Thursday, 22 April 2021

علمائے حق و علمائے سوء قرآن و حدیث کی روشنی میں

علمائے حق و علمائے سوء قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجٰرَتُہُمْ وَمَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 16
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے ۔

ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنا یعنی ’’ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنا‘‘ نہایت خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ آیت یا توان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے یا یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جوپہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی تو منکر ہو گئے، یا یہ آیت تمام کفار کے بارے میں نازل ہوئی اس طور پر کہ اللہ  تعالیٰ نے انہیں فطرت سلیمہ عطا فرمائی ، حق کے دلائل واضح کئے ، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی تو وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تاجر ہیں کہ انہوں نے نفع ہی نہیں بلکہ اصل سرمایہ بھی تباہ کرلیا ۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًاۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیۡہِمْۚۖ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 174)
ترجمہ : وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار ہے ۔

یعنی جو ہدایت و مغفرت یہ لوگ اختیار کرسکتے تھے اس کے چھوڑنے کو یہاں فرمایا گیا کہ انہوں نے ہدایت و مغفرت کی جگہ ضلالت و عذاب خرید لیا ۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس ہدایت و مغفرت تھی اور پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ) انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں ۔ اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا ۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ جلد ۲ صفحہ ۲۰۶،چشتی)

آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری دنیا سے غروب ہوجانے کے بعد آپ کے سر چشمۂ ھدایت سے فیض یافتہ رشدوہدایت کے نیر تاباں ودرخشندہ ستارے صحابۂ کرام و تابعین عظام و علمائے دین متین رضی اللہ عنہم و علیہم الرحمہ نے امت مسلمہ کی ہرطرح کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا, اسی طریقے سے امت کی رہنمائی کا سلسلہ صبح قیامت تک چلتا رہے گا، جب تک علمائے حق اس دھرتی پر موجود ہیں،اسوقت تک دین اسلام میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں ہوسکتی ، اس لیے علمائے حق۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے وارثین ہیں،جن کے قلوب کی طرف علوم نبوی کے روحانی تار کی جلوہ گری ہوتی رہتی ہے ، اس روحانی تار کا کنکشن کہیں اور نہیں بلکہ گنبد خضریٰ کے مکین سید کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملتا ہے ، علمائے حق گو دنیا کی روشنی کے محتاج نہیں ہوتے ہیں، انہیں تو رسول کائنات کی بارگاہ سے روشنی ملتی ہے یہی وہ جماعت ، جو نبی کے وارثین کی سچی جماعت ہے،لہذا آفتاب نبوت کے بعد اب یہی علمائے حق اس کے نائب اور علم نبوت کے ضامن اور محافظ ہیں ، جن سے نور ھدایت اور علم شریعت حاصل کیا جائے گا ۔

علماء دو طرح کے ہیں

(1) علمائے حق

(2) علمائے سوء

علمائے حق کی پہچان ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ۔
ترجمہ : اس کے بندوں  میں  وہی ڈرتے ہیں  جو علم والے ہیں ۔

خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں  سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں  علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں  سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں  ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا’’ اللہ عزوجل کی قسم ! میں  اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں  اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب من لم یواجہ الناس بالعتاب، ۴/۱۲۷، الحدیث: ۶۱۰۱، مسلم، کتاب الفضائل، باب علمہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللّٰہ تعالی و شدّۃ خشیتہ، ص۱۲۸۱، الحدیث: ۱۲۷(۲۳۵۶،چشتی)

لوگوں  کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں  تاکہ ان کے دلوں  میں  اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہو ۔

علم والوں  کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کو عام لوگوں  کے مقابلے میں زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور لوگوں  کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۷ صفحہ ۲۵۰ الجزء الرابع عشر،چشتی)

ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ سے عرض کی’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے ؟ ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے فرمایا : ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ  تعالیٰ سے ڈرتا ہو ۔ اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس کے دل میں  اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں  وہ عالم نہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۵۳۴)

علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں  علم والوں  سے مراد وہ ہیں  جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔

اس آیت میں علماء سے مراد وہ نہیں ہیں جو محض تاریخ ، فلسفہ اور دنیاوی اور مروجہ علوم کے عالم ہوں ، بلکہ اس سے مراد علماء اس آیت میں علماءِ دین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عالم ہوں ، قرآن ، حدیث اور فقہ کی کتب پر عبور رکھتے ہوں ان کو قدر ضروری احکام شرعیہ مستحضر ہوں اور ان کو اتنی مہارت ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل سے متعلق ہر مطلوبہ مسئلہ کو اس کی متعلقہ کتابوں سے نکال سکتے ہوں اور ان کے دل میں خوف خدا کا غلبہ ہو جس کی بناء پر وہ علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں اور شخص بےعمل ہو وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔

مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا مجھے بتائیے کہ عالم کون ہے ؟ انہوں نے کہا عالم وہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :263، دارالمعرفہ بیروت، 1421 ھ،چشتی)

حسن بیان کرتے ہیں کہ فقیہ (عالم) وہ ہے جو دنیا سے بےرغبتی کرے، آخرت میں رغبت کرے، اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو ۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :299)

سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا کہ اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو ۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :300)

مجاہد نے کہا فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :301)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی المایخشی اللہ من عبادہ العملاء پھر فرمایا عالم وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو ۔

علمائے دین کی فضیلت

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی علم کی طلب میں کسی راستہ پر چلا ، اللہ اس کو جنت کے راستہ پر چلائے گا اور طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر رکھتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں عالم کے لئے استغفار کرتی ہیں حتیٰ کہ پانی میں مچھلیاں بھی اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء درہم اور دینار کے وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بڑے حصے کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2682، سنن ابو دائود رقم الحدیث :3641،چشتی)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :223)(مسند احمد جلد 5 صفحہ 196)(سنن دارمی رقم الحدیث :349)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث :88)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد تھا اور دوسرا عالم تھا ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور حتیٰ کہ مچھلی بھی ، یہ سب نیکی کی تعلیم دینے والے کےلیے استغفار کرتے ہیں ۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2685 المعجم الکبیر رقم الحدیث :7911،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (سمجھ) عطا فرما دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :70 صحیح مسلم رقم الحدیبث :2821 سنن الترمذی رقم الحدیث :2855)

اس کے برعکس علمائے سوء دنیا دار سے ڈرتے ہیں جو شخص جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا ہی اللہ سے ڈرنے والا ہوگا ۔

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو ان دنیا پرست عالموں سے زیادہ خطرہ لاحق ہے جو سیٹھیوں اور حکومت کی درباری کرتے پھرتے ہیں وہ اپنے آپ کو مقدس و محترم علمائے کرام سے برتر و بالا سمجھتے ہیں ، جو دراصل بالکل اناڑی و جاہل ہیں ، ان درباری علماء سے ہر وقت دین اسلام کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا ، ایسے ناسمجھ و جاہل عالموں کو اہل تقویٰ وطہارت علماء کے صف سے باہر کرنے کی سخت ضرورت ہے ، یہ اسی وقت ہوگا جب اللہ و رسول کی رضا پر چلنے والے معزز اہل علم ان منحوس دنیا دار ، ریاکار عالموں کے منحوس سائے سے اپنے آپ کو بچائیں، یہ بات میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ وہ ریاکار اپنی ریاکاری کی بنیاد پر بے باک و نڈر مجاہدانہ صفت کے حامل علمائے ذوی الاحترام کے مابین دراڑیں پیدا کرکے اپنی عیاری کو چھپا لیا کرتے ہیں،لیکن ان کے دام فریب میں مقدس نفوس قدسیہ کبھی نہیں آتے ، ان کی عیاریوں کو وہ فراست مؤمنانہ سے بھانپ لیا کرتے ہیں،پھر بھی وہ چاپلوس دنیا دار باز نہیں آتے ، انہیں کی وجہ سے ملت کا شیرازہ بکھراؤ کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے، کم علم لوگ دین و مسلک اور اسکے ستون کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسلک و ملت کی مخالفت میں درباری علماء کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے جیسا کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں اگر کوئی علمائے حق و صداقت میں سے اس کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ، دنیا جانتی ہے کہ اپنے وقت کا بے باک و نڈر مجاہد اعظم مرد قلندر، عظیم عالم دین امام ربانی شیخ احمد سرھندی، حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو اکبر بادشاہ اور جہانگیر کے عقائد و نظریات کی مخالفت میں گوالیار کے قلعہ میں قید و بند کر دیا گیا ، ایسی بےشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں تاریخ شاہد ہے کہ بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے دربار کو چمکانے اور اپنے موقف کی تائید و حمایت میں علمائے سوء کو جمع کرکے ان کو اپنا ہمنوا بناکر درباری علماء کا درجہ دینے کا کام کیا ، ان کو منفعت بخش عہدہ دیکر اپنے جوتے کی نوک پر رکھا تاکہ حق و صداقت کا سامنا کرنے میں وہ اوندھے منہ پڑے رہیں،اورانکی ہمت و قوت کو پست کرتے رہے ۔ (چشتی)

کبھی بھی ان علمائے سوء نے سچ بات کہنے کی ہمت نہیں کی،جب ہم دور حاضر پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اس دور میں بھی درباری علماء سوء کی کمی نہیں ہے حاکم وقت کی دربار گیری میں وہ اپنی بڑی شان سمجھتے ہیں، عالمانہ لبادہ اوڑھے کچھ کم علم نادان واحمق اسی فراق میں رہتے ہیں کہ کوئی انتری، منتری،دنیا دار آواز دے تاکہ ہم حاضر دربار ہوجائیں،ایسا ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے کی استاذ کے سامنے شاگرد کھڑے ہوں، لیکن ہمارے وہ مقدس، مطہر،معظم، معزز،محترم، مکرم،حق گو،حق شناس،مصطفے جان رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے نائبین علمائے ذوی الاحترام نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسلام و مسلک کی حفاظت کیلئے آج بھی کسی سیٹھیا کسی سنتری یا حاکم وقت کے سامنے ویسے کھڑے رہے جیسے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ بادشاہ وقت کے سامنے عزم واستقلال، عزم مصصم، حق و صداقت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے بادشاہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملایا،مگر کچھ کٹھ ملے اکبر اور جہانگیر کے تلوے جاٹتے رہے، حالیہ تناظر میں نہ جانے کتنے چہرے آپ کو ویسے ہی ملیں گے جو حکمرانوں اور امراء کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کی قطار میں کھڑے رہتے ہیں، تاریخ کے چند واقعات بڑے ہی بھیانک اور درد ناک ہیں کہ جن کو پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے کہ دین اسلام کے نقلی پاسبانوں نے دنیاوی لالچ میں مال زر اور عہدے کی خاطر چند سکوں میں بادشاہوں کے من پسند کے مطابق اسلام کی روح پامال کرکے بادشاہوں کے سامنے اسلام کا نقشہ پیش کیا چنانچہ اکبر بادشاہ کے دربار میں اپنے وقت کے دو بہت بڑے عالم گزرے ہیں ایک کا نام ابوالفضل اور دوسرے کا نام فیضی تھا دونوں اکبر بادشاہ کے نئے نئے فتنوں کو فروغ دینے کا کام کرتے تھےاور اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی ترویج و اشاعت میں دن رات ایک کرنے اور یہ ثابت کرنے میں لگے رہے اور اس کے نظریات کو لوگوں پر تھوپنے میں لگے رہے،اور یہ بتاتے رہے کہ مذہب کے معاملے میں اکبر بادشاہ سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔ (چشتی)

ایسے ہی دنیا دار علماء کی وجہ سے بادشاہ اپنا نظریہ امت مسلمہ کے سامنے پیش کرتے رہے، ہر دور میں زرخرید درباری علماء بادشاہوں اور حکمرانوں کو ملتے اور ملتے رہیں گے، جب جب اسلام اور اسکے ماننے والوں پر حاکم وقت کی طرف سے کوئی پریشانی آئی ہے تو انہیں دنیا دار منحوس مولویوں سے جو چند ٹکے میں اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کو بیچنے میں لگے رہتے ہیں، یہ قوم ایسے ہی نہیں ہم پر مسلط ہوئی ہے اس کے پیچھے بھی انہیں کوڑھی دنیا دار احمق عالموں کی کارستانی پوشیدہ ہے، جب سے ہم نے اپنی مسند جاہلوں کے حوالے کرنا شروع کردیا ہے، انکی جی حضوری کرنا شروع کردیا ہے، ان کی تعظیم میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا شروع کردیا، تبھی سے ہمارا رتبہ گھٹتا چلا گیا، ہماری وقعت انکی نظر میں گھٹنے لگی ابھی بھی وقت ہے سدھر جاؤ بیوقوفو، دنیا داروں سے دور ہوجاؤ احمقوں، ان کی صحبت سے اجتناب کرو نادانوں، ان کے بلانے پر فورا حاضر دربار نہ ہو، ان کی جی حضوری کرکے اپنے آپ پر نہ اتراؤ کل قیامت کے دن جہاں وہ ہوں گے اسی جگہ تم ہوگے، انہیں کے ساتھ تم بھی جاؤ گے، انہیں کیساتھ تمہارا بھی حشر ہوگا اسلیئے دنیا میں جو جس سے محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کےساتھ اٹھایا جائیگا، لیکن قربان جائیں ان علمائے ذوی الاحترام پر کہ جنہوں نے کسی دنیا دار شرابی کبابی کو اپنے منہ نہیں لگایا ان پر میری جان قربان ، ایک مرتبہ خلیفہ ھارون رشید نے امام مالک کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا جو آپ نے کتاب لکھی ہے اسے میں سننا چاہتا ہوں امام مالک نے جواب بھیجوایا کہ علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا،آج کے دور میں اگر سیٹھ جی کہدیں کہ فلاں صاحب آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ میں آپ سے سننا چاہتا ہوں تو دنیا دار عالم سیٹھیا کی زیارت کیلئے بےتاب ہوجاتا ہے، وہ عالم عالم نہیں جو دنیا کے پوجاریوں کی جی حضوری میں اپنی زندگی گزاردے، شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہیں دیتا،تاریخ گواہ ہے کہ وہی علماء قابل تقلید ہیں جو امراء کے درباروں میں حاضری نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں،ایک مثال اور لیجیے کہ حاکم وقت ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا، جو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن امام وقت نے اس کی پیش کش کو ٹکھرادیا اور کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا،خلیفہ ان کی بات سن کر طیش میں آکر کہنے لگا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا کہ میں جب جھوٹا ہوں تو پھر واقعی میں اس کے لائق نہیں اسی پاداش میں میں آپکو جیل جانا پڑا، ایسی مثالیں بہت ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک، امام احمد بن حنبل،تیرہویں صدی کے مجدد حضرت الف ثانی،چودہویں صدی کے مجدد اعظم اعلی حضرت بریلوی علیہم الرحمہ ، انہیں اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مفتئ اعظم مصطفے رضا خان بریلوی،مجاہد ملت، حافظ ملت، شیر بیشۂ اہلسنت پیلی بھیت، حضور ریحان ملت بریلی شریف، ۔ علامہ اختر رضا خان بریلوی المعروف تاج الشریعہ،ایسے اور بھی بے باک و نڈر اھل اللہ کے اور بھی اسمائے گرامی ہیں تاریخ کے صفحات پر انکے درخشندہ کارنامے بھرے پڑے ہیں، بس کہنا یہ ہے کہ اول الذکر کے زمانے میں دنیا دار اور درباری علماء جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظور نظر بن گئے تھے،خوشامد کرنے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا لیکن امام اعظم و مقدس علماء کو زمانہ کل بھی اور آج بھی اور صبح قیامت تک جانتا رہے گا، درباریوں کا نام و نشان مٹ گیا ان کا نام لیوا کوئی نہیں اور حق گو علماء کل بھی روز روشن کیطرح چمک رہے تھے اور آج بھی چمک دمک رہے ہیں ، لیکن آج کے خود غرض دنیا پرست حکمراں پرست مولویوں نے اسلام کی صحیح شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جس سے اچھے بھی دشمن کے نشانے پر آجاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ اے دنیا کے لالچیوں اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کرو تاکہ تمہاری ایمانی طاقت و قوت میں کوئی فرق نہ آنے پائے اگر تم نے ہدایت پر عمل نہ کیا تو یاد رکھو اپنی حقیقی منزل سے دور ہوجاؤ گے، عزت و شہرت سے محروم ہو جاؤ گے اور دنیا دار لوگ تم پر غالب و مسلط ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پرست عالموں نے جاہلوں کی جی حضوری شروع کردیا ہے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کا سلسلہ اپنا لیا ہے،انہیں کو اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے ، ان جاہلوں کے اشارے پر چلنے کا مزاج بنا لیا ہے تبھی سے یہ جاہل واناڑی لوگ ہمارے صدر ، سرپرست ، ناظم ، وغیرہ وغیرہ بن گئے ، ہم ان کے محکوم وہ ہمارے حاکم ۔ (چشتی)

بتائیے کہ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ، ان چاپلوس عالموں کی وجہ سے یہ ماحول بناہے ، ہماری نظروں کے سامنے سے ایسا بھی دور گزرا ہے کہ مدرسےاور بڑے بڑے اداروں کی بنیاد ہمارے مقتدرومقدس علمائے کرام نے رکھا ہے وہ کسی کے تابع دار نہیں تھے بلکہ یہ جاہل قوم (الا ماشااللہ) ان بزرگوں کی تابعداری میں فخر محسوس کرتی تھی آج حال اس کے برعکس ہے چونکہ اکثر اداروں کے ٹرسٹی جاہل واناڑی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قدرت ومنزلت ان جاہلوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں وہ اس لئے بھی کہ ایک جگہ سے جب کسی عالم، امام، مدرس کو نکالا جاتا ہے تو اسکے نکلنے سے پہلے ہی دوچاردس چمچے پہنچ جاتے ہیں اوراپنے ہی بھائیوں کو قوم کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کرنے میں لگ جاتے ہیں،اگر یہ نہ جائیں تو ان جاہلوں کی اتنی ہمت نہیں کہ ہمارے بھائی کو اس کے منصب سے علاہدہ کردے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے اگر سچائی یہی ہے تو باز آجاؤ اپنے عالم بھائیوں کو رسوا مت کرو کیونکہ رزاق کسی ادارے کا ٹرسٹی نہیں ہے رزاق تو خالق کائنات اللہ رب العزت کی ذات ہے،جو سارے جہان کا مالک ہے اس سے بہتر روزی کوئی نہیں دیتا وہ ایک بار ہی نہیں بار بار زندگی بھر عطاء کرتا ہے،وہی عزت، شہرت،دولت، منصب، عہدہ،مکان، دوکان، ترقی، عروج و ارتقاء، شان و شوکت،صحت و سلامتی، صحت وشفاء، دانائی بینائی سب عطاء کرتا ہے، قطرے کو سمندر، ذرے کو آفتاب،تنکے کو پہاڑ بناتا ہے،تو پھر دنیا دار کی تھوکروں میں پڑے رہنے سے کیا فائدہ دنیا دار اک بار دیتا ہے تو سو بار کہتا ہے ۔

تلاش رزق میں بندہ خدا کو بھول گیا
تلاش رزق ہے رازق کی تلاش نہیں

ظاہر سی بات ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ، سچ کا سامنا بہت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں ، جو مخلص ہوتے ہیں وہ سچ کا سامنا کرنے میں نہیں کتراتے اس لیے کہ سچ ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے ، سچائی کا سر چشمہ تقویٰ وطہارت ہے جب بندہ قول سدید کی ڈگر پر چلنے لگتا ہے تو اس کے دیگر اعمال خود بخود سدھرنے لگتے ہیں وہ خود ہر معاملہ میں دین و شریعت کی پابندی کرنے لگتا ہے اس کے اعمال صالحہ ماضی کے گناہوں کو مٹانے لگتے ہیں ، اعمال صالحہ اس کےلیے بخشش و مغفرت کا سامان بن جاتے ہیں پھر اس کےلیے زندگی پرسکون اور اطمینان کا باعث بن جاتی ہے ، دنیا کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے ، اسی لیے تو اللہ والے بےخوف و خطر ہوتے ہیں ، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے مولائے کائنات اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے و طفیل ہمیں نیک راستے پر اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...