Friday, 30 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 23

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 23
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کل بدعۃ ضلالہ کا صحیح مفہوم غیر مقلد وہابی حضرات کے بڑوں کی زبانی : علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ) ۔ علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔ إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء ، بدعة لغة ، وليس ذلک بدعة شرعية ، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔
ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے ۔ (منهاج السنة جلد 4 صفحہ 224)

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه ﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔
ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ اور امام شافعی رحمۃ ﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے ۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے ۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ ( کتب و رسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه جلد 20 صفحہ 16)

حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (المتوفی 774ھ)

حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔
ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔( تفسیر ابن کثیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 161،چشتی)

شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی غیر مقلد (المتوفی 1255ھ)

یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔
ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔( نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار جلد 3 صفحہ 63،چشتی)

نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد وہابی (المتوفی 1307ھ)

غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (هدية المهدي صفحہ 117)

نواب وحید الزمان غیر مقلد وہابی (المتوفی 1327ھ)

مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي ﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔
ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي صفحہ 117،چشتی)

عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی (1353ھ)

عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه) (2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ ( جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي جلد 3 صفحہ 378،چشتی)

الشیخ عبد العزیز بن عبد ﷲ بن باز نجدی وہابیوں کا مفتی اعظم (1421ھ)

سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد ﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ⬇

أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها ﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث  و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک ۔
ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن ﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه ۔
ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے ، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔ (فتاويٰ اللجنة جلد 2 صفحہ 325 ،چشتی)

ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه ۔
أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع ﷲ ۔
ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔(فتاويٰ اللجنة جلد 2 صفحہ 329)

بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء ۔
ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد ، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 321) ۔ (مزید حصّہ نمبر 24 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 22

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 22
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہر بدعت گمراہی کہنے والوں کو جواب : یہ کہنا کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے سراسر غلط ہے اور جہالت پر مبنی ہے بلکہ مطلق ہر نیا کام بدعت ہے خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا اور ہر بدعت بھی گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی مختلف صورتیں ہیں ۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو بدعت کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔ بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز : قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے : قل ماکنت بدعاً من الرسل ۔ (سورۃ 46آیت 9) ۔ ترجمہ : تم فرماؤ کوئی انوکھا (نیا) رسول نہیں ۔ نیز ارشاد ہوتا ہے : بدیع السموت والارض : ترجمہ : آسمانوں اور زمینوں کا ایجاد کرناوالا ہے ۔ ان آیات کریم میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی ایجاد کرنا نیا بنانا وغیرہ ۔

بدعت تین معنی میں استعمال ہوتا ہے

(1) ۔ نیا کام جو نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ایجاد ہوا ۔

(2) ۔ خلاف سنت کام جو سنت کو مٹانے والا ہو ۔

(3) ۔ برے عقائد جو بعد میں پیدا ہوئے ۔

پہلے معنی کے اعتبار سے بدعت کی دوقسمیں ہیں ۔ 1 ۔ بدعت حسنہ 2 ۔ بدعت سیۂ اور دوسرے دونوں معنیٰ سے ہر بدعت سیۂ ہی ہے جن بزرگوں نے فرمایا کہ ہر بدعتِ سیۂ ہوتی ہے وہاں دوسرے معنیٰ مراد ہیں اور جو حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے وہاں تیسرے معنی مراد ہیں لہٰذا احادیث و اقوال علماء آپس میں متعارض نہیں (یعنی ان میں فرق نہیں) ۔

بدعت کے شرعی معنیٰ ہیں وہ عقیدہ یا وہ عمل جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانہ حیاتِ ظاہری میں نہ ہوں بعد میں نہ ایجاد ہو جیسا کہ مرقات باب الاعتصام میں ہے : وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، یعنی بدعت شریعت میں اس کا م کا ایجاد کرنا ہے جوکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانہ میں نہ ہو ۔ اسی تعریف سے معلوم ہوا کہ نہ تو دینی کام کی قید نہ زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لحاظ پس جو کام بھی ہو دینی ہو یا دنیاوی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعدجب بھی ہو وہ بدعت ہے ۔

جیسا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت مقرر فرما کر فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ ۔ یہ تو بہت ہی اچھی بدعت ہے ۔ (مشکوۃ شریف 115 ، بخاری شریف)

اسی طرح ایک حدیث پاک میں یوں فرمایا کہ : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقض من اجورھم شئی ومن سن فی الاسلام سنۃ سیٸۃً فعلیہ وزرُھا ووسرمن عمل بھا من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی ۔ (مشکوہ شریف 33کتاب العلم مطبوعہ قدیم کتب خانہ کراچی،چشتی)
ترجمہ : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ (اچھی بدعت) جاری کرے اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ (بری بدعت) جاری کرے اس پر اس کا گناہ ہو گا اور ان کا بھی جو اس پر عمل کریں اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ آئے گی ۔

اس حدیث پاک سے کل بدعۃ ضلالہ والی حدیث کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسلام میں بدعت حسنہ ایجاد کرنا ثواب کا باعث ہے اور بدعت سیۂ (بری بدعت) ایجاد کرنا گناہ کا موجب ۔ اسی طرح ایک حدیث پا ک میں مروی ہے ۔راوی عن ابن مسعود ماراہ المومنون حسنا فھو عنداللہ حسن وفی حدیث مرفوع ولا تجتمع امتی علی الضلالۃ  (باب الاعتصام مشکوۃ شریف 30)
ترجمہ : حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کا م کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اورحدیث مرفوع میں ہے کہ میری امت گمراہی پرمتفق نہ ہوگی ۔ اس حدیث پاک سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جو جائز کام نیتِ ثواب سے کیا جائے یا مسلمان اس کو ثوا ب کا کام جانیں وہ عنداللہ بھی کارِ ثواب ہے ۔

بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اس نئے کام کو جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو اورجائز ہو جیسے محفلِ میلاد اور دینی مدارس ۔ نئے نئے عمدہ کھانے ، دینی کتابوں کا چھاپنا اور بدعتِ سیۂ وہ ہے جو کسی سنت کو مٹانے والی ہو یا کسی سنت کے خلاف ہو جیسا کہ اردو زبان وغیرہ میں خطبہ جمعہ یا عیدین پڑھنا کہ اس طرح سنت خطبہ یعنی عربی (میں خطبہ کہنے) کی سنت اٹھ جاتی ہے ۔ بدعتِ حسنہ جائز بلکہ بعض اوقات مستحب اور واجب بھی ہے اور بدعتِ سئیہ مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی یا حرام ہے جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے : ای صاحب بدعۃ محرمۃ والا فقدتکون واجبۃ کنصب الادلۃ وتعلم النحو ومندوبۃ کاحداث نحورباط ومدرسۃ وکل احسان لم یکن فی الصدر الاول ومکروھۃ کزخرفۃ المسجد ومساحۃ کا لتوسع بلذیذ لمأکل والمشارب والثیاب کما فی شرح الجامع الصغیر ۔ (ردالمحتا ر299/2باب الامامۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی) ، یعنی حرام بدعت والے کے پیچھے نماز مکروہ ہے ورنہ بدعت تو کبھی واجب ہوتی ہے جیسے کہ دلائل قائم کرنا اور علم نحو سیکھنا اور کبھی مستحب جیسے مسافر خانہ اور مدرسے او رہروہ اچھی چیز جو کہ پہلے زمانہ میں نہ تھی ان کا ایجاد کرنا اور کبھی مکروہ جیسے کہ مسجدوں کی فخریہ زینت او رکبھی مباح جیسے عمدہ کھانے شربتوں اور کپڑوں میں وسعت کرنا ۔ اسی طرح جامع صغیر کی شرح میں ہے اس عبارت سے بدعت کی پانچ قسمیں واضح ہوئی اور یہ صرف ہمارے نزدیک نہیں بلکہ جو دیوبندیوں ، غیر مقلدوں وہابیوں کے بہت بڑے علماء شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی بدعت کی مختلف اقسام ذکر کیں ہیں جیسا کہ مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے : اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ، بدعت مکروہ ، بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔ (ہدیة المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی)

اور نواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلدین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (ھدیة المھدی)

مشھو ر وہابی غیرمقلد عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتا ہے : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاحِ شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعتِ سیۂ ہے ورنہ بدعتِ مباحہ ہے اور بلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔ (نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ،چشتی)

اسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ (فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی)

بعت بدعت کہنے والوں کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیثِ مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اس نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلافِ شریعت ہو لکھتے ہیں : وعلی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ ۔ (مجمع بحارالانوارجلد 1 مطبوعہ نولکشور ہند،چشتی) ، یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصولِ شریعت کے مخالف ہوں اور سنت کے موافق نہ ہوں ۔

اگر آج کل کا وہابی ہر بدعت کو گمراہی کہے تو وہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعتِ حسنہ سے خالی نہیں ۔ مثلاً مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتا ہے ہر ایمان کی دو قسمیں اور ان کا نام دونوں بدعت ہیں قرونِ ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھ کلمے اور ان کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے اور ان کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا ۔ ان میں رکوع قائم کرنا ، اس پر اِعراب لگانا سب بدعت ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ، اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا نعم البدعۃ ھذہ ، یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔ بسوں ، گاڑیوں اور موٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتا تھا ۔ پھر یہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے اور دنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو اس پر بھی ثوا ب ملتا ہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ 167 پر حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیتِ خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہٰذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کےلیے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہوا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے آمین ۔

قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف ہے بدعت سیئہ ہے یعنی بری بدعت ۔ جس کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے : من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها الله و رسوله کان عليه من الاذم مثل اثام من عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شياء ۔
ترجمہ : جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہوگا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے ۔(مشکوة المصابیح صفحہ 30 بحواله ترمذی ، سنن ابن ماجه)

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعه الارفع مثلها من السنه فتمسک بسنه خير من احدث بدعه ۔
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے ۔ (مشکوة المصابیح 31، بحواله مسند احمد،چشتی)

بری بدعت کی علامت : ⬇

حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا : ما ابتدع قوم بدعه فی دينهم الا نزع الله من سنتهم مثلها ثم لا بعيدها اليهم الی يوم القيامه ۔
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اللہ ان کی سنت میں سے اتنی سنت ختم کر دیتا ہے ۔ پھر قیامت تک اللہ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا ۔ (مشکوة المصابیح صفحہ 31 بحواله سنن دارمی)

یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ مذموم بدعت وہ ہے جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو ۔ جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناپسندیدہ ہو ۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً ممنوع نہیں ہوتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرها و اجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيئی و من سن فی الاسلام سنه شيئه کان عليه وزرها و وزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شئی ۔ (صحیح مسلم ، مشکوة المصابیح صفحہ 33)
ترجمہ : اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کےلیے اس کا اجر بھی ہے اور اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی ، عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیر اور جس نے اسلام میں کوئی بُری رسم ایجاد کی اس پر اس کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے ان کے گناہ میں کمی کیے بغیر ۔

ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل ، شرعی اصل مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متعارض و متناقص ہو ۔ دوسرے لفظوں میں بدعتِ سیئہ یا بدعتِ ضلالہ صرف اُس عمل کو کہیں گے جو واضح طور پر کسی متعین سنت کے ترک کا باعث بنے اور جس عمل سے کوئی سنت متروک نہ ہو وہ نا جائز نہیں بلکہ مباح ہے ۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ : ہر نئے کام کو بدعت کہہ کر مطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو ۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے ۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی‘‘ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : البدعة الضّلالة المحرّمة هی التی ترفع السّنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

رہی وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت داخل ہے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہیں تو وہ مشروع ، مباح اور جائز ہے ، اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کے ساتھ نا اِنصافی ہے ۔

ذیل میں ہم جشنِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و ثمرات کے حوالے سے تصورِ بدعت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے (اس پر تفصیل سے سابقہ مضامین میں بھی لکھا جا چکا ہے الحَمْدُ ِلله) ۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے ، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو - قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے - وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا ۔ اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے گا اور کتاب و سنت کے واضح دلائل سے ثابت کیا جائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد پر فرحت و اِنبساط کا اِظہار کرنا ایک مشروع ، مباح اور جائز عمل ہے ۔

بدعت کا لغوی مفہوم : ⬇

’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے ۔ اس کا لغوی معنی ہے : کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا ۔

ابن منظور افریقی (630۔711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں : اَبدعت الشيئ : اخترعته لا علی مثال ۔ (لسان العرب ، 8 : 6)
ترجمہ : میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق ۔
ترجمہ : اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو ۔ (فتح الباری، 4 : 253)(شوکانی نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63،چشتی)

معنی بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق

قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں : ⬇

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے ، اس لیے خود کو بدیع کہا ۔ فرمایا : بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاِذَا قَضٰی اَمْراً فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُ ۔ (البقرة، 2 : 117)
ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے ، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے ۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا : بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔
ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے ۔ (الانعام، 6 : 101)

درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانی والی ذاتِ باری تعاليٰ ’’بدیع‘‘ ہے ۔

بدعت کا اِصطلاحی مفہوم : ⬇

اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :

اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :البدعة هی إحداث مالم يکن فی عهد رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نہ ہو ۔ (تهذيب الأسماء واللغات ، 3 : 22)

شیخ ابن رجب حنبلی (736۔795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں : المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه ، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة ۔
ترجمہ : بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا ۔ (ابن رجب ، جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252)(عظيم آبادی، عون المعبود شرح سنن أبی داود، 12 : 235،چشتی)(مبارک پوری، تحفة الأخوذی شرح جامع الترمذی، 7 : 366)

حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشّرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشّرع فهی مستقبحة ۔
ترجمہ : تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی ۔ (عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253)(شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63)

اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے ۔

اِس اُصولی بَحَث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگرچہ قرونِ اُولیٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے ، لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت ، ذِکرِ اِلٰہی ، تذکارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، ثنا خوانی مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صدقہ و خیرات کرنا ، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں ، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں ، لہٰذا یہ ایک جائز ، مشروع اور مستحسن عمل ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے ، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں ۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے ؟

ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے ۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں ۔ اس میں میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے ۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب و سنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں ۔ اس کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر تو حکمِ شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں : ⬇

(1) : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں ۔

(2) : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح ، بدلتے ہوئے حالات ، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں ۔

(3) : بعض علاقائی ، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں ۔

ثقافتی اِعتبار سے دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ثقافتی اِعتبارسے سادہ تھا ۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں ، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے ، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا ، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا ۔ وہ چاہتے تو مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے ۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا ۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے ۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا ۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا ۔ ان کے کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی ۔ توجب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا ۔ (مزید حصّہ نمبر 23 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 29 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 21

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 21
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اعتراضات کرنے والوں کو جواب : ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ ، اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا ، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر و برکت ہے ۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و سنت صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور طریقِ جملہ مسلمین بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا ، ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانانِ عالم میں یہ رائج عملِ مولود مقبول ہے ۔

قرآنِ کریم میں ہے : قل بفضل ﷲ و برحمتہ فذالک فلیفرحوا ۔
ترجمہ : تم فرماؤ ﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ (یونس، آیت 58)

واذکرو نعمۃ ﷲ علیکم ۔
ترجمہ : اور ﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ۔ (آل عمران، آیت 103)

واما بنعمۃ ربک فحدث ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔ (الضحیٰ، آیت 12)

کے تحت داخل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلقِ خدا کو ملی ، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت ﷲ تعالیٰ نے انسانوں ، جنوں ، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی ۔

سیدنا عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت کریمہ ’’الذین بدلوا انعمۃ ﷲ کفرا‘‘ ۔ (ابراہیم۔ آیت ۲۸)
ترجمہ : جنہوں نے ﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) ۔ کی تفسیر میں فرمایا ’’ھو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم‘‘ (ﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں ، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں ۔

قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقعِ ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام نے خود فرمائی ۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں : ⬇

وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ۔
ترجمہ : سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔ (سورہ مریم آیت ۱۵)

والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ۔
ترجمہ : اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں ۔ (سورہ مریم آیت ۳۳)

اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے ۔
سورہ آلِ عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے ۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السّلام کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے ۔ پھر انبیائے کرام علیہم السّلام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا ۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے ۔

قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تذکرہ موجود ہے ۔ سورہ آل عمران میں ہے : ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ ۔
ترجمہ : پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔ (سورہ آلِ عمران آیت ۸۰)

حدیث پاک میں بھی میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تذکرہ موجود ہے ۔ حضرت ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سئل عن صوم یوم الاثنین ، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ ۔
ترجمہ : (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوشنبہ (سوموار) کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی ۔ (صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۳۶۸)

محدثین علیہم الرّحمہ نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی ، اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنی ولادتِ مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے ۔ اب اگر کوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے ، صدقات و خیرات کرتا ہے ، واقعہ میلاد کے تذکرہ کےلیے جلسے کرتا ہے ، جشن مناتا ہے ، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے ، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی متابعت اور پیروی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ دیکھ کر فرمایا : ان ﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح ۔
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا ، نجات پائے گا ۔ (التنویر فی مولد السراج المنیر صفحہ نمبر ۶۲۳،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے : انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام ۔
ترجمہ : ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے ۔ (التنویر فی مولد السراج المنیر صفحہ ۶۲۳)

مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائز و مستحسن ہے ۔ اور یہ کہ یہ قرآنِ کریم و احادیثِ مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے ۔ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کےلیے مجلس کا انعقاد عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے ۔

قرونِ ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دن کو عید و خوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشنِ ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا ۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذوناتِ شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں ۔ صاحبِ مجمع البحار علامہ طاہر فتنی علیہ الرّحمہ ، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں ، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں : بحمدہ تعالیٰ ﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سر چشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہِ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہارِ مسرت کا حکم دیا گیا ہے ۔ الیٰ آخرہ)

یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو ، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہو سکتی ، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع و بدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی ، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو ، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو ، اصولِ شرع جس کے جواز کے مقتضیٰ ہوں ، اس کے جواز میں کیا کلام ہو سکتا ہے ؟ چاہے تفصیلاً وہ عمل قرونِ ثلٰثہ میں نہ رہا ہو ، اس لیے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کےلیے صرف اتنا کافی ہے کہ الکہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع نہ فرمایا : لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ ‘‘ کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا ۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرتا اور نئی شریعت گڑھتا ہے ، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہے باقاعدہ اصولِ بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابلِ جواز تممسک باصل ، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں ، بعض حضرات جُہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کر کے دھوکہ کھاتے و دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر ، تو دلیل تم پر چاہیے ۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید و خذیعت ہے ، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا ؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امر و نہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں ، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے ، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے ؟ ۔ (الیاقوتتہ الواسطتہ صفحہ نمبر ۳۔۴)
اسی میں ہے : علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرّحمہ ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی ﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘ ۔
علامہ علی مکی علیہ الرّحمہ رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ ‘‘ غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جواز کا قائل مثل سائل مدعا علیہ ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل ، اس کےلیے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں ۔

نفسِ میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا ۔ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و عہد صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا ۔ اس لیے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے ۔ رہا جشن عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئتِ کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘ یعنی بری ایجاد ۔

علامہ سخاوی علیہ الرحمہ مسلم الثبوت محدث ہیں ، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں : میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مروجہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں ، اس کی بنیاد قرون ثلاثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے ، اس میں جشن مناتے ہیں ، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں ، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں ، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں ۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۶۲،چشتی)

عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لیے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا ۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں ﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ، لہذا مناسب ہے کہ اہلِ اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہو جائے ۔ (الحاوی للفتاویٰ جلد ۱ صفحہ نمبر ۲۶۰،چشتی)

یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد ، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کر کے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا ، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی علیہ الرّحمہ اپنی کتاب مولدُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں لکھتے ہیں : عرب کے شرق و غرب ، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولدُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مجالس منعقد ہوتی ہیں ۔ ماہِ ربیعُ الاوّل کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں ، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں ، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں ، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے ، خرچ کرتے ہیں ۔ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیر و برکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیر و برکت پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت ، رزق میں وسعت ، مال میں زیادتی ، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے ، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے ۔ یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برکت کے سبب سے ہے ‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالمِ اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہلِ اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا ۔

مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمة ﷲ تعالیٰ علیہما (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں : نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہو رہا ہے ۔ ہر سال یومِ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ ﷲ کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا ۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷،چشتی)

میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے : جب ابولہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا ، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا ؟ اس نے جواب دیا مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کی خوشی میں) ثُوَیبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں (صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۶۳،چشتی)

اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شبِ ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کر دی گئی تو امتِ محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے ، میری زندگی کی قسم ﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا ۔ (المواہب اللدنیہ بشرح الزرقانی جلد ۱ صفحہ ۲۶۱)

علامہ زرقانی علیہ الرّحمہ کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو ، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری ، ثُوَیبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا ، جبکہ قرآن کریم کی نصِ قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں ، ان کے اعمال باطل کردیے گئے ، قال ﷲ تعالیٰ ’’ وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا ۔ (سورہ الفرقان: آیت ۲۳) ،، جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔ مگر صحیح حدیث میں ابولہب کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے ۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی علیہ الرّحمہ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں : جس عمل کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکمِ عام سے مخصوص ہے ۔ (عمدۃ القاری جلد ۲۹ صفحہ ۲۴۲ المکتبۃ الشاملۃ)

علامہ کرمانی علیہ الرّحمہ نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات سے ہو ، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے ۔ یہ خصوصیت ﷲ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات سے متعلق رکھی ، عمدۃ القاری ہی میں ہے : اگر آپ کہیں کافروں کے اعمالِ حسنہ تو نیست و نابود کردیے گئے ، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے ، میں کہوں گا کہ (ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برکت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خصوصیت کی وجہ سے ہے ۔ (عمدۃ القاری باب قصۃ ابی طالب جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۳،چشتی)

پوری دنیا کے جلیلُ القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین علیہم الرّحمہ نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عملِ میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، امام سخاوی ، علامہ امام برہان الدین صاحبِ سیرت حلبیہ ، علامہ ابن حجر مکی ، امام ابن جزری صاحب حصن حصین ، حافظ جلال الدین سیوطی ، حافظ ابن رجب حنبلی ، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار ، ملا علی قاری ، شیخ عبدالوہاب متقی مکی ، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہم الرّحمہ جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ از روئے اُصولِ مروجہ عملِ مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرفِ عام خود حجت شرعیہ ہے ۔ جس کی اصل حدیث پاک : مارأہ المسلمون حسناً فہو عندﷲ حسن ، (جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز ﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے ۔

موجودہ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا ، جیسا کہ معترضین و منکرین کا نقطہ نظر ہے ، سخت محرومی ، بددیانتی اور جُہل و بے خبری ہے ۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں یا عہدِ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں تھی ، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن و سنت کے مزاحم اور اُصولِ شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں ؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصفِ اِستحسان رکھتی ہے تو اسے ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : 1 ۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ ،
2 ۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہا و وزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۳۵ مجلسِ برکات،چشتی)

’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے : خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے ۔ عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے ۔ (سیرتِ حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷)

سخت افسوس کی بات ہے کہ ابن تیمیہ اور فاکہانی کی اتباع و پیروی میں وہابیہ و دیابنہ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیر شرعی ایجاد بتاتے ہیں جیسا کہ معترضین و منکرین نے عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تعلق سے اپنے فتوے میں اپنے دل کا بغض اتارا ہے ، جو حد درجہ قابل مذمت ہے ۔ ان نام نہاد مفتیوں نے قرآن و حدیث کے نصوص کو نہیں سمجھا ، فقہاء و محدثین اور معتمد سیرت نگاروں کی واضح و غیر مبہم درجنوں عبارتوں سے صرف نظر کیا جن سے عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جواز و استحسان و باعثِ خیر و برکت ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ، ان معترضین و منکرین نے اپنے خود ساختہ ضابطے سے محدثین کرام و فقہائے عظام کی نئی ایجادات پر کاری ضرب لگائی ۔ یہ منکرین کے مفتی حضرات قرآن و حدیث و شریعت مطہرہ کاے پیروکار نہیں بلکہ ابن تیمیہ ، فاکہانی ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، اسماعیل دہلوی جیسے گروہِ وہابیہ کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ اگر اس وہابیائی ضابطے کو مان لیا جائے جو معترضین و منکرین کہتے ہیں تو پھر شریعت سے امان اٹھ جائے گا ۔ کیا کوئی وہابی دیوبندی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ : ⬇

1 ۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے ؟ جبکہ خاص کتاب ﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ہوا ، نہ عہدِ صحابہ ضی اللہ عنہم میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین رضی اللہ عنہم میں ہوا ۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں ۔

2 ۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے ؟ جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ہوئی نہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہم نے مسجدِ نبوی شریف کی تعمیرِ جدید میں محراب بھی بنوایا ، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے ، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا ۔

3 ۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے ؟ جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے ؟ کس نے شامل کیے ؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں ۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام عضی اللہ عنہم کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے ، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے ۔

4 ۔ بیس رکعت نمازِ تراویح با جماعت پڑھنا ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی ایجاد ، بدعت و گناہ ہے ؟

5 ۔ جمعہ کے دن اذانِ اوّل کا اضافہ بدعت سئیہ ہے ؟ جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ نے کی ۔

6 ۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے ؟ جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے ۔

فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے : ’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے ۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں ، کیا دارالعلوم دیوبند کا جشنِ صد سالہدیوبند منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے ؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا ؟ ان مفتیوں سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشنِ صد سالہ دیوبند کرسچن کی ایجاد ہے ؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے ؟ تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا ؟ خاص کر نماز میں وہابی دیوبندی لاٶڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں ۔ کیا قرآن کریم نے اقامتِ نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبرُ الصّوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے ؟ حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں ، وہابی اصول پر یہ تمام بدعتیں بُری اور ضلالت یعنی گمراہی ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں ۔ اگر وہابیوں کے اعتقاد و عمل ، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکارِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی ، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی ۔ غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی ، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے ۔

پہلی روایت کی رو سے ایجادِ میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے ، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے ، مگر پورے عالمِ اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناجائز و حرام نہیں کہا ، بری بدعت نہیں بتایا ، بلکہ تمام علماء ، فقہا ، محدثین علیہم الرّحمہ اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے ۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہلِ اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی ؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سوادِ اعظم ، جمہور اہلِ اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول لغو و باطل و مردود ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض کی دلیل ہے جبکہ یہود و سعود کے علاوہ پورے عالمِ اسلام میں رائج عمل جشنِ عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جائز و مستحسن اور باعث خیر و برکت و علامت محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ (مزید حصّہ نمبر 22 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 28 September 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 20

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 20
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انسانیت کےلیے اللہ تعالیٰ کا فضل ، رحمت اور اِحسانِ عظیم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ انسانیت کےلیے اللہ تعالیٰ کا فضل ، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں ۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے جیسا کہ احادیثِ صومِ عاشورہ سے واضح ہے ۔ اِظہارِ تشکر کے کئی طریقے ہیں : انفرادی طور پر بندہ رب کریم کا شکر ادا کرنے کےلیے نفلی عبادات اور خیرات و عطیات کو ذریعہ اظہار بناتا ہے مگر جو فضل و احسان امت پر اجتماعی سطح پر ہوا ہو اس کا اظہارِ تشکر بھی اجتماعی طریقے سے کیا جاتا ہے ۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور فضل عمیم ہے اس لیے اس نعمتِ عظمیٰ پر ﷲ عزوجل کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے ۔ اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے اور اس کا اِستدلال سابقہ امتوں کے مماثل رویوں سے منسلک ہے ۔

یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا ۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا ؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي ﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے ۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن ﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644)(ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92)

ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ یہ ہیں : لما قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر ﷲ فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أولي بموسي منکم ۔ ثم أمر بصومه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130)(ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444)

ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے : فقالوا : هذا يوم عظيم، أنجي ﷲ فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وأمر بصيامه ۔
ترجمہ : انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130)(بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول ﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216)(ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112)

مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے ﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت ﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ۔
اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کےلیے روزہ رکھا ۔ (شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209)

یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کےلیے تشریف لائے ۔ ارشادِ ربانی ہے : وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۔
تجمہ : اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ، ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں ۔ (سورہ الأعراف، 7 : 157)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کےلیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ ﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کےلیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کر جشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے ! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا ؟

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔

قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا ۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے : ⬇

اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم ۔
ترجمہ : یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901)

اِمام مسلم علیہ الرحمہ (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم ۔
ترجمہ : یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو ۔ (مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131،چشتی)(نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848)(طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197)

اِمام طحاوی علیہ الرحمہ (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے ۔

اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے : کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم ۔
ترجمہ : اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131)(ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575)(إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337)(عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248)

اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) علیہما الرحمہ کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ : ⬇

1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کےلیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔

2 ۔ عید کا دن اُن کےلیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔

3 ۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔

4 ۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں : وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال : وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق ﷲ فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي ۔ فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة ۔ والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم ۔ (حسن المقصد في عمل المولد : 63)(الحاوي للفتاوي : 205، 206)(سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366)(زرقاني شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263)(احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54)(حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237)
ترجمہ : شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کےلیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر ﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے ؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے ۔

جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص : 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کےلیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے ۔

ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کے روزے مسلمانوں پر واجب تھے۔ (1) جب ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو ان کا وجوب منسوخ ہوگیا ۔ (2) بعض ذہنوں میں یہ اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ صومِ عاشورہ کا وجوب تو منسوخ ہوگیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہیں، لیکن اس سے صومِ عاشورہ کی حِلّت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس روزہ کے حکم وجوبیت کی منسوخی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار نہیں) جس طرح روزہ رکھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نحن احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہیں) فرمایا تھا، حالاں کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا ۔ (شرح معاني الآثار، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 129. 132)(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 120)

اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں : کان رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان، کان من شاء صام ومن شاء أفطر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، تاہم جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جو چاہتا یہ روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1897، 1898)

صومِ عاشورہ کا وجوب منسوخ ہونے کے باوجود اَحادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں۔ اس دن کے روزے کی جو فضیلت پہلے تھی وہ اب بھی ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے صومِ عاشورہ کی منسوخی کا حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے اِستدلال پر کوئی اثر نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو پھر بھی جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اِس سے اِستدلال پر فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیادہ خوشی لامحالہ اُن لوگوں کو ہوگی جنہیں اُمتِ موسوی کے افراد ہونے کا دعویٰ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس روزہ سے صرف اُمت کو یہ توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی فتح پر شکر ادا کرتے ہیں تو تمہیں بھی ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے۔ مگر طبعِ غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو، بلکہ خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی جب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ اس لیے کہ بغیر اِستفسار کے بیان کرنا بھی طبعِ غیور کے مناسبِ حال نہ تھا ۔

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کےلیے باعثِ اِحترام بن گیا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہود سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی غرقابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا : وهذا يوم استَوَتْ فيه السفينة علي الجُودِي، فصامه نوح وموسي شکرًا ﷲ تعالي ۔
ترجمہ : اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اورموسی علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا ۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أنا أحق بموسي، وأحق بصوم هذا اليوم ۔ترجمہ : میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702)(عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔

آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے یوم عاشورہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی جماعتِ مومنین کی بقاء دراصل عالم انسانیت کی بقاء اور فروغِ نسلِ اِنسانی کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن کو آپ کی قوم نے یاد رکھا اور بارگاہِ خداوندی میں ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہر وہ واقعہ جس سے مومنین کی اِجتماعی نجات، آزادی اور بقاء وابستہ ہے اس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت و اِنبساط اِسلامی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک دن بھی اَبد تک اہلِ ایمان کےلیے یومِ عید ہے ۔

دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی ۔

اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں : کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يصومه ۔
ترجمہ : زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1898،چشتی)(بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3 : 1393، رقم : 3619)(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 792، رقم : 1125)(ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء، 3 : 127، رقم : 753)

جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا ۔ ان کا یہ معمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا ۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں : کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض ﷲ رمضان، قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه ۔
ترجمہ : اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے ، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول ﷲ : جعل ﷲ الکعبة البيت الحرام، 2 : 578، رقم : 1515)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 278، رقم : 7495)(بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم 9513،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7 : 204)

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها ۔
ترجمہ : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے ۔ (عسقلاني، فتح الباري، 3 : 455)

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه ۔
ترجمہ : یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے ۔ (فتح الباري، 4 : 246)

ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی علیہ الرحمہ (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5 : 138، رقم : 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں : ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة ۔
ترجمہ : یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 187،چشتی)(فتح الباري، 4 : 248)(فتح الباري، 7 : 276)

کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کےلیے باعثِ خلجان بنتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دن کا احترام کرنا چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت چودہ سو سال قبل ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیتِ رسولِ خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ یہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشنِ عید کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے ؟

یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے ۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوئہ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہلِ عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم و تکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا اور ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یومِ ولادت کو منانا اور اس پر اِظہارِ مسرت و فرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل کسی دن کو منانے کی سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔

جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) ۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے : ⬇

اِمام بخاری علیہ الرحمہ (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له : يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة ۔
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا : (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45)(بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145،چشتی)(بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330)(بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840)(مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017)(ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043)(نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012)

اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه ۔
ترجمہ : ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔

وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ صنے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں : عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة ۔
ترجمہ : میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے ۔ (فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا : اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا ’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ۔ (سورہ المائدة، 5 : 3) ۔ اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان ’’ میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں ۔ (المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830)(فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14)

مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا ۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں ۔ اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت ۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا) ۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا : لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا ’’ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة ’’ بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835)(طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82)(مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14)(ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں ۔

اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے ۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا ، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ عیدِ میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کےلیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں ، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی ۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا ۔ لہٰذا اہلِ ایمان کےلیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے ۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں ۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے ۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے ۔

بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے : فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة ’’ بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی ۔

اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عیدُ الاضحی کا دن ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے ۔ اور اگر ان اَجل صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ وہ تو عیدُ الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ۔

جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے ۔

حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي ۔
ترجمہ : تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا ۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047،چشتی)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 578)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)

جمعۃ المبارک عید کا دن ہے ، اِس پر کبار محدثین کرام علیہم الرحمہ نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں : ⬇

امام اِبن ماجہ علیہ الرحمہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن هذا يوم عيد، جعله ﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک ۔
ترجمہ : بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےلیے بنایا ہے ۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کےلیے آئے تو غسل کر کے آئے ، اور اگر ہو سکے تو خوشبو لگا کر آئے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355)(منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058)

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده ۔
ترجمہ : بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں) ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903)(ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166)(ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524)(حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595)

امام اِبن حبان علیہ الرحمہ (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں : کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة ؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام ۔
ترجمہ : میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو ۔ (ابن حبان الصحيح 8 : 375، رقم : 3610)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کسلیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا ؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا : فيه خلق آدم ’’ (یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ۔

جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عیدُ الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا ؟ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی ۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی ۔ لہٰذا یومُ الجمعہ کو یومُ العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی علیہ السلام کا یومِ تخلیق ہے ۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے ۔

جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : فأکثروا عليّ من الصلاة فيه ’’ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو ۔ اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کےلیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کےلیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیا ہے ۔

حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول ﷲ ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت ؟ ’’ یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن ﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء ’’ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375،چشتی)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)

اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے ۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی ۔ پس اس نے کہا : أتدري أين صليت ؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام ’’ پس اس نے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے ؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی ۔ (نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1 : 222، رقم : 450)(طبراني، مسند الشاميين، 1 : 194، رقم : 341) ۔ اِن کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  (بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 410، رقم : 3484)(طبراني، المعجم الکبير، 7 : 283، رقم : 7142،چشتی)(هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 73)(عسقلاني، فتح الباري، 7 : 199)

اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی ۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے ۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا ۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی ۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ مکان جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی واجب التعظیم ، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ میلاد پر روزہ رکھ کر خود خوشی کا اِظہار فرمایا
جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے ؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام ث کو اپنے یومِ میلاد پر ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک ان احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے : ⬇

اِمام مسلم علیہ الرحمہ (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : أن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين ؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182) ۔ اِن کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں : (نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594)(عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865،چشتی)(أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259)

پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں ۔

اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘ اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ﷲ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کےلیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا ۔ (بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43)(مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833)(نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962،چشتی)(عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595)(عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661)(مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا ۔ (مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994)(روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا ۔ (ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32)(حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128)(سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما ہی سے روایت ہے : أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة ۔
ترجمہ : بے شک حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی ۔ (ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61)(ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51)(ابن حبان، الثقات، 1 : 42)(قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100)(ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81)۔ (مزید حصّہ نمبر 21 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...