کرامات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ حق ہیں منکرین کو مدلّل جواب
محترم قارئینِ کرام : حضرات انبیاء کرام و رُسُل عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے معجزات اور اہل بیت وصحابہ اور اولیاء و صالحین رضی اللہ عنہم اجمعین کی کرامات کے برحق ہونے کا ذکر قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں موجود ہے ، علماءِ امت کا اس پر ابتداءِ اسلام اتفاق ثابت ہے ۔ اللہ تعالی کے وہ محبوب ومقرب بندے جنہوں نے زندگی بھر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا ، اپنی زندگی کا ہر لمحہ یاد الٰہی کےلیے وقف کیا ، دنیوی لذتوں کو ترک کر کے اپنی ساری توانائیاں دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کیں ، ایسے مقربان بارگاہ الہی کےلیے آخرت میں بلند مقامات اور اعلی درجات ہیں ، نیز دنیا میں اللہ تعالی نے ان کی شان وعظمت آشکار کرنے کےلیے خصائص و امتیازات عطا فرمائے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ ۔
ترجمہ : اور بے شک ہم نے "زبور" میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا : یقینا زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔ (سورۃ الانبیاء۔ 105)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ "زمین" سے مراد جنت کی زمین ہے ، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے دنیا کی زمین مراد ہے اور علامہ ابن کثیر نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ : اولیاء وصالحین 'دنیا وآخرت ہر دو کی زمین کے وارث ہوتے ہیں : يقول تعالی مخبرا عما حتمه وقضاه لعباده الصالحين ، من السعادة فی الدنيا والآخرة، ووراثة الأرض في الدنيا والآخرة -
ترجمہ : اللہ تعالی ان چیزوں سے متعلق بیان فرمارہا ہے جس کا اس نے اپنے نیک بندوں کےلیے قطعی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے کہ دنیا وآخرت میں ان کےلیے سعادت ہے اور دنیا و آخرت میں زمین ان کی وراثت ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 384 سورۃ الانبیاء ۔105،چشتی)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اولیاءِ کرام و صالحین عظام کو ‘ زمین کا وارث بنا دیا ، مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف و اختیار کا حق حاصل ہوتا ہے ، یہ حضرات زمین میں صاحبِ تصرف و بااختیار ہوتے ہیں ، ان مقربین بارگاہِ خداوندی سے جو خلافِ عادت کام ظاہرہوتے ہیں اور خلاف عقل امور وقوع پذیر ہوتے ہیں ، اُنہیں "کرامات" کہا جاتا ہے۔
اہل سنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ’’اولیاء کرام کی کرامتیں ثابت و برحق ہیں‘‘یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ، جیسا کہ فن عقائد میں پڑھائی جانے والی درسِ نظامی کی مشہور کتاب "شرح عقائد نسفی" میں مذکور ہے : وکرامات الاولياء حق ۔
ترجمہ : اولیاء کرام کی کرامات برحق ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیۃ صفحہ 144)
منکرین کے امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ: اہل سنت و جماعت کے اصول میں سے ہے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچھ ان کے ہاتهو ں پر خوارق عادات صادر ہوتے ہیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا الخ ۔ (مجموع الفتاوى جلد 3 صفحہ 156،چشتی)
اولیاء کی ایک کرامت مردوں کو زنده کرنا ہے
ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ : کبهی مردوں کو زنده کرنا انبیاء کے متبعین یعنی اولیاء کے ہاتھ پر بهی ہوتا ہے ، جیسا کہ اِس امت کی ایک جماعت کی ہاتهوں پر یہ کرامت صادر ہوئی الخ ۔ (كتاب النبوات صفحہ 298)
اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : مردوں کو زنده کرنا تو اس میں بهت سارے انبیاء وصلحاء شریک ہیں ۔ (كتاب النبوات صفحہ 218)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ : ایک آدمی کا گدها راستے میں مر گیا اُس کے ساتهیوں نے اُس کو کہا کہ آ جاؤ ہم اپنی سواریوں پر تیرا سامان رکهتے ہیں اُس آدمی نے اپنے ساتهیوں کو کہا تهوری دیر کیلئے مجهے مہلت دو، پهر اُس آدمی نے اچهے طریقہ سے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑهی ، اور الله تعالی سے دعا کی تو الله نے اس کے گدهے کو زنده کر دیا پس اس آدمی نے اپنا سامان اس پر رکھ دیا ۔ (مجموع الفتاوى جلد 11 صفحہ 281)
اولیاء اللہ سے ظاہر ہونے والی کرامت دراصل معجزہ نبی کا مظہر اور اسی کا فیضان ہوتی ہے ، اور کرامات اولیاء سے اہل زمانہ پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ولی جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اُنہی کا دین سچا اور حق ہے ، یہ جن کی نبوت کے قائل ہیں اُنہی کا قانون درست وصحیح ہے ، صالحین و بزرگانِ دین کی کرامات سے دین اسلام کی تائید و تصدیق ہوتی ہے ۔
"معجزہ" اور "کرامت" کا امتیازی فرق
خلاف عادت اور خلافِ عقل و اقعات انبیاءِ کرام علیہم السلام کے بھی ہوتے ہیں اور اولیاۓ عظام کے بھی ‘اس طرح کے واقعات انبیاء کرام علیھم السلام کے حق میں ’’معجزہ‘‘ ہوتے ہیں اور اولیاءِ کرام کے حق میں ’’کرامت‘‘ قرار پاتے ہیں ۔
"معجزہ" اور "کرامت" کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ "معجزہ" سے مراد وہ خلاف عادت عمل ہے جو کسی نبی سے نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پرصادر ہوا ہو-اور’’کرامت‘‘ اس خلاف عادت عمل کو کہا جاتا ہے جو نبوت کے دعوے کے بغیر کسی مومن صالح سے ظاہر ہوتا ہے ۔
اگر کسی غیر مسلم اور بد عمل سے کوئی خلاف عادت ‘ واقعہ رونما ہو جائے تو اسے "استدراج" کہا جاتا ہے ، جیسا کہ شرح عقائد نسفی میں ہے : وکرامته :ظهور امر خارق للعادة من قبله غير مقارن لدعوی النبوة فما لا يکون مقرونا بالايمان والعمل الصالح يکون استدراجا۔وما يکون مقرونا بدعوی النبوة يکون معجزة ۔ (شرح العقائد النسفیۃ صفحہ 144،چشتی)
زمانَۂ نبوّت سے آج تک اَہلِ حق کے درمیان کبھی بھی اِس مسئلے میں اِختِلاف نہیں ہوا ، سبھی کا عقیدہ ہے کہ صَحابَۂ کِرام علیہمُ الرِّضوان اور اَولیائے عِظام رحمہمُ اللہ السَّلام کی کرامتیں حق ہیں۔ ہر زمانے میں اللہ والوں سے کَرامات کا ظہور ہوتا رہا اور اِنْ شَآءَ اللہ قِیامت تک کبھی بھی اِس کا سِلسِلہ ختم نہیں ہوگا ۔
حکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب و غریب چیز ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ حَق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے،سِوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو جیسے وَحِی اور آیاتِ قرآنیہ ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 268)
امام عمر نَسَفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کَرَاماتُ الْاَوْلِیَاءِ حَقٌّ فَتَظھَرُ الْکَرَامَۃُ عَلٰی طَرِیْقِ نَقضِ الْعَادَۃِ لِلْوَِلِیِّ مِنْ قَطْعِ مُسَافَۃِ الْبَعِیْدَۃِ فِی الْمُدَّۃِ الْقَلِیْلَۃ ۔
ترجمہ : اولیاءاللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت طریقے سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً طویل سفر کو کم وقت میں طے کر لینا ۔
اس کی شرح میں حضرت امام سَعْدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جیسے حضرت سلیمان علیہ السَّلام کے درباری حضرت آصف بن بَرخِیا رضی اللہ عنہ کا طویل مسافت (Long Distance) پر موجود تختِ بِلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لے آنا ۔ (شرح عقائد نسفیہ صفحہ 316 تا 318)
بعد از وصال کرامات
اولیاء اللہ سے ان کے وصال (Death) کے بعد بھی کرامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمہور اہلِ سنّت کا یہی مؤقّف ہے کہ اولیائے کرام سے ان کی حیات اور بَعْدَالْمَمَات (یعنی مرنے کے بعد) کرامات کا ظہور ہوتا ہے (فِقْہ کے) چاروں مَذاہِب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جو وِصال کے بعد اولیا کی کرامات کا انکار کرتا ہو بلکہ بعدِ وصال کرامات کا ظہور اَولیٰ ہے کیونکہ اس وقت نفس کَدُورَتَوں سے پاک ہوتا ہے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ 363)
یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت میں سے ہے لہٰذا جو کراماتِ اولیا کا انکار کرے، وہ بَدمذہب و گمراہ ہے چنانچہ امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 14صفحہ 324،چشتی)
شَرح فقہِ اَکبر میں ہے : کراماتِ اولیا قرآن و سنّت سے ثابت ہیں ، مُعْتَزِلَہ اور بِدْعَتِیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔(شرح فقہ اکبر صفحہ 141)
امام یوسف بن اسماعیل نَبْہَانِی رحمۃ اللہ علیہ نے کراماتِ اولیا کے موضوع پر اپنی کتاب”جامع کراماتِ اولیاء“ کی ابتدا میں کرامت کی ستّر سے زیادہ اقسام (Types) کو بیان فرمایا ہے ۔
اولیائے کرام سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کی اَقسام اور ان کی تعداد کے متعلّق امام تاجُ الدّین سُبْکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی اقسام کی کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں ان کی تعداد 100 سے بھی زائد ہے ۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ جلد 2 صفحہ 78)
کراماتِ اولیا کی چند مثالیں : مُردَہ زندہ کرنا ، مُردوں سے کلام کرنا ، مادَر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا ، مَشرِق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کر جانا ، دریا کا پھاڑ دینا ، دریا کو خُشک کر دینا ، دریا پر چلنا ، نباتات سے گفتگو ، کم کھانے کا کثیر لوگوں کو کِفایَت کرنا ۔ قرآن سے ثبوت : حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ 363) ۔ حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا : یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے ؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے : كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ - وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ - قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ ۔
ترجمہ : جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے ۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)
اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پئے سوئے رہنا بھی (کرامت کی دلیل) ہے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ 363)
کُتُبِ اَحادیث میں کرامات پر بے شمار روایات موجود ہیں ، بعض عُلَما و مُحَدِّثِین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں ۔ایک روایت ملاحظہ فرمائیے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھیے کہ اپنی مَوت ، نَوعِیَتِ مَوت ، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی ۔ چنانچہ حضرت جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا : میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا ۔ میرے نزدیک نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو ۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کےلیے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے ۔(صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 454 حدیث 1351،چشتی)
امیرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : اے فُلاں ! اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ : وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔
ترجمہ : اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کےلیے دو جَنّتیں ہیں ۔ (پارہ 27 سورہ الرحمٰن: 46) ۔ اے نوجوان !بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے ؟ اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارا اور بُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا : میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین صفحہ 612)
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے ۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا : اے شیر ! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ۔ یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں ، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے ۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہو گیا ۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا ، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔(مشکواۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 400 حدیث نمبر 5949،چشتی)
کرامتیں واقع ہونے کی حکمت
اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی بنایا ، اب کوئی رسول یا کسی قسم کے نبی نہیں آئیں گے ، قیامت تک جتنے لوگ آئیں گے ، سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ایمان لانے کے محتاج ہوں گے ، ظاہر ہے جو لوگ ابھی دائرئہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ان کےلیے ایسے خلاف عادت واقعات معاون و مددگار ہوں گے ، یہ واقعات انہیں اسلام کی طرف مائل کریں گے اور ایمان لانے پر آمادہ کریں گے ،اس سبب سے کرامتوں کا واقع ہونا‘ ضروری ہے ، لہٰذا اس امت کے اولیاء کرام کی کرامتیں دیگر امتوں کے اولیاءِ کرام کی کرامتوں سے زیادہ ہیں ۔
جیسا کہ امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : الحکمة في کثرة کرامات اولياء الامة المحمدية -والله اعلم-اظهار سيادته صلي الله عليه واله وسلم علی سائر الانبياء بکثرة معجزاته في حياته وبعد مماته ولکونه صلي الله عليه واله وسلم خاتم النبيين ، وحبيب رب العالمين ، واستمرار دينه المبين الي قيام الساعة فالحاجة الي اسباب التصديق به مستمرة، ومن اقوي هذه الاسباب کرامات امته التي هی في الحقيقة من جملة معجزاته صلي الله عليه واله وسلم -
ترجمہ : امت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والسلام کے اولیاء کرام کی کرامتیں زیادہ ہونے کی حکمت - اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے - یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور آپ کے وصالِ اقدس کے بعد آپ کے معجزات کی کثرت کے ذریعہ تمام انبیاء کرام پر آپ کی سیادت وسرداری کا اظہار ہو ، کیونکہ آپ خاتم الانبیاء علہم السلام اور رب العالمین کے محبوب ہیں ، اور قیامت تک آپ کا دین مبین چلتا رہے گا ، اسی وجہ سے ضروری ہے کہ دین کی حقانیت و صداقت کے دلائل بھی ہر زمانہ میں ظاہر ہوتے رہیں ، اور ان مضبوط ترین دلائل میں آپ کی امت کے اولیاء کی کرامات ہیں جو در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے معجزات کا فیضان ہے ۔ (مقدمۃ جامع کرامات الاولیاء صفحہ 36،چشتی)
کرامات اولیاء کا اظہار کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے اسباب ووجوہ اور منافع و فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے : وانها انما تکون لحاجة في الدين او لمنفعة للاسلام والمسلمين فهذه هی الاحوال الرحمانية سببها متابعة الرسول ونتيجتها اظهار الحق وکسرالباطل ۔
ترجمہ : دین میں جب کوئی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو اس کےلیے اور اسلام ومسلمانوں کی منفعت کی خاطر کرامات ظاہر ہوتی ہیں ، تو یہی رحمانی احوال ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و پیروی کے سبب ان کرامات کا ظہور ہوتا ہے ، اس کا فائدہ اور نتیجہ حق ظاہرکرنا اور باطل کا زور توڑنا ہوتا ہے ۔ (زاد المعاد فصل فی فقہ ہذہ القصۃ)
علامہ ابن تیمیہ نے کرامات اولیاء کو تسلیم کیا ہے اور صحابہ و تابعین کی متعدد کرامات اپنی کتاب ’’اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘‘ میں ذکرکی ہیں ۔ (اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان کرامات الصحابۃ والتابعین)
قرآن کریم سے کرامت کا ثبوت
خرقِ عادت امورکا ذکر قرآن شریف کی آیات مبارکہ میں موجودہے ، چنانچہ سورۂ اٰل عمران میں حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت‘ سورۂ کہف میں اصحاب کہف کی کرامت اور حضرت خضرعلیہ السلام کی کرامت ‘سورۂ مریم میں حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت اورسورۂ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت کا ذکرہے ۔
سوکھے درخت سے تازہ کھجور گرنے لگے
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا موقع آیا تو آپ کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام ایک درخت کے تنے کے پاس آئیں ، جو سوکھا تھا ، اُس پر کھجورنہ تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا : وَهُزِّیْ إِلَيْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْکِ رُطَبًا جَنِيًّا ۔
ترجمہ : اور کھجور کے درخت کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ ، یہ تم پر تازہ اور پکے کھجور گرادے گا ۔(سورۃمریم ۔25)
آیتِ مذکورہ میں بتایا گیا کہ حضرت مریم علیہاالسلام نے کھجور کے درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت تروتازہ کھجور آپ کی گود میں ڈالنے لگا ، ظاہر ہے سوکھا ہوا درخت تروتازہ ہوتا ہے تو اُس کےلیے وقت درکار ہے ، مختصر لمحات یا چند گھنٹوں میں بے ثمر درخت پھلدار نہیں ہوتا ‘خشک درخت سرسبز نہیں ہوتا‘ سوکھے ہوئے درخت پر برگ و بار نظر نہیں آتے ، سوکھے درخت کا لمحہ بھرمیں تروتازہ اور پھلدار ہو جانا ‘یقیناً خداکی اس محبوب بندی کی کرامت ہے ۔
غیب سے بے موسم پھل کی آمد : حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بند کمرہ میں بے موسم میوے آیا کرتے تھے جبکہ وہاں لانے والا کوئی نہ ہوتا‘ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر :37میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنّٰی لَکِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ۔
ترجمہ : جب بھی (سیدنا) زکریا علیہ السلام ، حضرت مریم علیہا السلام کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں موجود پاتے،آپ نے فرمایا : اے مریم!یہ چیزیں تمہارے لئے کہاں سے آتی ہیں ؟انہوں نے کہا : (یہ رزق) اللہ تعالی کے پاس سے آتا ہے ، بیشک اللہ تعالی جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ۔ (سورۃاٰل عمران۔37)
اس آیت کریمہ میں کرامت کی حقانیت کا واضح ثبوت ملتا ہے ، حضرت مریم علیہا السلام نبی نہیں تھیں بلکہ ایک ولیہ تھیں ، اور جب بھی حضرت زکریاعلیہ السلام آپ کے پاس تشریف لے جاتے تو ملاحظہ فرماتے کہ وہاں مختلف قسم کے پھل موجود ہوتے،گرما کے موسم میں سرما کا پھل میسرہوتا اور سرما کے موسم میں گرما کا پھل موجود ہوتا ۔
بغیر موسم کے پھل میسر آجانا اور غیب سے رزق کا آنا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت ہے ۔
اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال آرام فرمانا
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کے نیکوکار حضرات نے فتنہ و فساد سے بچنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کےلیے ایک غار میں پناہ لی اور تین سو نو (309) سال غار ہی میں قیام پذیر رہے ‘ جیسا کہ سورۂ کہف کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَبِثُوْا فِيْ کَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِئَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا ۔
ترجمہ : اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین (300) سوسال ٹھہرے رہے اور انہوں نے اس پر نو (9)سال زیادہ کیے ۔ (سورۃ الکھف : 25)
اللہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے تین سو نو (309) سال تک غار میں رہے،ان کے جسموں میں تغیر وتبدل نہ آیا،اس عرصۂ دراز تک نہ انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا،انسانی جسم کا تقاضا کھانا پینا ہے ، کوئی شخص بغیر کھائے ،پئے سالوں سال تو درکنار کچھ ہفتے یا مہینے نہیں گزارسکتا ۔
اللہ تعالی کی عظیم قدرت سے اصحابِ کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو (309) سال کا طویل عرصہ غار میں بغیر کچھ کھائے ‘ پیے گزارا ، ان کے جسم سلامت رہے ، اور ان کے در پر رہنے والا کُتَّا بھی محفوظ رہا ۔
نظامِ شمسی میں تغیر‘ اصحابِ کہف کی کرامت
یہ ایک حقیقت ہے کہ سورج اپنے ایک مقررہ نظام کے تحت گردش کرتا ہے ، نکلنے اور ڈوبنے کے نظام میں نہ ایک سیکنڈ کےلیے تاخیر کرتا ہے نہ طلوع یا غروب کے وقت ایک لمحہ پہلے نکلتا ہے اور نہ ایک سینٹی میٹر یا ایک ملی میٹر ہٹ کر طلوع ہوتا ہے ، یہ قدرتی نظام ہے ، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کو یہ کرامت و بزرگی عطا فرمائی کہ اُن کی راحت وآرام کےلیے نظامِ شمسی میں تبدیلی واقع ہوئی ، جیسا کہ سورۂ کہف کی آیت نمبر 17 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ ذَلِكَ مِنْ آَيَاتِ اللَّهِ ۔
ترجمہ : اور آپ سورج کو دیکھیں گے کہ جب وہ نکلتا ہےتو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ کر گزرتا ہے اور جب وہ ڈوبتا ہے تو بائیں طرف کتراتا ہوا ڈوبتا ہے اور وہ (اصحابِ کہف) غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں ، یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے ۔ (سورۃ الکھف۔17)
اس آیت کریمہ میں اصحابِ کہف کی اس کرامت کا ذکر ہے کہ جتنا عرصہ انہوں نے غار میں گزارا اتنے عرصہ تک سورج نے اپنی روش کو تبدیل کردیا،جب وہ طلوع ہوتا تو دائیں جانب ہوجاتا اور جب غروب ہوتا تو بائیں جانب ہوکر غروب ہوتا،اس طرح سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں ۔
سورج کا اپنے مقررہ نظام سے ہٹ کر اس طرح طلوع وغروب ہونا قدرتِ خدا وندی کی دلیل اور اصحاب کہف کی کرامت ہے ۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : وکان ذلک فعلاً خارقاً للعادة وکرامة عظيمة خص الله بها أصحاب الکهف ۔
ترجمہ : سورج کا اس طرح طلوع اور غروب ہونا ایک خلاف عادت واقعہ ہے اور وہ عظیم کرامت ہے جو اللہ تعالی نے اصحاب کہف کو عطا فرمائی ۔ (التفسیر الکبیر للرازی سورۃ الکھف 17،چشتی)
لمحہ بھر میں میلوں دور سے وزنی تخت حاضر کرنا ‘ آصف بن برخیاء کی کرامت
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ تم میں کون ایسا شخص ہے جو بلقیس کے آنے سے پہلے ان کے تخت کو میرے پاس لے آئے؟تو جنات میں سے ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا کہ آپ اپنے مقام سے اٹھنے سے قبل میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں ، آپ نے فرمایا : مجھے وہ تخت اور جلد چاہیے ! تب حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت چاہی اور پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی خدمت میں وہ تخت لے کر حاضر ہوگئے ۔
جیساکہ سورہ نمل کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِنَ الْکِتَابِ أَنَا آَتِيْکَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي ۔
ترجمہ : (حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں) ایک شخص نے عرض کیا : جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اس (تختِ بلقیس) کو آپ کے پاس لا سکتا ہوں ، اس سے قبل کہ آپ کی آنکھ جھپکے ۔ پھر جب (سلیمان علیہ السلام)نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا پایا تو فرمایا : یہ میرے رب کا فضل ہے ۔ (سورۃ النمل۔40)
اس آیت کریمہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے امتی حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت مذکور ہے ۔
تختِ بلقیس سونے کا بنا ہوا تھا ، جس پر یاقوت ، زمرد اور موتیاں جڑی ہوئی تھیں ، وہ تخت سات محلوں میں سے اندر کے محل میں محفوظ رکھا ہوا تھا ، دروازے مقفل تھے ، پہرے دار نگرانی کررہے تھے ، یہ بات عقل میں نہیں آتی کہ اس قدر وزنی اور محفوظ تخت کو لمحہ بھر میں ایک ملک سے دوسرے ملک لایا جا سکے ، حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے لمحہ بھر میں اس بھاری اور وزنی تخت کو ملکِ یمن سے ملک شام حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا ۔
جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے : وکان من ذهب مُفصَّص بالياقوت والزبرجد واللؤلؤ - فجعل في سبعة أبيات ، بعضها في بعض ، ثم أقفلت عليه الأبواب ... حتي إذا دنت جمع من عنده من الجن والإنس ، ممن تحت يديه ، فقال : (يا ايها الملأ ايكم يأتينی بعرشها قبل أن يأتوني مسلمين ) ۔ قال عفريت من الجن أنا آتيک به قبل أن تقوم من مقامک وإني عليه لقوي أمين ... فلما قال سليمان : أريد أعجل من ذلک ، ( قال الذی عنده علم من الکتاب) قال ابن عباس : وهو آصف کاتب سليمان ۔ و کذا روی محمد بن إسحاق، عن يزيد بن رومان: أنه آصف بن برخياء ... وسأله أن يأتيه بعرش بلقيس -وکان فی اليمن، وسليمان عليه السلام ببيت المقدس-(تفسیر ابن کثیر،سورۃ النمل۔40،چشتی)
مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے کرامتوں کا صحیح اور برحق ہونا ‘ عیاں ہوتا ہے ۔
حدیث شریف سے کرامت کا ثبوت
احادیث مبارکہ میں گزشتہ امتوں کے اولیاء کرام کی کرامتیں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کرامتیں تفصیل کے ساتھ وارد ہیں، جنہیں بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ، یہاں بطور استدلال ایک حدیث پاک ذکر کی جارہی ہے جس سے کرامت کی حقانیت واضح ہوتی ہے ، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ : إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَي لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّهٗ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهٗ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهٖ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا۔ وَإِنْ سَأَلَنِي لأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لأُعِيذَنَّهٗ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُهٗ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَائَتَهُ -
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہےمیں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری بارگاہ میں کسی چیز کے ذریعہ تقرب حاصل نہیں کیا جو اس فرض سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس کے ذمہ کیا ہے ،اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘پھر جب میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور بضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو ضرور بضرورمیں اسے پناہ دیتا ہوںاور میں کسی چیز کو کرنا چاہوں تو اس سے توقف نہیں کرتا ،جس طرح مومن کی جان لینے سے توقف کرتا ہوں جبکہ وہ موت کو ناپسند کرے،اور میں اس کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث نمبر:6502)
اس حدیث قدسی سے اولیاء کرام و صالحین امت کی عظمت و جلالت کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ان کی سماعت و بصارت ، کلام و حرکت میں قدرت الہی کار فرما ہے تو وہ اپنے کان سے قریب کی بھی سنتے ہیں اور دور کی بھی ، اپنی آنکھ سے قریب کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دور کو بھی ، اپنے ہاتھ میں غیر معمولی قوت رکھتے ہیں ، اپنے پیر میں زبردست طاقت رکھتے ہیں، اسی وجہ سے اولیاء کرام اپنی قوت سماعت سے وہ آواز سنتے ہیں جو دوسرے نہیں سن سکتے ، اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھتے ہیں جسے عام نگاہ نہیںدیکھ سکتی، اپنے ہاتھوں میں گرفت ودستگیری کی وہ قوت رکھتے ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہوتی ، وہ اپنا زورِ قدم اس طور پر رکھتے ہیں کہ آن واحد میں کئی منازل طے کرلیتے ہیں ۔
احادیث شریفہ میں سابقہ امتوں کے اولیاء عظام علیہم الرحمہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کرامتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئیں ، علماء اعلام نے کرامات کے اثبات وبیان میں ضخیم کتابیں تصنیف کی ہیں ، اس سلسلہ میں امام ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 430ھ )کی کتاب ’’حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ‘‘،امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 465ھ) کی کتاب ’’الرسالۃ القشیریۃ‘‘، علامہ عبداللہ بن اسعد یافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 768ھ)کی کتاب ’’روض الریاحین فی حکایات الصالحین ‘‘اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1350ھ) کی کتاب’’جامع کرامات الاولیاء ‘‘ بالخصوص قابلِ دید ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو مفتی ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment