روزہ چھ چیزوں کا ہے
(1) آنکھ کا بدنظری اور تاک جھانک سے بچے ۔
(2) کانوں کا کہ جھوٹ ، غیبت اور گانے بجانے کے سننے سے بجائے ۔
(3) زبان کا کہ جھوٹ، غیبت، گالیوں، فضول اور بے ہودہ بکواس سے بچائے ۔
(4) باقی بدن کا کہ ہاتھوں سے چوری اور ظلم نہ کرے اور پیروں سے چل کر کسی بری اور گناہ کی جگہ نہ جائے ۔
(5) حرام غذا کا کہ اس سے پرہیز کرے اور حلال بھی جہاں تک ہو، کم کھائے تاکہ روزے کے انوار اور برکات حاصل ہوں ۔
(6) پھر ڈرتا رہے کہ خدا جانے یہ روزہ قبول بھی ہوگا یا نہیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر اس ڈر کے ساتھ کریم پروردگار کے کرم کے بھروسہ پر امید بھی رکھے ۔
اور خاص بندوں کے لئے ان 6 کے ساتھ ایک ساتویں چیز اور ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا ہر چیز کی طرف سے دل کو ہٹالے یہاں تک کہ افطاری کا سامان بھی نہ کرے ۔
احیاءالعلوم کی شرح میں بعض بزرگوں کا قصہ آیا ہے کہ اگر کہیں سے افطاری آجاتی تو اس کو خیرات کر ڈالتے تاکہ دل اس میں مشغول نہ رہے ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ کتب علیکم الصیام میں انسان کی ہر چیز پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ پس زبان کا روزہ، جھوٹ اور غیبت سے بچنا ہے اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے پرہیز ہے اور آنکھوں کا روزہ کھیل تماشے سے بچنا ہے اور نفس کا روزہ حرص اور خواہشوں سے اور دل کا روزہ دنیا کی محبت سے بچنا ہے اور روح کا روزہ یہ ہے کہ آخرت کی لذتوں کی بھی خواہش نہ ہو اور سر خاص کا روزہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی پر بھی نظر نہ ہو ۔
ایک اہم بات : واضح ہو کہ اگر ان فضیلتوں اور برکتوں کو سن کر روزے کو ضروری اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے تو نماز کا خیال اس سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہئے کیونکہ وہ روزے اور زکوٰۃ اور حج سب سے افضل ہے اور سب کی اصل ہے اور یہ سب عبادتیں اس میں موجود ہیں ۔ چنانچہ :
(1) ذکر و تلاوت اور تسبیح اور کلمہ شہادت تو زبانی عبادتوں کی اصل الاصول ہیں ۔
(2) اور اس میں حج کا نمونہ بھی ہے کہ پہلی تکبیر احرام کے اور قبلہ کی طرف منہ کرنا طواف کے اور کھڑا ہونا عرفات میں ٹھہرنے کے اور رکوع اور سجود اور رکعتوں کے لئے اٹھنا، بیٹھنا صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کے قائم مقام ہے ۔
(3) نیز اس میں ہر چیز کا روزہ بھی پایا جاتا ہے کہ نظر کو دوست کے سوا غیر پر ڈالنے سے اور زبان کو ذکر اور تلاوت کے سوا باتیں کرنے سے اور ہاتھوں کو لینے دینے سے اور پائوں کو چلنے پھرنے سے اور دل کو خیالات کے میدان میں دوڑنے سے اور چیزوں میں غوروفکر کرنے سے روکتا ہے حالانکہ روزے میں اتنی پابندی نہیں ہیں۔
(4) اور اس میں زکوٰۃ بھی ہے کہ ستر چھپانے کے لئے کپڑا اور پاکی کے لئے برتن اور پانی خریدنے میں مال خرچ کرتا ہے نیز اپنے وقت کو تمام ضروریات سے اﷲ کے لئے فارغ کرتا ہے جس طرح زکوٰۃ کے لئے مال کی ایک مقدار کو علیحدہ کرتا ہے ۔
(5) نیز اس میں ہر مخلوق کی عبادت بھی پائی جاتی ہے چنانچہ کھڑا ہونے میں درختوں اور ذکرو تلاوت میں اڑنے والے خوش آواز جانوروں کی اور رکوع میں چرنے والے جانوروں کی اور سجدے میں بے ہاتھ پائوں کے جانوروں کی اور بیٹھنے میں پتھروں اور پہاڑوں وغیرہ تمام چیزوں کی عبادت موجود ہے ۔
(6) اور حق تعالیٰ کی معرفت و ذات میں استغراق ’’کروبیوں‘‘ یعنی فرشتوں کی عبادت ہے ۔ غرض نماز میں تمام مخلوقات کی عبادتیں موجود ہیں اسیلئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سا عمل ہے؟ تو آپ نے فرمایا ’’الصلوٰۃ لوقتھا‘‘ (نماز کا اسکے وقت پڑھنا) اور اسی لئے ارشاد ہوا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔
(7) اور نماز کوثر سے بھی مشابہت رکھتی ہے اس لئے کوثر کو عطا کرنے کے شکریہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نماز ادا کرنے کا حکم ہوا کیونکہ: (1) نماز میں جو ہمکلامی ہوتی ہے وہ شہد سے زیادہ میٹھی ہے (2) اور اس میں جو غیبی انوار نمازی کے دل کو منور کرتے ہیں وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے (3) اور اس میں جو یقین کو ترقی ہوتی ہے وہ برف سے زیادہ ٹھنڈی ہے (4) اور جو لطف و چین نماز میں نصیب ہوتا ہے وہ مکھن سے زیادہ نرم ہے (5) اور جو سنت ومستحب چیزیں نماز کو گھیرے ہوئے ہیں اور باطنی زندگی کو سرسبز کرتی ہیں وہ زمرد کے درختوںکی طرح ہیں جو کوثر کے کناروں پر ہیں (6) اور ذکروتسبیحات سونے چاندی کے گلاس ہیں جن سے محبت الٰہی کی شراب گھونٹ گھونٹ ہوکر باطن میں پہنچتی ہے اور روح کو سیراب کرتی ہے اور کوثر میں بھی یہی چھ صفتیں پائی جاتی ہیں (تفسیر عزیزیزی پارہ الم اور عم ، شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی نور ﷲ مرقدہ،چشتی)
پس نماز کی قدر اور محبت روزے سے اور سب عبادتوں سے زیادہ ہونی چاہئے ۔
(8) اور بڑی قدر یہ ہے کہ اس کو نہایت عاجزی کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے کیونکہ جماعت کے بغیر ادا کرنے کو اصول فقہ میں ناقص ادا بتایا ہے ۔
مراۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ جو نماز جماعت کے بغیر پڑھی جائے ، وہ ادا تو ہوجاتی ہے لیکن اس پر ثواب نہیں ملتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی نماز مسجد کی بغیر گویا ہوتی ہی نہیں اور اس سے بڑھ کر کون سی تاکید ہوگی کہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جماعت ترک کرنے والوں کے گھروں میں آگ لگا دینے کی خواہش ظاہر فرمائی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment