نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخوں کا انجام اور کتا
محترم قارئینِ کرام : یہ بات ہر مسلمان کی قلوب و اذہان میں راسخ رہے کہ اللہ پاک کام لینا چاہے تو ابابیلوں کے لشکر بھیج کر کعبہ کو بچا سکتا ہے اسی طرح وہ ذاتِ اقدس اگر چاہے تو جس سے چاہے ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہ پہرا دِلوا سکتی ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : مغلوں میں سے ایک بڑے امیر نے عیسائیت قبول کی تو عیسائیوں اورمغلوں کی بڑی جماعت اس کے پا س آئی ، ان میں سے ایک نے حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی اور وہاں ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا تو جب اس (بدبخت عیسائی) نے حدسے تجاوز کیا تو وہ کتا اس پہ جھپٹا اور اس کو زخمی کر دیا تو وہاں لوگوں نے اس کو بچایا اور ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ (کتے کا حملہ) تیرے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس میں عیب جوئی کی وجہ سے ہے تو وہ (بدبخت )کہنے لگا ہرگز نہیں بلکہ (معاملہ یہ ہے کہ) یہ کتا بڑا غیرت مند ہے اور جب میں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنا چاہتا ہوں پھر اس نے دوبارہ پہلے والی (گستاخانہ گفتگو) شروع کردی اورگفتگو کو لمبا کیا تو دوبارہ کتے نے حملہ کیا اور اس کو جان سے مار ڈالا یہ واقعہ دیکھ کر چالیس ہزار مغلوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ (الدرالمنشور لابن حجر جلد نمبر 2،چشتی)،(الدرر الکامنۃ للحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 202)
گستاخ کے خون کو کتا بھی منہ نہیں لگاتا
امام محمد بن یوسف الصالحی کے علاوہ قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفا ‘‘ میں اور محمد بن موسیٰ الدمیری علیہم الرّحمہ نے حیات الحیوان الکبرٰی میں درج کیا ہے : فقہاء قیروان اور سُحْنُوْن والوں نے ابراہیم فزاری کے قتل کا فتوٰی دیا یہ بہت بڑاشاعر اور بہت سے علوم کا ماہر تھا ۔ قاضی ابو العباس بن طالب کے ہاں یہ بھی مناظرے کی مجالس میں شرکت کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ دوران مناظرہ اس نے اللہ رب العزت کی شان اقدس ، انبیاء کرام (علیھم السلام) اور با لخصوص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں بے ادبی و گستاخی اور استہزا و تمسخر کا ارتکاب کیا اس کو قاضی یحیٰ بن عمر اور دیگر فقہاء کرام کے پا س لایاگیا تو انہوں نےاس بناء پر اس کے قتل اور سولی کا فتوٰی دیا تو اس کے پیٹ کو چھری سے چاک کیا گیا اور اس کو الٹا لٹکا کر سولی دی گئی پھر اس کو جلا دیا گیا ، جس لکڑی پر اسے سولی دی گئی وہ گھومی اس کا رخ سمت قبلہ سے پھر گیا یہ سب کیلئے ایک عبرت ناک نشانی تھی ۔ وہاں موجود سب لوگوں نے باآواز بلند اللہ اکبر کہا پھر ایک کتا آیا اور اس کا خون چاٹنے لگا تو یہ منظر دیکھ کر یحیٰ بن عمر کہنے لگے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سچ فرمایا ۔ پھر فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سنایا : لَا يَلَغُ الْكَلْبُ فِي دَمِ مُسْلِمٍ ، کتا کسی مسلمان کا خون نہیں چاٹتا ۔ (سبل الهدى والرشاد جلد نمبر 12 صفحہ نمبر 23)
اے اہلِ ایمان ان کتوں سے ہی سبق سیکھو کب تک خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہو گے ؟
گستاخِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو زمین نے قبول نہ کیا
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ایک نصرانی اسلام لایا اور اس نے سورہ بقرہ اورسورہ آل عمران پڑھی ، وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کاتب بن گیا پھر وہ نصرانی ہو گیا اور وہ کہتا (معاذ اللہ) سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا میں لکھ دیتا ہوں ، اللہ عزوجل نے اس (لعین) کو ہلاک کردیا ۔ پس لوگوں نے اسے دفن کیا جب صبح ہوئی تو (انہوں نے دیکھا کہ) زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا ، کہنے لگے یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل ہے جنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے نکال کر) پھینک دیا کیونکہ یہ ان سے بھاگ گیا تھا ۔ انہوں نے اس کے لئے خوب گہری قبر کھودی جتنی وہ کھود سکتے تھے مگر جب صبح ہو ئی دیکھا تو زمین نے اسے باہر پھینک دیاتھا تب انہیں یقین آیا کہ یہ لوگوں کا فعل نہیں پھر انہوں نے اس کو زمین پرڈال دیا ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب المناقب)
غلاف کعبہ سے چمٹے ہوئے گستاخ کا انجام
جب فتح مکہ کا دن آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مرد اور دو عورتوں کے ، اور فرمایا : ”انہیں قتل کر دو چاہے تم انہیں کعبہ کے پردے سے چمٹا ہوا پاؤ“، یعنی عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل ، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۔ عبداللہ بن خطل کو اس وقت پکڑا گیا جب وہ کعبے کے پردے سے چمٹا ہوا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کے مطابق اسے اسی حالت میں قتل کردیا گیا یہ آپ کی شان میں گستاخیاں اور ہجو کیا کرتا تھا ۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پایا تو اسے قتل کر دیا۔ عکرمہ (بھاگ کر) سمندر میں ( کشتی پر) سوار ہو گئے ، تو اسے آندھی نے گھیر لیا ، کشتی کے لوگوں نے کہا : سب لوگ خالص اللہ کو پکارو اس لیے کہ تمہارے یہ معبود تمہیں یہاں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔ عکرمہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر سمندر سے مجھے سوائے اللہ پر ایمان کے کوئی چیز نہیں بچا سکتی تو خشکی میں بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں بچا سکتی ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے میری اس مصیبت سے بچا لے گا جس میں میں پھنسا ہوا ہوں تو میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور میں ان کو مہربان اور بخشنے والا پاؤں گا ، چنانچہ وہ آئے اور اسلام قبول کر لیا ۔ (سنن نسائی : 4067،چشتی)
گستاخی کرنے والی عورت کا انجام
ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لونڈی تھی جس کے بطن سے ان کی اولاد بھی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہجو شروع کی ، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (نابینے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا ، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا ، جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو اکٹھا کیا ، اور فرمایا : جس نے یہ قتل کیا ہے میں اسے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے تو وہ نابینا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے بیٹھ گیا ، اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول میں اس کا مالک ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے بھی ہیں ، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو کل رات حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی ، اور ہجو کرنی شروع کی ، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لوگو ! سنو تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون ضایع ہوگیا ۔ (سنن ابوداؤد : 4361)
گستاخ کعب بن اشرف کا انجام
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے ۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ نے فرمایا ”ہاں مجھ کو یہ پسند ہے ۔“ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی ۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا ، یہ شخص (اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے ۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا ، اللہ کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے وسق یا دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں … کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو ۔ انہوں نے پوچھا ، گروی میں تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا ، اپنی عورتوں کو رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو ۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ اس نے کہا ، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا ، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر ان کو رہن رکھ دیا گیا تھا ، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی ۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ہتھیار (اسلحہ) گروی رکھ سکتے ہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے ۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت ( اتنی رات گئے ) کہاں باہر جا رہے ہو ؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے ۔ اس کی بیوی نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو ۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں ۔ مگر کسی شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے ۔ محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔۔۔ اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا ۔۔۔ آخر کعب بن اشرف چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی تھی ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، آج سے پہلے اس سےزیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی ! کعب اس پر بولا ، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ۔ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے ؟ اس نے کہا ، سونگھ سکتے ہو ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا ۔ پھر انہوں نے کہا ، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی ۔ (صحیح بخاری : 4037،چشتی)
گستاخ ابو رافع یہودی کا انجام
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابورافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر ( اپنے گھروں کو ) واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں ( اس قلعہ پر ) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ ( قلعہ کے پاس ) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے۔ دربان نے (اپنے لوگوں کو) آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ ( عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا ) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ( سو رہا ) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ( آواز کی طرف بڑھ کر ) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں ( لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا ) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گرنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی ۔ (صحیح بخاری : 4039. 4040 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تمسخر اڑانے والوں کو اللہ کافی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تمسخر کرنے والے ولید بن مغیرہ ، اسود بن عبدیغوث الزہری ، قبیلہ اسد بن عبدالعزی کا ابوزمعہ اسود بن مطلب ، حارث بن عیطل السہمی اور عاص بن وائل یہ پانچ رؤساء تھے ۔ ایک مرتبہ جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے بارے میں شکوہ کیا اور ولید کو دکھادیا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی رگ کی جانب اشارہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ؟ جبریل نے جواب دیا کہ آپ اس کے شر سے محفوظ ہوگئے ۔ جبریل امین کو اسود کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کہ: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ جبریل نے فرمایا: آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جبریل کو ابوزمعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا جبریل نے اس کے سر کی جانب اشارہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : آپ نے یہ کیا کیا ؟ جبریل نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے ۔ اس کے سر یا پیٹ کی جانب اشارہ کیا اور آپ سے فرمایا کہ اس کے شر سے بھی آپ محفوظ ہوگئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس سے عاص گذرا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی ایک طرف اشارہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ اب آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے ہیں ۔ اس کے بعد ولید قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی کے پاس سے گذرا جو اپنے تیر میں پر لگارہا تھا تو تیر اس کے پاؤں میں لگ گیا اور رگ کٹ گئی۔ اسود بن مطلب اندھا ہوگیا۔ اسود بن عبد یغوث کے سر کے اندر زخم پیدا ہوگئے جس سے وہ ہلاک ہوگیا ، حارث بن عیطل کے پیٹ میں زرد پانی جمع ہوگیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے پاخانہ نکلنے لگا اور اسی سے اس کی موت واقع ہوئی ۔ اور عاص کے سر میں کانٹا چبھ گیا تو سر میں پیپ بھر گئی اور اسی سے وہ جہنم واصل ہوا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ طائف کی طرف اپنی سواری گدھے پر سوار ہو کر روانہ ہوا تو ایک جگہ اترتے وقت اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا اور اسی سے وہ جہنم رسید ہوا ۔ (السیرۃ النبویۃ للامام الذھبی ۱؍۱۸۳ المطبوع فی اول سیر اعلام النبلاء. المعجم الاوسط للطبراني :٤٩٨٦ السنن الكبرى للبيهقي : ١٧٧٣١،چشتی)
ابولہب کا عبرتناک انجام
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سگا چچا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بڑا دشمن تھا ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بری عداوت رکھتا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کوہ صفا پر چڑھ کرلوگوں کو جمع کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو سب سے پہلے ابولہب نے کہا تھا : تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا ؟ ، تو برباد ہو جائے کیا تونے ہمیں یہ سنانے کے لئے جمع کیا تھا ؟ (نعوذباللہ من ذلک) اس پر خالق ارض وسماء نےاس کی تباہی وبربادی کااعلان فرماتے ہوئے پوری ایک سورت اس کی مذمت میں نازل فرمائی : ﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ*مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ*سَيَصْلَى نَاراً ذَاتَ لَهَبٍ*وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ* فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ﴾ ، ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو . نہ اس کا مال اس کے کسی کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا (یعنی رئیسانہ حیثیت اور اولاد) ۔ جلد ہی وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا ۔ اوراس کی بیوی ، جو ایندھن اٹھائے پھرتی تھی (یعنی لوگوں کے درمیان آگ لگاتی پھرتی تھی) اس کی گردن میں کجھور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی (جس کے ذریعے جہنم میں گھسیٹی جائے گی) ۔ (صحيح بخاري: 4770)
دنیا میں توابولہب کاحال یہ ہوا کہ اس کوزہریلی قسم کی ایک بیماری یاچھالہ (العدسہ) نکلا جو پورے جسم میں پھیل گیا ہرجگہ سے بدبودار پیپ بہنے لگی گوشت گل گل کر گرنے لگا ، اس کے بیٹوں نے اسے گھر سے باہر پھینک دیا اور اس نے تڑپتے تڑپتے جان دیدی اس کی لاش تین دن تک یونہی دھوپ میں گلتی سڑتی رہی اور لوگ اس کے تعفن اور بدبو سے تنگ آگئےاور اس کے بیٹوں کو لعنت ملامت کرنے لگے تو انہوں نے چند حبشی غلاموں سے گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دور سے ہی دھکیل کر اس گڑھے میں پھینک دیا اور اوپر سے مٹی ڈال دی (اورآخرت کاعذاب تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے) ۔ (المستدرك للحاكم: ٥٤٠٣. طبراني كبير)
عتبہ (یا لھب) ابو لھب کے گستاخ بیٹے کا انجام
ابن عساکر نے ذکر کیاہے کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتبہ (یا لھب) شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ ذرا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا اے محمد جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا میں تو اس کا منکر ہوں (چونکہ یہ ناہنجار سخت بےادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان سے اس کے لئے بد دعا نکل گئی کہ : اللّٰہُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِّنْ کِلَابِک . باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے ، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ ابولہب کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہوگیا اس کی دعا رد نہ جائے گی، اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سر زمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو درندے بھیڑئیے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آگئے ؟ ابو لہب یہ سن کر ٹھٹک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کچھ حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ تم سب اسے قبول کرو گے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے میرے جگر گوشے کے لئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا سب سامان و اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس کے اوپر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو۔ لوگوں نے اسے منظور کرلیا۔یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار رہے کہ اچانک ایک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے چھلانگ لگا کر اس مچان پر پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑا دئیے ، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، اس وقت ابو لہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی بد دعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا ۔ (تفسیر ابن کثیر سورت النجم ۔ أﺧﺮﺟﻪ اﺑﻦ ﻋﺴﺎﻛﺮ (٣٨/٣٠٢) صححه الحاكم : ٣٩٨٤. ووافقه الذهبي،چشتی)
گستاخ ابو جھل کا بدترین انجام
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ابوجہل نے کہا : کیا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں ؟ (یعنی نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں ؟ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا : تو کہا گیا : ہاں ۔ چنانچہ اس نے کہا : لات اور عزیٰ کی قسم ! اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرے کو مٹی میں ملاؤں گا (العیاذ باللہ) کہا : پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کو روندے (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا : تو وہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان) سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا ۔ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا : تو اس سے کہا گیا : تمھیں کیا ہوا ؟ تو اس نے کہا : میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق) اور بہت سے پر تھے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے ۔ (صحيح مسلم : 2797)
سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : بدر کی لڑائی میں ، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے (معاذ اور معوذ) تھے۔ میں نے آرزو کی کاش ! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا ۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا ، اور پوچھا چچا ! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے ، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی ۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں ۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا ۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے ۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے ؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے ۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے ۔ (صحیح بخاری : 3141)
گستاخ سردارانِ قریش کا انجام
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ قریش اپنی مجلس میں (قریب ہی) بیٹھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے ؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر ، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے ۔ پھر یہاں انتظار کرے ۔ جب یہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے (چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ میں گئے تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے ۔ مشرکین (یہ دیکھ کر) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے ۔ ایک شخص (غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ) حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ۔ وہ ابھی بچی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اب بھی سجدہ ہی میں تھے ۔ پھر (فاطمہ رضی اللہ عنہا نے) ان غلاظتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز پوری کر کے فرمایا : یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ۔“ پھر نام لے کر کہا یا اللہ ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ، اللہ کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا ۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ کنویں والے اللہ کی لعنت کے حقدار بن گئے ۔ (اور رحمت سے دور کر دئیے گئے) ۔ (صحیح بخاری: 520)
اے گستاخی کرنے والو اور گستاخوں کی حمایت کرنے والو اب بھی وقت ہے توبہ کر لو ورنہ انجام تمہارا بھی اچھا نہیں ہوگا ۔ اللہ عزّوجل سے دعا ہے وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تحفظ کےلیے کام کرنے والے اور اس کےلیے آواز اٹھانے والے تمام عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حفاظت و مدد فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment