Thursday, 15 April 2021

فساد فی الارض اور موجودہ حالات

 فساد فی الارض اور موجودہ حالات

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفْسِدُوۡا فِی الۡاَرْضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوۡنَ ﴿11﴾ اَلَاۤ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوۡنَ وَلٰکِنۡ لَّا یَشْعُرُوۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 11)

ترجمہ : اورجو اُن سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں ۔ سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں ۔


اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب ایمان والوں کی طرف سے ان منافقوں کو کہا جائے کہ باطن میں کفر رکھ کر اور صحیح ایمان لانے میں پس و پیش کر کے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں ا س طرح نہ کہو کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اصلاح کرناہے ۔ اے ایمان والو! تم جان لو کہ اپنی اُسی روش پر قائم رہنے کی وجہ سے یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں اس بات کاشعور نہیں کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کوپہچان سکیں ۔


منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلاح کا نام دیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آزادی کے نام پر بے حیائی ، فن کے نام پر حرام افعال ، انسانیت کے نام پر اسلام کو مٹانا اورتہذیب و تَمَدُّن کا نام لے کر اسلام پر اعتراض کرنا ، توحید کا نام لے کر شانِ رسالت کا انکار کرنا ، قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرنا وغیرہا سب فساد کی صورتیں ہیں ۔


امام ابن جریر(224ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : منافقوں کا فساد یہ تھا کہ وہ اللہ کے دشمنوں کی مدد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابل ان کی پاسداری کرتے تھے اور یہ سب مکاری کرنے کے بعد بھی خود کو صلح والے سمجھتے تھے ۔

علاّمہ ابن کثیر(701ھ) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : قرآن پاک نے کفار سے دوستی اور موالات رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ منافقین چکنی چپڑی باتوں سے ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور پس پردہ کفار سے دوستیوں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ کسی کے ساتھ بگاڑنا نہیں چاہتے اور فریقین (مسلمانوں اور کفار) میں اتفاق رکھنا چاہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر)


جلالت العلم ، شیخ السنہ امام جلال الدین سیوطی الشافعی (849ھ) رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امام ابن اسحاق نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے "ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں" کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ (اس سے مراد وہ منافقین ہیں) جو کہتے ہیں ہم ایمان والوں اور اہل کتاب میں صلح کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اللہ نے کہا کہ یہ نری جہالت ہے اور فساد ہے مگر انہیں اس کا شعور نہیں ۔ (تفسیر در منثور)


منافقین اپنے افساد کو اصلاح کیوں کہتے تھے ؟


منافقین کا فساد یہ تھا کہ وہ کفار سے تعاون کرکے اور مسلمانوں کے راز ان پر ظاہر کرکے جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے اور فتنوں کو جگاتے تھے کیونکہ جنگ کے نتیجہ میں زمین پر لہلہاتے ہوئے کھیت اجڑ جاتے تھے ‘ مال اور مویشی ہلاک ہوجاتے تھے اور انسانوں کا قتل ہوتا تھا ‘ یا ان کو فساد یہ تھا کہ وہ زمین پر اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور شریعت کے ساتھ استہزاء کرتے تھے اور اس کے نتیجہ میں زمین پر خوں ریزی ہوتی تھی اور فتنہ اور فساد ہوتا تھا اور چونکہ منافقین کے دلوں میں بیماری تھی ‘ اس لیے وہ اپنے فساد کرنے کو اصلاح اور اپنی شرانگیزی کا کار خیر گمان کرتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : افمن زین لہ سوء عملہ فراہ حسنا ۔ (سورہ الفاطر : 8) 

ترجمہ : تو کیا جس شخص کے لیے اس کا برا کام مزین کردیا گیا تو اس نے اس کو اچھا سمجھا ۔


منافقین کا مقصد یہ تھا کہ ہم تو فساد کرنے سے بہت دور ہیں ‘ کیونکہ ہم اپنے علماء اور پیروں کی پیروی کرتے ہیں ‘ جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) سے تعلیم حاصل کی ہے تو ہم ان کے طریقہ کو کیسے چھوڑیں اور اپنے گلے میں ایک نئے دین کا قلادہ کیسے ڈال لیں ؟ اور ہم مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا کر ان کو کمزور کر رہے ہیں تاکہ یہ نیادین پھلنے پھولنے نہ پائے ‘ لہذا لوگوں کو اس نئے دین سے دور رکھنے کی ہماری یہ کوشش لوگوں کی اصلاح اور ان کی خیرخواہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ان سے کہا گیا : اس طرح ایمان لاؤ ‘ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو انہوں نے کہا : کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟ (سورہ البقرہ : 13)


ایمان لانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا معیار ہونا


علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ” جس طرح اور لوگ ایمان لالئے ہیں “ اس سے مراد اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ‘ اور منافقین نے جو کہا : جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ‘ اس سے ان کی مراد بھی اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ‘ یہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ (جامع البیان ج 1 ص 99‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ)


علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : اس سے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم مراد ہیں ۔ (الجامع الاحکام القرآن ج 1 ص 205 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ 1387 ھ)


علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ ” تاریخ ابن عساکر “ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ‘ ہیں ۔ (الدرالمنثور ‘ ج 1 ص 31۔ 30‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ النجفی ایران) 


شیعہ مفسر شیخ فضل بن حسن طبرسی لکھتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ پر نازل شدہ کتاب کی اس طرح تصدیق کرو جس طرح آپ کے اصحاب نے اس کی تصدیق کی ہے ‘ اور ایک یہ ہے کہ (حضرت) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جو دوسرے یہودی ایمان لائے تھے ‘ ان کی طرح آپ کی تصدیق کرو ۔ (مجمع البیان ج 1 ص 139‘ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ‘ ایران ‘ 1411 ھ،چشتی)


ان تفاسیر سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کیلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان معیار ہے ۔


زندیق کی توبہ کی قبولیت پر دلیل


اس آیت سے زندیق کی توبہ کے مقبول ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے نفاق کی خبر دی اور ان کو قتل کرنے حکم نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے ظاہر اسلام کے قبول کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کے فاسد عقائد کا جو علم تھا اس کے مطابق ان کے ساتھ کفار کا معاملہ کرنے کا حکم نہیں دیا ‘ اور یہ ثابت ہے کہ یہ آیات مدینہ منورہ میں کفار سے قتال کی مشروعیت کے بعد نازل ہوئی ہیں ‘ نیز ” صحیح بخاری “ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا حتی کہ وہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کی گواہی دیں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ ادا کریں ‘ جب وہ ایسا کریں گے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کرلیں گے ‘ البتہ اسلام کا حق لیا جائے گا اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ 1 (امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ صحیح بخاری ج 1 ص ‘ 8 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ) اور منافقین بہ ظاہر کلمہ پڑھتے تھے ‘ نماز پڑھتے تھے اور زکوۃ ادا کرتے تھے ۔


وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ منافق کا ایمان لانا اور اس کی توبہ مقبول ہے ، اسی پر زندیق کو قیاس کیا گیا ہے ۔ اب ہم پہلے زندیق اور ملحد کی تعریفیں ذکر کریں گے ‘ پھر ان کا شرعی حکم بیان کریں گے ۔


زندیق کی تحقیق اور شرعی حکم


علامہ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے کافروں کی درج ذیل اقسام لکھی ہیں


کافر : جو شخص ظاہرا ایمان نہ لائے ‘ منافق : جو شخص بہ ظاہر ایمان لائے اور حقیقت میں کافر و ‘ مرتد : جو شخص اسلام لانے کے بعد اسلام سے رجوع کرکے کفر کو قبول کرلے ‘ مشرک : جو شخص متعدد خدا مانے ‘ کتابی : جو شخص ادیان سابقہ منسوخہ کا معتقد ہو جیسے یہودی اور عیسائی ‘ دہری : جو شخص دہر کو قدیم مانے اور حوادث کی نسبت دہر کی طرف کرے ‘ معطل : جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم نہ کرے ‘ زندیق : جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اعتراف کرتا ہو ‘ شعائر اسلام کا اظہار کرتا ہو اور اس کے دل میں کفریہ عقائد ہوں ۔ (شرح المقاصد ج 5 ص 227‘ مطبوعہ منشورات الشریف الرضی ‘ ایران ‘ 1409 ھ)


ملحد : جو شخص شریعت مستقیمہ سے کفر کی کسی حجت کی طرف میلان کرے ‘ اس میں وجود باری کو ماننے کی شرط ہے نہ نبوت کے ماننے کی شرط ہے ‘ نہ کفر کو چھپانے کی شرط ہے ‘ نہ پہلے اسلام کو ماننے کی شرط ہے ‘ یہ کفر کی تمام اقسام سے عام ہے ۔ (ردالمختار ج 3 ص 296)


علامہ سید احمد طحطاوی حنفی زندیق کے متعلق لکھتے ہیں : ” فتاوی قاری الھدایہ “ میں لکھا ہے کہ زندیق وہ شخص ہے جو دہر کے قدیم ہونے کا معتقد ہو ‘ خالق اور آخرت پر ایمان نہ لائے اور اس کا اعتقاد ہو کہ اموال اور محرمات مشترک ہیں ‘ اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے کہ زندیق وہ شخص ہے جو خدا کا قائل ہو نہ آخرت کا اور نہ کسی چیز کا حرام سمجھتا ہو ‘ یہ علامہ بیری سے منقول ہے ‘ اور ” فتح القدیر “ میں ہے کہ زندیق کسی دین کا قائل نہیں ہوتا ‘ اور ” حاشیہ ابی سعود “ میں ” ملتقات “ سے منقول ہے کہ زندیق کی تین قسمیں ہیں : (1) زندیق اصلی ‘ یہ وہ عجمی شخص ہے جو اپنے سابق شرک پر قائم ہو ۔ (2) زندیق غیر اصلی وہ شخص ہے جو پہلے مسلمان ہو اور پھر زندیق ہوجائے ‘ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر یہ مسلمان ہوگیا تو فبہا ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا ‘ کیونکہ یہ مرتد ہے ۔ (3) جو شخص پہلے ذمی ہو اور پھر زندیق ہوجائے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ کفر ملت واحدہ ہے اور ظاہر یہ ہے کہ زندیق کی توبہ مقبول ہے اور توبہ اس سے قتل کو ساقط کردیتی ہے ۔ (حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار ج 2 ص ‘ 485‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ ‘ بیروت 1395 ھ)

علامہ طحطاوی نے زندیق کی جتنی تعریفیں لکھی ہیں یہ سب اس کے لغوی معنی ہیں اصطلاح شرع میں اس کا وہی معنی ہے جو علامہ تفتازانی نے لکھا ہے ۔


علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : علامہ ابن کمال پاشا نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ لغت میں زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو خالق کی نفی کرے ‘ اور جو متعدد خداؤں کا قائل ہو ‘ اور جو اللہ کی حکمت کا انکار کرے ‘ اور اصطلاح شرع میں زندیق وہ شخص ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اعتراف کرے اور کفر کو مخفی رکھے جیسا کہ ” شرح مقاصد “ میں ہے ‘ زندیق کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ اپنی گمراہی کی طرف دعوت نہیں دیتا تو پھر اس کی تین قسمیں ہیں (زندیق اصلی ‘ غیر اصلی اور وہ زندیق جو پہلے عجمی ہو ‘ ان کی تفصیل علامہ طحطاوی کی عبارت میں گزر چکی ہے) اور اگر زندیق اپنی گمراہی کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو اگر اس نے گرفتار ہونے سے پہلے اپنے اختیار سے توبہ کرلی ہے تو اس کی توبہ قبول ہوگی ورنہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کو قتل کردیا جائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زندیق تو اپنے کفر کو مخفی رکھتا ہے ‘ وہ اپنی گمراہی کی طرف کیسے لوگوں کو دعوت دے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے کفر پر اسلام کا ملمع چڑھا کر اور اپنے عقائد فاسدہ کو عقائد کو عقائد صحیحہ کی صورت میں پیش کرکے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دے گا (جیسے ہمارے زمانہ میں مرزائی ہیں) ۔ (رد المختار ج 3 ص ‘ 296‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت 1407 ھ،چشتی)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنو یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن ان کو علم نہیں ہے ۔ (سورہ البقرہ : 13)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کی مذمت اور رد


منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور ان کی زیادہ جہالت بیان کی کہ وہ نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کو اپنی جہالت کا علم بھی نہیں اور اس آیت میں قصر قلب ہے اور کئی وجہ سے تاکید ہے ‘ قصر قلب کا تقاضا یہ ہے کہ اصحاب رسول جاہل نہیں ہیں بلکہ یہی جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور خود کو عالم سمجھ رہے ہیں اور اس جملہ کو اللہ تعالیٰ نے ” الا ‘ ان “ اور اسمیت جملہ سے موکد فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جہالت میں رہیں گے اور ان کو اپنی جہالت کا علم نہیں ہوگا اور ایسی جہالت زیادہ لائق مذمت ہے کیونکہ جس شخص کو کسی چیز کا پتا نہ ہو اس میں صرف ایک جہالت ہے ‘ اور وہ بسا اوقات معذور ہوتا ہے اور جب اس کو اس چیز کا پتا چل جائے یا اس کو مسئلہ بتادیا جائے تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے اور اس کو ہدایت سے نفع پہنچتا ہے اور جو شخص جاہل ہو اور وہ اپنی جہالت سے بھی جاہل ہو اس میں دو جہالتیں ہیں : ایک مسئلہ سے جہالت دوسری اپنی جہالت سے جہالت اس کو جہل مرکب کہتے ہیں ۔


اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب وشتم کرنا اللہ کو بہت ناگوار ہے ‘ منافقین نے ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کردی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ جاہل نہیں بلکہ ان کو جاہل کہنے والے خود جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور ان کا جہل دائمی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہل سے براءت کی اور ان کو جاہل کہنے والوں کی مذمت کی ‘ منافقوں نے تو ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تھا لیکن جب تک قرآن مجید پڑھا جاتا رہے گا یہ کہا جاتا رہے گا کہ منافق جاہل ہیں اور دائمی جہل میں گرفتار ہیں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب وشتم کرنے والوں کا رد کرنا چاہیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سنت الہیہ ہے ۔


ہر مسلمان اس بات کا اہل ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر پڑھے اور فیصلہ کر سکے کہ کون یے جو کفار کی پس پردہ حمایت کرتا ہے ؟ کون ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے مقابل اہل کفر کی پاسداری کرتا ہے ؟ کون ہے جو اہل کفر سے دوستی رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے خواہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر سَب بکیں ؟ اور یہ سب کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں ہم تو صلح والے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...