عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیأ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں ۔ (صحیح بخاری کتاب صفحہ 501 جلد 1)(صحیح مسلم صفحہ 248 جلد 2)(مسلم شریف، کتاب الفضائل باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین صفحہ 1255 حدیث 22)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیاۓ کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے : (۱) مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ہے (۴) روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم صفحہ 199 جلد 1)(مشکوٰۃ صفحہ512)
اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ، اس کے آخر میں ہے : وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 512) ترجمہ : پہلے انبیا کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (بخاری صفحہ633 جلد2) ۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ : میرے بعد نبوت نہیں ۔ (صحیح مسلم صفحہ278 جلد2)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیا کیا کرتے تھے ، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلفا ہوں گے اور بہت ہوں گے ۔ (صحیح بخاری صفحہ 491 جلد 1،چشتی)(صحیح مسلم صفحہ 126 جلد2)(مسند احمد صفحہ 297 جلد 2)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ۔ (سنن ابوداؤد صفحہ نمبر 127 جلد نمبر 2)(جامع ترمذی صفحہ نمبر 45 جلد نمبر 2)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہو چکی ہے ، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی ۔ (ترمذی صفحہ 51 جلد 2)(مسند احمد صفحہ 267 جلد 3)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی ۔ (صحیح بخاری صفحہ 120 جلد 1،چشتی)(صحیح مسلم صفحہ 282 جلد 1)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ۔ (ترمذی صفحہ 209 جلد 2)
حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں : میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (متفق علیہ ، مشکوۃ الصابیح صفحہ 515)
متعدد احادیثِ مبارکہ میں یہ مضمون آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : بعثت أنا والساعۃ کھاتین “ مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے ۔ (مسلم صفحہ 406 جلد 2)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا ۔ (اور حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ) : عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ جنتی ہے ، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (ابو داؤد شریف کتاب الفتن والملامع باب ذکر الفتن و دلا ئلھا ، 4/132، الحدیث 4252،چشتی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں تمام پیغمبروں کا خاتم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا ۔ (مجمع الاوسط باب المؤسط من اسمہ احمد 63/1، حدیث 17)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے ، نہ کوئی نبی ۔ (جامع ترمذی کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذھبت النبوۃ و للقیت المبشرات 4/121 حدیث 2,279)
وَ لٰکنْ رَّسُوْلَ اللّٰہ ِوَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ۔ یہ نص قطع قرآنی ہے ، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا ، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے تو ہم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ، ملعون ، مُخلّد النیرانِ یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ رسالہ جزاء اللہ عدوہ باباہ ختمِ نبوۃ 630/15،چشتی)
حدیث : لا نبی بعدی ۔
ترجمہ : میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
اور جو کہے کہ نبی آئے گا تو وہ کافر ہے ، کیونکہ یہ اس نص کا انکار ہے ۔ اب جو کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی آ سکتا ہے ، تو وہ گویا یہ کہتا ہے کے اس محل کی ایک اینٹ کو ہٹا کر اس کی جگہ اینٹ لگائی ہے یا ان میں سے ایک اینٹ کو معزول کیا جائے ، جو کہ نہیں ہو سکتا ، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی ، کوئی رسول نہیں آسکتا ۔
اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے ، وہ کافر ہے اور جو کافر کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔
نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی ، حتیٰ کہ جب حضرت عیٰسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہوں گے ، مگر نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہونگے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معطمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ۔ (تفسیر خازن الاحزاب الآیۃ :40، 3/503،چشتی)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب کُفر کو مٹاتا ہے ، میں حاشر ہوں ، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا ، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (جامع ترمذی کتاب الادب باب ما جاءفی اسماء النبی ﷺ جلد 8 صفحہ 382 الحدیث 2849)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں تمام پیغمبروں کا خاتم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا ۔ (مجمع الاوسط، باب الالف من اسمہ احمد 63/1، حدیث 170)
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا ، جب حضرت آدم علیہ السلام اپنے مٹی میں گُندھے ہوئے تھے ۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرض بن ساریہ عن النبی ﷺ 6/87، حدیث17163)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے ، نہ کوئی نبی ۔ (جامع ترمذی کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات 4/121 حدیث 2,279)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا : اَمَا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ غَیْر اِنَّہٗ لَاْ نَبِیَّ بَعْدِیْ ۔(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ صفحہ 1310 الحدیث 31 (2404)
یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ربّ سے سے کلام کےلیے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے ، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے ، جب کہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کےلیے نبوت نہیں ، اس لیے تم نبی نہیں ہو ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے ۔ (جامع ترمذی کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات، 4/121، حدیث 2،279،چشتی)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں ، لہذا تم اپنے ربّ کی عبادت کرو ، پانچ نمازیں پڑھو ، اپنے مہینے کے روزے رکھو ، اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ، اپنے حُکام کی اطاعت کرو (اور) اپنے ربّ کی جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ (معجم الکبیر صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی ۔ الخ ، محمد بن زیاد الالہانہ عن ابی امامۃ ، 8/115 ، حدیث 7535)
دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی ، کوئی رسول نہ آیا ہے ، نہ آ سکتا ہے اور نہ آئے گا ، اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرا برابر شک اور تردّد کرنے والا دائرہ اِسلام سے خارج ہے ۔
بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے ، نہ کوئی نبی ۔ (ترمذی،4/121 ، حدیث 2279)
اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں ۔ (معجم کبیر، ج8، ص115، حدیث7535)
میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل گھر بنایا ، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی ؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ (مسلم صفحہ 965 حدیث5961،چشتی)
بیشک میں اللہ تعالی کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔(کنزالاعمال، جزء:6،11/188، حدیث 31957)
میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالی میرے سبب سے کُفر مٹاتا ہے ، میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا ، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔(جامع ترمذی جلد 4 صفحہ 382 حدیث 2849)
ضروری وضاحت : قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے ، امام جلالُ الدّین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گے ، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِتباع کرنے والوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمّت میں سے ہوں گے ۔ (خصائص کبری،2/239)
نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی
وہ ہیں شاہِ رُسل ، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں
لگا کر پُشت پر مہرِ نبوت حق تعالی نے
انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں
(قبالہ بخشش صفحہ 115)
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی رہنمائی کےلیے اپنے انبیاء اور رسولوں علہم السلام کو بھیجا جن کی مکمل تعداد وہی جانتا ہے اور سب سے آخر میں ہمارے نبی محمد مصطفی ، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیجا ۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر ، کافر اور اسلام سے خارج ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کےآخری نبی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
قال اللہ تعالیٰ : وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ۔
ترجمہ : لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ (الاحزاب : پارہ 30،22)
وَقَالَ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْن لَانَبِیَّ بَعْدِی ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (جامع الترمذی ابواب الفتن باب ماجاء لاتقوم الساعۃ الخ 2/45،چشتی)(فتاویٰ رضویہ جلد 11 کتاب النکاح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : بیشک رسالت و نبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ نبی علیہ السلام ۔ (جامع الترمذی،ابواب الرؤیا باب ذھبت النبوۃ ، 2/ 51)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور دوسرے نبیوں کی مثال اس محل کی سی ہے جس کی تعمیر بہت اچھی کی گئی اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی دیکھنے والے اس کے گرد چکر لگاتے تھے اور اچھی تعمیر سے تعجب کرتے تھے سوا اس اینٹ کے تو میں نے ہی اس اینٹ کی جگہ پُر کردی مجھ پر انبیاء ختم کردیے گئے اور مجھ پر رسول ختم کردیے گئے ایک روایت میں ہے کہ وہ آخری اینٹ میں ہی ہوں اور نبیوں میں آخری نبی ہوں ۔ (مسلم و بخاری)
اب کسی نبی کی نبوت ممکن نہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام بے شک تشریف لائیں گے مگر وہ پہلے کے نبی ہونگے ، نہ کہ بعد کے ، اور اب امتی کی حیثیت سے تشریف فرما ہونگے ۔ جیسے آخری بیٹا وہ ہے جس کے بعد کوئی بیٹا پیدا نہ ہو یہ ضروری نہیں کہ پچھلے سارے بیٹے مرچکے ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے بعد کوئی پیدا نہ ہوگا ، اگر پہلے کے کوئی نبی زندہ ہوں تو مضائقہ نہیں ۔ چار نبی اب تک زندہ ہیں ۔ دو زمین پر حضرت خضر اور حضرت الیاس اور دو آسمان پر حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ، ان کی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے خلاف نہیں ۔ (مراٰۃ شرح مشکواة جلد 6 صفحہ 7)
اعلی حضرت علیہ الرحمہ کیا خوب فرماتے ہیں : ⬇
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جَا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
خاَتَمُ النَّبیِّین کے معنی آخِرُ النبیِّین ہیں اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلسلہ نبوت ختم فرما دی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نائب و امّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے ۔
عقیدہ ختمِ نُبُوّت دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے یہ ایک احساس ترین عقیدہ ہے ختمِ نبوت کا انکار قرآن کا انکار ہے ختمِ نبوت کا انکار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کا انکار ہے ختمِ نبوت کو نہ ماننا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک زمانہ سے لیکر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے اللّٰہ تعالیٰ کا فرمانِ عظیم ہے : محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہی ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (پارہ 22 سورہ الاحزاب: 40)
ختمِ نبوت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ خَاتَمَ النَّبیِّین کے معنی میں طرح طرح کے بے بنیادی ، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاویلات فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث ، فرامین و اجماع صحابہ اور مفسرین ، محدثین ، محققین ، متکلمین اور ساری امَّتِ محمَّدیہ کے خلاف ہیں ۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خَاتَمُ النَّبیِّین کا معنیٰ آخِری نبی ہی ہے کثیر مفسرِین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخِری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے ۔
صاحبِ بہارِ شریعت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، یعنی اللّٰہ پاک نے سلسلۂ نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم کردیا ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے ، کافر ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1صفحہ 63)
پیغامِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا میں اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے ، جو کالے گورے ، عرب و عجم ، ترک و تاتار ، ہندی و چینی ، زنگ و فرنگ سب کےلیے عام ہے ، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے ، تمام دنیا کا پروردگار ہے ۔ (رب العالمین) اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول ہیں ، تمام دنیا کےلیے رحمة اللعالمین ہے اور ان کا پیغام تمام دنیا کےلیے ہے ۔
انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء علیہم السلام کی روحانیتِ عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے ، مثال : جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں ، حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ر تبے اور زمانے ، ہر لحاظ سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو بھی نبوت ملی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی مُہر سے ملی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت مکمل ہو گئی اور کوئی جگہ باقی نہیں رہی ، جسے پُر کرنے کے لئے کسی نبی کے آنے کی ضرورت ہو، نبوت و رسالت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم ہو گیا ، آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ، وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس عقیدے کا منکر قطعاً کافر اور ملتِ اسلام سے خارج ہے ۔
وہ دانہ رُسل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا، فروغ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل ، وہی آخر وہی قرآن وہی فرقاں ، وہی یٰسین وہی طہٰ
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیا ہی اعلیٰ شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جیسے رحمۃ اللعلمین ، سید المرسلین ، راحت العاشقین ، شفیع المذنبین اور نبیُّ الحرمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنا کر بھیجا ہے اسی طرح (خاتم النبیین) بھی بنا کر بھیجا ہے چنانچہ ابو نعیم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : جب موسیٰ علیہ السلام پر توریت اُتری ، اسےپڑھا تو اس میں اس امّت کا ذکر پایا ۔ عرض کی : اے میرے رب ! میں ان لوحوں میں ایک امت پاتا ہوں کہ وہ زمانے میں سب سے پچھلی اور مرتبے میں سب سے اگلی ، تُو اس امت کو میری امت کر دے ، فرمایا : یہ احمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی امت ہے ۔ (دلائل النبوۃ ،1/ 4)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جبریل امین علیہ السلیم نے حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی : حضور کا رب فرماتا ہے : بےشک میں نے تم پر انبیا کو ختم کیا اورکوئی ایسا نہ بنایا جو تم سے زیادہ میرے نزدیک عزت والا ہو ، تمہارا نام میں نے اپنے نام سے ملایا کہ کہیں میرا ذکر نہ ہو جب تک میرے ساتھ یاد نہ کئے جاؤ ۔ بے شک میں نے دنیا واہلِ دنیا سب کو اس لیے بنایا کہ تمہاری عزت اور اپنی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ ان پر ظاہر کروں ۔ اگر تم نہ ہوتے تو میں آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے اصلًا نہ بناتا ۔ (مختصر تاریخ دمشق،2/ 137۔136)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیا شان ہے ! اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا مقرب بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین علیہم السلام بنا کر بھیجا کہ آپ جیسا اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین بنا کر تمام نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے سردار بنا دیے گئے اور اس وجہ سے سب امتوں سے زیادہ اس امت کو اہمیت دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہو نے کی بدولت ہم جیسے گنہگاروں کو بھی اللہ تعالیٰ نے خوش خبری سنائی ہے ۔ چنانچہ خطیبِ بغدادی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : شبِ اسریٰ مجھے میرے رب نے نزدیک کیا یہاں تک کہ مجھ میں اور اس میں دو کمان بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہا اور مجھ سے فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا تجھے اس کا غم ہوا کہ میں نے تجھے سب پیغمبروں کے پیچھے بھیجا ، میں نے عرض کی نہیں ۔ فرمایا : کیا تیری امت کو اس کا رنج ہوا کہ میں نے انہیں سب امتوں کے پیچھے رکھا ؟ میں عرض کی نہیں ۔ فرمایا : اپنی امت کو خبر دے دے کہ میں نے انہیں سب سے پیچھے اس لیے کیا کہ اور امتوں کو ان کے سامنے رسوا کروں اور انہیں اوروں کے سامنے رسوائی سے محفوظ رکھوں ۔ (تاریخ بغداد،5/ 130)
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جڑی ہر چیز میں کئی ہزار راز چھپائے ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین بناکر آپ پر دینِ اسلام مکمل کیا ۔ اب یہی دینِ اسلام کا پرچم قیامت تک لہراتے رہے گا ان شاءاللہ ۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کےلیے جن پاک بندوں کو اپنے احکام پہنچانے کے واسطے بھیجا ، ان کو نبی کہتے ہیں ، انبیا علیہم السلام وہ بشر ہیں ، جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے ، انبیا علیہم السلام کے مراتب میں فرق ہے ، بعضوں کے رُتبے بعضوں سے اعلیٰ ہیں ، سب سے بڑا مرتبہ ہمارے نبی حضرت محمدِ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم کردیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ، جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد نمبر 1 عقائدِ متعلقہ نبوت صفحہ نمبر 63،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ اُمّت سے ثابت ہے ، قرآنِ مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور احادیثِ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اُمّت کا اجماعِ قطعی بھی ہے ۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ (تفسیر صراط الجنان جلد ہشتم صفحہ 47)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ، رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے ، میں حا شر ہوں ، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا ، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (جامع ترمذی ابواب الادب باب ما جاء فی اسماء النبی،2/111، حدیث2840،چشتی)
قرآنِ پاک کے بعد عقائدِ اسلامیہ کا بنیادی ماخذ چونکہ حدیثِ رسول ہے ، ایک حدیث مبارکہ میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اچھے اوصاف کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ، مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے ، رعب و دبدبے سے میری مدد کی گئی ، میرے لیے عظمتیں حلال کر دی گئیں ، میرے لیے ساری زمین پاک کردی گئی اور مسجد بنا دی گئی ، مجھے ساری مخلوق کی طرف چُن کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کیا گیا ۔(صحیح مسلم کتاب المساجد صفحہ 164)
سیاستِ انبیائے کرام علیہم السلام اور ختمِ نبوت : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل کا مال دنیا سے انتظام انبیائےکرام علیہم السلام کرتے تھے ، جب کبھی ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کے قائم مقام ہو جاتا اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (صحیح بخاری صفحہ 582)
آپ کے بعد کوئی نبی نہیں : حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں یعنی اللہ پاک میرے سبب سے کُفر کو مٹاتا ہے ، میں حاشر ہوں ، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا ، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (صحیح بخاری صفحہ 869)
تیس دجال نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے میرے لیے زمین سمیٹ دی ، میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھا ، عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے ، حالانکہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور بخاری کے الفاظ ہیں ، تقریباً تیس دجّال کذّاب ہوں ۔ (سنن ابو داؤد صفحہ نمبر 666)
لو کان بعدی نبیا لکان عمر بن الخطاب : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ (جامع ترمذی ابواب صفحہ 840) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment