خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 10
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاریخ ولادت و وصالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ دوم : جماعت اہلحدیث کے مفسر مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں کہ : ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر کے روز دو شنبہ شب دواز دہم ربیع الاوّل عام فیل کو ہوئی ۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے ۔ ابن الجوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے ۔(الشمامۃ العنبریہ من مولد خیرالبریہ صفحہ ۷)
علامہ سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی) پیدائش ۱۲ تاریخ کو ربیع الاوّل کے مہینے میں پیرکے دن حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر (۵۷۱) برس بعد ہوئی ۔ (رحمتِ عالم صفحہ ۱۳ طبع مکتبہ دارارقم)
اہلحدیث کے مشہور مولوی عبدالستار اپنے پنجابی اشعار پر مشتمل کتاب میں لکھتے ہیں کہ :
بارھویں ماہ ربیع الاوّل رات سو سوار نورانی
فضل کنوں تشریف لیایا پاک حبیب حقانی
(کرام محمدی صفحہ ۲۷۰)
ابراہیم میر صادق سیالکوٹی اہلحدیث لکھتے ہیں کہ : بہار کے موسم بارہ ربیع الاوّل (۲۲اپریل ۵۷۱ء) سونموار کے روز نور کےتڑکے........امت محمدیہ کے زہےنصیب کہ یہ آیہ رحمت اسے عطا ہوئی ۔ (سیدالکونین صفحہ ۵۹ ، ۶۰)
دیوبندی مسلک کے مشہور عالم ابو القاسم محمد رفیق دلاوری لکھتے ہیں کہ : حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دوشنبہ کے دن ۱۲ ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ کے محلہ شعب بنو ہاشم میں اس مقام پر ظہور فرما ہوئے ۔ (سیرت کبریٰ، ج۱،ص۲۲۴)
دیوبند مسلک کے مفتی اعظم محمد شفیع آف کراچی لکھتے ہیں کہ : ماہ ربیع الاوّل کی بارھویں تاریخ روز شنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے انقلاب کی اصلی غرض آدم اور اولادآدم کا فخر کشتی نوح کی حفاظت کا راز ابراہیم کی دعا اور موسیٰ و عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقا ئے نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رونق افروز عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء،ص ۲۰،طبع دارالاشاعت،چشتی)
مزید لکھتے ہیں کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے متعلق)مشہور قول بارھویں تاریخ کا ہے۔ یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا ہے۔اور محمود پاشامکی مصری نے جو نویں تاریخ بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہ اختلاف مطالع ایسا اعتماد نہیں ہوسکتا کہ جمہور کی مخالفت اس کی بناء پر کی جائے ۔ (سیرت خاتم الانبیا صفحہ ۲۰)
علامہ اشرف علی تھانوی دوبندی بیان کرتے ہیں کہ : جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاوّل تاریخ ولادت شریف ہے ۔ ( ارشاد العباد فی عیدالمیلاد صفحہ ۵،چشتی)
قاری محمد طیب کے فرزند محمد اسلم قاسمی لکھتے ہیں کہ : بارہ ربیع الاوّل پیر کے روز بیس تاریخ اپریل ۵۷۱ء کو صبح کے وقت جناب آمنہ کے یہاں ولادت ہوئی ۔ (سیرت پاک صفحہ ۲۲)
دیوبند مسلک کے امام التفسیر احمد علی لاہوری لکھتے ہیں کہ : احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۱۲ ربیع الاوّل بیس اپریل ۵۷۱ء پیر کے دن عرب دیس کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے ۔ (ہفت روزہ خدام الدین صفحہ ۷، ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء)
جماعت اسلامی کے بانی جناب مودودی لکھتے ہیں کہ : ربیع الاوّل کی کون سی تاریخ تھی اس میں اختلاف ہے لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کا قول نقل کیا ہے کہ آپ ۱۲ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے تھے ۔ اس کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے ۔ (سیرت سرور عالم صفحہ ۹۳ جلد ۱)
سرسید احمد خان لکھتے ہیں کہ : جمہور مورخین کی رائے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل کے پہلے برس یعنی ابراہہ کی چڑھائی سے پچپن روز بعد پیدا ہوئے۔(سیرت محمدی صفحہ ۲۱۷)
نتیجہ کلام : ان تمام دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ ہمارے آقا نامدار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت ۱۲ ربیع الاوّل ہے اور اہل اسلام کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔
سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخِ ولادت و وصال کے متعلق اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی تحقیق
منکرین کے جھوٹ کا جواب : وہ جھوٹ قارئینِ کرام کی خدمت میں نقل کرتا ہوں : یا اللہ عزوجل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ولادتِ (پیدائش) نبی صلی اللہ علیہ وسلم 8 ربیع الاول ہے اور وفاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے تحقیقِ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی ۔ (نطق الہلال، صفحہ 12۔13، فتاویٰ رضویہ، جلد: 26، صفحہ: 412۔415)
جواب : اس گروہ نے عوامِ اہلسنت کو یہ دھوکا دینا چاہا کہ "دیکھو تمہارے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی تو یہ تحقیق ہے کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادتِ مبارک آٹھ ربیع الاول ہے، تو تم 12تاریخ کو جشنِ ولادت کیوں مناتے ہو جبکہ تمہارے امام کے نزدیک تو 12 ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہے، یہ تو غم کا دن ہے اور تم جشن منار ہے ہو، تم نبی سے محبت کا نہیں عداوت کا ثبوت دے رہے ہو۔" وغیرہ وغیرہ اور حوالہ دے دیا نطق الہلال اور فتاوٰی رضویہ کا اور یہ ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی یہ تحقیق نطق الہلال صفحہ 12،13 میں بھی ہے اور فتاویٰ رضویہ کی جلد 26 میں بھی ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے ہیں۔
اب ہم قارئینِ کرام پر حقیقت واضح کرتے ہیں : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ سے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و وصالِ مبارک سے متعلق چند تحریری سوالات کیے گئے۔ اُن کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا نام "نطق الہلال بار خ ولاد الحبیب والوصال" (یعنی حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وصال پر شہادتِ ہلال) رکھا۔ یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ شریف (جلد:26، صفحات: 405 تا 428) میں بھی شامل کیا گیا ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے نہیں بلکہ ایک ہی حوالہ ہے (یعنی نطق الہلال کا)۔
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک (پیدائش) کا دن پیر اور مہینہ ربیع الاول ثابت کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں تاریخ ولادت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:اس میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو (2)،آٹھ (8)،دس (10)،بارہ (12)، سترہ(17)، اٹھارہ (18)، بائیس(22)، سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولدِ اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اور مدارج النبوّت میں ہے) اور خاص اس مکانِ جنت نشان میں اِسی تاریخ کو مجلس میلادِ مقدس ہوتی ہے۔ علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی فرماتے ہیں:اَلْمَشھُوْرُ اَنَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ثَانِیَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ وَھُوَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقِ اِمَامِ الْمَغَازِیْ وَغَیْرِہ (شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ المقصد الاول ذکر تزوج عبد اللہ آمنۃ دار المعرفۃ بیروت1/132)
ترجمہ : مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے امام المغازی محمد بن اسحاق کا یہی قول ہے)۔ شرح مواھب میں امام ابن کثیر سے ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ (ترجمہ: جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے)۔ اِسی میں ہے،ھُوَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْعَمَلُ (ترجمہ: یہی وہ ہے جس پر عمل ہے)۔ شرح الہمزیہ میں ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ وَعَلَیْہِ العَمَلُ (ترجمہ: یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات : 411 تا 412)
محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے سات قول بیان فرمائے لیکن اِن میں سے اشہر یعنی زیادہ مشہور اکثر و ماخوذ یعنی اکثریت کا اختیار کردہ اور معتبر قول جس کو لکھا ہے وہ بارہ ربیع الاول ہے اور صفحہ 414 تک اِسی قول کو دلائل سے ثابت کیا ہے اِسی دوران صفحہ 412 پر ایک قول آٹھ تاریخ کا بھی آگیا اور زیجات حساب سے بھی اعلیٰ حضرت نے آٹھ ربیع الاول کیا۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اِسی قول کو اپنایا نہیں بلکہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت نے جمہور کے قول یعنی بارہ ربیع الاول پر عمل کو ہی بہتر و مناسب لکھا ہے۔آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا، دروغ گوئی اور بددیانتی کی ایک بڑی مثال ہے۔ فتاویٰ رضویہ کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کے دور میں (وہابیوں کی حکومت سے (یعنی 1926ء سے) پہلے خاص اُس مکان جہاں مکۂ معظمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی باقاعدہ طور پر بارہ ربیع الاول کو میلاد شریف کی مجلس ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنی کتاب "فیوض الحرمین" میں حرمین شریفین (مکہ و معظمہ و مدینہ منورہ) کی مجالس و محافلِ میلاد شریف کا ذکر فرمایا جن میں انہوں نے خود شرکت کی اور اُن محافل میں جن انوار و برکات کا انہوں نے مشاہدہ کیا وہ بھی اس کتاب میں بیان فرمائے ۔
نوٹ : شاہ ولی اللہ محدث بریلوی وہ بزرگ ہیں جنہیں دیوبندی اور اہل حدیث بھی اپنا پیشوا جانتے ہیں ۔
فتاوٰی رضویہ جلد 26 کے ہی صفحہ 428 پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :اور روزِ ولادت شریف اگر آٹھ بفرض غلط نو یا کوئی اور تاریخ ہو جب بھی بارہ کو عید میلاد کرنے سے کون سی ممانعت ہے۔" یہاں اعلیٰ حضرت "آٹھ" کے ساتھ "اگر" کا استعمال کر رہے ہیں اِس سے بھی معلوم ہوا کہ ولادت شریف کی آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا بالکل غلط، جھوٹ اور بد دیانتی ہے۔البتہ علمِ ہیات و زیجات کے حساب سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے یہ تحقیق فرمائی ہے وہ کہ ولادت شریف 8ربیع الاول کو ہوئی لیکن اِسے اختیار نہیں فرمایا۔ آپ کا مختار (اختیار کردہ) قول 12 ربیع الاول ہی کا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا تحریر سے واضح طور پر ثابت ہے۔
تاریخِ وصال
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں:قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 415)
اس گروہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:"اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417)۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا "اور تحقیق یہ ہے۔" وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی ۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:"تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418،چشتی)۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں)۔
آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418)
یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی۔
(اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419)
خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، "وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 426)
یعنی مدینہ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428)
اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 428،چشتی)
قدیم زمانہ سے یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پیرکے دن ۱۲/ربیع الاول کو ہوئی۔ اور ۱۲/ربیع الاوّل کو برصغیر میں حکومت کی طرف سے چھٹیاں بھی ہوتی ہیں؛ مگر افسوس کہ کچھ لوگ تاریخ ولادت کے بارے میں ایک مہم چلائے ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ربیع الاول کو نہیں ہوئی؛ بلکہ آٹھ(۸)یانو(۹)کو ہوئی، اور کچھ مصنّفین کے اقوال دلیل میں پیش کرتے ہیں؛مگر سچ بات یہ ہے کہ جمہور علماء اہل السنة وجماعت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی ہے۔ سیکڑوں علماء کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں۔ لہٰذاصحیح تاریخ ولادت کے متعلق علماء امت کے اقوال کا نقل کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس ص اور حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ربیع الاول کو ہوئی۔
مشہورموٴرخ امام محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وُلِدَ رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة (۱۲) لیلةً خَلَتْ مِنْ شَہْرِ ربیعِ الأول عامَ الفیل ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔(السیرة النبویة لابن ہشام۱/۲۸۴،تاریخ الطبری ۲ /۱۵۶، مستدرک حاکم۴۱۸۲، شعب الایمان للبیہقی ۱۳۲۴، الکامل فی التاریخ لابن الاثیر۱/۲۱۶)
مشہورموٴرخ ومحدث امام ابوحاتم ابن حبان (متوفی ۳۵۴ ہجری) لکھتے ہیں : وُلِدَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عامَ الفیل یومَ الاثنین لاثنتی عشرة (۱۲) لیلةً مَضَتْ من شہر ربیعِ الأول ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔(السیرة لابن حبان۱/۳۳)
امام ابوالحسن ماوردی شافعی (متوفی ۴۵۰ ہجری) لکھتے ہیں:وُلِدَ بعدَ خمسین یوماً من الفیل وبعدَ موتِ أبیہ فی یومِ الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش اپنے والدکے انتقال کے بعد،اور واقعہ فیل کے پچاس دن بعد پیرکے دن ۱۲/ ربیع الاول کو ہوئی۔(أعلام النبوة۱/۲۴۰)
علامہ قسطلانی (متوفی ۹۲۳ ہجری) لکھتے ہیں:والمشہورُ أنہ وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر(۱۲) شہر ربیع الأول، وہو قول ابن إسحاق وغیرہ․(المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۸۵،چشتی)
ترجمہ : مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ۱۲/ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔ اور یہی قول حضرت ابن اسحاق (تابعی) وغیرہ کا ہے۔
شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفی ۹۳۰ ہجری)لکھتے ہیں:قال علماء السیر: ولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی ربیع الأول یوم الاثنین بلا خلافٍ․ ثم قال الأکثرون: لیلة الثانی عشر(۱۲) منہ ۔
ترجمہ : علماء سیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کے مہینہ پیرکے دن ہوئی، اور جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کی تاریخ تھی۔(حدائق الأنوار ومطالع الأسرار۱/۱۰۵)
علامہ مناوی (متوفی۱۰۳۱ ہجری) لکھتے ہیں:الأصحُّ أنہ وُلِدَ بمکةَ بالشَّعَبِ بعدَ فجرِ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول عام الفیل ۔
ترجمہ : صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارہ ربیع الاول کی صبح شعب مکہ میں واقعہ فیل کے سال پیرکے دن پیدا ہوئے۔(فیض القدیر ۳/۵۷۳،چشتی)
علامہ ابوعبداللہ محمد زرقانی مالکی (متوفی۱۱۲۲ہجری) المواہب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں۔والشہور أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول، وہو قول محمد بن إسحاق) بن یسار إمام المغازی، وقول (غیرہ) قال ابن کثیر: وہو المشہور عند الجُمْہور، وبالغَ ابن الجوزی وابن الجزار فنقلاً فیہ الإجماعَ ۔
ترجمہ : مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ (۱۲) ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔اور یہی قول مغازی اورسیرت کے امام حضرت محمد ابن اسحاق بن یسار (تابعی) اور دیگر اہل علم کا ہے، علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیاہے۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة ۱/۲۴۸)
علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی (متوفی ۱۳۶۲ ہجری) لکھتے ہیں : جمہورکے قول کے موافق بارہ(۱۲)ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید المیلاد صفحہ ۵)
سیدسلیمان ندوی (متوفی ۱۳۷۳ ہجری) لکھتے ہیں : پیدائش ۱۲/تاریخ، ربیع الاول کے مہینہ میں پیرکے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر (۵۷۱) برس بعد ہوئی ۔ سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی ۔ (رحمت عالم صفحہ نمبر ۱۵)
مفتی محمد شفیع دیوبندی (متوفی۱۳۹۶ہجری) صدر مفتی دارالعلوم دیوبند و مفتی اعظم پاکستان لکھتے ہیں : الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد، لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروزِ عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء، ص۱۱)
ابوالاعلی مودودی (متوفی۱۳۹۹ ہجری) لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی، ولادت پیر کے روزہوئی، یہ بات خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کے سوال پر بیان فرمائی،(صحیح مسلم بروایت قتادہ)، ربیع الاول کی تاریخ کون سی تھی؟ اس میں اختلاف ہے؛ لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ کا یہ قول نقل کیاہے کہ آپ ۱۲/ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے، اسی کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے، اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے۔(سیرت سرور عالم،جلددوم،صفحہ ۹۳،۹۴)
مفتی محمودحسن گنگوہی (صدرمفتی دارالعلوم دیوبند) (متوفی۱۴۱۷ہجری) لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوئی، جوبنی زہرہ کے خاندان سے تھیں، اس مبارک ومسعود شادی کے بعد شہر مکہ میں حضرت آمنہ کے بطن سے دوشنبہ ۱۲/ربیع الاول مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ عیسوی کی صبح کے وقت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ظہور پذیر ہوئی ۔ (گلدستہ سلام صفحہ ۱۸)
سیدابوالحسن علی ندوی دیوبندی (متوفی۱۴۲۰ ہجری) لکھتے ہیں : وَوُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یومَ الاثنین الیومَ الثانی عشر من شہرِ ربیعِ الأول، عامَ الفیل أسعدَ یوم طلعت فیہ الشمس․(السیرة النبویة، صفحہ نمبر ۱۱۱،چشتی)
فتاویٰ لجنہ دائمہ ویابیی میں ہے:وُلِدَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة(۱۲) لیلةً مَضَتْ مِن شہرِ ربیعِ الاول عامَ الفیل․ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی) میں ہوئی۔( فتاوی اللجنة الدائمة، فتوی رقم۳۴۷۴)
نو (۹) ربیع الاول کے قول کی تردید میں مفتی محمد شفیع کی کتاب سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں اس طرح لکھاہے : مشہور قول بارہویں (۱۲) تاریخ کا ہے ؛ یہاں تک کہ ابن الجزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے ، اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے ، اور محمود پاشاعلی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہ حساب اختیار کیاہے ، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہِ اختلافِ مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتا ہے کہ جمہور کی مخالفت اس بناء پر کی جائے ۔ (حاشیہ سیرت خاتم الانبیاء صفحہ ۱۱)
محمودپاشاہ صاحب نے حساب سے ۹/ ربیع الاول، عام فیل کو پیرکادن قرار دیاہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتاہے، ہمارے حساب سے ۱۲/ ربیع الاول، عام فیل مطابق ۲۳/اپریل ۵۷۱ عیسوی کو پیرکادن پڑتاہے۔ جناب مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ بعض اہلِ تحقیق نے اسے ۲۳/اپریل ۵۷۱/ کے مطابق قراردیاہے۔(سیرت سرورِ عالم جلددوم صفحہ ۹۴)
بعضوں نے البدایة والنہایة کے حوالہ سے ۸ ربیع الاول کو راجح لکھاہے۔شایدبدایة میں پوری بحث پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ملی، اسی بدایة میں: قیل لثنتی عشرةَ․․․․․․․ وَہٰذا ہو المشہورُ عندَ الجمہورلکھاہوا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بارہ (۱۲) ربیع الاول کا قول جمہور کا قول ہے۔رہا روایت میں الثامن عشر کا لفظ ، بارہ ربیع الاول کے مخالف لوگوں کی مہربانی یاکتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے ؛ اس لیے کہ مصنف ۱۲ ربیع الاول کے قول کی دلیل میں یہ روایت نقل کررہے ہیں ، ۱۲ ربیع الاول کے قول میں ۱۸ کی روایت نقل کرنا مصنف کے مدعا کے خلاف ہے، نیز مصنف نے اپنی دوسری کتاب السیرة النبویة میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے۔ عَنْ جَابِرٍ وَابنِ عباسٍ أنَّہُمَا قالَا: وُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عامَ الفیل یومَ الاثنین الثانی عَشَرَ من شہرِ ربیعِ الاول۔۔۔۔نیزالبدایة والنہایہ کے مکتبہ المعارف بیروت سے شائع ہونے والے نسخہ کے حاشیہ میں اس طرح لکھا ہے:کذا رأیتہ الثامن عشر، والصوابہ الثانی عشر۔لہٰذا اہل علم حضرات سے گذارش ہے کہ کسی ایک کتاب کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں؛ بلکہ دوسری کتابوں سے بھی تحقیق کریں۔آج کل حدیث کی کتابوں میں تحریف وتبدیل کا سلسلہ جاری ہے۔شاملہ کے ایک نسخہ میں حدیث کے الفاظ دوسرے شاملہ کے الفاظ سے مختلف یا حذف ہیں۔ہمارے خیال میں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے، اس وقت مکہ میں ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی، اور دوسرے علاقوں میں دوسری تاریخ تھی ، کیونکہ قمری تاریخ ، مختلف ممالک میں مختلف ہوتی ہے۔غرض جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔لہٰذا صحیح،مشہور اور راجح قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔
رہا ۱۲ ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی (۸۱) دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲ ربیع الاول کو پیرکادن کسی طرح نہیں پڑتا ہے ، لہٰذا علامہ ابن حجر عسقلانی ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو (۲) ربیع الاول بروز پیر کو ہوئی ۔
علامہ سہیلی (متوفی۵۸۱ھ) نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفی ۹۳۰ ہجری) نے حدائق الانوار میں ، مفتی محمد شفیع دیوبندی (مفتی اعظم پاکستان) نے سیرت خاتم الانبیاء میں، میاں عابد احمد نے شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں دوم ربیع الاول لکھا ہے ، سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجر نے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطائی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے ۔
بارہ ربیع الاول ۱۱ ہجری کو پیرکادن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال یکم / یادوم ربیع الاول بروز پیر کو صحیح معلوم ہوتا ہے۔اوریہ تاریخ۲۸/ مئی ۶۳۲ عیسوی ہوتی ہے۔جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوااس وقت مدینہ میں دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ عیسوی پیرکادن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم /ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی پیرکا دن ہوگا۔ اس حساب سے یکم/اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہوگا۔غرض ہرجگہ پرپیرکادن تھااور ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہوسکتی ہے۔
تاریخ وصال 12 ربیع الاوّل ہرگز نہیں ہے
ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 11۔ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 662۔
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 420۔ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺟﻠﺪ 2
ﺻﻔﺤﮧ 129 ( ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ )ﮐﮧ ﺣﺠﺘﮧ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮯ ﺳﺎﻝ
ﯾﻮﻡِ ﻋﺮﻓﮧ ( 9 ﺫﻭﻟﺤﺠﮧ ) ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ
ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 93,94 ﭘﺮ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺮ
ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﻟﮩﺬﺍ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﯾﮑﻢ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﯾﮩﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﭘﯿﺮ ﮐﺎ ﺩﻥ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ
ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ۔ﺧﻮﺍﮦ ﺫﻭﺍﻟﺤﺠﮧ ، ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻭﺭ
ﺻﻔﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎﺩﻭ
ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ 29 ﺩﻥ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ
29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ 30ﺩﻥ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ۔
ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀﺍﺳﻼﻡ
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻣﺘﻮﻓﯽ 230 ﮪ۔ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﺟﻠﺪ
2 ﺻﻔﺤﮧ 208,209 ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﯿﮩﻘﯽ 458 ﮪ۔
ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﮦ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 235
ﺣﺎﻓﻆ ﻣﻐﻠﻄﺎﺋﯽ 762 ﮪ۔ ﺍﻻﺷﺎﺭﮦ ﺍﻟﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﯽ
ﺻﻔﺤﮧ 351 ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ (ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ ) 774 ﮪ۔
ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4ﺻﻔﺤﮧ 228
ﺣﺎﻓﻆ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ (ﺍﺑﻦِ ﺣﺠﺮ ) 852 ﮪ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8
ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﯽ 942 ﮪ۔
ﺳﺒﻞ ﺍﻟﮭﺪﯼ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ ﺟﻠﺪ 12 ﺻﻔﺤﮧ 305
ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺩﮨﻠﻮﯼ 1052 ﮪ۔ﺍﺷﻌﺘﮧ ﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ﺟﻠﺪ 4
ﺻﻔﺤﮧ 604 ﻋﻼﻣﮧ ﺑﺪﺭ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﯿﻨﯽ 855 ﮪ۔ﻋﻤﺪﺓ
ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺟﺰ 18 ﺻﻔﺤﮧ 60
ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﺭ ﯼ 1014 ﮪ۔ﺍﻟﻤﺮﻗﺎﺕ ﺟﻠﺪ 11
ﺻﻔﺤﮧ 238 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺳﮩﯿﻠﯽ 581 ﮪ۔ﺍﻟﺮﻭﺽ
ﺍﻻﻧﻒ ﻣﻊ ﺍﻟﺴﯿﺮﺓ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ440
ﯾﮑﻢ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ 571 ﮪ۔ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ
ﺩﻣﺸﻖ ﺟﻠﺪ2 ﺻﻔﺤﮧ 387 ﻋﻼﻣﮧ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﯿﻮﻃﯽ
911 ﮪ۔ﺍﻟﺘﻮﺷﯿﺢ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 143
ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺣﺒﻠﯽ 1044 ﮪ۔ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺟﻠﺪ3 ﺻﻔﺤﮧ
473 ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺟﻠﺪ
2 ﺻﻔﺤﮧ 106,107
ﻋﻼﻣﮧ ﻧﻮﺭ ﺑﺨﺶ ﺗﻮﮐﻠﯽ1367 ﮪ۔ ﺳﯿﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﻋﺮﺑﯽ
226 ﻋﻼﻣﮧ ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﻌﯿﺪﯼ ﺗﺒﯿﺎﻥ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺟﻠﺪ
7 ﺻﻔﺤﮧ 576
ﺷﯿﺦ ﺍﺷﺮﻑ ﻋﻠﯽ
ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ 1364 ﮪ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﯾﮟ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ (ﭘﯿﺮ ) ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ﭘﺲ ﺟﻤﻌﮧ ﻧﻮﯾﮟ
ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ
ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ۔ﻧﺸﺮﺍﻟﻄﯿﺐ ﺻﻔﺤﮧ 241۔
ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﺋﯽ
ﮐﮧ ﺛﺎﻧﯽ ( 2 ) ﮐﻮ ﺛﺎﻧﯽ ﻋﺸﺮ ( 12 ) ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ۔ ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ﺻﻔﺤﮧ 473 ,474) ، ﺍﮨﻞِ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ ۔ (مزید حصہ نمبر 11 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment