بریلوی مخالفینِ اہلسنت کا دیا ہوا نام اہلسنّت و جماعت کے نام پیغام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار ونظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء ومشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔
اسی سال پہلے سب سنی حنفی بریلوی خیال کے تھے مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری : ⬇
مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیرمقلد وہابی لکھتے ہیں : اسی (80) سال پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (رسائل ثنائیہ ، شمع توحید صفحہ نمبر 163 مطبوعہ لاہور)
معلوم ہوا وہابیت اس کے بعد کی پیداوار ہے برِّ صغیر پاک و ہند میں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات وہی ہیں جو قدیم سنی مسلمانوں کے تھے بطور پہچان آج کل انہیں بریلوی حنفی کہا جاتا ہے حق حق ہوتا ہے ۔
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اہل حدیث لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی'' کہتے ہیں''۔ (ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، مطبوعہ سبحانی اکیڈمی لاہور، ص٣٧٦)
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے ، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر البریلویہ صفحہ ٧)
تاجدارِ بریلی رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادہ کے چشم و چراغ تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں یہی کہوں گا کہ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3)
مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے ، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی ، نیز سلف صالحین وائمّہ و مجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کےلیے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا ؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کر لیا گیا ؟ ۔ (تقدیم ''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور صفحہ ١٠۔١١،چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر البریلویہ صفحہ ٧)
اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد و افکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت کے چلے آہے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں ، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے ، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں ، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جا سکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو ، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔
امام اہل سنت شاہ احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت و جماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کےلیے سُنی ہونا شرط تھا ، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : ⬇
سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہو سکتا ہو ، یہ وہ لوگ ہیں ، جو ائمہ دین ، خلفاٸے اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی ، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی ، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی ، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری ، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مسلک پر ہو ۔ (خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور صفحہ نمبر ٨٥ ، ٨٦،چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے ، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا ، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا ، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی، حیات شبلی صفحہ ٤٦)
مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں (امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (موج کوثر طبع ہفتم١٩٦٦ صفحہ ٧٠،چشتی)
غیرمقلدین وہابیہ کے شیخ الاسلام مولوی ثناء ﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی ، غیر مسلم آبادی (ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے ، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (شمع توحید مطبوعہ سرگودھا صفحہ ٤٠)
یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن و حدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں ، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں ، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں ۔
علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے ، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ ﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے ۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی ﷲ رحمۃ ﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩/١٣٨٨ھ صدحہ ٤٨)
پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ '' شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہو سکا '' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں ، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے ۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩،چشتی)
تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان ازہری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی ، کیا یہ اچھی بات ہے ۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ : بریلوی کوئی مسلک نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اہلسنت و جماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور ﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور ﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضور ﷺ کی امت کے اولیاٸے کرام سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے ، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم لاہور فروری 1988 صفحہ 14،چشتی)
ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں ۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے ۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات صفحہ 300)
صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں ۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیے یا مودودیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے ؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کےلیے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلوی اور امورِ بدعت صفحہ 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment