خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 20
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انسانیت کےلیے اللہ تعالیٰ کا فضل ، رحمت اور اِحسانِ عظیم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ انسانیت کےلیے اللہ تعالیٰ کا فضل ، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں ۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے جیسا کہ احادیثِ صومِ عاشورہ سے واضح ہے ۔ اِظہارِ تشکر کے کئی طریقے ہیں : انفرادی طور پر بندہ رب کریم کا شکر ادا کرنے کےلیے نفلی عبادات اور خیرات و عطیات کو ذریعہ اظہار بناتا ہے مگر جو فضل و احسان امت پر اجتماعی سطح پر ہوا ہو اس کا اظہارِ تشکر بھی اجتماعی طریقے سے کیا جاتا ہے ۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور فضل عمیم ہے اس لیے اس نعمتِ عظمیٰ پر ﷲ عزوجل کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے ۔ اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے اور اس کا اِستدلال سابقہ امتوں کے مماثل رویوں سے منسلک ہے ۔
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا ۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا ؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي ﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے ۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن ﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644)(ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92)
ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ یہ ہیں : لما قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر ﷲ فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أولي بموسي منکم ۔ ثم أمر بصومه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130)(ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444)
ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے : فقالوا : هذا يوم عظيم، أنجي ﷲ فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وأمر بصيامه ۔
ترجمہ : انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130)(بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول ﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216)(ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112)
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے ﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت ﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ۔
اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کےلیے روزہ رکھا ۔ (شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209)
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کےلیے تشریف لائے ۔ ارشادِ ربانی ہے : وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۔
تجمہ : اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ، ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں ۔ (سورہ الأعراف، 7 : 157)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کےلیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ ﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کےلیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کر جشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے ! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔
ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا ؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔
قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا ۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے : ⬇
اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم ۔
ترجمہ : یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901)
اِمام مسلم علیہ الرحمہ (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم ۔
ترجمہ : یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو ۔ (مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131،چشتی)(نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848)(طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197)
اِمام طحاوی علیہ الرحمہ (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے ۔
اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے : کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم ۔
ترجمہ : اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131)(ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575)(إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337)(عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248)
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) علیہما الرحمہ کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ : ⬇
1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کےلیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔
2 ۔ عید کا دن اُن کےلیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔
3 ۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔
4 ۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں : وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال : وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق ﷲ فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي ۔ فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة ۔ والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم ۔ (حسن المقصد في عمل المولد : 63)(الحاوي للفتاوي : 205، 206)(سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366)(زرقاني شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263)(احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54)(حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237)
ترجمہ : شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کےلیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر ﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے ؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے ۔
جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص : 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کےلیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے ۔
ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کے روزے مسلمانوں پر واجب تھے۔ (1) جب ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو ان کا وجوب منسوخ ہوگیا ۔ (2) بعض ذہنوں میں یہ اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ صومِ عاشورہ کا وجوب تو منسوخ ہوگیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہیں، لیکن اس سے صومِ عاشورہ کی حِلّت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس روزہ کے حکم وجوبیت کی منسوخی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار نہیں) جس طرح روزہ رکھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نحن احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہیں) فرمایا تھا، حالاں کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا ۔ (شرح معاني الآثار، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 129. 132)(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 120)
اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں : کان رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان، کان من شاء صام ومن شاء أفطر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، تاہم جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جو چاہتا یہ روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1897، 1898)
صومِ عاشورہ کا وجوب منسوخ ہونے کے باوجود اَحادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں۔ اس دن کے روزے کی جو فضیلت پہلے تھی وہ اب بھی ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے صومِ عاشورہ کی منسوخی کا حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے اِستدلال پر کوئی اثر نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو پھر بھی جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اِس سے اِستدلال پر فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیادہ خوشی لامحالہ اُن لوگوں کو ہوگی جنہیں اُمتِ موسوی کے افراد ہونے کا دعویٰ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس روزہ سے صرف اُمت کو یہ توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی فتح پر شکر ادا کرتے ہیں تو تمہیں بھی ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے۔ مگر طبعِ غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو، بلکہ خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی جب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ اس لیے کہ بغیر اِستفسار کے بیان کرنا بھی طبعِ غیور کے مناسبِ حال نہ تھا ۔
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کےلیے باعثِ اِحترام بن گیا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہود سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی غرقابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا : وهذا يوم استَوَتْ فيه السفينة علي الجُودِي، فصامه نوح وموسي شکرًا ﷲ تعالي ۔
ترجمہ : اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اورموسی علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا ۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أنا أحق بموسي، وأحق بصوم هذا اليوم ۔ترجمہ : میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702)(عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے یوم عاشورہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی جماعتِ مومنین کی بقاء دراصل عالم انسانیت کی بقاء اور فروغِ نسلِ اِنسانی کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن کو آپ کی قوم نے یاد رکھا اور بارگاہِ خداوندی میں ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہر وہ واقعہ جس سے مومنین کی اِجتماعی نجات، آزادی اور بقاء وابستہ ہے اس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت و اِنبساط اِسلامی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک دن بھی اَبد تک اہلِ ایمان کےلیے یومِ عید ہے ۔
دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی ۔
اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں : کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يصومه ۔
ترجمہ : زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1898،چشتی)(بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3 : 1393، رقم : 3619)(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 792، رقم : 1125)(ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء، 3 : 127، رقم : 753)
جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا ۔ ان کا یہ معمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا ۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں : کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض ﷲ رمضان، قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه ۔
ترجمہ : اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے ، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول ﷲ : جعل ﷲ الکعبة البيت الحرام، 2 : 578، رقم : 1515)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 278، رقم : 7495)(بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم 9513،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7 : 204)
حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها ۔
ترجمہ : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے ۔ (عسقلاني، فتح الباري، 3 : 455)
حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه ۔
ترجمہ : یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے ۔ (فتح الباري، 4 : 246)
ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی علیہ الرحمہ (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5 : 138، رقم : 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں : ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة ۔
ترجمہ : یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 187،چشتی)(فتح الباري، 4 : 248)(فتح الباري، 7 : 276)
کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کےلیے باعثِ خلجان بنتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دن کا احترام کرنا چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت چودہ سو سال قبل ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیتِ رسولِ خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ یہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشنِ عید کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے ؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے ۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوئہ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہلِ عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم و تکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا اور ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یومِ ولادت کو منانا اور اس پر اِظہارِ مسرت و فرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل کسی دن کو منانے کی سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) ۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے : ⬇
اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له : يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة ۔
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا : (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45)(بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145،چشتی)(بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330)(بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840)(مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017)(ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043)(نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012)
اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه ۔
ترجمہ : ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ صنے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں : عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة ۔
ترجمہ : میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے ۔ (فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا : اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا ’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ۔ (سورہ المائدة، 5 : 3) ۔ اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان ’’ میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں ۔ (المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830)(فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14)
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا ۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں ۔ اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت ۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا) ۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا : لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا ’’ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة ’’ بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835)(طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82)(مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14)(ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں ۔
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے ۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا ، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ عیدِ میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کےلیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں ، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی ۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا ۔ لہٰذا اہلِ ایمان کےلیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے ۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں ۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے ۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے ۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے : فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة ’’ بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ۔
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عیدُ الاضحی کا دن ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے ۔ اور اگر ان اَجل صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ وہ تو عیدُ الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ۔
جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي ۔
ترجمہ : تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا ۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047،چشتی)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 578)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)
جمعۃ المبارک عید کا دن ہے ، اِس پر کبار محدثین کرام علیہم الرحمہ نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں : ⬇
امام اِبن ماجہ علیہ الرحمہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن هذا يوم عيد، جعله ﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک ۔
ترجمہ : بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےلیے بنایا ہے ۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کےلیے آئے تو غسل کر کے آئے ، اور اگر ہو سکے تو خوشبو لگا کر آئے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355)(منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058)
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده ۔
ترجمہ : بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں) ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903)(ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166)(ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524)(حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595)
امام اِبن حبان علیہ الرحمہ (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں : کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة ؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام ۔
ترجمہ : میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو ۔ (ابن حبان الصحيح 8 : 375، رقم : 3610)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کسلیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا ؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا : فيه خلق آدم ’’ (یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ۔
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عیدُ الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا ؟ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی ۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی ۔ لہٰذا یومُ الجمعہ کو یومُ العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی علیہ السلام کا یومِ تخلیق ہے ۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے ۔
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : فأکثروا عليّ من الصلاة فيه ’’ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو ۔ اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کےلیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کےلیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیا ہے ۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول ﷲ ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت ؟ ’’ یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن ﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء ’’ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375،چشتی)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے ۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی ۔ پس اس نے کہا : أتدري أين صليت ؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام ’’ پس اس نے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے ؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی ۔ (نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1 : 222، رقم : 450)(طبراني، مسند الشاميين، 1 : 194، رقم : 341) ۔ اِن کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 410، رقم : 3484)(طبراني، المعجم الکبير، 7 : 283، رقم : 7142،چشتی)(هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 73)(عسقلاني، فتح الباري، 7 : 199)
اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی ۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے ۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا ۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی ۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ مکان جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی واجب التعظیم ، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ میلاد پر روزہ رکھ کر خود خوشی کا اِظہار فرمایا
جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے ؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام ث کو اپنے یومِ میلاد پر ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک ان احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے : ⬇
اِمام مسلم علیہ الرحمہ (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : أن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين ؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182) ۔ اِن کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں : (نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594)(عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865،چشتی)(أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259)
پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں ۔
اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘ اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ﷲ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کےلیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا ۔ (بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43)(مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833)(نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962،چشتی)(عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595)(عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661)(مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا ۔ (مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994)(روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا ۔ (ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32)(حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128)(سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما ہی سے روایت ہے : أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة ۔
ترجمہ : بے شک حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی ۔ (ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61)(ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51)(ابن حبان، الثقات، 1 : 42)(قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100)(ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81)۔ (مزید حصّہ نمبر 21 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)