خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 19
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو اعتراض کا جواب : دیابنہ اور وہابیہ ہر نیا کام خود کرتے ہیں مگر انہیں بغض و عداوت صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اسی لیے نت جاہلانہ اعتراضات کر کے اپنے بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں انہیں میں سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو حقیقت یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وصال نہیں ہے جس کی تفصیل ہم عرض کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں ۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے اگر تین دن سے زیادہ سوگ کا کہیں حکم ہے تو کوئی دیوبندی وہابی ثبوت دے اب حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں : ⬇
حضرت اُمِّ حبیبہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں : ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی ۔ (صحیح بخاری مترجم جلد اوّل صفحہ663)۔(مسلم جلد اول صفحہ نمبر 486،چشتی)۔(صحیح بخاری کتاب الجنایزحدیث نمبر 1280 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو ۔
حضرت اوس بن اوس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا ۔ (ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف،چشتی)
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام ، شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا ؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : حضرت عبدﷲ ابن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم ۔
ترجمہ : میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لیے باعث خیر ہے ۔ (کتاب الشفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ)
الزام لگانے والو ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہٰذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں ۔
اسلام میں سوگ منانا جائز ہے اور تین دن تک سوگ منایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ سوگ کے معنی یہ ہیں کہ زِینت کو ترک کرے ۔ (درالمختار معہ ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۱)۔(بہار شریعت،حصہ۸ ،۲ / ۲۴۲)
بیوہ عدت تک سوگ کرے گی جب کہ باقی لوگ صرف تین دن سوگ کر سکتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 1/143،چشتی)(الفتاویٰ الہندیہ 1/167)(ردالمحتار علی الدر المختار 2/ 240)
درمختارمیں ہے : الحداد …… لغۃ کما فی القاموس ترک الزینۃ للعدۃ و شرعا ترک الزینۃ ونحوھا لمعتدۃ بائن او موت ۔ (درمختار باب العدۃ فصل فی الحداد)
ترجمہ : سوگ ، لغت میں …… جیسا کہ قاموس میں ہے …… عدت کےلیے زینت چھوڑنے کو کہتے ہیں اور شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں طلاقِ بائن یا شوہر کی موت سے عدت بیٹھنے والی عورت کے زینت اوراس کی مثل کو چھوڑنے کو کہتے ہیں ۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ : ” كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ ۔ (صحيح البخاري : 5341 ، الطلاق)(صحيح مسلم :938 ، الطلاق :67)
ترجمہ : حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے) منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائیں ، ہاں ! اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن کا سوگ ہے ، اور اس درمیان نہ تو ہم سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں ، نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں ، مگر وہ کپڑا جس کی بناوٹ رنگین دھاگوں سے ہو ، البتہ ہمیں یہ رخصت دی گئی کہ حیض سے طہارت کے وقت معمولی قسط یا ظفار کی خوشبو استعمال کرلیں ۔
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کوئی عورت کسی میّت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ، مگر شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ کرے ۔ (مسلم ،کتاب الطلاق، باب وجوب الاحداد فی عدۃ الوفاۃ۔۔۔الخ صفحہ ۷۹۹ حدیث نمبر ۱۴۹۱،چشتی)
قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ اَبُوهَا اَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ اُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ اَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔
ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري الصحیح 5: 2042، رقم: 5024، دار ابن کثیر الیمامة بیروت،چشتی)(مسلم، الصحیح، 2: 1123، رقم: 1486، دار احیاء التراث العربي بیروت)
قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ اَمَا وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔
ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا ۔ انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں تھوڑی سی لگا کر فرمایا : خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے ، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري، الصحیح، 1: 430، رقم: 1222،چشتی)۔(مسلم، الصحیح، 2: 1124، رقم: 1484)
ام المو منین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث ۲۳۰۴)۔(بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین (3) دن مُقرَّر فرمائے ۔ (صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰)
جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن (3) تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)
تین (3) دن سے زِیادہ سوگ مَنانے کی یہ رَسم زمانۂ جاہِلیَّت میں اگرچہ طویل عرصے سے رائج تھی لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا، تو صحابیات رضی اللہ عنہن کا اس پرعمل کرنا مثالی تھا ۔چُنانچہ جب حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا اِنتقال ہوگیا ، توچوتھے دن اُنہوں نے خوشبو لگائی اور کہا کہ مجھ کو خُوشبو کی ضرورت نہ تھی ، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مِنْبَر پر سُنا ہے کہ کسی مُسَلمان عورت کو شوہر کے سِوا تین (3) دن سے زِیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ، اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی ۔(سنن ابی داود کتاب الطلاق باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا، الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)
اسی طرح جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والدکا انتقال ہوا تو اُنہوں نے تین (3) روز کے بعد اپنے رُخساروں پر خُوشبو ملی اور کہا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی ، صرف اس حکم کی تعمیل مقصود تھی ۔ (سنن ابی داود، کتاب الطلاق،باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)
حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی علیہ لرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ : میّت کے گھر والوں کو تین دن تک اس لیے بیٹھنا کہ لوگ آئیں اور تعزیت کر جائیں جائز ہے مگر ترک بہتر اور یہ اس وقت ہے کہ فروش اور دیگر آرائش نہ کرنا ہو ورنہ ناجائز ۔ یہ دس دن سوگ منانا آلتو فالتو باتیں کرنا صریح جہالت ہے ۔ لوگوں کو اس سے بچنا چاہیے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 1 حصہ چہارم صفحہ نمبر 854،چشتی)
معلوم ہوا کہ صحابیات رضی اللہ عنہن اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جذبے سے سرشار اوردل وجاں سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِطاعت گُزار تھیں ، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں سوگ کی مُدّت تین (3) دن ہے ، مگر جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چار (4) ماہ دس (10) دن تک سوگ میں رہے گی ۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ آج اگر کسی گھر میں میّت ہوجائے تو افسوس صَد افسوس ! علمِ دین سے دُوری کے سبب بہت سے غیر شرعی کا موں کا اِرْتکاب کیا جاتا ہے ، جیسے نوحہ یعنی میِّت کے اَوصاف (خوبیاں) مُبالَغہ کے ساتھ (خُوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین (بھی) کہتے ہیں ، بِالاِ جماع حَرام ہے ۔ یُونہیں واوَیلا ، وَامُصِیْبَتَاہ (یعنی ہائے مُصیبت) کہہ کر چلّانا ، گَرِبیان پھاڑنا ، مُنہ نوچنا ، بال کھولنا ، سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کُوٹنا ، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہِلیَّت کے کام ہیں اورحرام (ہیں اسی طرح) آواز سے رونا منع ہے ۔ (بہارشریعت جلد ۱ صفحہ ۸۵۴ ، ۸۵۵،چشتی)
حالانکہ ایسی صُورت میں صبر سے کام لینا چاہیے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر اس پر راضی رہنا چاہیے ۔ مگر افسوس ! گھر والے اور آس پڑوس کے لوگ بالخصوص خواتین زور زور سے روتی چِلّاتی ہیں ۔ اگر کوئی صَبْر و ضَبْط سے کام لیتے ہوئے ان کا ساتھ نہ دے تو اس پر طَعْن وتَشْنِیْع کے تِیر برساتے ہوئے اس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے کہ اس کو دیکھو کیسی سخت دل ہے’’ جَوان‘‘ میّت پر بھی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں آیا ۔ یُوں ایک مُسلمان کے بارے میں بَد گمانی اور اس کی دِل آزاری کاگُناہ بھی سرلیتی ہیں ۔ بَتقاضائے بَشریَّت وفات پر غمگین ہو جانا ، چہرے سے غم کا ظاہر ہونا ، اسی طرح بِلا آواز رونا وغیرہ منع نہیں ہے ۔ ہاں ایسے میں شریعتِ مُطَہِّرہ کی خِلاف وَرزی منع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی آخرت بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 20 میں ان شاء اللہ)۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment