Monday 5 April 2021

منکرینِ بیس رکعات تراویح کے پیشوا ابنِ تیمیہ کا فتویٰ تراویح بیس رکعات ہیں

0 comments

 منکرینِ بیس رکعات تراویح کے پیشوا ابنِ تیمیہ کا فتویٰ تراویح بیس رکعات ہیں


غیر مقلد وہابی حضرات کے ممدوح و پیشوا علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی رمضان و یوتر بثلث فرأی کثیر من العلماء ان ذٰلک ہو السنۃ لانہ قام بین المہاجرین و الانصار و لم ینکرہ منکر ۔

ترجمہ : یہ بات متحقق ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ لوگوں کو رمضان میں بیس (20) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے اسی لئے بے شمار علماء نے اسی کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابن کعب نے انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں پڑھائی تھی اور کسی نے انکار نہیں کیا ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ جلد نمبر 23  صفحہ نمبر 68)


یہی غیر مقلد وہابی حضرات کے ممدوح و پیشوا علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : فَالْقِيَامُ بِعِشْرِينَ هُوَ الْأَفْضَلُ وَهُوَ الَّذِي يَعْمَلُ بِهِ أَكْثَرُ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّهُ وَسَطٌ بَيْنَ الْعَشْرِ وَبَيْنَ الْأَرْبَعِينَ ۔

ترجمہ : پس20 رکعات تَراویح پڑھنا ہی افضل ہے ، اور یہی وہ مسلَک ہے جس پراکثر مسلمان عمل کرتے ہیں ، اِس لئے کہ یہ 10 اور 40 رکعات کے درمیان ایک معتدل اور درمیانہ قول ہے ۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ  جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 272،چشتی)


محترم قارئین : بیس (20) رکعت تراویح اُمّت کا ایک اجماعی اور اِتفاقی مسئلہ ہے ، اِس میں 8 رکعات کا قول اختیار کرنا کسی بھی اِمام کا مسلَک نہیں اور نہ ہی صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور فقہاء و مجتہدین علیہم الرّحمہ میں کبھی اِس کا کوئی قائل رہا ہے ، لہٰذا اس مسئلہ میں 8 رکعات تَراویح کا نظریہ اختیار کرنا جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین ، فقہاء و محدّثین ، ائمہ اربعہ و مجتہدینِ امّت علیہم الرّحمہ ، شرق و غرب کے تمام اہلِ علم کے اتفاق اور اِجماع کے سراسر خلاف ہے ، جس کی دلائل کے اعتبار سے کوئی قوّت اور حیثیت نہیں ۔ ایک اَدنیٰ عقل و دانش کا حامل شخص بھی اِس حقیقت کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ جس مسئلہ پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اِجماع ہو ، ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ اُس مسئلہ پر متفق ہوں ، اور ہر زمانے کے فقہاء و محدّثین علیہم الرّحمہ اُس کے قائل رہے ہو ں ، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ، نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تَلقّی بالقبول یعنی اُمّت میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل رہا ہو اُس کی مُخالفت کرتے ہوئے اپنی رائے کو دین و شریعت کی حیثیت دینا سوائے ضلالت و گمراہی کے کیا ہوسکتا ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔