پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ہی ڈرو
محترم قارئینِ کرام : ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۔ (سورہ المائدہ : 44)
ترجمہ : تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو ۔
خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو ، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر ۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالیٰ کی بے نیازی ، اس کی ناراضگی ، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان حقیقۃ الخوف، ۴)
حضرت طاررق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ‘ ایک شخص نے رکاب میں پیر رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا ‘ کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ۔ (سنن النسائی ‘ ج 7‘ رقم الحدیث : 4220‘ مطبوعہ دارالمعرفہ ‘ بیروت ‘ 1412 ھ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے ۔ (سنن ابوداؤد ’ ج 4‘ رقم الحدیث : 4344،چشتی)(سنن الترمذی ‘ ج 4‘ رقم الحدیث : 2181)(سنن ابن ماجہ ‘ ج 2‘ رقم الحدیث : 4011)(مسنداحمد ‘ ج 3‘ ص 19‘ ج 4‘ ص 315‘ 314‘ ج 5‘ ص 251 طبع قدیم)
کلمۂ حق سے مراد ظالم بادشاہ کو کسی نیکی کا حکم یا کسی برائی سے روکنا ہے یہ کام خواہ الفاظ سے کرے یا لکھ کر یا اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے کرے ۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں جہاد کرنے والا خوف بھی رکھتا ہے اور امید بھی ۔ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ غالب آئے گا یا مغلوب ہوگا مگر ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو یقینی ہلاکت میں داخل کرلیا ہے ۔ لہٰذا جہاد کی اس قسم میں خوف کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس کو افضل قرار دیا گیا ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خطبہ میں جو باتیں فرمائیں ‘ ان میں یہ بھی فرمایا کہ جب کسی شخص کو کسی حق بات کا علم ہو تو وہ لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے اس کو بیان کرنے سے باز نہ رہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج 4‘ رقم الحدیث :‘ 2198)(سنن ابن ماجہ ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 4007)(صحیح ابن حبان ‘ ج 8‘ رقم الحدیث :‘ 3221)(مسند احمد ‘ ج 3‘ ص 92‘ 87‘ 84‘ 71‘ 61‘ 52‘ 50‘ 47‘ 44‘ 19‘ طبع قدیم)(مسند احمد ‘ ج 4‘ رقم الحدیث :‘ 11169‘ طبع جدید دارالفکر)(المعجم الاوسط ‘ ج 3‘ رقم الحدیث :‘ 2825)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ ﷲُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلاَّ کَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيّوْنَ وَأَصْحَابٌ. يَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِهِ. ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوْفٌ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ وَيَفْعَلُوْنَ مَا لَا يُؤْمَرُوْنَ. فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ. وَلَيْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الإِْيْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریق پر کار بند ہوتے اور اس کے اُمراء کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا (یعنی دوسروں پر ظلم و ستم کیا)۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ کے ساتھ (ظلم کے خلاف) ان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے اُن کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے ۔ اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1 /69، الرقم /50)(وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /458، الرقم /4379،چشتی)(وابن حبان في الصحيح، 14 /71، الرقم /6193)(وأبو عوانة في المسند، 1 /36)(والطبراني في المعجم الکبير، 10 /13، الرقم /9784)(والبيهقي في السنن الکبری، 10 /90، الرقم /19965)(شعب الإيمان، 6 /86، الرقم /7560)
31 عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَة ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ظالم بادشاہ یا ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔ اسے امام احمد بن حنبل، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /315، الرقم /18850)(وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 /123، الرقم /4344)(والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر، 4 /471، الرقم /2174)(والنسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209)(وابن ماجة في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1329، الرقم /4011)
32وَفِي رِوَايَةِ طَارِقٍ رضی الله عنه: قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ ۔
ترجمہ : اور حضرت طارق (بن شہاب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔ اسے امام احمد، نسائی اور ابن الجعد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /314، الرقم /18848)(النسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209،چشتی)(السنن الکبری، 4 /435، الرقم /7834)(وابن الجعد في المسند /480، الرقم /3326)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، قَالَ : عَرَضَ لِرَسُولِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولٰی ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ ﷲِ ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ فَسَکَتَ عَنْهُ ، فَلَمَّا رَأَی الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ ، فَسَکَتَ عَنْهُ . فَلَمَّا رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْکَبَ. قَالَ : أَيْنَ السَّائِلُ ؟ قَالَ : أَنَا ، يَا رَسُولَ ﷲِ. قَالَ : کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالرُّوْيَانِي وَالْقُضَاعِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہِ اُولیٰ کے قریب کھڑے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول ﷲ ! کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے ۔ جب اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے جمرہ کے پاس دیکھا تو دوبارہ وہی سوال کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر خاموش رہے ۔ جب تیسرے جمرہ کے قریب پہنچے اور اس کی رمی فرما چکے تو اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے دریافت فرمایا : سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میں حاضر ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا (اَفضل ترین جہاد) ہے ۔ اسے امام ابن ماجہ، رویانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1330، الرقم /4012)(والروياني في المسند، 2 /271، الرقم /1179)(والقضاعي في مسند الشهاب، 2 /248، الرقم /1288)
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه : أَنَّ رَجُلًا قَالَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ : يَا رَسُولُ ﷲِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ في الْمُعْجَمَيْنِ ۔
ترجمہ : اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ جمرات کے نزدیک ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول ﷲ ! کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔ اسے امام طبرانی نے ’المعجم الکبیر‘ اور ’المعجم الاوسط‘ میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 /282، الرقم /8081، وأيضا في المعجم الأوسط، 7 /52، الرقم /6824،چشتی)
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهُمُّ بِظُلْمِ أَحَدٍ ۔ رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، وَذَکَرَهُ السُّيُوطِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے اِس حال میں صبح کی کہ وہ کسی پر ناروا ظلم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔ اسے امام دیلمی نے اور خطیب بغدادی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اور امام سیوطی نے بیان کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 /357، الرقم /1438، والخطيب البغدادي في المتفق والمفترق، 3 /1653، الرقم /1139)(السيوطي في جامع الأحاديث، 2 /14، الرقم /3504)
قَالَ الْحَکَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ : أَفْضَلُ الْجِهَادِ وَالْهِجْرَةِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ ۔ ذَکَرَهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي التَّمْهِيْدِ ۔
ترجمہ : حکم بن عتیبہ کا قول ہے: بہترین جہاد اور ہجرت ظالم حکمران کے سامنے اِنصاف کی بات کہنا ہے ۔ اسے امام ابن عبد البر نے ’التمہید‘ میں بیان کیا ہے ۔ (ابن عبد البر في التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 8 /390)
عَنْ جَرِيْرٍ رضی الله عنه، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلٰی أَنْ يّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَـلَا يَغَيِّرُوْا إِلاَّ أَصَابَهُمُ ﷲُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوْتُوا ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَة وَابْنُ حِبَّانَ ۔
ترجمہ : حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو ﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اس حدیث کو امام احمد ، ابوداؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ ، ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /364، الرقم /19250،چشتی)(وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 /122، الرقم /4339)(وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1329، الرقم /4009)(وابن حبان في الصحيح، 1 /536، الرقم /300)(والطبراني في المعجم الکبير، 2 /332، الرقم /2382)
کفار کے خلاف زبان و بیان اور تیروسنان سے جہاد کرنے والا شخص قابل قدرٹھہرتا ہے ۔ مسلمان معاشرے کے ہرطبقے کی طرف سے اس کی عزت افزائی کی جاتی ہے ، مگر ظالم حکم رانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والا اس جرم کی پاداش میں مختلف طبقات کی طرف سے لعنت و ملامت کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔ ظالم حکمران اور اس کے اردگرد کا مفاداتی طبقہ اپنے وسائل اور ذرائع کے زور سے اس رجل حق کی کردارکشی میں اس قدر دھو ل اڑاتا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں نمونہ اور آئیڈیل بننے کا استحقاق رکھنے والا شخص ، اجنبی بن کرنظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ۔ گویا ظالم حکم ران کے سامنے کلمہ حق کا بھاری فریضہ انجام دینے سے صرف جان و مال خطرے میں نہیں رہتا ، بلکہ عزت و وقار، عدالت و ثقاہت بھی داؤ پرلگ جاتی ہے ۔ اس لیے یہ اپنے موقع محل اور مخاطب کے اعتبار سے افضل جہاد ہے ۔
حضر ت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص لوگوں سے مرعوب ہوکر حق کے ظاہر ہونے کے بعد اس کے بیان کرنے اور کسی بڑی بات کا ذکر کرنے سے بازنہ رہے کیوں کہ لوگوں کی مرعوبیت نہ موت کو قریب کرسکتی ہے ، نہ رزق کو دورکرسکتی ہے ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الفتن:7/272، دارالفکر)
عزیمت تو یہی ہے کہ انسان جان و مال کا خوف کھائے بغیر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے ، لیکن اگر خطرہ جان یا ناقابل تحمل ضرر کااندیشہ ہوتو پھر کلمہ حق نہ کہنے کی رخصت ہے ، لیکن ظالموں کا ساتھ دینا جائز نہیں ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے خود کو ذلت میں ڈالنا درست نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا : ذلت میں ڈالنے کا کیا مطلب ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو کسی ایسی مصیبت میں ڈالنا جسے وہ برداشت نہ کرسکتا ہو ۔ ( مجمع الزوائد، کتاب الفتن:7/272)
حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عوام و خواص کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ﷲَ عزوجل لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّی يَرَوا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی أَنْ يّنْکِرُوْهُ فَلَا يُنْکِرُوْهُ ۔ فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ ﷲُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ ۔
ترجمہ : بے شک ﷲ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں ۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ﷲ تعالیٰ ہر خاص و عام کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 192،چشتی)(مالک، الموطأ، کتاب الکلام، باب ما جاء في عذاب العامة بعمل الخاصة، 2 : 991، رقم : 1799)(طبراني، المعجم الکبير، 17 : 139)
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں خرابی اس لیے پختہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ترک کر دیا تھا ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں : إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمَّا وَقَعَ فِيْهِمُ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ يَرَی أَخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ. فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَی مِنْهُ أَنْ يَکُوْنَ أَکِيْلَهُ وَشَرِيْبَهُ وَخَلِيْطَهُ. فَضَرَبَ ﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيْهِمُ الْقُرْآنُ. فَقَالَ : ﴿لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکاَنُوْا يَعْتَدُوْنَ﴾.(المائدة، 5 : 78) فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ : ﴿وَلَوْ کَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ أَوْلِيَاء وَلٰکِنَّ کَثِيْرًا مِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ﴾.(المائدة، 5 : 81) قَالَ : وَکَانَ نَبِيُّ ﷲِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ : لَا، حَتَّی تَأْخُذُوْا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطَُرُوْهُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا ۔
ترجمہ : جب بنی اسرائیل میں خرابی واقع ہوتی تو اس وقت ان میں سے بعض لوگ اپنے دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر منع کرتے ۔ لیکن جب دوسرا دن ہوتا تو اس خیال سے نہ روکتے کہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور ہم مجلس ہونا ہے ۔ اس پر ﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم مخلوط کردیا ۔ ان کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے : (بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسی بن مریم (علیہم السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے) ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت یہاں تک پڑھی : (اور اگر وہ اللہ تعالیٰ اور نبی پر اور اس چیز پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے ۔ لیکن ان میں سے اکثر نافرمان ہیں) ۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ بیٹھے اور فرمایا : تم بھی عذابِ الٰہی سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راہ راست پر نہ لے آؤ ۔ (ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5 : 252، رقم : 3048)(أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 121، رقم : 4336،چشتی)(ابن ماجه، السن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1327، رقم : 4006)(طبراني، المعجم الکبير، 10 : 146، رقم : 10268)(طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 166، رقم : 519)
حضرت نعمان بن بشیر رضی ﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اَہم فریضے کو نظر انداز کرنے اور ایک مثال کے ذریعے اس مداہنت و چشم پوشی کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُوْدِ ﷲِ وَالْوَاقِعِ فِيْهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوْا سَفِيْنَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا. فَکَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّوْنَ بِالْمَائِ عَلَی الَّذِيْنَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ. فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِيْنَةِ. فَأَتَوْهُ فَقَالُوْا : مَا لَکَ ؟ قَالَ : تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ. فَإِنْ أَخَذُوْا عَلَی يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَکُوْهُ أَهْلَکُوْهُ وَأَهْلَکُوْا أَنْفُسَهُمْ ۔
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں (سفر کرنے کے سلسلے میں) قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا ۔ پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا تھا تو اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ چنانچہ (اس خیال سے کہ اوپر کے لوگوں کو ان کے آنے جانے سے تکلیف ہوتی ہے) نیچے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا ۔ تو وہ اس کے پاس آئے اور کہا : تجھے کیا ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا : تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر میرا گزارہ نہیں ۔ پس اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے بچا لیا تو خود بھی بچ گئے ، اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کر دیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈال لیا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب القرعة في المشکلات، 2 : 954، رقم : 2540،چشتی)(ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تغيير المنکر باليد أو باللسان أو بالقلب، 4 : 470، رقم : 2173)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 270)(بزار، المسند، 8 : 238، رقم : 3298)
محترم قارئینِ کرام : معلوم ہوا کہ حکمرانوں کے ظلم و نا انصافی اور فسق و فجور کو بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا مسلمان کی اہم ذمہ داری ہے مگر اس کا طریقہ پرامن ہونا چاہیے، جو تشدد اور دہشت گردی کی جملہ شکلوں سے پاک ہو ۔ موجودہ دور میں اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں : آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرنا ۔ کتب ، لٹریچر اور اخبارات میں مضامین کے ذریعے ہر برائی اور ظلم کی مذمت اور اس کا جمہوری انداز سے مؤاخذہ کرنا ۔ احتجاجی مظاہروں اور پرامن ریلیوں کی شکل میں ظلم و نا انصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا ۔ جمہوری و آئینی دائرے کے اندر رہ کر اجتماعات اور کانفرنسز منعقد کرنا ۔ تقریر و تحریر کے ذریعے اجتماعی شعور کو بیدار اور رائے عامہ کو ظلم و استحصال اور ناانصافی کے خلاف ہموار کرنا ۔ ان تمام مقاصد کے لئے تنظیم سازی اور جماعت سازی کرنا ۔ بہتری کے لئے حکومتوں کو آئینی و جمہوری طریقے سے بدلنے کی کوشش اور جماعتی سطح پر منظم پرامن جد و جہد کرنا ۔ بعض اوقات یہی کوششیں انفرادی ، اجتماعی ، تنظیمی اور جماعتی سطح پر فرائض کا درجہ بھی اختیار کرلیتی ہیں اور ان سے پہلو تہی گناہ اور عذابِ خداوندی کا باعث بن جاتی ہے ۔ اِسی طرح ظلم و تشدد کے خاتمے ، انسانی حقوق کی بحالی ، بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور قانون کی بالا دستی کے لئے اور خصوصاََ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تحفظ کےلیے پارلیمنٹ کے فلور پر اور پارلیمنٹ آواز اٹھانا بھی اسلامی ، آئینی اور جمہوری طریقہ ہے جسے کوئی ردّ نہیں کر سکتا ۔ سیاسی جماعت تشکیل دے کر انتخابی جد و جہد کرنا اور مختلف فورمز پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا اور ترویج و اشاعت اسلام کے لئے انفرادی ، اجتماعی اور جماعتی سطح پر آئینی و جمہوری اور اسلامی طریقے سے جد و جہد کرنا ، یہ سب کچھ قرآن و سنت اور آئینِ پاکستان کی بنیادی روح کے عین مطابق ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment