حضرت سیّدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا کثرت سے نکاح کرنا خوبی یا عیب
محترم قارئینِ کرام : تاریخی روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضرت سیّدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے کثرت سے نکاح کیے، ہر وقت ان کے نکاح میں چار عورتیں رہتی تھیں ، (بیک وقت چار سے زائد عورتیں نہیں رہیں) اور ۷۰ سے زائد عورتوں سے نکاح کیے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے لوگوں کو فرمایا کرتے تھے کہ اپنی لڑکیوں کا نکاح حسن سے مت کراؤ کیوں کہ وہ کثرت سے طلاق دیتا ہے ، لیکن لوگ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم اگر وہ روزانہ ہمیں پیغامِ نکاح بھیجیں تو ہم ان سے ان کی پسند کے مطابق اپنی لڑکیوں کا نکاح کرتے رہیں گے ، اللہ عزّ و جل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سسرالی رشتہ داری (کی نسبت) کے حصول کے لیے ۔ لہذا ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کثرت سے نکاح کیے تھے ۔
حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سےرشتہ داری سے مشرف فرماتے ، آپ کا یہ کام اس لیئے تھا کہ قیامت کے دن ذریعہ نجات بن جائے۔(فتاویٰ عزیزی صفحہ 596 ، 597 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی،چشتی)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض صحابہ کرام مثل سیّدنا امام حسن مجتبٰی ومغیرہ بن شعبہ وغیرہما رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے جو کثرتِ نکاح وطلاق منقول ہے اسی حالت حاجت شرعیہ پر محمول ہے ، فی ردالمحتار اذا وجدت الحاجۃ المذکورۃ ابیح وعلیہا یحمل ماوقع منہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ومن اصحابہ وغیرہم من الائمۃ صونالھم عن العبث والایذاء بلاسبب (ردالمحتار کتاب الطلاق داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۱۶) ۔ ردالمحتار میں ہے کہ جب حاجت مذکورہ پائی جائے تو طلاق مباح ہے، اور اسی معنٰی پر محمول ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام اور دیگر ائمہ کرام سے متعدد نکاح کے واقعات ہُوئے، تاکہ ان حضرات کی طرف عبث اور ایذاء رسانی کی نسبت نہ ہونے پائے ۔ (ت) ۔ (فتاوی رضویہ12/469)
خلیفہ اعلیٰ ححضرت حضرت صدر الافاضل سیّد محمد نعیم الدین مرآد آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا ۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ نمبر 152) ، لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ روایت کے لئے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیا ہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنااہم ہومگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کا نام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تواب جعدہ کو قاتل ہونے کیلئے معین کرنے والا کون ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یا امامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کو اپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کا کوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے ۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراء ات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو (100) کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں ۔ اکثرایک دو شب ہی کے بعد طلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم باربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے ۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہوجائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دےدیتے تھے ۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدا یانہ گزاردیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ نمبر 151) ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیضِ صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے ۔ (سوانح کربلا صفحہ نمبر 101 ، 102 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ اکثر ایک دو شب کے بعد طلاق دے دینا عیب نہیں تھا اگر عیب ہوتا تو پھر کوئی عورت نکاح قبول نہ کرتی۔(خطبات محرم صفحہ نمبر 255 ، 256 مطبوعہ اکبر بک سیلرز اردو بازار لاہور)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وأخرج ابن سعد عن علي بن الحسين: قال: كان الحسن مطلاقا للنساء ۔
ترجمہ : ابن سعد نے علی بن حسین سے روایت تخریج کی ہے کہ سیدنا حسن (بہت نکاح کرتے تھے پھر) بہت طلاق دیتے تھے ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146)،(تاریخ الخلفاء للسیوطی مترجم صفحہ نمبر 192 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)،(تاریخ الخلفاء للسیوطی مترجم صفحہ نمبر 396 ، 397 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
وأخرج ابن سعد عن جعفر بن محمد عن أبيه، قال : قال علي : يا أهل الكوفة، لا تزوجوا الحسن فإنه رجل مطلاق، فقال رجل من همدان والله لنزوجنه، فما رضي أمسك وما كره طلق ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146)
وأخرج ابن سعد عن عبد الله بن حسن، قال: كان الحسن رجلا كثير نكاح النساء ۔
ترجمہ : ابن سعد نے عبد اللہ بن حسن سے روایت تخریج کی کہ حضرت سیدنا حسن بہت زیادہ نکاح کرتے تھے ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146)
وكان كثير التزوج ، وكان مطلاقا مصداقا ۔ (سبل الھدی 11/69)
وكان رضي الله عنه مطلاقا للنساء وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه وأحصن تسعين امرأة ۔ (صواعق محرقہ2/411)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : كان الحسن بن علي رضي الله عنهمامطلاقا ومنكاحا ۔
ترجمہ : حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بہت طلاق دیتے تھے اور کثرت سے نکاح کرتے تھے ۔ (احیاء العلوم 2/56،چشتی)
الحسن بن علي رضي الله عنهما استكثر من النكاح والطلاق ۔ (مبسوط جلد 6 ص3)
لما روي عن الحسن بن علي أنه كان كثير النكاح كثير الطلاق ۔ (تبیین الحقائق2/189)
وأما ما روي عن الحسن وكان قيل له: في كثرة تزوجه وطلاقه فقال: أحب الغنى، قال الله تعالى {وإن يتفرقا يغن الله كلا من سعته} [النساء: ١٣٠] فهو رأي منه ۔ (مرقاۃ تحت حدیث3280)
حدثني علي بن عمر، عن أبيه، عن علي بن الحسين قال: كان الحسن بن علي مطلاقا للنساء، وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه ۔ (بدایہ نہایہ8/43)
ذكر غير واحد من أهل العلم أن الحسن بن علي رضي الله عنهما كان كثير التزوج ، كثير التطليق . قال ابن كثير : قالوا : وكان كثير التزوج ، وكان لا يفارقه أربع حرائر ، وكان مطلاقا ، مصداقا ، يقال إنه أحصن سبعين امرأة " انتهى من "البداية والنهاية" (8/42)
وذكرا نحوا من هذا الذهبي رحمه الله في "سير أعلام النبلاء" (3 /253) ، وينظر أيضا : "تاريخ دمشق" لابن عساكر (13 /251) ، "تاريخ الإسلام" للذهبي (4 /37) ، "محاضرات الأدباء" ، للراغب الأصفهاني (1 /408) ، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی "سير أعلام النبلاء" (3 /253) اور اسی طرح : "تاريخ دمشق" از: ابن عساکر (13 /251) نیز "تاريخ الإسلام" از ذہبی (4 /37) اور راغب اصفہانی کی "محاضرات الأدباء" (1 /408)
باقی ان روایات سے جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کثرت سے طلاق اور کثرت سے نکاح تو کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے ، پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ تو یہ بات جاننی چاہیے کہ احادیث میں جو کثرت نکاح اور کثرت طلاق کی ممانعت آئی ہے وہ شہوت رانی کے لیے نئے نئے نکاح کرنے اور پرانی عورت کو طلاق دینے پر وارد ہوئی ہے، جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا کثرت سے نکاح کرنا اور حدود شرعیہ کی رعایت کی وجہ سے پچھلی بیوی کو طلاق دینا شہوت رانی کے یے نہیں تھا، بلکہ اس غرض سے تھا کہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان سے ہوجائے اور اس کی دلیل اہلِ کوفہ کا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جواب ہے ، جب انہوں نے لوگوں کو حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے سے منع کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ اگر حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ روزانہ بھی رشتہ بھیجیں گے تو ہم اپنی بچیوں میں سے جس کو وہ چاہیں نکاح میں دیں گے ؛ تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رشتہ داری حاصل ہوجائے ، نیز یہ بات بھی روایات میں بصراحت مذکور ہے کہ حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ ہر خاتون کو اس کے لائقِ مرتبہ احترام کے ساتھ رخصت کرتے اور خوب خوب مہر ادا کرتے تھے ؛ لہذا حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا یہ فعل حدیث کی ممانعت میں نہیں آئے گا ۔
البداية والنهاية (ط: إحياء التراث) میں ہے : قالوا : وكان كثير التزوج، وكان لايفارقه أربع حرائر، وكان مطلاقًا مصداقًا، يقال: إنه أحصن سبعين امرأة، وذكروا أنه طلق امرأتين في يوم، واحدة من بني أسد وأخرى من بني فزارة - فزارية - وبعث إلى كل واحدة منهما بعشرة آلاف وبزقاق من عسل، وقال للغلام: اسمع ما تقول كل واحدة منهما، فأما الفزارية فقالت: جزاه الله خيرًا، ودعت له، وأما الأسدية فقالت: متاع قليل من حبيب مفارق، فرجع الغلام إليه بذلك، فارتجع الأسدية وترك الفزارية. وقد كان علي يقول لأهل الكوفة: لاتزوجوه فإنه مطلاق، فيقولون: والله يا أمير المؤمنين لو خطب إلينا كل يوم لزوجناه منا من شاء ابتغاء في صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم. وذكروا أنه نام مع امرأته خولة بنت منظور الفزاري - وقيل: هند بنت سهيل - فوق إجار فعمدت المرأة فربطت رجله بخمارها إلى خلخالها، فلما استيقظ قال لها: ما هذا؟ فقالت: خشيت أن تقوم من وسن النوم فتسقط فأكون أشأم سخلة على العرب. فأعجبه ذلك منها، واستمر بها سبعة أيام بعد ذلك ۔ (سنة تسع وأربعين ج نمبر ۸ ص نمبر۴۲،دار احیاء التراث)
سير أعلام النبلاء ط الرسالة میں ہے : وكان منكاحًا، مطلاقًا، تزوج نحوًا من سبعين امرأة، وقلما كان يفارقه أربع ضرائر. عن جعفر الصادق: أن عليًّا قال: يا أهل الكوفة! لاتزوجوا الحسن، فإنه مطلاق. فقال رجل: والله لنزوجنه، فما رضي أمسك، وما كره طلق.قال ابن سيرين: تزوج الحسن امرأة، فأرسل إليها بمائة جارية، مع كل جارية ألف درهم ۔ (من صغار الصحابۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۵۳،مؤسسۃ الرسالۃ)
التنوير شرح الجامع الصغير میں ہے : لا تطلقوا النساء إلا من ريبة فإن الله لا يحب الذواقين ولا الذواقات. (طب) عن أبي موسى (ض) "۔ (لا تطلقوا النساء إلا من ريبة) من أمر ترتابون منه فيهن لا، أنكم تفارقوها لتأخذوا غيرها تشهيا وتطعما للنساء (فإن الله لا يحب الذواقين) من الرجال (ولا الذواقات) من النساء التي تطلب من زوجها الفراق لتزوج بغيره وليس الريبة خاصة بتهمة الفاحشة بل لو كرهها ولم يحبها حسن منه فراقها وكذلك إن خاف أن لا يقيم حدود الله فهذا الطلاق لا بأس به وليس هو بالطلاق الذي ورد فيه أنه أبغض الحلال إلى الله بل هذا يتعين عند عدم إقامة حدود الله وهو التسريح بإحسان الذي أمر الله تعالى به والطلاق المبغوض إلى الله هو الطلاق الذي ليس إلا ليذوق غيرها وتذوق غيره وإلا فهي قائمة بحدود الله وهو قائم ۔ (مبدوء بحرف "لا"،ج نمبر ۱۱ ص نمبر ۲۳،مکتبہ دار الاسلام)
حضرت سیّدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے منع نہیں فرمایا تھا ، بلکہ اور لوگوں سے فرمایا تھا کہ میرا یہ لڑکا طلاق دیتا ہے ، لہذا تم لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی اس سے مت کرو اور یہ منع فرمانا بھی امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کی حیثیت سے حکم کے درجے میں نہیں تھا ، بلکہ مشورہ کے درجے میں تھا ، لہذا حضرت سیّدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ پر والد کی نافرمانی اور دوسرے لوگوں پر امیر کی اطاعت نہ کرنے کا اعتراض غلط ہے ۔ طلاق نا پسندیدہ ہے ، لیکن جس مقصد کے لیے یہاں طلاق کا تذکرہ آیا ہے وہ مقصد ایسا وزنی ہے کہ اس کےلیے حضرت سیّدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو اختیار فرمایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment