خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 5
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نزولِ رحمت کا دن عید ہے تو جس دن رحمتِ عالم صلی اللہ و آلہ وسلّم آئے : قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 114)
ترجمہ : عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔
قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ : عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ۔ حواریوں نے جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی : اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے موجودہ لوگوں کےلیے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کےلیے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی دلیل ہو جائے اور سب کےلیے عید ہو جائے یعنی ہم اس کے اترنے کے دن کو عید بنائیں ، اس کی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں اور شکر بجا لائیں ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اُس دن کو عید بنانا ، خوشیاں منانا ، عبادتیں کرنا اور شکرِ الٰہی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے اور بیشک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یقینا قطعاً حتماً اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے ۔ اس لیے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجالانا اور فرحت و سُرور کا اظہار کرنا مستحسَن و محمود اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : جب سرکارِ کُل عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے عرض کی : یہ اچھا دن ہے ۔ اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا روزہ رکھا ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تمہاری نسبت میرا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تعلق زیادہ ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشورا ، ۱/۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴،چشتی)
ترمذی شریف میں ہے ، حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے ایک یہودی کی موجودگی میں یہ آیت پڑھی : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًا ؕ ۔
ترجمہ : آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند فرمایا ۔
یہ آیت سن کر اس یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اسے عید بنالیتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا : یہ آیت ہماری دو عیدوں کے دن میں اتری یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن ۔ (جامع ترمذی کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵/۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس کی شرح میں حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ جن تاریخوں میں اللہ کی نعمت ملے انہیں عید بنانا شرعاً اچھا ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جمعہ کا باب، تیسری فصل، ۲/۳۱۴ الحدیث : ۱۲۸۸)
ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے جامع البیان فی تفسیر القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں قولِ صحیح نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس دعا کا معنی یہ ہے کہ نزولِ خواں کا دن ہمارے لیے عید ہو جائے، اس دن ہم اسی طرح نماز پڑھیں گے جیسے لوگ عید کے دن نمازِ شکرانہ ادا کرتے ہیں ۔ (جامع البيان في تفسير القرآن، 7 : 177)
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں ، اس کی تعظیم و تکریم کریں ، ﷲ کی عبادت کریں اور شکر بجا لائیں ۔ اِس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن ﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے ، اس دن شکر الٰہی کے ساتھ اِظہارِ مسرت کرنا ، عبادت بجا لانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل ﷲ کا شیوہ رہا ہے ۔ امام الانبیاء ، محسنِ انسانیت حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ و برتر کی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے ، کیوں کہ اسے خود ﷲ نے نعمت قرار دیا ہے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا ، شکرِ اِلٰہی بجا لانا اور اظہارِ مسرت و شادمانی کرنا انتہائی مستحسن و محمود عمل ہے ، اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الٰہی کا طریقہ رہا ہے ۔
یومِ تکمیلِ دین بہ طورِ عید منانا جائز ہے تو جس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے دین ملا اُس کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن عیدوں کی عید کیوں نہ ہو ۔
حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا : میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کون سی آیت ؟ حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ نے کہا : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا ۔ (سور المائدة، 5 : 3)
ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ۔ اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ) ، يوم جمعة ويوم عرفة ، وهما لنا عيدان ۔ میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن ، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں ۔ (طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830)(عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45،چشتی)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14)
ﷲ ربّ العزت کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین کی تکمیل کا مژدہ ملنے والے دن کو بہ طور عید منانے کے خیال کا حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی طرف سے اِظہار اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید و توثیق اِس اَمر کی دلیل ہے کہ ہماری قومی و ملی زندگی میں ایسے واقعات ، جن کے اَثرات کا دائرہ قومی زندگی پر محیط ہو ان کی یاد ایک مستقل event یعنی عید کے طور پر منانا نہ صرف قرآن و سنت کی رُوح سے متصادِم نہیں بلکہ مستحسن اور قومی و ملّی ضرورت ہے ۔
نوٹ : میلاد شریف کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کےلیے علامہ اسماعیل نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جواہرُ البحار ‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں ۔
میلاد کو عید میلاد کیوں کہتے ہو کا جواب
اصل میں آپ لوگ ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔
عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ
ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ ﷲ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کےلیے مقرر کیا گیا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کےلیے ہیں ‘‘ اس لیے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو ، اس دن کےلیے عید کا لفظ مستعمل ہو گیا ہے جیسا کہ ﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو ‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو ۔
علامہ راغب اصفہانی رحمة ﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں ۔
1 : جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو ۔
2 : جس میں ﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو ۔
3 : جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو ۔
الحمدﷲ عزوجل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں ۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایک مسلمان کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے ؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی ، ایمان کی لازوال دولت ملی ، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لیے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے ؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان نعمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کےلیے یوم عید ہو سکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام دیں اور عید منائیں ۔
کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت فقیر کے پاس موجود کتاب کے اعتبار کےلیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کےلیے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کےلیے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں ۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب اللدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمة ﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبدﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں : ⬇
جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ ۔ جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند ۔ جناب اعزاز علی مدرس مدرسہ دیوبند ۔ جناب سراج احمد رشیدی مدرس مدرسہ دیوبند ۔ جناب محمد انور معلم، دارالعلوم دیوبند ۔ اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمة ﷲ علیہ فرماتے ہیں : ﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری ، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے ۔
نویں صدی کے محدث حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رات بہ طور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے ، وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہو جاتا ہےاصل عبارت : وقد روعی ابولہب بعد موتہ فی النوم ، فقیل لہ: ما حالک ؟ قال : فی النار ، الا انہ خفف کل لیلۃ اثنتین وامص من بین اصبعی ہاتین مائ ، و اشار الی راس اصبعیہ ، وان ذلک باعتافی لثویبۃ عندما بشرتنی ۔ بولادۃ النبی صلی ﷲ علیہ وسلم وبارضا عہالہ قال ابن الجوزی : فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحۃ لیلۃ مولد النبی صلی ﷲ علیہ وسلم، فما حال المسلم من امتہ بسر بمولدہ ، ویبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ؟ لعمری ! انما کان جزاؤہ من ﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ولایزال اہل الاسلام یحتفلون بشہر مولدہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ویعملون الولایم ویتصدقون فی لیلالیہ بانواع الصدقات ویظہرون السرور ویزیدون فی المبرات ویعتنون بقراءۃ مولدہ الکریم ویظہر علیہم من مکانہ کل فضل عمیم و مماجرب من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجل بنیل البغیۃ والمرام ، فرحم ﷲ امرا اتخذلیالی شہر مولدہ المبارک اعیاد الیکون اشد غلبۃ علی من فی قلبہ مرض وعناد ۔
ترجمہ : امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں (متوفی 943ھ) : ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا ۔ اب تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں ، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی ولادت کی خبر دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دودھ بھی پلایا تھا ۔ امام ابن جزری کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے ۔ جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے ۔ تو اُمّت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجر وثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت و عشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے ؟ خدا کی قسم ! میرے نزدیک ﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا ۔ اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں ، دعوتیں کرتے ہیں ، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اظہار کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں ۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں ۔ میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفل میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شب بطور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ جلد اول صفحہ 78 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
الیوم اکملت لکم دینکم کا یوم نزول عید کے طور پر منانا
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) نازل ہوئی تو یہودی اسے عام طور پر زیرِ بحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے ۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دن بہ طور عید منانے پر اتشہاد کیا گیا ہے ۔
1 ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ (256-194ھ)صحیح بخاری میں روایت کرتے ہیں : عن عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ ان رجلا من الیہود قال لہ : یاامیر المومنین ! آیۃ فی کتابکم تقرؤونہا ، لو علینا معشر الیہود نزلت ، لاتخذنا ذلک الیوم عیداً، قال : ای آیۃ ؟ قال (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) قال عمر : قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ علی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وہو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب زیادۃ الایمان و نقصانہ جلد 1 حدیث 45 صفحہ 25،چشتی)
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے : ایک یہودی نے ان سے کہا : اے امیر المومنین ! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہ یہود پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنالیتے ۔ آپ نے پوچھا کون سی آیت ؟ اس نے کہا (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نازل ہوئی ، ہم اس کو پہچانتے ہيں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے ۔
اس حدیث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے ، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ انہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں ۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا ، مگر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ فرمانے لگے ۔ قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ ’’ ہم اس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا ، عرفات کا میدان تھا ۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے ۔ آپ رضی ﷲ عنہ نے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتادیا کہ یوم حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں ۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں ۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا ۔
حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (852 - 773ھ) تبصرہ کرتے ہیں : عندی ان ہذہ الروایۃ اکتفی فیہا بالاشارۃ ۔ (فتح الباری، جلد اول، حدیث 45 صفحہ 105)
ترجمہ : میرے نزدیک اس روایت میں اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ۔
2 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب احبار رضی ﷲ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ (سورۃ المائدہ پارہ 5، آیت 3)
ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ۔ اس پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : انی لاعرف فی ای یوم انزلت : (الیوم اکملت لکم دینکم) یوم جمعۃ ویوم عرفۃ، وہما لنا عیدان ۔ (المعجم الاوسط، جلد اول، حدیث 830 صفحہ 253،چشتی)
ترجمہ : میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی ، جمعہ اور عرفات کے دن ، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں ۔
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا ۔ اسی لیے اس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ اس وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر رکھے ہیں ، لہذا ہم اس دن کو بہ طور عید نہیں منا سکتے ۔ بہ الفاظ دیگر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یوم عرفہ اور یوم جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں ۔
3۔ اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن ابی عمار رضی ﷲ عنہ نے روایت کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا ۔ اس نے کہا : لو انزلت ہذہ علینا لاتخذنا یومہا عیداً ’’ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے ۔ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : فانہا نزلت فی یوم عیدین : فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ (ترمذی شریف، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورۃ المائدہ، حدیث نمبر 3044 جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 250،چشتی)
ترجمہ : بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ۔
حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے یہودی کا قول رد نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں ۔
ان احادیث سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے ۔ جس طرح تکمیل دین کی آیت کا یوم نزول روز عید ٹھہرا ، اِسی طرح وہ دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی ، اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جاسکتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ عیدِ میلاد منانا اصل حلاوت ایمان ہے مگر اس کےلیے ضروری ہے کہ حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں ، ان کا جشن میلاد منانے کےلیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیت ایمان کی نشاندہی کرتا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی ۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عیدُالجمعہ اور عیدُالحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا ۔ لہذا اہل ایمان کےلیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ ہوئی ، وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے ۔ جمہور اہلِ اسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمت ابدی کے حصول پر ہدیہ شکر بجالاتے ہیں ۔ اس دن اظہار مسرت و انبساط عین ایمان ہے ۔ جمہور امتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے ۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عیدُالفطر اور عیدُالاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم یہی سوال حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عیدُالفطر اور عیدُالاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے : فانہما نزلت فی یوم عیدین : فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ ۔ ’’ بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ‘‘ اس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یوم عرفہ تو عیدُالاضحیٰ کا دن ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہم نے یومِ جمعہ کو بھی یوم عید قرار دیا ہے ۔ اور اگر ان اجل صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ وہ تو عیدُالاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ ان صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ انسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفہ آسمانی اور ہدایت ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ۔ (مزید حصّہ نمبر 6 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment