئی پیدا ہوئی اور مخالف ہوئی کتاب و سنت اور اجماع اور اثر کے ، وہ بدعت ضلالہ ہے اور جو نئی چیز پیدا ہوئی خیر سے اور نہیں مخالف ہے ان سے (کتاب و سنت ، اجماع اثر)، پس وہ بدعت محمودہ ہے ۔

دوسری حدیث : كل بدعة ضلالة اس حدیث میں لفظ کل استغراقی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ "کل" عام اور مخصوص البعض ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم احداث کو ما لیس منہ کے ساتھ مقید فرما چکے ہیں تو اب جس قدر حدیثیں بدعت کی منع ہوں گی وہ سب احداث، مخالف شریعت کی طرف راجع ہونگی ، نہ کہ موافق شریعت کی طرف، کیونکہ اصول کا مسلہ ہے کہ جب کوئی حکم کسی امر مقید پر ہوتا ہے تو وہ حکم قید کی طرف راجع ہوگا . (حديث مرفوع) : مَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ۔ (أحمد في كتاب السنة رقم الحديث: 914)
ترجمہ : جسے مسلمان اچھا جانیں ، وہ الله کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔

وہابیوں کی گردنوں پر تلوار ، شیخ ابن تیمیہ بھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک کارخیر ہی جانتے ہیں . فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ۔
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں : وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. وﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا ۔
ترجمہ : اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکی محبت اور تعظیم کےلیے ۔ اور ﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہ طور عید اپنایا ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622چشتی)

اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں : فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد ۔
ترجمہ : میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم بھی ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622،چشتی)

جو مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت میں میلاد مناتے ہیں اللہ انہیں اس پر اجر و ثواب عطاء فرمائے گا ۔ (فکر و عقیدہ کی گمراہیاں ترجمہ اقتضاء الصراط مستقیم صفحہ 73 ابن تیمیہ مترجم وہابی عالم)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  جناب اشرف علی تھانوی دیوبند کی نظر میں

حکیم الامت دیوبند صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید میلاد لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں ہم اسے باعث برکت سمجھتے ہیں اور جس مکان میں عید میلاد منائی جائے اس میں برکت ہوتی ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 4)

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے یومِ ولادت پیر اور تاریخ ولادت بارہ (12) ربیع الاوّل باعث برکت ہیں اس دن و یوم میلاد سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 5)

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے اور تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے ملی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اصل ہیں تمام نعمتوں کی ۔ (اِرشادُالعِبَاد فِی عِیدِ المیلاد صفحہ نمبر 5 ، 6)

حکیم الامت دیوبند لکھتے ہیں : ذکر ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیگر اذکار خیر کی طرح ثواب اور افضل ہے ۔ (امدادُالفتاویٰ جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 351 مطبوعہ انڈیا،چشتی)

مکتبہ فکر دیوبند کے دوستو آؤ منکرات کے خلاف مل کر کام کریں آواز اٹھائیں مگر خدا را ہماری نہ مانو اپنے حکیم الامت صاحب کی مان لو اور وہابیت کے راستے پر چل کر میلاد جیسے ثواب کے کام کا مذاق مت اڑاؤ پڑھو تھانوی صاحب کیا لکھ رہے ہیں ۔ اب آپ کی مرضی ہے اس ثواب کے کام کا مذاق اڑاؤ یا منا کر ثواب کماؤ ۔

حکیم الامت دیوبند تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مستحب عمل ہے اس شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیے نہ کہ مستحب عمل کو ۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ نمبر 160 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی )

اے اہلیانِ دیوبند آپ کے حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو مستحب عمل قرار دے رہے ہیں ذرا بتایے مستحب عمل کرنے پر ثواب ملتا ہے یا گناہ ؟ سنیے ہم بھی مستحب سمجھ کر میلاد مناتے ہیں فرض یا واجب نہیں ۔

رہی بات منکرات کی تو ہم سخت مخالف ہیں اور رد کرتے ہیں ان غیر شرعی افعال کا جو کچھ جہلا شامل کر لیتے ہیں آیے منکرات کا رد کریں مستحب عمل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دھوم دھام سے منائیں ۔

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد ہر جگہ تو بدعت ہے مگر کالج میں منانا نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت انفاس عیسیٰ جلد 21 حصّہ اوّل صفحہ 326،چشتی)

اب دیوبندی حضرات سے سوال ہے کہ میلاد ہر جگہ بدعت کیوں ہے ؟ اور کالج میں جائز بلکہ واجب کیوں ہے ؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تضاد بیانی کا جواب دیا جائے اوٹ پٹانگ باتوں سے پرھیز فرمائیں موضوع کے مطابق جواب عنایت فرمائیں جاہلانہ کمنٹ کرنے والوں سے ایڈوانس معذرت ایسے لوگ مضمون سے دور رہیں ۔

بانی دیوبند سے سوال کیا گیا مولانا عبد السمیع رامپوری میلاد مناتے ہیں آپ کیوں نہیں مناتے کہا انہیں حب رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بڑا درجہ حاصل ہے دعا کرو مجھے بھی حاصل ہو جائے ۔ ( مجالس حکیم الامت صفحہ 124)

معلوم ہوا میلاد محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والے ہی مناتے ہیں آؤ میلاد منائیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ڈوب کر ۔

حکیم الامت مکتبہ فکر دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر پاک طاعون سے چھٹکارے کا سبب ہے محفل میلاد ہر روز مناؤ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر پاک کرو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ذکر کی کتاب پڑھنے سے مصائب دور ہوتے ہیں ۔ (خطبات میلاد رسالہ النور صفحہ نمبر 112،113)

یہی ہم کہتے ہیں مٹھائی بانٹنا یا لنگر کا اہتمام شرط میلاد نہیں ہے اور نہ اہلسنت یہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی اہتمام کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے علمائے دیوبند و اہلسنت دونوں سے ایصال ثواب ثابت ہے ۔

مولوی اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر عالم دیوبند تھا ۔ اور حاجی اِمداد ﷲ مہاجر مکی چشتی علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر بیعت تھا ۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب نشر الطیب فی ذکرالنبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشق و محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی تحریر ہے ، جس کا آغاز ہی اس نے مشہور حدیثِ جابر بیان کرتے ہوئے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب سے کیا ہے ۔ بعد ازاں اِس نوع کی دیگر روایات بیان کی ہیں ۔ اِسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھانوی جی کے خطبات کا مجموعہ بھی شائع ہوا ہے ۔ مجالسِ موالید پر خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے : ⬇

میرا کئی سال تک یہ معمول رہا کہ یہ جو مبارک زمانہ ہے جس کا نام ربیع الاول کا مہینہ ہے ، جس کی فضیلت کو ایک عاشق ملا علی قاری نے اس عنوان سے ظاہر کیا ہے : ⬇

لهذا الشهر في الإسلام فضل
منقبته تفوق علي الشهور

ربيع في ربيع في ربيع
ونور فوق نور فوق نور

ترجمہ : اِسلام میں اس ماہ کی بڑی فضیلت ہے اور تمام مہینوں پر اس کی تعریف کو فضیلت ہے ۔ بہار اندر بہار اندر بہار ہے اور نور بالائے نور بالائے نور ہے ۔

تو جب یہ مبارک مہینہ آتا تھا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فضائل جن کا خاص تعلق ولادتِ شریفہ سے ہوتا تھا مختصر طور پر بیان کرتا تھا مگر اِلتزام کے طور پر نہیں کیوں کہ التزام میں تو علماء کو کلام ہے ۔ بلکہ بدوں اِلتزام کے دو وجہ سے :
ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر فی نفسہ طاعت و موجبِ برکت ہے ۔ دوسرے اس وجہ سے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو مجالسِ موالید کی ممانعت کرتے ہیں تو وہ ممانعت نفسِ ذکر کی وجہ سے نہیں ۔ نفسِ ذکر کو تو ہم لوگ طاعت سمجھتے ہیں بلکہ محض منکرات و مفاسد کے اِنضمام کی وجہ سے منع کیا جاتا ہے ورنہ نفسِ ذکر کا تو ہم خود قصد کرتے ہیں ۔ یہ تو ظاہری وجوہ تھیں ۔ بڑی بات یہ تھی کہ اس زمانہ میں اور دنوں سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو جی چاہا کرتا ہے اور یہ ایک امر طبعی ہے کہ جس زمانہ میں کوئی امر واقع ہوا ہو اس کے آنے سے دل میں اس واقع کی طرف خود بخود خیال ہوا جاتا ہے ۔ اور خیال کو یہ حرکت ہونا جب امر طبعی ہے تو زبان سے ذکر ہوجانا کیا مضائقہ ہے ۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے ۔ (اشرف علی تهانوی دیوبندی خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 190)

اِسی خطاب میں آگے ایک جگہ کہتا ہے : تو میرا جو معمول تھا کہ اِس ماہِ مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کیا کرتا تھا ، وہ دوام کے حد میں تھا ، التزام کے طور پر نہ تھا ۔ چنانچہ چند سال تک تو میں نے کئی وعظوں میں فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جن کے نام سب مقفی ہیں : النور ، الظھور ، السرور ، الشذور ، الحبور وہاں ایک ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوکہ اسی سلسلہ میں ہے مقفی نہیں ۔ پھر کئی سال سے اس کا اتفاق نہیں ہوا کچھ اسبابِ طبعیہ ایسے مانع ہوئے جن سے یہ معمول ناغہ ہوگیا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ اس معمول سے التزام کا خیال نہ کریں جوکہ خلافِ واقع ہے کیوں کہ میرے اس معمول کی بڑی وجہ صرف یہ تھی ان ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور دنوں سے زیادہ یاد آتے تھے نہ کہ اس میں شرعی ضرورت کا اعتقاد یا عمل تھا ۔ (خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 198، 199)

فضل اور رحمت کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے : اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مبارک لیے جائیں ۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا ۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی ۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری ، اس پر خوش ہونا چاہیے ۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں ۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولتِ ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے ۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے ۔ (خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 64، 65،چشتی)

حکیم الامت دیوبند مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی کے مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اُن کا عقیدہ ہرگز مجالسِ میلاد کے قیام کے خلاف نہیں تھا ۔ وہ صرف اِس کےلیے وقت معین کرنے کے حامی نہیں تھے ۔ بہر حال میلاد شریف منانا اُن کے نزدیک جائز اور مستحب اَمر تھا ۔ (مزید حصّہ نمبر 16 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...