Wednesday 31 August 2022

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ ہشتم

0 comments
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ ہشتم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی شریعت مصطفیٰ وسنت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی پابندی سے آراستہ ہے ۔ ان کے تقویٰ کی شان بڑی بلند وبالا ہے ۔چند واقعات پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ ہوگا کہ وہ تقویٰ ہی نہیں وَرَعْکی منزل بلند پر فائز تھے اور ’’ان اولیاء ہ الا المتقون ‘‘کے مطابق متقی کامل اور ولی عارف تھے ۔

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا آخری رمضان ۱۳۳۹؁ھ میں تھا اس وقت ایک تو بریلی میں گرمی تھی دوسرے عمر مبارک کا آخری حصہ اور ضعف ومرض کی شدت ۔شریعت اجازت دیتی ہے کہ شیخ فانی روزہ نہ رکھ سکے تو فدیہ دے اور ناتواں مریض کو اجازت دیتی ہے کہ قضا کرے لیکن امام احمد رضا کا فتویٰ اپنے لئے کچھ اور ہی تھا جو در حقیقت فتویٰ نہیں تقویٰ تھا ۔ انہوں نے فرمایا :بریلی میں شدت گرما کے سبب میرے لئے روزہ رکھنا ممکن نہیں لیکن پہاڑ پر ٹھنڈک ہوتی ہے ،یہاں سے نینی تال قریب ہے بھوالی پہاڑ پر روزہ رکھا جاسکتا ہے میں وہاں جانے پر قادر ہوں لہٰذا میرے اوپر وہاں جاکر روزہ رکھنا فرض ہے چنانچہ رمضان وہیں گزارے اور پورے روزے رکھے۔

۲۵؍صفر کو وصال ہوتا ہے مرض مہینوں سے تھا اور ایسا کہ چلنے پھر نے کی طاقت نہیں شریعت اجازت دیتی ہے کہ ایسا مریض گھر میں تنہا نماز پڑھ لے ۔مگر امام احمد رضا جماعت کی پابندی کرتے اور چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد پہونچاتے جب تک اس طرح حاضری کی قدرت تھی،جماعت میں شریک ہوتے رہے۔

میں نے ’’جمل النور فی نھی النساء عن زیارۃ القبور‘‘ کے حاشیہ میں اپنے استاذ محترم حضور حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب مراد آبادی علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ؍۱۳۹۶ء)کی روایت سے لکھا ہے : ایک بار مسجد لے جانے والا کوئی نہ تھا جماعت کا وقت ہوگیا ۔ طبیعت پریشان،ناچار خود ہی گھسٹتے ہوئے حاضر مسجد ہوئے اور باجماعت نماز ادا کی ۔آج صحت وطاقت اور تمام تر سہولیات کے باوجود ترک نماز اور ترک جماعت کے ماحول میں یہ واقعہ ایک عظیم درس عبرت ہے۔

ایک بار امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے علاقۂ زمینداری میں سکونت پزیر تھے ۔درد قولنج کے سخت دورے ہوا کرتے تھے ۔ایک دن تنہا تھے ، فرماتے ہیں ظہر کے وقت درد شروع ہوا ،اسی حالت میں جس طرح ہوا وضوکیا ۔ اب نماز کو کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔رب عزوجل سے دعا کی اور حضور اقدس اسے مدد مانگی، مولیٰ عزوجل مضطر کی پکار سنتا ہے میں نے سنتوں کی نیت باندھ دی ۔درد بالکل نہ تھا ۔سلام پھیرا ،اسی شدت سے تھا ۔فوراً اٹھ کر فرضوں کی نیت باندھی درد جاتا رہا،جب سلام پھیرا وہی حالت تھی ۔بعد کی سنتیں پڑھی درد موقوف اور سلام کے بعد پھر بدستور ،میں نے کہا اب عصر تک ہوتا رہ…پلنگ پر لیٹا کروٹیں لے رہا تھا کہ درد سے کسی پہلو قرار نہ تھا خواہ یہ کہیے کہ حالت نماز میں درد یکسر اٹھا لیا جاتا تھا یا یہ کہیے کہ توجہ اِلیٰ اللہ اور استغراق عبادت کے باعث درد کا احساس نہ ہوتا تھا ،بہر صورت امام احمد رضا کی مقبولیتِ بارگاہ اور ذوق عرفانی کی دلیلِ کافی ہے۔

اس طرح کے واقعات کہاں تک میں جمع کروں جب کہ ان کی پوری زندگی ان ہی حالات وکیفیات سے آراستہ وپیراستہ ہے ۔ ایک واقعہ اور ذکر کیا جاتا ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دن بھر علمی مشاغل اور تدوین فقہ وغیرہ میں مصروف رہتے، رات کو نوافل وعبادات بھی بجالاتے مگر رات کے کچھ حصے میں آرام بھی کرتے،ایک بار کہیں جارہے تھے انہیں دیکھ کر کسی نے کہا یہ وہ ہیں جو رات بھر عبادت کرتے ہیں اس وقت سے پوری رات عبادت اور شب بیداری اختیار کرلی۔

کسی نے امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس خط لکھا تو اس میں دیگر القاب وآداب کے ساتھ ’’حافظ‘‘بھی لکھ دیا ۔اس وقت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ با ضابطہ حافظ قرآن نہ تھے ۔اگرچہ قریباً تمام آیات کریمہ حضرت کے زبان وقلم پر رہا کرتیں…اور حسب ضرورت ان سے استدلال واستنباط بھی کرتے ،شیربیشہ ٔ اہلسنت مولاناحشمت علی خاں علیہ الرحمہ ۲۹ ؍ شعبان ۱۳۳۷؁ھ کا اپناعینی مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خط میں اعلیٰحضرت اپنے القاب کے ساتھ ’’حافظ‘‘ملاحظہ فرما کر آبدیدہ ہوگئے۔خوف خدا سے دل کانپ اٹھا اور فرمایا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میرا حشر ان لوگوں میں نہ ہو جن کے بارے میں قرآن عظیم فرماتا ہے یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا ۔ (وہ اسے پسند کرتے ہیں کہ ان کی ایسی خوبیاں بیان کی جائیں جو ان میں نہیں) ۔

اس واقعہ کے بعد آپ نے قرآن یاد کرنے کا عزم صمیم کرلیا ۔ اور روزانہ عشاء کا وضو فرمانے کے بعد جماعت ہونے سے قبل بس اس طرح یاد کرتے کہ کوئی ایک پارہ یا زیادہ آپ کو سنا دیتا پھر آپ سنادیتے ۲۹؍شعبان کے بعد شروع کیا ۔اور ۲۷ ؍رمضان تک پورا قرآن حفظ کرلیا اور تراویح میں سُنابھی دیا ۔

یہ واقعہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے کس قدر مشابہت رکھتا ہے ان کا محرک بھی یہی تھا کہ کسی نے کہہ دیا پوری رات عبادت کرتے ہیں ۔یہاں بھی یہ کہ کسی نے حافظ لکھ دیا ۔جبکہ باضابطہ حافظ قرآن نہ تھے، خوفِ خدا ہوتو ایسی مشکل چیزیں مشکل نہیں رہ جاتیںاور قلب ایسا آمادہ ہوتا ہے کہ کرہی کے دم لیتا ہے ۔

تقویٰ کا اجمالی منظر : اس طرح کے بہت سے واقعات امام احمد رضا کی تاریخ زندگی سے وابستہ ہیں جن میں ان کا عرفان،خوف خدا اور پرہیز گاری وتقویٰ کا حسن صاف جھلکتا ہے۔ میں اجمالاً چند واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔مختلف اصناف تقویٰ کے جلوے نظر آئیں گے تقسیم وتنویع سے صرف نظر کرتے ہوے سبھی کو تقویٰ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔

(۱)حقوق العباد کی اہمیت امام احمد رضا کا قلب صافی خوب محسوس کرتا ہے اس سلسلے میں ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے ’’اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد‘‘رمضان میں بعد افطار صرف پان کھالیتے اور سحری کے وقت ایک چھوٹے سے پیالہ میں فیرینی تناول فرماتے۔ زمانۂ اعتکاف میں ایک دن ملازم بچہ دو گھنٹے تاخیر سے پان لے کر آیا ۔ حضرت نے اس کو ایک چپت مار کر فرمایا اتنی دیر میں لایا…اس ایک چپت مار نے پر انہیں رات بھر فکر رہی ۔آخر سحر کے وقت اسے بلوایا اور فرمایا کہ رات جو تاخیر ہوئی اس میں تمھارا قصور نہ تھا بھیجنے والے کی کوتاہی تھی ۔مجھ سے غلطی ہوئی کہ تمہیں چپت ماری اب تم میرے سر پر چپت مارو۔ٹوپی اتار کر اصرار فرماتے رہے ،بچہ دم بخود کانپنے لگا ۔ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، حضور! میں نے معاف کیا فرمایا: تم نابالغ ہو تمہیں معاف کرنے کا حق نہیں چپت مارو۔پھر اپنا بکس منگواکر مٹھی بھر کر پیسے نکالے اور فرمایا یہ پیسے تمہیں دوں گا چپت مارو ۔آخر اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت سی چپتیں اپنے سر پر لگائیں اور پھر اسے پیسے دے کر رخصت کیا ۔

وقت وصال سے کچھ ایام پہلے کا چشم دید واقعہ مولانا جعفر شاہ پھلواروی لکھتے ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد اپنے ضعف ومرض کی حالت میں درد واثر میں بھری ہوئی آواز میں چند وداعی کلمات کچھ اس طرح کہے۔

’’میری طرف سے تمام اہل سنت مسلمانوں کو سلام پہنچا دو اور میں نے کسی کا قصور کیا ہے تو میں اس سے بڑی عاجزی سے اس کی معافی مانگتا ہوں ۔مجھے خدا کے لئے معاف کردو مجھ سے کوئی بدلہ لے لو‘‘۔

وصایا میں بھی وصال سے چند ماہ قبل کے ایک اجلاس اور خطاب کا ذکر ہے جس کے آخر میں فرمایا گیا :آپ حضرات نے کبھی مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دی ۔میرے کام آپ لوگوں نے خود کئے، مجھے نہ کرنے دیئے ۔اللہ تعالیٰ آپ سب صاحبوں کو جزائے خیر دے، مجھے آپ صاحبوں سے امید ہے کہ قبر میں بھی کسی قسم کی تکلیف کے باعث نہ ہوں گے ۔میں نے تمام اہل سنت سے اپنے حقوق لِوَجْہِ اللہ معاف کردیئے ہیں۔ لوگوں سے دست بستہ عرض ہے کہ مجھ سے جو کچھ آپ کے حقوق میں فروگزاشت ہوئی ہے وہ سب معاف کردیںاور حاضرین پر فرض ہے کہ جو حضرات موجود نہیں ان سے معافی کرالیں ۔

(۲)گھر میں فوٹو اور تصوریں ہر گز برداشت نہ کرتے ،وصال کے وقت روپیئے پیسے تک نکلوا دیئے کہ ملائکہ رحمت کی تشریف آوری میں کسی طرح کا شبہ بھی نہ رہ جائے۔

(۳)تواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ ایک بار پیلی بھیت آتے وقت ٹرین میں تاخیر تھی تو اسٹیشن پر آرام کرسی بیٹھنے کو دی گئی ۔فرمایا یہ تو بڑی متکبرانہ کرسی ہے ۔تشریف رکھا لیکن پشت نہ لگائی اور وظائف میں مشغول رہے ۔کسی شخص کو اعلیٰحضرت کی بارگاہ میں ایک مسلمان حجام کے برابر بیٹھنا پڑا تو آئندہ انہوں نے آنا ہی ترک کردیا ۔اعلیٰحضرت نے فرمایا میں بھی ایسے متکبر کو پسند نہیں کرتا ۔

(۴)اطاعت والدین میں بھی ان کی مثال پیش کرنی مشکل ہے والد گرامی کے وصال کے بعد اپنی پوری بانگ ڈور اپنی والدہ ماجدہ قدس سِرَّہا کے ہاتھ میں دے رکھی تھی بے اذن حج نفل بھی گوارا نہ کیا۔جو کچھ رقوم ہوتیں سب والدہ کی خدمت میں حاضر کردیتے ان کی اجازت کے بغیر کتابیں بھی نہ خریدتے۔

(۵)علمائے اسلام کی توقیر وتعظیم میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیتے ۔علامہ شامی اور محقق علی الاطلاق جیسے اکابر کی باتوں پر کلام کرتے ہیں مگر ادب اور تواضع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،جب کہ آج اکابر پر اس طرح حرف گیری کی جاتی ہے کہ وہ طفل مکتب معلوم ہوں ۔یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہیں امام احمد رضا کے علوم کا پچاسواں حصہ بھی نصیب نہیں ۔ایک جگہ ردالمختار میں علامہ شامی نے فرمایا اس اعتراض کا حل ہماری سمجھ میں نہ آیا ۔اعلیٰحضرت نے جد الممتار میں اس پر لکھا ’’وظھر لنا ببرکۃ خدمۃ کلماتکم‘‘آپ کے کلمات پر عمل کرنے کی برکت سے ہمیں سمجھ میں آگیا ۔الخ

شان علماء کا ذکر فرماتے ہوئے ایک قصیدہ میں لکھا ہے :

اِذَا حَلُّوْا تَمَصَّرَتِ البَوَادِیْ اِذَا رَاحُوْافَصَارَ الْمِصْرُ بیداً

یہ حضرات جب کہیں فروکش ہوں تو بادیے شہر بن جائیں اور جب رخصت ہوں تو شہر جنگل بن جائیں ۔ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری نے عرض کیا یہ تو شاعرانہ مبالغہ معلوم ہوتا ہے ۔فرمایا حقیقت ہے۔مولانا عبد القادر صاحب جب تشریف فرما ہوتے ، پورے شہر میں چہل پہل نظر آتی،عجب کیف وسرور کا سماں ہوتا ،واپس چلے جاتے، معلوم ہوتا ویرانی چھاگئی حالانکہ ان کے سوا سبھی موجود ہوتے۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا عبد الحق خیر آبادی نے انہیں ’’ہمارا بدایونی خبطی‘‘کہا تو اعلیحضرت مولانا عبد القادر کے ذکر میں اپنے غضب دینی کو برداشت نہ کرسکے پھر بھی باادب جواب دیا کہ سب سے پہلے رد وہابیہ آپ کے والد ماجد نے کیا ہے۔’’تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغوی ‘‘مولوی اسماعیل دہلوی کی تقویت الایمان کے رد میں پہلی کتاب ہے جو آپ کے والد ماجد مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے تصنیف کی ۔

(۶)حق گوئی اور صلابت دینی کی مثالیں ایک سے ایک ہیں ۔مولانا فضل رسول بدایونی قدس سرہ کے عرس میں ایک بار شرکت فرمائی، مولوی سراج الدین آنولوی کوئی میلاد خواں واعظ تھے انہوں نے دوران تقریر یہ کہاکہ ’’پہلے حضور اقدس اکے جسم مبارک میں فرشتے روح ڈالیںگے‘‘ چونکہ اس میں حیات ِانبیاء علیہم السلام کے مسلمہ اصول سے انکار نکلتا تھا یہ سن کر اعلیحضرت کا چہرہ متغیر ہوگیااور مولانا عبد القادر علیہ الرحمہ سے فرمایا آپ اجازت دیں تو ان کو منبر سے اتار دوں ،مولانا علیہ الرحمہ نے ان کو بیان سے روک دیا اور مولانا عبد المقتدر صاحب سے فرمایا کہ ایسے بے علم لوگوں کو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے میلاد شریف پڑھنے نہ بٹھایا کیجئے جن کے سامنے بیان کرنے والے کے لئے علم اور زبان کو بہت نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسی سلسلے میں اعلیحضرت نے فرمایا انہیں وجوہ سے آج کل کے واعظین اور میلاد خوانوں کے بیانوں ،وعظوں میں جانا چھوڑدیا اور حضرت شاہ علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے متعلق فرمایاکہ حضرت ان میں سے ہیں جن کابیان میں بخوشی سنتاہوں۔

یہ حصہ بھی خاص طور سے قابل غور ہے کہ اعلیٰحضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ اگر چہ باضابطہ سندی عالم نہ تھے مگر علم باطن نے علم ظاہر میں بھی انہیں ایسا پختہ کار بنادیا تھا کہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ جیسا محقق عالم وعارف ان کا بیان بخوشی سنتا اسی لیے امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ کوئی صوفی علم ظاہر سے خالی نہ ہوگا اور جو خالی ہو وہ صوفی نہیں مسخرئہ شیطان ہے۔ (مقال عرفا وغیرہ)

(۷)خدمت دینی پر اپنوں کی مدح اور غیروں کی قدح انسان کو عُجب وکبریا نفسانی غصہ وانتقام میں مبتلا کردیا کرتے ہیں۔مگر امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :بخدا میں نہ ان اکابر علماء واولیاء کی مدح پر اِتراتا ہوں نہ ان دشمنان ِخدا ورسول کی گالیوں سے غصہ میں آتا ہوں ۔خدا کا شکر ہے کی اس نے اس ناچیز کو اس قابل بنایا کہ اس کے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ناموس کی حفاظت میں گالیاں سنے ۔جتنی دیر مجھے گالیاں دیتے ہیں اتنی دیر تو میرے آقا کی بد گوئی سے باز رہتے ہیں۔ان کی ساری زندگی کا نقشہ یہ ہے ۔

نہ مرانوش زتحسین نہ مرا نیش زطعن نہ مرا گوش بہ مدحے نہ مرا ہوش ذمے

ان کے اخلاق وعادات اور اتباع شرع کا بیان کہاں تک ہو۔ایک عینی مشاہدہ مولانا شاہ ابو سلمان محمد عبد المنان قادری جو ابتدائً اعلیحضرت کے مخالف تھے انہوں نے یہ تحریری بیان دیا کہ :۔

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اخلاق نبویہ کی ایک زندہ مثال ہیں۔آپ کی زیارت نے تمام وکمال فقیر پر یہ ثابت کردیا کہ جو کچھ بھی آپ کی تعریفیں ہوتی ہیں وہ کم ہیں۔

(۸) احتیاط فی القول کا یہ حال تھا کہ کسی حل یا جواب میں ذرا بھی خامی وغلطی ہوتی تو اسے ’’صحیح‘‘کہنے سے پرہیز کرتے ۔سید ایوب علی صاحب نے رمضان المبارک ۱۳۳۵؁ھ کے اوقات نماز پنجگانہ کا نقشہ بناکر بھیجا دس پندرہ منٹ کے بعداصلاح کے ساتھ واپس آیا جہاں جہاں بھی خامی تھی اس پر غلط کا نشان اور جو صحیح تھا اس پر صحیح کا نشان بنا دیا گیا تھا ایک خانہ میں بجائے صحیح کے خیر لکھا تھا غور کیا تو سکنڈ کے ہزار ویں حصے کی غلطی تھی جس سے اوقات پر کوئی اثر نہیں آتا مگر غلطی بہر حال غلطی ہے اس لیے صحیح کا نشان نہ دیا بلکہ خیر لکھا تھا ۔

(۹)پیلی بھیت کے مشہور بزرگ شاہ جی محمد شیر میاں علیہ الرحمہ سے ملنے محدث سورتی کے ہمراہ تشریف لے گئے ۔دیکھا کہ شاہ صاحب بے حجابانہ عورتوں سے بیعت لے رہے ہیں ۔ احکام شرع پر کمال غیرت کے باعث امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ بغیر ملے ہوئے واپش تشریف لائے کوئی دوسرا ہوتا تو بگڑ جاتا مگر شاہ صاحب کی بے نفسی وحق پسندی کا کمال اس طرح جلوہ گر ہوا کہ شام کو اسٹیشن تک پہنچانے تشریف لائے اور صبح کے واقعہ پر اظہار افسوس کے ساتھ کہامولانا اب آئندہ میں عورتوں کو پس پردہ بٹھا کر بیعت لیا کروں گا اس کے بعد امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا ۔

(۱۰)مسجد میں وضو کا مستعمل پانی گرانا جائز نہیں خواہ وہی پانی ہو جو اعضاء پر لگا رہ جاتا ہے ۔ایک بار سخت سردی میں شاید بارش ہورہی تھی ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ معتکف تھے باہر وضو کی صورت نظر نہ آئی ۔لحاف کو چار تہ کرکے اس پر وضو کیا ایک قطرہ بھی فرش پر گرنے نہ دیا ۔اور پوری رات سردی میں ٹھٹھر کر بسر کردی۔

(۱۱)جب مسجد میں داخل ہوتے تو دایاں پائوں آگے بڑھاتے ۔ہر صف کو دایاں قدم بڑھاتے ہوئے عبور کرتے اسی طرح محراب تک مصلیٰ پر پہنچ جاتے۔فرض نماز صرف کرتے اور ٹوپی پر بغیر عمامہ کبھی نہ ادا کی ۔

دکھتی آنکھوں سے جو پانی گرے ناقضِ وضو ہے ۔ایک بار آشوب چشم تھا تو ہر نماز کے بعد کسی سے آنکھ دکھا لیتے کہ پانی حلقۂ چشم سے باہر تو نہیں آیا ورنہ دوبارہ وضو کرکے نماز لوٹانی ہوگی۔

لا تمش فی الارض مرحا پر عمل کیا تو ایسا کہ سبک خرامی دیدنی ہوتی، قدموں کی آہٹ پانا بھی مشکل تھا بارہا ایسا ہوا کہ قریب پہنچ کر خود تقدیم سلام کی تو خدا م کو آنے کی خبر ہوئی۔سونے میں اسم رسالت ’’محمد‘‘علی صاحبہ الصلوٰۃ ولاسلام کا نقشہ ہوتا ۔غرباء کی دل جوئی کا بڑا خیال تھا مخلص غرباء کی دعوت نہ رد کرتے نہ بعد میں کوئی حرف شکایت زبان پر لاتے ۔بلکہ خدا م کو حیرت ہوتی کہ کھانا کیسے تناول فرمایا تو ارشاد ہوتا ایسی خلوص کی دعوت ہوتو میں روزانہ قبول کرنے کو تیار ہوں ۔خط بنواتے وقت اپنی کنگھی اور اپنا شیشہ استعمال کرتے ۔قبلہ کی طرف نہ کبھی پائوں دراز کیا نہ منھ کرکے تھوکا ۔ان عادات کو دیکھ کر سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

(۱۲)حدیث کے مطابق تہمت کی جگہوں سے بھی پرہیز کرتے ۔مٹی کا تیل چونکہ بد بودار ہوتا ہے اس لئے مسجد میں جلانا ناجائز ہے ۔ایک بار حاجی کفایت اللہ صاحب نے لالٹین میں ارنڈی کا تیل بھر کر جلایا ۔فرمایا حاجی صاحب اسے باہر کیجئے ۔ورنہ لوگوں کو بتاتے رہیئے کہ اس میں مٹی کا تیل نہیں ارنڈی کا تیل ہے ۔راہ چلتے لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ دوسروں کو مسجد میں بدبودار تیل جلانے سے ممانعت کی جاتی ہے اور خود اپنی مسجد میں جلاتے ہیں آخر حاجی صاحب نے باہر کردیا۔

کسی عالم نے بہ نیت اعتکاف مسجد میں قیام کیا اور پان وغیرہ بھی کھایا اگالدان بھی رکھا بعض لوگ جو ان کی نیت اعتکاف سے باخبر نہ تھے معترض ہوئے ۔اعلیحضرت کے پاس سوال آیا اعتراض کرنے والوں کو حکم مسئلہ اور مرتبۂ عالم بتاتے ہوئے تنبیہ کی آخر میں یہ بھی لکھا۔

’’علماء کو چاہیے کہ اگر چہ خود نیت صحیحہ رکھتے ہو ں عوام کے سامنے ایسے افعال جن سے ان کا خیال پریشان ہو نہ کریں کہ اس میں دو فتنے ہیں : جو معتقد نہیں ان کا معترض ہونا ،غیبت کی بلا میں پڑنا ،عالم کے فیض سے محروم رہنا ۔اور جو معتقد ہیں ان کا اس کے افعال کو دستاویز بنا کر بے علم نیت خودمرتکب ہونا ۔۔عالم فرقۂ ملامتیہ سے نہیں کہ عوام کو نفرت دلانے میں اس کا فائدہ ہو ۔مسند ہدایت پر ہے ،عوام کو اپنی طرف رغبت دلانے میں ان کا نفع ہے ۔حدیث میں ہے ’’راس العقل بعد الایمان باللہ التودد الی الناس۔دوسری حدیث میں ہے : بشروا ولاتنفروا‘‘۔احیاناً ایسے افعال کی حاجت ہوتو اعلان کے ساتھ اپنی نیت اور مسئلہ ٔ شریعت عوام کو بتادے۔‘‘

(۱۳)حامد علی خاں نواب رامپور سے حضرت مہدی میاں کے مراسم تھے ایک بار چاہا کہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرائوں نواب کے ساتھ اسپیشل ٹرین سے سفر میں تھے بریلی اسٹیشن سے مدار المہام کی معرفت ڈیڑھ ہزار کی نذر بھیجی اور پیغام کہلایا کہ میاں نے دیا ہے اور نواب کو ملاقات کا موقع دیا جائے ۔جوابا دروازہ کی چوکھٹ پر کھڑے کھڑے مدار المہام سے فرمایا بعد سلام ان سے کہیئے یہ الٹی نذر کیسی؟ مجھے چاہیئے کہ میاں کی خدمت میں نذر پیش کروں نہ کہ میاں مجھے نذر دیں اس نے کہاحضور ڈیڑھ ہزار میں (جو آج کے سکے میں قریبا ۷۵ ہزار کے برابر ہوںگے) فرمایا جو بھی ہو واپس لے جائیے فقیر کا مکان نہ اس قابل کہ کسی والی ریاست کو بلاسکوں اور نہ میں والیان ریاست سے واقف کہ خود جاسکوں ۔ (حیات اعلیٰ حضرت)

(۱۴)ایک صاحب داخل سلسلہ ہوکر کسی وظیفہ کے خواہشمند ہوئے ۔ ان کی داڑھی حد شرع سے کم تھی ۔فرمایا جب داڑھی شرع کے مطابق ہوجائے گی وظیفہ بتایا جائے گا ۔کچھ دنوں بعد پھر درخواست کی ۔فرمایا کسی التماس کی ضرورت نہیں جب داڑھی شرع کے مطابق ہوجائے گی خودوظیفہ بتادیا جائے گا یعنی نفل پر واجب مقدم ہے ۔

تصوف کی کتابوں میں بعض حضرات کے لئے دقائق وحقائق سے زیادہ تاثیر صوفیاء وصلحاء کے واقعات وحکایات میں ہوتی ہے اسی لئے میں نے اس مضمون میں واقعات کو بھی دخل دیا ہے جس سے اپنے مدعا کے اثبات کے علاوہ یہ مقصود بھی ہے کہ آج کے مادی دور میں اہل تصوف امام احمد رضا قدس سرہ کے ان عملی نمونوں کو مشعل راہ بناسکیں تاہم ناقدین کی طرف سے اندیشہ ہے اس لئے اور شہادت پر اس حصہ کو ختم کرتا ہوں ۔

کسی کی زندگی معلوم کرنے کے لئے اس کے پڑوسیوں کا بیان خاص طور سے قابل غور ہوتا ہے پڑوسیوں سے کچھ نہ کچھ نزاع ہوہی جاتی ہے اس لئے بعض ایسے بھی ملتے ہیں کہ اپنے دنیوی نقصان کے باعث اپنے نیک پڑوسیوں کی بھی بے جا شکایت کرتے ہیں مگر امام احمد رضا کے پڑوسی بھی ان کے معترف نظر آتے ہیں۔

(۱۵)محمد شاہ خاں عرف حاجی منتھن خاں ایک معزز زمیندار اور اعلیحضرت کے پڑوسی تھے عمر اعلیحضرت سے زیادہ تھی سید ایوب علی صاحب ،وسید قناعت علی صاحب نے ایک دن دیکھا کہ یہ اپنی زمینداری وسن رسید گی کے باوجود بڑے ادب سے آستانۂ رضویہ کی جاروب کشی کر رہے ہیں سید قناعت علی صاحب کو گوارا نہ ہوا آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے جھاڑو لینا چاہی کہ اپنے شیخ کے آستانۂ عالیہ کی جاروب کشی کروں (ان لوگوں کو ابھی معلوم نہ تھا کہ یہ بھی داخل ارادت ہیں)فرمایا میں عمر میں حضور سے بڑا ہو ں ۔ان کا بچپن دیکھا ،جوانی دیکھی،او ر اب بڑھاپا دیکھ رہا ہوں ۔ہر حالت میں یکتائے زمانہ پایا تب ہاتھ میں ہاتھ دیا ۔بڑھاپے میں تو ہر کوئی بزرگ ہوجاتا ہے ۔ انہیں بچپن میں ضرب المثل اور یکتائے روزگار دیکھا ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات

اعلیٰحضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف عُنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لِکھی ہیں۔ ہرتصنیف میں آپ کی علمی وجاہت،فقہی مہارت اور تحقیقی بصیرت کے جلوے دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص فتاوٰی رضویہ توغواصِ بحرِفقہ کے لئے آکسیجن کا کام دیتا ہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے قرآنِ مجید کا ترجمہ کیاجو اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ترجَمہ کا نام ’’کنزالایمان‘‘ ہے ۔تصانیف و شروح کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات ، مکتوبات ، منظومات ، تعلیقات ، توضیحات ، ملفوظات ، تنقیدات ، مکالمات اور مواعظ و غیرہ بھی ہیں جن کی تعدا دکا صحیح اندازہ نہیں۔آپ کی چند کتب کے نام ملاحظہ ہوں: (1):فتاویٰ رضویہ (2) تمہید الایمان مع حاشیہ ایمان کی پہچان (3):ولایت کا آسان راستہ : تصورِ شیخ وغیرہ۔

علم کا چشمہ ہوا ہے موج زن تحریر میں

جب قلم تو نے اٹھایا اے امام احمدرضا

(وسائلِ بخشش صفحہ ۵۳۶)

نوٹ : آپ کی تصانیف کی تفصیلی موضوعاتی فہرست’’ حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ مطبوعہ’’ مکتبہ نبویہ‘‘ جلد دوم میں موجود ہے ۔ (محدث بریلوی از ڈاکٹر مسعود احمد صاحب مطبوعہ ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا کراچی صفحہ 97-99) ۔ (مزید حصّہ نہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ ہفتم

0 comments
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ ہفتم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کے در پر : مارہرہ مطہرہ، یہ وہ مقدس مقام ہے ، جو علما ، عرفا ، صوفیا ، صلحا کے دل کی دھڑکن ہے ۔ شاہانِ وقت بھی یہاں سر کے بل حاضری دینا فخر سمجھتے تھے ۔ یہی جگہ ، جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا پیر خانہ ہے ، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے قلب و نظر کا قبلہ و کعبہ تھی ۔ آپ یہاں کب اور کیسے پہنچے ، ۱۲۹۴ ھجری سے پہلے حاضری کا سراغ نہیں ملتا ۔ یہ صرف فقیر چشتی کی معلومات کی حد تک ہے ۔ ۱۲۹۴ ھجری سے حاضری کی متواتر رواتیں دستیاب ہیں ۔ کتنی بار یہاں حاضری ہوئی ہے ، حتمی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ متعدد بار حاضری دی ہے اور کبھی پا پیادہ اور ننگے پاٶں بھی حاضر ہوئے ہیں ۔ یہ تو جسم و جسد کی حاضری تھی ۔ ورنہ جان و دل کی حاضری ہمہ وقت ہوتی رہتی تھی ۔ تصورِ شیخ میں وہ اتنے محو اور مگن تھے ۔ بس دل میں ہے تصویر یار ، جب ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی ، کے مصداقِ اتم تھے اور پیر بھی کیسا ، جو امام احمد رضا کو آخرت کی پونجی ، سامانِ اخروی اور پیشِ پروردگار حاضر کرنے پر فخر ومباہات فرماتے تھے ۔

وہ عرش آشیاں، وہ خلد آشیاں، وہ شاہانِ بے تاج، جن کی بارگاہیں منگتوں کی امید گاہیں ہیں۔ داتاوں کی نگری ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ لب وا ہیں۔ جھولیاں پھیلی ہیں۔ دینے والا نظر نہیں آتا، مگر دامن بھر جاتا ہے۔ آنکھیں سیر ہوتی ہیں۔ دل شاد ہوتا ہے۔ روتا منہ آیا تھا، ہنستا منہ جا تا ہے۔ چہرہ پسورتا ہوا آیا تھا، مسکراتا مکھڑا جاتا ہے۔ دامن پسارکر آیا تھا، اتنا ملتا ہے کہ دامن تنگ پڑ جاتا ہے۔ آیا تھا، تو گناہوں سے لت پت تھا، پلٹتا ہے، تو پاک پوتر ہو کر پلٹتا ہے۔ آہ!یہ کیسی داتا نگری ہے۔ یہ کیسی دیالو بستی ہے۔ لجپال گاوں ہے ۔ آیئے ۔ وقت کے مجدد امام احمد رضا کی حاضریوں اور پیشیوں پر ایک نظر ڈالیے ۔

ڈاکٹر ایوب قادری (کراچی) لکھتے ہیں : ۱۲۹۴ھجری میں فاضلِ بریلوی اور مولانا نقی علی خان ، بدایوں حضرت مولانا محبِ رسول عبد القادر بدایونی کے پاس تشریف لائے اور پھر اکابرِ علمائے بدایوں حضرتِ شاہ اچھے میاں مارہروی کے عرس میں شرکت کے لیے مارہرہ پہنچے۔ مولانا عبد القادر بدایونی کی تحریک و تعارف پر حضرت فاضلِ بریلوی اور ان کے والد حضرت مولانا نقی علی خان حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی زیبِ سجادہ درگاہِ عالیہ مارہرہ شریف سے بیعت ہوئے ۔ (سال نامہ معارفِ رضاکراچی:۱۹۹۳ ء، ص۹۰)

ڈاکٹر ایوب قادری نے دیدہ نہیں ، شنیدہ لکھا ہے ۔ اعلیٰ حضرت کی سنیے، جوداخلی شہادت ہے ۔ صحیح اور ثقہ ہے ۔ اپنے جدِ امجد شاہ رضا علی خان بریلوی کا ذکرِ جمیل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ایک دن میں روتا ہوا دوپہر کو سو گیا۔ دیکھا (خواب میں) حضرتِ جدِ امجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا:عنقریب آنے والا ہے وہ شخص، جو تمہارے دردِ دل کی دوا کرے گا۔ دوسرے یا تیسرے روز حضرت مولانا عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بدایوں سے تشریف لائے اور اپنے ساتھ مارہرہ شریف لے گئے۔ وہاں جا کر شرفِ بیعت حاصل کیا ۔ (الملفوظ: طبع بریلی، ص۶۸/حیاتِ الیٰ حضرت: طبع لاہور، ۲۰۰۳ ء ، ص۴۲۶،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اپنے والدِ کریم شاہ نقی علی خان کے احوالِ حیات رقم کر تے ہوئے لکھتے ہیں : ۵ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۴ھ کومارہرہ شریف میں دستِ حق پرست حضرتِ آقائے نعمت دریائے رحمت سید الواصلین سند الکاملین قطب اوانہ وامام زمانہ حضور پر نور سیدنا و مرشدنا مولاناوماواناذخری لیومی و غدی حضرتِ سیدنا سید شاہ آلِ رسول احمدی تاجدارِ مسندِ مارہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ وافاض علینا من برکاتہ و نعماہ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضور پیر ومرشد نے مثالِ خلافت واجازت جمیع سلاسل وسندِ حدیث عطا فرمائی۔ یہ غلام ناکارہ بھی اسی جلسہ میں اس جناب (والد ماجد)کے طفیل ان برکات سے شرف یاب ہوا۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ (تفسیر سورہ الم نشرح: از نقی علی خان، رضوی کتاب گھرطبع بھیونڈی)

اعلیٰ حضرت اپنے مرشدِ گرامی کا ذکر اپنی کتاب الاجازۃ المتینۃمیں یوں کرتے ہیں : میں اپنے مولیٰ، اپنے مرشد، اپنے سردار سے راوی ہوں، جو میرے لیے سہارا بھی ہیں اور خزانہ بھی اوردنیا وآخرت میں ذخیرہ بھی، جو شریعت و طریقت کے جامع ہیں اور پاک لوگوں کی دونوں جماعتوں عالموں، عارفوں کے مرجع بھی، جن کی توجہ اصاغر کو اکابر بنا دیتی ہے، یعنی سیدنا الشاہ آلِ رسول احمدی رضی اللہ عنہ بالرضا السرمدی ۔ (الاجازۃ المتینۃ: مشمولہ رسائلِ رضویہ،ادارہ اشاعتِ تصنیفاتِ رضا ، بریلی ، صفحہ ۱۸۱،چشتی)

مشہور محقق و مصنف علامہ عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری نقل کرتے ہیں : حضرتِ پیرو مرشد (شاہ آلِ رسول)اس بیعت کے چند روز پہلے ہی سے یوں نظر آرہے تھے، جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں اور جب یہ دونوں حضرات(شاہ نقی علی واعلیٰ حضرت)وہاں پہنچے، تو بشاش ہو کر فرمایا:تشریف لایئے۔ آپ کا تو بڑا انتظار ہو رہا تھا ۔ (سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس لاہور،۱۹۹۴ ء صفحہ ۴،چشتی)

حضرتِ سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں ، جو رازدارِ درونِ خانہ بھی ہیں ، ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں : تاج الفحول محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب بدایونی قدس سرہ العزیز نے فقیر سے بیان فرمایا کہ مولانا نقی علی خان صاحب والد ماجد حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب نے اپنی بیعت کے ارادے کا اظہار فرمایا۔ اس سے پہلے حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بہ خیالِ بیعت مولانا فضلِ رحماں صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا چکے تھے اور وہاں سے کسی وجہ سے واپس آ چکے تھے۔ مولانا بدایونی نے مولانا نقی علی خان صاحب کو یہ جواب دیا کہ : آپ امر بیعت میں مجھ پر اعتماد رکھتے ہیں، تو جس جگہ مناسب جان کر میں آپ کو بیعت کرا دوں ، وہاں منظور کر لیجیے ۔ مولانا بریلوی کی طرف سے اس پر رضا مندی ہونے پر مولانا بدایونی، مولانا نقی علی خان صاحب، مولانا احمد رضا خان صاحب اور مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو ہمراہ لے کر مارہرہ تشریف لائے۔ چوں کہ مولانا نقی علی خان صاحب نے فرما یا کہ میں بغیر تجدیدِ غسل کیے ہوئے خانقاہِ برکاتیہ میں حاضر نہ ہوں گا۔ لہٰذا سب حضرات پہلے مارہرہ میں ایک سرائے میں جاکر فرو کش ہوئے۔ مگر سرائے کے راستے میں سواری کا یکہ الٹ گیااور مولانا نقی علی خان صاحب کو چوٹ لگی۔ پھر اسی حالت میں انہوں نے نہا دھو کر کپڑے پہنے اور سب حضرات خانقاہ برکاتیہ میں تشریف لائے اور فقیر ہی کے مکان موسوم بہ مدرسہ پر، جو درگاہِ معلی برکاتیہ کے دروازے کے سامنے تھا اور اس وقت ٹوٹا پڑا ہے ، فروکش ہوئے ۔ فقیر کے والد ماجد حضرت سید شاہ محمد صادق صاحب وبرادرِ مکرم حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں صاحب قدس سرہما بھی ان دنوں مارہرہ ہی میں تشریف فرما تھے۔ اسی دن ظہر کے وقت مولانا بدایونی، مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب اور مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو ہمراہ لے کر حضرت خاتم الاکابر سید شاہ آلِ رسول صاحب قدس سرہ العزیزکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ فقیر اور فقیر کے والد ماجد اور میاں صاحب بھائی مرحوم بھی ہمراہ گئے ۔ حضرت خاتم الاکابر نے پہلے مولانا نقی علی خان صاحب، پھر مولانا احمد رضا خان صاحب، پھر مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو داخلِ سلسلہ عالیہ قادریہ جدیدہ فرمایا ۔ پھر حضور کی جانب سے ایما ہونے پر کہ مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب کو خلافت بھی دے دی جائے۔ حضرت میاں صاحب بھائی نے اپنے جدِ امجد حضرت خاتم الاکابر کی خدمت میں اس کے لیے بھی عرض کیااور جلسہ میں حضرت نے خلافت و اجازت جملہ سلاسل واسناد وتبرکاتِ خاندان عالیہ قادریہ برکاتیہ سے بھی مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب کو مشرف فرمایا۔ بیعت وخلافت کے بعد بھی کچھ عرصے تک ان سب حضرات نے فقیر کے مکان پر قیام فرمایا۔ اسی دوران تاج الفحول بدایونی نے فقیر سے ارشاد فرمایا کہ : مولانا احمد رضا خان صاحب کا حضرت صاحب سے بیعت ہو جانا، ان کےلیے بھی اچھا ہوا اور میرے لیے بھی اچھا ہوا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ لاہور،۲۰۰۳ء ص۶۹۸، ۹۹ ۶)

تاج الفحول شاہ محمد عبد القادر بدایونی کی ہمرہی میں مارہرہ کا سفر ، اعلیٰ حضرت رقم طراز ہیں : مولانا ! سات ادلہ والے رسالہ کا اشتیاق ہے۔ شاید بدایوں پہنچا ہو۔ حضرت تاج الفحول محب الرسول مولانا مولوی عبد القادر صاحب بھی سفر مارہرہ میں ہمراہ تھے۔ اب وہاں استفسار کیا جائے گا ۔ (کلیاتِ مکاتیبِ رضا، طبع کلیر شریف، ۲۰۰۵ء ص ۲/۳۰۰،چشتی)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت جدی سیدنا سید شاہ برکت اللہ صاحب قدس سرہ العزیز کے عرس میں مولانا احمد رضاخان صاحب تشریف لائے ۔ اس سفر میں ان کے بہنوئی بھی ان کے ساتھ تھے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۱۰۵)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : حضرت جدِ امجد سیدنا شاہ برکت اللہ صاحب قدس سرہ العزیز کا عرس شریف ایک زمانہ میں میرے والد صاحب قدس سرہ نہایت اہتمام و انتظام اور اعلیٰ پیمانے پر کیا کرتے تھے۔ اس میں بارہا حضرت مولانا (احمد رضا) بھی تشریف لائے اور میرے اصرار سے بیان بھی فرمایا۔ مگر اس طرح کہ حاضرینِ مجلس سے فرماتے ہیں۔ ابھی اپنے نفس کو وعظ نہیں کہہ پایا۔ دوسروں کو وعظ کے کیا لائق ہوں۔ آپ حضرات مجھ سے مسائلِ شرعیہ دریافت فرمائیں۔ ان کے بارے میں جو حکمِ شرعی میرے علم میں ہوگا، چوں کہ بعد سوال اس کو ظاہر کر دینا، حکمِ شریعت ہے، میں ظاہر کر دوں گا ۔ فقیر غفر لہ عرض کرتا ہے۔ اتنا سن کر حاضرین میں سے کوئی صاحب حسبِ حال سوال کر دیتے۔ حضور پر نور اپنی تقریر دلپذیر سے ایک موثر بیان اس مسئلہ پر فرما دیتے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ، لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۱۰۶،چشتی)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : ایک بار میرے اصرار سے مولانا (احمد رضا) نے مزار صاحب البرکات قدس سرہ پر اپنے والد ماجد قبلہ کا مولفہ مولود شریف (سرور القلوب فی ذکر المحبوب) بھی پڑھا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۱۰۶)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : ایک بار بہ زمانہ عرس حضرت جدی شاہ برکت اللہ قدس سرہ درگاہِ معلی میں میاں جی صاحب کے مکتب کے متصل کوٹھری میں، جہاں ہماری ہمشیرہ والدہ مسعود حسن کی اب قبر ہے، مولانا (احمد رضا) تشریف فرما تھے ۔ ہم نے مولانا عبد المجید بدایونی کا شجرہ عربی درود شریف میں دِکھایااور کہا کہ ہمارا شجرہ بھی عربی درود میں لکھ دیجیے۔ اسی وقت میاں صاحب بھائی مرحوم کے قلم دان سے قلم لے کر قلم برداشتہ بغیر کوئی مسودہ کیے ہوئے ہمارے وظیفے کی کتاب پر نہایت خوش خط اور اعلیٰ درجے کے مرصع و مسجع صیغۂ درود شریف میں شجرہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ تحریر فرمایا اور اسے حضرت میاں صاحب بھائی کی کتاب پر بھی نقل فرما دیا۔ یہ واقعہ محرم الحرام۱۳۰۵ ھ کا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۹۹۔ ۱۷۶،چشتی)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : مولانا احمد رضا خان صاحب کا حسنِ ادب بارگاہِ رسالت میں اس قدر تھا کہ ایک درود میں لفظ حسین وزاہد تھا۔ آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے نقل کرنا بھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ نہایت لطافت کے ساتھ اسے وہاں اس طرح استعمال فرمایا ہے کہ یہی صیغہ تصغیر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتِ شان ظاہر کر رہا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، طبع لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۹۹۔ ۱۷۶ ۔ ۶۱۸)

رضویات کے موسسِ اول ملک العلما ء حضرت مفتی محمد ظفر الدین قادر ی رضوی لکھتے ہیں :
جامعِ حالات (ملک العلماء) غفرلہ کہتا ہے ۔ اس درود کی عبارت یہ ہے : الہم صل و سلم وبارک علی سیدنا و مولانا محمد المصطفیٰ رفیع الشان المرتضیٰ علی الشان والذی رجیل من امتہ خیر من رجال السابقین حسین من زمرتہ حسن من کذا و کذا من السابقین ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۲۱۸)

حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کا بیان ہے : مولانا (احمد رضا) کو علمِ تکسیر کی تشویق و تحریک کا سبب میں ہی ہوا تھا۔ میں اس علم کے بہت تذکرے کرتا۔ کتابیں دِکھاتا۔ ایک بار کسی خاندانی کتاب میں ایک نیا وفق سپر مرتضوی نظر سے گذرا۔ مولانا کو بھی دکھا یا۔ اس کے قاعدے کی تشریح و تو ضیح میں کچھ گفتگو رہی۔ مولانا نے وہ کتاب رکھ لی اورایک دو روز کے بعد ایک مفصل رسالہ میں اس وفق کے بہت سے صور اور اس کے لیے کئی ضابطے کا یہ مفصل و مشرح رسالہ تحریر فرما کر مجھے دے دیا۔ جو میرے پاس بفضلہ تعالیٰ اس وقت بھی محفوظ ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۲۱۸)

رضویات کے موسسِ اول ملک العلماء حضرت علامہ مفتی محمد ظفر الدین قادر ی رضوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ۱۳۱۵ھ میں اردو میں دو قصیدے تحریر فرمائے۔ ایک تاج الفحول محب الرسول حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب بدایونی قدس سرہ العزیز کی مدح میں، جس کا نامِ تاریخی’’ چراغِ انس‘‘۱۳۱۵ھ رکھا۔ اس کا مطلع یہ ہے : ⬇

اے امام الہدیٰ محب رسول
دین کے مقتدا محبِ رسول

دوسرا قصیدہ حضرت سیدنا سید شاہ ابو الحسن نوری میاں صاحب قدس سرہ کی مدح و ثنا میں ہے۔ اس کا تاریخی نام مشرقستانِ قدس رکھا۔ اس کا مطلع یہ ہے : ⬇

ماہِ سیما ہے احمدِ نوری
مہر جلوہ ہے احمدِ نوری

اور مقطع یہ ہے : ⬇

کیوں رضاؔ تم ملول ہوتے ہو
ہاں تمہارا ہے احمدِ نوری

اس قصیدے کو استماع فرما کر حضرت ممدوح(نوری میاں) نے اعلیٰ حضرت قدست اسرارہماکو ایک نہایت ہی نفیس معطر ومعنبر عمامہ عطا فرمایااور اپنے دستِ اقدس سے اعلیٰ حضرت کے سر پر باندھا ۔ حاضرینِ جلسہ سے حضرت مولانا محمد عبد المقتدر مطیع الرسول صاحب قادری برکاتی عثمانی بدایونی نے فی البدیہہ اس عطیہ بہیئہ کی تاریخ ۱۳۱۵ھ تاج الفخر سے نکالی ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۷۲۳)

اس قصیدے کی تفصیل یہ ہے ۔ یہ۱۳۱۷ ھ کا سن تھا، جب اعلیٰ حضرت نے قصیدہ نور لکھا۔ اسی برس عرسِ قادری بدایوں میں پڑھا بھی گیا۔ یہ عرس سراپا قدس یکم جمادی الثانی تا جمادی الثانی منعقد ہوا تھا۔ یہ قصیدہ ۵ جمادی الثانی کو ۱۰ بجے دن سے قبلِ ظہر تک سنایا گیا۔ سنانے والے بدایوں کے مشہور نعت خواں مولانا حافظ عبد الحبیب قادری نے پڑھا اور مجمع، جو رندوں کا تھا، نور علی نور ہو گیا۔ اس عرس کی روداد مولانا ضیاء القادر ی بدایونی (ف۱۳۰۰ھ/۱۹۷۰ء) مصنف اکمل التاریخ نے لکھی۔ اس وقت۱۳۱۷ ھ میں روداد نگار کی عمر ستر برس کی تھی۔ یہ روداد مولانا ضیاء القادری کی کتاب’’ چراغِ صبحِ جمال‘‘ میں پہلی بار شائع ہوئی ۔ ایک مدت بعد اکتوبر ۱۹۹۳ء میں مجلہ بدایوں کراچی سے بھی شائع ہوئی۔ پھر قریب دو دہے بعد ماہ نامہ جامِ نوردہلی شمارہ جولائی۲۰۱۳ ء میں بھی سہ بارہ شائع ہوئی ۔

روداد نگار مولانا ضیاء القادری لکھتے ہیں : ۵ جمادی الثانی۱۳۱۷ ھ ہے۔ خوش گوار گرمی کا موسم ہے۔ آستانہ عالیہ قادریہ میں مولانا ہادی علی لکھنوی علیہ الرحمہ کی شہادت کا بیان ہو چکا ہے۔ مسندِ علما و مشائخ پر اکابر عظمارونق افروز ہیں۔ ایک در میں گاوں تکیے سے پشت لگائے صدرِ خانوادہ قادریہ مسند نشینِ آستانہ برکاتیہ نورِ مجسم فیضِ ہمہ تن فرزندِ محبوبِ ذو المنن قطبِ زمن حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین قبلہ احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ جلوہ فرما ہیں۔ صحنِ درگاہِ معلی میں ہم شبیہِ غوث الثقلین سیدنا مولانا حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں، حضرت مولانا شیخ المشائخ سیدنا شاہ تجمل حسین جمن میاں شاہجہاں پوری، حضرت سید شاہ فخر عالم قادری، حضرت نوشہ میاں قادری چشتی سنبھلی، وحضرت سجادہ نشین آستانہ قادری رزاقیہ بانسہ شریف، حضرت سجادہ نشین آستانہ عالیہ کالپی شریف، حضرت مولانا حافظ سید شاہ عبد الصمد مودودی چشتی حافظِ بخاری سہسوانی، حضرت مولانا مجددماۃ حاضرہ شاہ احمد رضا خان فاضلِ بریلوی، حضرت مولانا سیدنا شاہ وصی احمد محدث سورتی، مولانا ہادی علی خان سیتا پوری، مولانا ہدایت رسول لکھنوی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین، نیز مارہرہ، بریلی، بدایوں، پیلی بھیت وغیرہ کے اکابر علما وادبا و شعرا موجود ہیں ۔ دس بجے دن کے بعد قصیدہ نور شروع ہوا تھا۔ صحنِ درگاہ تمام مقدس نورانی بزرگوںسے بھرا ہوا تھا۔ آفتاب کی شعاعیں سرخ شامیانے سے چھن چھن کر نعت خوانوں کے لب و دہن اور حاضرین کے رخہائے روشن کو چومنے میں مصروف تھیں۔ شامیانے سے نور چھن رہا تھا۔ در دیوار سے نور نور کا نغمہ بلند ہو رہا تھا ۔ علما و مشائخ ، ادبا و شعرا، حاضرینِ محفل کیف و سرور کے عالم میں سبحان اللہ و صل علی کے مودبانہ تحسین و آفرین میں مشغول تھے۔ ایک ایک شعر چار چار پانچ پانچ بار پڑھوایا جا رہا تھا۔ ہر شخص پر وجد طاری تھا۔ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ انوارِ الٰہی کی بارش ہورہی ہے۔ حافظ حبیب صاحب نے پورا قصیدہ صاحبِ عرس کے حضور اور مصنفِ قصیدہ (اعلیٰ حضرت) کی موجودگی میں پڑھا اور ایک بجے کے قریب ختم کیا۔ جس وقت حافظ صاحب نے مقطع پڑھا : ⬇

اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

حضرت سیدنا شاہ احمد نوری قدس سرہ نے (جو گردن جھکائے مراقب نظر آرہے تھے) گردن مبارک بلند فرمائی۔ دستِ دعا اٹھائے۔ حضرت فاضلِ بریلوی والہانہ انداز کے ساتھ اٹھے۔ زبان سے چینخ نکلی اور حضرت میاں صاحب قبلہ کے زانوئے اقدس پر سر رکھ دیا ۔ (ماہ نامہ جامِ نور دہلی جولائی ۲۰۱۳ ء ص۴۵۔۴۴)

ڈاکٹر ایوب قادری نے اس سفر اور قصیدہ کا تذکرہ یوں کیا ہے : ۱۳۱۷ ھجری میں فاضلِ بریلوی نے اپنا مشہور قصیدہ نور لکھا۔ جس کا پہلا شعر : ⬇

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

اور آخری شعر : ⬇

اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

سب سے پہلے یہ قصیدہ عرسِ قادری بدایوں میں ۵ جمادی الثانی۱۳۱۷ ھ کو پڑھا گیا۔ جس میں ہندوستان کے نامور علما اور مشائخ مولانا عبد القادر بدایونی ، مولانا وصی احمد محدث سورتی، مولانا ہادی علی خان سیتا پوری، مولانا ہدایت رسول، شاہ محمد فاخر الہ آبادی، مولانا عبد الصمد سہسوانی، شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی، شاہ تجمل حسین شاہجہاں پوری وغیرہ موجود تھے۔ حضرت شاہ ابوالحسین نوری میاں صدرِ مشائخ تھے۔ حضرت فاضلِ بریلوی بھی تشریف فرما تھے۔ بدایوں کے مشہور نعت خواں حبیب قادری مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں قصیدہ نور پڑھا۔ لوگ بیان کرتے تھے کہ محفل سراپا نور بن گئی۔ ایک ایک شعر چار چار پانچ پانچ بار پڑھا گیا۔ کیف و سرور کی ایک کیفیت برپا تھی۔ تحسین و آفرین کے نعرے تھے۔ دس بجے یہ قصیدہ شروع ہوا اور قبلِ ظہر ختم ہوا ۔ حضرت شاہ احمد نوری قدس سرہ نے، جو گردن جھکائے مراقب نظر آرہے تھے، گردن اٹھائی اور دست بدعا ہوئے۔ حضرت فاضلِ بریلوی والہانہ انداز کے ساتھ اٹھے اور بے ساختہ ایک چینخ نکلی اور حضرت نوری کے زانوئے مبارک پر سر رکھ دیا ۔ سبحان اللہ و بحمدہ ۔ (سال نامہ معارفِ رضاکراچی، ۱۹۹۳ء صفحہ نمبر ۱۹۲۔۱۹۱،چشتی)

واضح رہے کہ تاج الفحول سے اعلیٰ حضرت بہت متاثر تھے ۔ ۱۲۹۴ ھجری میں اعلیٰ حضرت شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ سے مرید ہوئے۔۱۲۹۶ ھ میں اعلیٰ حضرت اپنے والدِگرامی کے ہمراہ سفرِ حج پر تھے اور یہاں ان کے مرشدِ مکرم شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ کا وصال ہو گیا۔ اس کے بعد اعلیٰ حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نور ی میا ں کی روحانی تربیت اور صحبتِ فیض میں آئے۔ نوری میاں سے علمی استفادہ کیااور علمِ جفر وغیرہ تذکرۃََ سیکھا۔ خلافت و اجازت کی سعادت بھی پائی ۔ اب آگے دیکھیے ۔ حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی فرماتے ہیں : میاں صاحب بھائی قبلہ یعنی حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ العزیزنے مجھ سے فرمایا کہ بیٹا! اب اس وقت دینداری کی علامت یہ ہے کہ جو شخص مولانا عبد القادرصاحب بدایونی اورمولانا احمد رضا خان سے محبت رکھے ۔ اسے دیندار جانو اور جو شخص ان دونوں سے بغض و عداوت رکھے، اسے سمجھ لو کہ بدمذہب ہے یا کسی بد مذہب کے پھیرے میں پھنسا ہوا ہے اور جس مسئلہ پر ان دونوں کا اتفاق ہوا ہے جانو کہ یہ مسئلہ بہت ہی محقق ہے اور جس مسئلہ سے ان دونوں کو اختلاف ہو، اسے جان لو کہ یہ غیر محقق اور غلط ہے اور فرماتے تھے کہ بیٹا!ہمارا تو اب یہی دستور العمل ہے (اور فقیر کا بھی یہی دستور العمل رہا) کہ جو مسئلہ، جو مولانا احمد رضا خان صاحب نے فرمایا۔ اس پر فوراََ دل مطمئن ہو گیااور ان کی اعلیٰ تحقیق اور غور و تدبر کے کثیر در کثیر مشاہدات و واقعات نے یہ حالت کر دی تھی کہ جو مسئلہ دریافت کرتا اور اس کی نسبت لکھ دیتا کہ مسئلہ کا حکم لکھ دیجیے ۔ دلیل کی ضروت نہیں ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۱۰۰۴)

سراج السالکین سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں قبلہ علیہ الرحمہ کاعالی شان فرمان : ’’چشم وچراغِ خاندانِ برکات‘‘ حضرت اقدس سیدنا شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں صاحب قبلہ قدس سرہ العزیز کو جو خصوصیت اعلیٰ حضرت قبلہ سے تھی، محتاجِ بیان نہیں۔ ہمیشہ جملہ مسائل و عقائدمیں اعلیٰ حضرت مد ظلہ العالی اور تاج الفحول محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب عثمانی بدایونی قدس سرہ العزیز سے مشورہ فرماتے اور جو جو مدائح فرمایا کرتے، ہر باریابِ صحبت پر واضح ہیں۔ ایک صحیفہ شریفہ میں اعلیٰ حضرت مد ظلہ العالی کو تحریر فرمایا : مولوی صاحب ! خدا کی قسم میں حضرت شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سے بہتر جانتا ہوں۔ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے۔ الٰہی!میری عمر میںسے اعلیٰ حضرت کو عمر عطا فرما ۔ ۱۳۲۳ھ میں جب اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حرمین طیبین حاضر ہوئے۔ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے۔ الٰہی! مجھے موت نہ آئے۔ جب تک مولانا احمد رضا خان صاحب کو بالخیر واپس آیا دیکھ نہ لوں۔ محرم ۱۳۲۱ھ کو ایک خط بصیغہ رجسٹری بھیجا۔ جس کی نقل مطابقِ اصل یہ ہے :
چشم و چراغِ خاندانِ برکاتیہ مارہرہ مولانا احمد رضا خان صاحب دام عمرہم و علمہم، ازابوالحسین ، بعد دعاۓ مقبولیت فقرہ محررہ معلی القاب سطر بالا واضح ہو کہ یہ خطاب حضرت صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھ کو دیا تھا۔ باوجودیکہ میں لائق اس کے نہ تھا۔ تحریر فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ اب میں بظاہر اسبابِ انواعِ امراض میں ایسا مبتلا ہوں کہ مصداق اس مصرع کا ہو گیا ہوں : اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمی ماند ۔ اور مولانا عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اٹھ گئے اور جگہ خالی کر گئے۔ تو اب سوائے آپ کے حامی کار اس خاندان عالی شان کا خلفا میں کوئی نہ رہا۔ لہٰذا یہ خطاب میں نے آپ کو بایمائے غیبی پہنچا دیا۔ بطوع و رغبت آپ کو قبول کرنا ہوگااور میں نے بطیبِ خاطر بلا جبر و اکراہ و رغبتِ قلب یہ خطاب آپ کو ہبہ کیا اور بخش دیا۔ یہی خط اس کی سند میں با ضابطہ ہے۔ فقیر ابوالحسین از مارہرہ،۲۲ محرم ۱۳۲۰ ھ ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۶۹۹۔ ۱۰۰۶،چشتی)

۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰ء میں مارہ مطہرہ میں سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں کا عرس تھا۔ جس میں آپ(اعلیٰ حضرت) شریک ہوئے اور نہایت عارفانہ خطاب فرمایا۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جس دن آپ کا بیان ہونے والا تھا، اس دن عجب کیفیت تھی۔ مخلوقِ خدا کی اتنی کثرت تھی کہ شمار و قطار سے باہر ہے۔ نہایت پرکیف اور پر لطف مجلس تھی اور ہر شخص محوِ سماعت تھا۔ آپ نے بیحد عمدگی سے وعظ فرمایا۔ آپ کی خوش بیانی اور خوش کلامی گاہے ہنسا، گاہے رُلا اور گاہے تڑپا دیتی تھی۔ کوئی وعظ و خطاب سننا چاہے، تو وہ امام احمد رضا کی زبان سے سنے ۔ (ہفت روزہ دبدبہ سکندری رام پور، یکم اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۶)

۱۳۳۲ھ میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ خود اپنے ایک مکتوب میںلکھتے ہیں:سرکار مارہرہ مطہرہ حاضر ہوا۔ چھ روز میں واپس آیا اور صعوبتِ سفر اور ناسازی طبع سے اکیس روز معطلِ محض رہا ۔ اب مبتلائے بعض افکار ہوں۔ طالبِ دعاہوں ۔ (کلیات مکاتیبِ رضا، طبع کلیر شریف،۲۰۰۵ ء ،۱/ ۳۳۴)(ماہ نامہ سنی دعوت اسلامی : نومبر ۲۰۱۵ء) ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 29 August 2022

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

0 comments

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پانچویں جَدِّ امجد حضرت امام رفیع الدین فاروقی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 785ھ) کے  خلیفہ تھے ۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے ’’موضع سرائس‘‘ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ ’’موضع سرائس‘‘ اور ’’ سامانہ‘‘ کا درمیانی راستہ خطرناک ہے ، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ (وقت کے بادشاہ) سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کو آسانی ہو ۔ چنانچہ حضرت شیخ امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی ، لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا ، حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت (یعنی مستقل قیام ) فرمایئے ، چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔(زُبْدَۃُ الْمَقامات  صفحہ ۸۹)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کےلیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی944 ھ/1537ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جب تحصیلِ علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما چکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 983ھ/1575ء) مسندِ خلافت پر جلوہ افروز تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصہ سفر میں رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے ۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے ، کتب ِصوفیائے کرام : تَعَرُّف ، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے ، بہت سے مشائخ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ  سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا ۔ ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح ہوا تھا ۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ نے 80 سال کی عمر میں 1007ھ/1598ء میں وصال فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کُنوزُ الحَقائِق اور اَسرارُ التَّشَہُّد بھی شامل ہیں ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی صفحہ ۷۷ تا ۷۹)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ سے کئی علوم حاصل کیے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے ملی تھی ، چنانچہ فرماتے ہیں : اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے ۔ (مَبْدا ومَعاد صفحہ ۶،چشتی)


والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذہ سے بھی استفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا مثلاً مولانا کمال کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے بعض مشکل کتابیں پڑھیں ، حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے کتب حدیث پڑھیں اور سندلی ۔ حضرت قاضی بہلول بدخشی رحمۃ اللہ علیہ سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں ۔ حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے 17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۳۲)


حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تدریس نہایت دل نشین تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ بیضاوی ، بخاری شریف ، مشکوۃ شریف ، ہدایہ اور شرحِ مَواقِف وغیرہ کتب کی تدریس فرماتے تھے ۔ اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی اصلا سے بھی طلبہ کو نوازتے ۔ علمِ دین کے فوائداور اس کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کےلیے علم و علما کی اہمیت بیان فرماتے ۔ جب کسی طالبِ علم میں کمی یا سستی ملاحظہ فرماتے تو اَحسن (یعنی بہت اچھے) انداز میں اس کی اصلاح فرماتے چنانچہ حضرت بدر الدین سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں جوانی کے عالم میں اکثر غلبۂ حال کی وجہ سے پڑھنے کا ذوق نہ پاتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کمال مہربانی سے فرماتے : سبق لاؤ اور پڑھو ، کیوں کہ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخرہ ہے ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم ص ۸۹،چشتی)


حضرت  مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیل علم کے بعد آگرہ (ہند) تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلئہ شروع فرمایا ، اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل (علمائے کرام) آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے لگے ۔ جب ’’آگرہ‘‘ میں کافی عرصہ گزر گیا تو والدِ ماجد عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی یاد ستانے لگی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے کےلیے بے چین ہو گئے ، چنانچہ والدِ محترم طویل سفر فرما کر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب اُن سے اس اچانک تشریف آوری کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا : شیخ احمد (سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا ، چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لیے میں آگیا ہوں ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۳،چشتی)


فرمانبر داراور نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا چین ہوتی ہے ۔ جس طرح والدین کی محبت بھری نظر کے ساتھ زیارت سے اولاد کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اسی طرح جس اولاد کی زیارت سے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ، ایسی اولاد کے لیے بھی غلام آزاد کرنے کے ثواب کی بشارت ہے چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : جب باپ اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھتا ہے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : اگرچہ باپ تین سو ساٹھ (360) مرتبہ دیکھے ؟ ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا ہے ۔ (مُعْجَم کبِیر جلد ۱۱ صفحہ ۱۹۱ حدیث ۱۱۶۰۸)

یعنی اُسے سب کچھ قدرت ہے ، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے ۔ 


حضرت علامہ عبدُالرّء وف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جب اصل (باپ) اپنی فَرْع (بیٹے) پر نظر ڈالے اور اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کرتے دیکھے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ثواب ملتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیٹے نے اپنے رب تعالیٰ کو راضی بھی کیا اورباپ کی آنکھوں کوٹھنڈک بھی پہنچائی کیونکہ باپ نے اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبردار ی میں دیکھا ہے ۔ (اَلتّیسیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۳۱،چشتی)


مجدِّد اَلفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی ، پیشانی کشادہ اور چہرہ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔اَبرو دراز،سیاہ اور باریک تھے ۔ آنکھیں کشادہ اور بڑی جبکہ بینی (یعنی ناک مبارک) باریک اور بلند تھی ۔لب (یعنی ہونٹ) سرخ اور باریک ، دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔رِیش (یعنی داڑھی) مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے) تھے ۔ کہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۱۷۱،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آگرہ (الھند) سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے ، راستے میں جب تھانیسر (تھا ۔ نے ۔ سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا عقدِ مسنون (یعنی سنتِ نکاح) کروا دیا ۔


حضرت امام ربانی ، مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم  ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے ۔ 


حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بزرگوں کے بزرگ ترین امام ، امامِ اجل ، پیشوائے اکمل ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام ائمہ مجتہدین رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم اجمعین میں خواہ وہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یاپھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ وَرَع و تقویٰ والے تھے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ ، یعنی : تمام فقہا امام ابوحنیفہ کے عیال ہیں ۔ (مَبْدا و مَعاد صفحہ ۴۹،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف سلاسلِ طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی : {۱} سلسلئہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی {۲} سلسلۂ چشتیہ اور قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۳} سلسلۂ قادریہ میں کیتھلی (مضافات سرہند) کے بزرگ حصرت شاہ سکندرقادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۴} سلسلئۂ  نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی ۔ (سیرت مجدد الف ثانی صفحہ ۹۱) 


حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تین سلسلوں میں اکتسابِ فیض کا یوں ذِکر فرمایا ہے : مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اِرادت حاصل ہے ۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں 21 ، سلسلۂ قادریہ میں 25 اور سلسلۂ چشتیہ میں 27 واسطوں سے ۔ (مکتوباتِ امامِ ربّانی دفتر سوم حصہ نہم مکتوب نمبر ۸۷ جلد ۲ صفحہ ۲۶)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا بے حد ادب و احترم فرما یا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حجرہ شریف میں تخت پر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے درویشوں کی طرح تنِ تنہا تشریف لائے ۔ جب آپ حجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے کے باہر ہی آپ  کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے ؟ حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : فقیر محمد باقی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ آواز سنتے ہی تخت سے مضطربانہ (یعنی بے قراری کے عالم میں) اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر آکر نہایت عجز و انکساری کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے باادب بیٹھ گئے ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ نمبر ۱۵۳،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مرکزالاولیا لاہور میں تھے کہ 25 جُمادَی الْآخِرہ 1012ھ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت سیِّدُنا خواجہ محمد  باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا دہلی میں وصال ہو گیا ۔ یہ خبر پہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہو گئے ۔ دہلی پہنچ کر مزارِ پرانوار کی زیارت کی ، فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۳۲ ، ۱۵۹) 


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا ، لیکن  1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیشِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا ۔


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کےلیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنتِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ، خلفا اور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی صفحہ۱۵۷،چشتی)


ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے فلاسِفہ کی تعریف کرنے لگا ، اس کا انداز ایسا تھا کہ جس سے علمائے کرام رحمہم اللہ علیہم کی تو ہین لازم آتی تھی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانِ عالی سنایا تو وہ شخص منہ بگاڑ کر کہنے لگا : غزالی نے نامعقول بات کہی ہے ، مَعَاذَ اللہ ۔ حضرت امام محمد بن محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخانہ جملہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جلال آگیا فوراً وہاں سے اٹھے اوراسے ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر اہلِ علم کی صحبت کا ذوق رکھتے ہو تو ایسی بے ادبی کی باتوں سے اپنی زبان بند رکھو ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۱،چشتی)


کسی بھی مسلمان کی تحقیردنیا و آخرت دونوں ہی کےلیے نقصان دہ ہے لیکن بزرگانِ دین کی گستاخی کی سزا بعض اوقات دنیا میں ہی دی جاتی ہے تاکہ ایسا شخص لوگوں کےلیے عبرت کا سامان بن جائے ۔ چنانچہ حضرت تاج الدین عبدالوہاب بن علی سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک فقیہ (یعنی عالم دین) نے مجھے بتا یا کہ ایک شخص نے فقہ شافعی کے درس میں حضرت اما م محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہا ، میں اس پر بہت غمگین ہوا ، رات اسی غم کی کیفیت میں نیند آگئی ۔ خواب میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی ، میں نے برا بھلا کہنے والے شخص کا ذکر کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : فکر مت کیجیے ، وہ کل مر جائے گا ۔ صبح جب میں حلقہ درس میں پہنچا تو اس شخص کو ہشاش بشاش (یعنی بھلا چنگا) دیکھا مگر جب وہ وہاں سے نکلا تو گھر جاتے ہوئے راستے  میں سواری سے گرا اور زخمی ہو گیا ، سورج غروب ہونے سے قبل ہی مرگیا ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزَّبِیدی جلد ۱ صفحہ ۱۴،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے ، بسا اوقات تین تین چار چار پارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے ۔ اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ تلاوت فرماتے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۰۷)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے ۔ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تراویح کے بعد آرام کےلیے بے خیالی میں بائیں (LEFT) کروٹ پر لیٹ گئے ، اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اچانک خیال آیا کہ دائیں (RIGHT) کروٹ پر لیٹنے کی سنّت چھوٹ گئی ہے ۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں ( یعنی سیدھی) کروٹ پر آرام فرما ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگا اور آواز آئی : سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گا اور آپ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۸۰،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا : ایک دن میں اپنے رفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا ، عاجزی و انکساری کا غلبہ تھا ۔ اِسی دوران بمصداقِ حدیث : مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ ، یعنی جو اللہ کےلیے انکساری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے خطاب ہوا : غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْبِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے  سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں ۔ اس کے بعد مجھے حکم دیا گیا کہ میں اس بشارت کو ظاہر کر دوں ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۱۰۴)


حضرت امامِ رَبّانی ، مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سفر و حضر کے خادم حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’اجمیر شریف‘‘ قیام کے دوران ایک دن میں نے  70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : میں نے 70 ہزار بار کلمہ شریف پڑھا ہے اُس کا ثواب آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔ اگلے روز فرمایا : کل جب میں دعا مانگ رہا تھا تو میں نے دیکھا : فرشتوں کی فوج اُس کلمہ طیبہ کا ثواب لے کر آسمان سے اتر رہی ہے ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا : اس ختم کا ثواب میرے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ۔ انہی حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : میں نے جو کچھ بتایا اس پر تعجب نہ کرنا ، میں اپنا حال بھی تمہیں بتاتا ہوں : میں روزانہ تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مرحوم بچوں محمد عیسیٰ ، محمد فرخ اور بیٹی امِ کلثوم کوا یصالِ ثواب کرتا تھا ۔ ہر رات ان کی روحیں کلمہ طیبہ کے ختم کےلیے آمادہ کرتی تھیں ۔ جب تک میں تہجد کی ادائیگی کے بعد کلمہ طیبہ کا ختم نہ کرلیتا وہ روحیں میرے اِرد گِرد اسی طرح چکر لگاتی رہتی جیسے بچے روٹی کےلیے ماں کے گِرد اُس وقت تک منڈلاتے رہتے ہیں جب تک انہیں روٹی نہ مل جائے ۔ جب میں کلمہ طیبہ کا ایصالِ ثواب کر دیتا تو وہ روحیں واپس لوٹ جاتیں ۔ مگر اب کثر تِ ثواب کی وجہ سے وہ معمور ہیں اور اب اُن کا آنا نہیں ہوتا ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۹۵)


حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس دن میںنے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو کلمہ طیبہ کا ثواب نذر کیا اسی دن سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے ایک ہزار دانے والی تسبیح بنوائی اور تنہائی میں اس پرکلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے ۔ شبِ جمعہ کو خاص طور پر مریدین کے ہمراہ اُسی تسبیح پر ایک ہزار دُرُود شریف کا وِرد فرمایا کرتے ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ نمبر ۹۶،چشتی)


امام ربّانی ، حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و امیرُالْمُؤمِنِین حضرت علی و حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی ارواح مقدسہ کےلیے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا ۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری جانب  متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ انور دوسری جانب پھیر لیا اور مجھ سے فرمایا : میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھیجا کرے ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں اُمُّ الْمؤمِنین حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کو شریک طعام ( یعنی ایصال ثواب) نہ کرتا تھا ۔ اس کے بعد سے میں حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا بلکہ تمام اُمَّہاتُ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ کو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لیے وسیلہ بناتا ہوں ۔(مکتوباتِ امام ربّانی دفتر دوم حصہ ششم مکتوب نمبر ۳۶ جلد ۲ صفحہ ۸۵)


اس سے معلوم ہوا کہ جن کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو پہنچ جاتا ہے یہ بھی پتا چلا کہ ایصال ثواب محدود بزرگوں کو کرنے کے بجائے سبھی کو کر دینا چاہیے ۔ ہم جتنوں کو بھی ایصال ثواب کریں گے سبھی کو برابر برابر ہی پہنچے گا اور ہمارے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ۔ یہ بھی پتا چلا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سے بے حد اُنسیت رکھتے ہیں ۔ ’’بخاری‘‘ شریف کی روایت ہے ، حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ جب’’ غزوۂ سلاسل‘‘ سے واپس لوٹے تو انہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ فرمایا : (عورتوں میں) عائشہ ۔ انہوں نے پھر عرض کی : مردوں میں ؟ فرمایا : ان کے والد (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ) ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۱۹ حدیث ۳۶۶۲) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 28 August 2022

اسلام سیرتِ طیبہ اور خدمتِ خلق

0 comments
اسلام سیرتِ  طیبہ اور خدمتِ خلق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ عرب بہت سی تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کا شکار تھے ۔ شرک میں گھِرے معاشرے نے ان کےقلب و اذہان کو اپنی قوی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ دینِ ابراہیمی کا اصل چہرہ مسخ ہو چکا تھا ۔ ایسے بدترین ماحول اور مایوس کن حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں روشنی کا اندلیب ثابت ہوا جس نے بھولے بھٹکوں کی درست سمت رہنمائی کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس انقلاب کی بنیاد رنگ و نسل اور طبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر استوار کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرد کے جان ، مال ، عزت و آبرو کو نہ صرف تحفظ عطا کیا بلکہ امن و آشتی سے تمدنی زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی وضع فرمائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا جامع اور کامل ترین نظام عطا کیا جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا ۔ جس کا عملی نمونہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔

خدمت خلق ایک جامع لفظ ہے ،یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، خدمت خلق کے معنی مخلوق کے کام آنا ہے ، لیکن اسلام میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کےلیے بلا کسی اُجرت اور صلے کے خلق خدا کے کام آنا اور امانت پر کمر بستہ رہنا ہے ۔

دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے ۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے ۔ لیکن خدمت انسانیت یہ اسلام کا طرہ امتیاز اور مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے ۔ یہی ہماری شان اور ہمارا شعار ہے اور یہ امت خدمت انسانیت کےلیے ہی برپا کی گئی ہےاور اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمےداریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے اسے قدم قدم پر دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، مال و دولت کی وسعتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک دوسرے کے احتیاج کو دور کرنے کےلیے آپسی تعاون ، ہمدردی ، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت کا جزء لا ینفک ہے اور انسان وہی ہے جو دوسروں کا خیر خواہ اور ہمددر ہو ۔

جس معاشرہ میں کمزوروں کو سہارا دینے ، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں افراد معاشرہ کے حوصلے بڑھانے کا رواج اور چلن ہو ۔ وہ سماج کے کمزور طبقات کی خدمت و تعاون کو مختلف اندازاور حکیمانہ اسلوب میں پیش کرتا ہے ۔ اورایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے ۔ اور بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے ۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔ اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ۔ یکجہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا ، اخوت ، محبت ، رواداری ، اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ۔

آج ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کی فکر کریں ، ہماری پہچان انسانیت کے بہی خواہ و خیر نواہ کی حیثیت سے ہو ، ہمارے اندر خدمات انسانیت کی ایسی ترپ موجود ہو کہ سماج کا وہ فرد ہمیں اپنا مونس و غمخوار سمجھے ، اگرہم نے انسانیت کی فکر چھوڑ دی تو ہم خیر امت کہلانے کے مستحق ہر گز نہیں ہوسکتے ۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی ، نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سماج اور معاشرہ میں خدمت خلق ، محتاجوں و مسکینوں کی دادرسی ، یتیموں سے ہمدردی ، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے ، اور نبوت سے سرفرز کئے جانے کے بعد تو پوری انسانیت اور تمام نوع انسانی جس طرح آپ کے احسانات کے زیر بار ہے اس کو شمار ہی نہیں کیا جا سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی انسانیت کےلیے وقف کی تھی ، آپ کی بعثت مسلمانوں کےلیے نہیں بلکہ انسانوں کےلیے ہوئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت ، رحم و کرم ، عفو و درگزر اور انسانوں کے دنیاوی و اخروی نجات کےلیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں ۔

محترم قارئينِ کرام : خدمتِ مخلوقِ خدا کی ذریعہ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک بہترین مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جو دوسرے انسانوں کےلیے مفید اور نفع بخش ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں بھی اہم رتبہ حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت ، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غم خواری و غم گساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر ، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمتِ خلق ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلیے کچھ حصہ ضرور نکالیں ، ڈاکٹر غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں ، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں ، اگر آپ کا تعلق پولیس ، عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کےلیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ، اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں ۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے ۔

لہٰذا ہمیں چاہیے اس فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ، تنظیمیں اور ادارے خدمتِ خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں ، دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں ، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کر رہے ہیں ، لیکن مزید بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے ، اپنے نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کرائیں ، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے ۔

جب ہم رفاعی کاموں کا جامع تصوّر اور وسیع دائرہ سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی اور رفاعی کاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے بلکہ تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی منظم اور مربوط بنیاد رکھی اس کے مقاصد واضح کیے اس کے لیے قانون سازی کی اور اس کا عملاً نفاذ فرمایا ۔ آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جامع تعلیمات کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلی فلاحی ریاست کا تصور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے شروع ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ و طاہرہ سے فلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے تصورات اور ان پرعملی اقدامات ہمہ گیر ہیں ۔ دور حاضر میں جن کا مطالعہ اور عملی نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اورمقدس قرار دیا اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے : خیر الناس من ینفع الناس ۔ (کنزالعمال، ج:8، حدیث نمبر:42154،چشتی)
ترجمہ : تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کےلیے سراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : بیوہ اور مسکین کےلیے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ قعنبی کو شک ہے کہ شاید امام مالک علیہ الرحمہ نے یہ بھی فرمایا کہ اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا ۔ ( صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5661،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا ۔ بہترین اسلام کون سا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث 2)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے ۔ (حاکم المستدرک علی الصحیحین، ج:2، حدیث:7172،چشتی)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے ’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے‘‘ اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دی جائے ۔ اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے : حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ جس کی قیمت زیادہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہو رہا ہو جو شخص اپنا کام نہ کر سکے میں نے عرض کی اگر یہ بھی نہ کر سکوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب العتیق، باب ابی الرقاب افضل)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے ۔ قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہو جاتے اور پھر اس کی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی ۔ مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اس کا جینا بھی محال کر دیتے ۔ ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس (بیوہ) کے تعاقب میں رہتے ۔ اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اس کی عزت و تکریم کا اہتمام کیا ۔ اہلِ عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا : بیوہ اور مسکین کےلیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے ۔ (صحیح بخاری جلد نمبر 5 حدیث نمبر :5660،چشتی)

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیسا کہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ : تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے ۔ (1) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔ (2) غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ۔ (3) اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا ۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد،حدیث:1655،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی ۔ (صحیح بخاری جلد 5 حدیث نمبر : 5659)

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت و ترویجِ اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی ، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدا ، مجاہدینِ اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے حدیث مبارکہ شاہد ہے : جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو تیار کیا (ثواب میں شریک ہوا) اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں سے کوئی بھلائی کی تو اس نے جہاد کیا (یعنی جہاد کے ثواب میں شریک ہوا) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر:2843،چشتی)

سردارانِ مکہ کی سخاوت و فیاضی اگرچہ ضرب المثل تھی لیکن یتامیٰ اور مساکین اور وسائل سے محروم افراد کی مدد کرتے وقت ان کے ہاتھ رُک جاتے تھے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے معاشرے میں معاشی استحکام کےلیے اہلِ ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی کیونکہ اسلام کے نقطہ نظر پر مبنی انفاق فی المال درحقیقت اپنے سرمایہ و دولت کو یتامیٰ اور مساکین اور معاشرے کے پست طبقات پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہوجائے اور ان کی تخلیقی جدوجہد بحال ہو جائے اور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بہ تحسین و خوبی سرانجام دے سکیں ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اطعام المساکین ، الحض علی الطعام ، انفاق فی سبیل اللہ ، زکوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے پُرزور الفاظ کے ذریعے ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کیا ۔ انفاق فی المال کی ترغیب دلاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر (بھی) خرچ کیا جائے گا‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور دن رات کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔ کیا تم نہیں دیکھتے اس نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ جلد 2 حدیث نمبر : 993،چشتی)

سود کو عربی زبان میں ربو/ربا کہتے ہیں لغوی اعتبار سے اس کا معنی کسی چیز کا زیادہ ہونا اور بڑھنا مراد ہے ۔ اصطلاحاً ربا سے مراد مال میں وہ زیادتی ہے جو سرمایہ دار اپنے مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کر حاصل کرتا ہے ۔ اگر بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو جدید کیا ہر دَور کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ سودی معیشت اور اس پر مبنی سرمایہ داری ہے ، جس پر اپنےاعمال اور اپنے ارشادات سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کاری ضرب لگائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت کا ذکر ملتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سود کے ستّر (70) سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر) ۔ (منذری، الترغیب والترھیب، ج:3، حدیث نمبر:2846،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں جائز اور حلال ذرائع معیشت کی نشاندہی کی وہیں دوسری طرف ناجائز اور حرام ذرائع معیشت کو واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رشوت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہے کہ : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ (بیہقی، شعیب الایمان، ج:4، حدیث نمبر:5520)

رشوت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان تمام برائیوں کو جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے قحبہ گری و عصمت فروشی سے کمایا ہوا مال ، چوری ، لوٹ مار،دھوکہ اور ظلم و غصب سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی حرام قرار دیا ۔

فرد کےلیے صرفِ مال کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ اتنا خرچ کرے جتنا مناسب اور ضروری ہو ، نہ ہی بخل و کنجوسی سے کام لینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کو شعار بنانے کو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ۔ (سورہ بنی اسرائیل:27)
ترجمہ : بے شک فضول خرچی والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کئی مواقع پر اسراف و تبذیر کی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے : کھاؤ اور پیئو اور دوسروں پر صدقہ کرو کپڑے بناکر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر نہ ہو ۔ (ابو یعلیٰ، المسند، ج:2، حدیث نمبر:1328،چشتی)

بحیثیتِ مسلمان سیرتِ طیبہ کےمطالعےسے ہمیں رفاعی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اور سماجی رفاعہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پہ فرض عائد ہوتا ہےکہ کسی مخصوص گروہ ، رنگ و نسل اور زبان سے بلا امتیاز بلا غرض و غایت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلیے کام کیا جائے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں خدمتِ خلق اور غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ۔ آیئے اسی مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇

دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کے اس دور میں فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے اور غربا فقرا و مستحقین کی مدد میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام مستحق بچوں ، بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحبِ حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⬇

فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔
موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اسلام اور خدمت خلق

0 comments
اسلام اور خدمت خلق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : کچھ عرصہ قبل جمعۃ المبارک کے خطبات فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے خدمت خلق کے موضوع پر دیے تھے یہ بہت اہم موضوع ہے فقیر نے سوچا ان کا کچھ خلاصہ آپ احباب کی خدمت میں دوبارہ پیش کیا جائے شاید اسے پڑھ کر ہماری سوچیں بدلیں اور خدمت خلق کا جذبہ بیدار ہو اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ دین اسلام ، قرآن مجید اورر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات و سیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور تکلیف نہ دے ، غریبوں ، مساکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھر سکے ، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کریں ، چند لمحوں کے لئے ہی صحیح انہیں فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کر کے ان کے درد والم اورحزن و ملال کو ہلکا کرے ، انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کر سکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے ۔

مخلوق خدا کی خدمت کرنا ، ان کے کام آنا ، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا ، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری اور شفقت کرنے پر شریعت نے کتنا زور دیا ہے ۔ یہ خدمت خلق اور شفقت علی الخلق کتنی بڑی نیکی اور کتنی بڑی عبادت ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کیا مقام ہے ۔ یہ ایک مستقل لمبا چوڑا موضوع ہے ، جس کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں ۔ تاہم اتنی بات عرض کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۔ (سورۂ الزاریات 56)
ترجمہ : اور میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔

مفسرین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے کہ : عبادت سے یہاں مراد فقہ کتاب العبادات والی عبادت پنج گانہ مراد نہیں بلکہ اپنے وسیع و عام مفہوم میں طلب رضا الٰہی کے مترادف مراد ہے ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں ۔ ایک امر الٰہی کی تعظیم دوسری خلق خدا پر شفقت ۔ دوسرے لفظوں میں حقوق ﷲ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔ تفسیر کبیر میں ہے : ماالعبادہ التی الجن والانس لھا قلنا التعظیم لامرﷲ والشفقہ علی خلق ﷲ فان ہذین النوعین لم یخل شرع منہما ۔
ترجمہ : وہ عبادت کیا ہے جس کے لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا گیا تو ہم کہیں گے کہ یہ امر الٰہی کی تعظیم اور خلق خدا پر شفقت کا نام ہے۔ کیونکہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی شریعت خالی نہیں رہی ۔

عبادت کے مفہوم میں وسعت کا اندازہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے : نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرلو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ﷲ ، قیامت کے دن ، فرشتوں ، (آسمانی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی محبت میں مال صرف کرے، قرابت داروں، مسکینوں، راہ گیروں اور سائلوں پر اور گردنوں کے آزاد کرادینے میں ۔ (سورہ البقرہ 177)

خدمت خلق ایک جا مع لفظ ہے ، یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ خلق مخلوق کے معنی میں ہے اور اس کا روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار پر اطلا ق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے، ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں تاکید کرتی ہیں ۔ دین میں خدمت خلق کے مقام کو سمجھنے سے اس کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ۔

قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان لانے والوں کی جن اہم صفا ت کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، یتیموں کی دیکھ بھا ل کرنا ، مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی شامل ہے ۔ اور ان صفات کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے ، بلکہ ان صفات کو نہ اپنانے پر بھڑکتی آگ کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں گذاری ، آپ کی دعوت میں مخلوقات کی خدمت پر بہت زور ملتا ہے ۔ قربان جائیے اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات پر ، جس نے عا لم انسانیت کی خدمت میں اپنی سا ری زندگی گزار دی اور ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔

خدمت خلق کا مفہوم

خد مت خلق کے لغوی معنی  مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اصطلاحِ اسلام میں خدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : رضا ئے حق حاصل کر نے کےلیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے ۔

لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے : ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ۔ یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ) لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔

اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے ، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے ۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔

خدمت خلق اور قرآنی حکم

خدمت خلق میں صرف مالی امداد و اعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا ، کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ، کوئی ہنر سکھانا ، اچھا اور مفید مشورہ دینا ، کسی کی علمی سرپرستی کرنا ، مسجد اور مدرسہ قائم کرنا ، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔ چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :  وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ ۔ (سورةالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ : اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو ۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے ۔

ایک حدیث شریف میں نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ ۔
ترجمہ : لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے ۔ (جامع ترمذی)

ایک اور مقام پر فرمایا : اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ (صحیح مسلم،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کےلیے فائدہ مند اور نفع آور ہو ، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کےلیے ہر وقت کوشاں رہے ۔

خدمت خلق کےلیے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے ، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا ، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔

خدمت خلق اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر کے سارے کام خود فرمایا کرتے تھے ۔ پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے نعلین کی خود مرمت فرما لیتے ۔ پالتو جانوروں کو خود کھولتے باندھتے اور انہیں چارا دیا کرتے الغرض کسی کام میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے کام بھی آتے تھے ۔ ایک بوڑھی یہودیہ عورت کی خدمت کرنے کا واقعہ احادیث میں موجود ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے پڑوسیوں کی دیکھ بھال اور تیمارداری بھی فرماتے تھے ۔

ایک مرتبہ حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے کچھ مہمان مدینہ منورہ آئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی وہ کریں لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت کی اور فرمایا کہ ”ان لوگوں نے میرے ساتھیوں (مہاجرین حبشہ) کی خدمت کی ہے اس لیے میں خودان کی خدمت کروں گا ۔ (شعب الایمان،مسند امام احمد،چشتی)

حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے ۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ یہاں (اصحابِ صفہ میں) سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی ان کو کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لائے اور خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے ساتھ دس آدمیوں کو لے کر گئے ۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)

غلاموں کی آزادی اور رضائِے الہٰی

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جس مسلمان کو کفار کے ہاتھ میں غلام یا قیدی کی حالت میں دیکھتے تو اُس کو خرید کر آزاد کردیتے تھے اور یہ لوگ عموماً کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ : جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد ہی کرتے ہو تو ایسے غلا موں کو خرید کر آزاد کرو جو طاقت وَر اوربہادر ہوں تاکہ وہ کل تمہارے دشمنوں کا مقابلہ اور تمہاری حفاظت کرسکیں - حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ : میرا مقصد اُن آزاد کردہ غلاموں سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں ہے ، بلکہ میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اُن کو آزاد کرتا ہوں ۔ (تاریخ الخلفا، تفسیر ضیاءالقرآن،تفسیر مظہری)

مال و دولت اگر صحیح مصرف ، صحیح مقام اور مناسب موقع پر خرچ ہو تو اُس کی قدر و منزلت غیر متنا ہی ہو جاتی ہے ۔ روٹی کا ایک ٹکڑاشدتِ گرسنگی (شدید بھوک) کی حالت میں خوانِ نعمت ہے، لیکن آسودگی کی حالت میں ”الوانِ نعمت“ بھی بے حقیقت شئے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان و مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اعانت و مدد کی تھی ، ان کو قرآن مجید نے مخصوص عظمت و فضیلت کا مستحق قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : تم میں سے کوئی برابر ی نہیں کرسکتا ، اُن کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہِ الہٰی میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اُن کا درجہ بہت بڑا ہے ، ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اور سب کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی خبردار ہے ۔ (سورة الحدید)

صدیق کےلیے خدا کا رسول کافی ہے

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق و محبت کے سالکین دوڑ پڑے ۔ کوئی اپنا چو تھائی مال لے کر آیا ، تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمانِ محبت کے نیر اعظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھر کا گھر اٹھا لائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟
کاروانِ عشق کے سالارِ اعلیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی پیارا اور دل رُبا جواب دیا ، جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے- عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر والوں کےلیے بس اللہ عز و جل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (کی رضا) کو چھوڑ آیا ہوں ۔ (تاریخ الخلفاء) اس جذبہ مقدس کو شاعرمشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں : ⬇

پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کےلیے ہے خدا کا رسول بس

خدمت خلق اور اسوہ فاروقی

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کےلیے آپ پانی بھرتے ہیں ۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں ۔

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہو سکتا ہے ، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے ۔(سیر الصحابہ/ کنزالعما ل،چشتی)

حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ (متوفی 561 ھ / 1166 ء) فرماتے ہیں کہ : اگر مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب مال و دولت فقیروں ، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دوں ۔اور فرمایا کہ امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے ۔ (الفتح الربانی و غنیہ)

حضو ر دا تا گنج بخش سید علی ہجویری رحمة اللہ علیہ (متوفی 465ھ/1074) اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا کو حاصل کرنے اور اسے (حاجت مندوں میں) لٹا دینے میں پوری طرح مشغول تھا ، جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ، وہ میری طرف ہی رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ سب کی آرزو کیسے پوری کروں ۔ اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے عظیم فرزند  اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرو مگر سب کےلیے اپنا دل پریشان بھی نہیں کیا کرو کیوں کہ اللہ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کےلیے خود ہی کافی ہے ۔

شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمة اللہ علیہ نے جب تونسہ شریف میں مستقل سکونت فرمائی ، تو اس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کے لئے کوئی مکان نہ تھا ، فقط ایک جھونپڑی تھی ، جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امرا ، وزرا ، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی کےلیے حاضر ہونے لگے تو کچھ فتوح (نذرانوں) کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموں میں آتی گئی ، لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغناء اور مخلو قِ خدا کی خدمت کا یہ جذبہ تھا کہ آپ کے قائم کردہ آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلبہ ، درویش ، مہمان اور مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی اور بیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں ۔ ایک مرتبہ لنگر خانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ : حضور اس مہینہ میں پانچ سو روپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ : اگر پانچ ہزار روپے بھی خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے ، درویشوں اور طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (بحوالہ تذکرہ خواجگانِ تونسوی ، نافع السالکین،چشتی)

انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات

اللہ کے انعام یافتہ بندے : ﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے ﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ : لَن تَنَالُوا البِرَّحَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَےیٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیم ۔
ترجمہ : جب تک تم ﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کرو گے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (ﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے ، ﷲ اس کو جاننے والا ہے ۔(سورة آل عمران: آیت ۲۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرما یا کہ : ﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ ﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے ، ﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوںسے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو ﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے ۔ (مشکوٰة شریف)

حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینے میں بڑے مال دار صحابی تھے اور انہیں اپنے اموال میں سے اپنا باغ ”بیرحائی“ بہت ہی پیارا اور محبوب تھا اور جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! مجھے اپنے تمام اموال میں باغ بیر حا سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس کو ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنا وہ باغ ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا ۔ (صحیح بخاری / صحیح مسلم)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰی ۔ وَصَدَّقَ بِالحُسنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلیُسرٰی ۔
ترجمہ : پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا) مال دیا اور (اس سے) ڈرتا رہا اور (جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کے لئے آسان راہ ۔ (سورة اللیل : آیت ۷۔۵)

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے”اتقٰی“ سے پہلے ”اعطٰی“ ذکر فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرنا جہاں تقویٰ و پرہیزگاری کا سبب ہے اور اس سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں ، گویا سخاوت تمام اعمال خیر کو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے ۔

ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ : ⬇

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

خدمت خلق ، وقت کی اہم ضرورت

رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی ۔ مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی ۔ یتیموں ، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے ۔

خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے ۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے ۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا ﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے ۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا ﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے ۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی ہے ۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے ، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ، جو ﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو ۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں : ⬇

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

عیسائی مشنریوں اور صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ کی خدمت خلق میں فرق

آج دنیا بھر میں عیسائی مشنریاں صرف ایک نعرہ خدمت Service of Humanity کو لے کر دوسرے مذاہب کو شرمندہ کررہی ہیں ۔ ان کے پاس بڑے مالی وسائل ہیں ۔ جنگ کے میدان میں زخمیوں کی خدمت ، اسپتال قائم کرکے مریضوں کا علاج ، قحط زدہ علاقوں میں خوراک سے بھوکوں کی امداد، تعلیمی اداروں وغیرہ کا قیام ۔ ان کی سرگرمیاں مختلف نوعیت کی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بائبل کے مواعظ بھی سناتی ہیں ، عیسائیت کا لٹریچر مفت تقسیم کرتی ہیں ، تبدیل مذاہب کا لالچ دیتی ہیں اور ان کا مذہب قبول کرنے والوں کو بہت سی رعایتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔ پسماندہ اور جاہل استحصال کے شکار علاقوں میں انہیں خاصی کامیابی ہوتی ہے ۔

چشتی صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ بھی اسلام کے مبلغ تھے ۔ مگر کیا ان کے پاس اتنے عظیم فنڈز تھے ؟ کیا ان کی تحریک اتنی منظم تھی ؟ کیا وہ پروپیگنڈے کے فن سے کام لیتے تھے ؟ بے سروسامانی اور فقر محض کے باوجود ان کی خانقاہوں میں دن رات لنگر جاری تھا ۔ فتوح میں نقد آیا تقسیم ہوگیا ۔ نذرانے میں اشرفیاں آئیں لٹ گئیں ، ہدیہ میں کپڑا آیا ، بانٹ دیا گیا ۔ دنیا کی کوئی جماعت یا ادارہ یا مشنری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ان مشائخ علیہم الرّحمہ سے زیادہ دلسوزی سے مجروح انسانیت کی خدمت کی ہوگی ۔

خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا حال ان کے خلیفہ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے : از پگاہ تا شام خلق بیامدے۔ نماز حفتن ہم خلق بسیدے۔ ام خواہندہ بیش ازاں بود کہ آرندہ وہرکہ چیزے بیاوردے چیزے یافتے ۔
ترجمہ :  صبح سے شام تک خلق خدا آتی رہتی ، عشاء کی نماز کے وقت بھی یہ سلسلہ جاری رہتا تھا مگر مانگنے والوں کی تعداد نذر دینے والوں سے زیادہ ہی ہوتی تھی۔ جو کوئی چیز نذر لاتا تھا ، وہ کچھ نہ کچھ عطیہ پاتا تھا ۔ (خیر المجالس صفحہ نمبر 257،چشتی)

حضرت بابا فرید الدین شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے دروازے بھی نصف شب تک کھلے رہتے تھے اور ’’ہیچ کس خدمت ایشاں نیامدے کہ اور اچیزے نصیب نہ کردے‘‘ ۔ (فوائد الفواد 125)

اور فرماتے تھے کہ : ہر برمن می آید چیزے می آرو۔ اگر مسکینے بیاید وچیزے نیا رد ہر آئینہ رما چیزے بدوباید داد‘‘ ۔ (فوائد الفواد 336)

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمت خلق ! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات (Qualities) ہیں کہ جن کی بہ دولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔
آیئے اسی مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇

دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کے اس دور میں فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے اور غربا فقرا و مستحقین کی مدد میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام مستحق بچوں ، بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحبِ حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⬇

فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔
موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)