Tuesday 20 April 2021

فضائل و مسائل روزہ حصّہ اوّل

0 comments

 فضائل و مسائل روزہ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے ، اللہ تعالی نے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پرہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزوں کو فرض کیاہے ۔ جیسا کہ سبل الہدی والرشادمیں ہے : وفی السنۃ الثانیۃ فرض شہر رمضان ۔ (سبل الہدی والرشاد،جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصوم والاعتکاف، الباب السادس فی صومہ صلی اللہ علیہ وسلم التطوع)

اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے : یاایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ (سورۃ البقرہ ۔ 183)

اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ عَزّوَجَلَّ نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایا ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃآیت نمبر 185)
تَرجَمَہ : رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔ اللہ عَزّوَجَلَّ تم پر آسانی چاہتا ہے اورتم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ عَزّوَجَلَّ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔

رَمضان، یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’گرمی سے جلنا ۔‘‘ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کئے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا ۔ (اَلنِّہَایَۃ لِابْنِ الْاَثِیر ۲ص۲۴۰)

حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض مفسرین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینا تھا اُسی سے اُس کا نام ہوا ۔ جو مہینا گرمی میں تھااُسے رَمضان کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادَی الْاُولٰی کہا گیا ۔ (تفسیر نعیمی ج ۲ص۵ ۲۰،چشتی)

حضرتِ سَیّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب ماہِ رَمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے ۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارَک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تَو اللہ عَزّوَجَلَّ اُس کے ہر سجدے کے عوض (یعنی بدلے میں) اُس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اُس کے لئے جنت میں سُرخ یا قوت کا گھر بناتا ہے ۔ پس جو کوئی ماہِ رَمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ، اور اُس کیلئے صبح سے شام تک 70 ہزار فرشتے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ رات اور دِن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اُس کے ہر سجدے کے بدلے اُسے (جنت میں ) ایک ایک ایسا دَرَخت عطا کیا جاتا ہے کہ اُس کے سائے میں (گھوڑے) سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے ۔ (شُعَبُ الایمان ج۳ ص ۳۱۴ حدیث ۳۶۳۵،چشتی)

حضرت سَیِّدُنا جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : {۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عَزّوَجَلَّ نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا {۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے {۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں {۴} اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے : ’’میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن (مُ۔زَ۔یَّن۔یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے‘‘ {۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جاتی ہے ۔ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۰۳حدیث۳۶۰۳)

حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔ (مسلِم ص۱۴۴حدیث۲۳۳)

روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۴،چشتی)

مسئلہ : روزے کے تین درجے ہیں ۔ ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرم گاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا خواص کا روزہ کہ ان کے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ پاؤں اور تمام اعضا کو گناہ سے باز رکھنا ۔ تیسرا خاص الخاص کا کہ جمیع ماسوی ﷲ [یعنی ﷲ عَزَّوَجَل کے سوا کائنات کی ہر چیز] سے اپنے کو بالکلیہ جُدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم ، ص۱۷۵)

مسئلہ : روزے کی پانچ قسمیں ہیں :

(۱) فرض ۔

(۲) واجب ۔

(۳) نفل ۔

(۴) مکروہِ تنزیہی ۔

(۵) مکروہِ تحریمی ۔

فرض و واجب کی دو قسمیں ہیں : معیّن و غیر معیّن ۔ فرض معیّن جیسے ادائے رمضان ۔ فرض غیر معیّن جیسے قضائے رمضان اور روزہ کفارہ۔ واجب معیّن جیسے نذر معیّن ۔ واجب غیر معیّن جیسے نذر مطلق ۔

نفل دو ۲ ہیں : نفل مسنون، نفل مستحب جیسے عاشورا یعنی دسویں محرم کاروزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی اور ہر مہینے میں تیرھویں، چودھویں، پندرھویں اور عرفہ کا روزہ، پیر اور جمعرات کا روزہ، شش عید کے روزے صوم داود عَلَیْہِ السَّلاَم، یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار ۔

مکروہِ تنزیہی جیسے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا۔ نیروز و مہرگان کے دن روزہ۔ صومِ دہر (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا)، صومِ سکوت (یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے)، صومِ وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھے، یہ سب مکروہِ تنزیہی ہیں۔ مکروہِ تحریمی جیسے عید اور ایّام تشریق [یعنی عید الفطر، عید الاضحی اور گیارہ، بارہ، تیرہ ذی الحجہ، ان پانچ دنوں] کے روزے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم، الباب الأول، ج۱، ص۱۹۴)(الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۸۸ ۔ ۳۹۲)

مسئلہ : روزے کے مختلف اسباب ہیں، روزہ رمضان کا سبب ماہِ رمضان کاآنا، روزہ نذر کا سبب منت ماننا، روزہ کفارہ کا سبب قسم توڑنا یا قتل یا ظہار وغیرہ ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم، الباب الأول، ج۱، ص۱۹۴)

مسئلہ : ماہِ رمضان کا روزہ فرض جب ہوگا کہ وہ وقت جس میں روزہ کی ابتدا کر سکے پا لے یعنی صبح صادق سے ضحوہ کبریٰ تک کہ اُس کے بعد روزہ کی نیّت نہیں ہوسکتی، لہٰذا روزہ نہیں ہوسکتا اور رات میں نیّت ہوسکتی ہے مگر روزہ کی محل نہیں، لہٰذا اگر مجنون کو رمضان کی کسی رات میں ہوش آیا اور صبح جنون کی حالت میں ہوئی یا ضحوہ کبریٰ کے بعد کسی دن ہوش آیا تو اُس پر رمضان کے روزے کی قضا نہیں، جبکہ پورا رمضان اسی جنون میں گزر جائے اور ایک دن بھی ایسا وقت مل گیا، جس میں نیّت کر سکتا ہے تو سارے رمضان کی قضا لازم ہے ۔ (الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۸۵ ۔ ۳۸۷)

مسئلہ : رات میں روزہ کی نیّت کی اور صبح غشی کی حالت میں ہوئی اور یہ غشی کئی دن تک رہی تو صرف پہلے دن کا روزہ ہوا باقی دنوں کی قضا رکھے، اگرچہ پورے رمضان بھر غشی رہی اگرچہ نیّت کا وقت نہ ملا ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص ۱۷۵،چشتی)(ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۳۸۸)

مسئلہ : ادائے روزہ رمضان اور نذر معین اور نفل کے روزوں کے لیے نیّت کا وقت غروب آفتاب سے ضحوہ کبریٰ تک ہے، اس وقت میں جب نیّت کر لے، یہ روزے ہو جائیں گے ۔ لہٰذا آفتاب ڈوبنے سے پہلے نیّت کی کہ کل روزہ رکھوں گا پھر بے ہوش ہوگیا اورضحوہ کبریٰ کے بعد ہوش آیا تو یہ روزہ نہ ہوا اور آفتاب ڈوبنے کے بعد نیّت کی تھی تو ہوگیا ۔ (الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۹۳)

مسئلہ : ضحوہ کبریٰ نیّت کا وقت نہیں، بلکہ اس سے پیشتر نیّت ہو جانا ضرور ہے اور اگر خاص اس وقت یعنی جس وقت آفتاب خطِ نصف النہار شرعی پر پہنچ گیا، نیّت کی تو روزہ نہ ہوا ۔ (الدرالمختار''، کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۹۴)

مسئلہ : نیّت کے بارے میں نفل عام ہے ، سنت و مستحب و مکروہ سب کو شامل ہے کہ ان سب کے لیے نیّت کا وہی وقت ہے ۔ (ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۹۳)

مسئلہ : جس طرح اور جگہ بتایا گیا کہ نیّت دل کے ا رادہ کا نام ہے، زبان سے کہنا شرط نہیں۔ یہاں بھی وہی مراد ہے مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے، اگر رات میں نیّت کرے تو یوں کہے : نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ ھٰذَا ۔ ''یعنی میں نے نیّت کی کہ اﷲ عَزَّوَجَل کے لیے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھوں گا۔''

اور اگر دن میں نیّت کرے تو یہ کہے : نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ ھٰذَا الْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ ۔ ''میں نے نیّت کی کہ اﷲ تَعَالیٰ کے لیے آج رمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔''

اور اگر تبرک و طلب توفیق کے لیے نیّت کے الفاظ میں اِنْ شَاءَ اﷲ تَعَالٰی بھی ملا لیا تو حرج نہیں اور اگر پکا ارادہ نہ ہو، مذبذب ہو تو نیّت ہی کہاں ہوئی ۔ (الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۷۵)

مسئلہ : دن میں نیّت کرے تو ضرور ہے کہ یہ نیّت کرے کہ میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں اور اگر یہ نیّت ہے کہ اب سے روزہ دار ہوں، صبح سے نہیں تو روزہ نہ ہوا ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص۱۷۵)(ردالمحتار کتاب الصوم، ج۳، ص ۳۹۴)

مسئلہ : اگرچہ ان تین قسم کے روزوں کی نیّت دن میں بھی ہوسکتی ہے، مگر رات میں نیّت کر لینا مستحب ہے ۔ (الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۷۵)

مسئلہ : یوں نیّت کی کہ کل کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو روزہ ہے یہ نیّت صحیح نہیں، بہرحال وہ روزہ دار نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ... إلخ، ج۱، ص۱۹۵)

مسئلہ : رمضان کے دن میں نہ روزہ کی نیّت ہے نہ یہ کہ روزہ نہیں، اگرچہ معلوم ہے کہ یہ مہینہ رمضان کا ہے تو روزہ نہ ہوا ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ... إلخ، ج۱، ص۱۹۵،چشتی)

مسئلہ : رات میں نیّت کی پھر اس کے بعد رات ہی میں کھایا پیا، تو نیّت جاتی نہ رہی وہی پہلی کافی ہے پھر سے نیّت کرنا ضرور نہیں ۔ (الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۷۵)

مسئلہ : عورت حیض و نفاس والی تھی، اُس نے رات میں کل روزہ رکھنے کی نیّت کی اور صبح صادق سے پہلے حیض و نفاس سے پاک ہوگئی تو روزہ صحیح ہوگیا ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص۱۷۵)

مسئلہ : دن میں وہ نیّت کام کی ہے کہ صبح صادق سے نیّت کرتے وقت تک روزہ کے خلاف کوئی امر نہ پایا گیا ہو، لہٰذا اگر صبح صادق کے بعد بھول کر بھی کھا پی لیا ہو یا جماع کر لیا تو اب نیّت نہیں ہوسکتی ۔ (الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۷۶) ، مگر معتمد یہ ہے کہ بھولنے کی حالت میں اب بھی نیّت صحیح ہے ۔ (ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، ج۳، ص۴۱۹)

مسئلہ : جس طرح نماز میں کلام کی نیّت کی، مگر بات نہ کی تو نماز فا سد نہ ہوگی۔ یوہیں روزہ میں توڑنے کی نیّت سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جب تک توڑنے والی چیز نہ کرے ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص۱۷۵)

مسئلہ : اگر رات میں روزہ کی نیّت کی پھر پکّا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیّت جاتی رہی۔ اگر نئی نیّت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا رہا اورجماع سے بچا تو روزہ نہ ہوا ۔ (الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۸)

مسئلہ : سحری کھانا بھی نیّت ہے، خواہ رمضان کے روزے کے لیے ہو یا کسی اور روزہ کے لیے، مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ ہوگا تو یہ سحری کھانا نیّت نہیں ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص۱۷۶)

مسئلہ : رمضان کے ہر روزہ کے لیے نئی نیّت کی ضرورت ہے۔ پہلی یا کسی تاریخ میں پورے رمضان کے روزہ کی نیّت کر لی تو یہ نیّت صرف اُسی ایک دن کے حق میں ہے، باقی دنوں کے لیے نہیں ۔ (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الصوم، ص۱۷۶)

مسئلہ : یہ تینوں یعنی رمضان کی ادا اور نفل و نذر معین مطلقاً روزہ کی نیّت سے ہو جاتے ہیں، خاص انھیں کی نیّت ضروری نہیں۔ یوہیں نفل کی نیّت سے بھی ادا ہو جاتے ہیں، بلکہ غیر مریض و مسافر نے رمضان میں کسی اور واجب کی نیّت کی جب بھی اسی رمضان کا ہوگا ۔ (الدرالمختار کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۳،چشتی)

مسئلہ : مسافر اور مریض اگر رمضان شریف میں نفل یا کسی دوسرے واجب کی نیّت کریں تو جس کی نیّت کریں گے، وہی ہوگا رمضان کا نہیں ۔ (تنویر الأبصار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۵) ، اور مطلق روزے کی نیّت کریں تو رمضان کا ہوگا ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۵ ۔ ۱۹۶)

مسئلہ : نذر معین یعنی فلاں دن روزہ رکھوں گا، اس میں اگر اُس دن کسی اورواجب کی نیّت سے روزہ رکھا تو جس کی نیّت سے روزہ رکھا، وہ ہوا منت کی قضا دے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۵ ۔ ۱۹۶)

مسئلہ : رمضان کے مہینے میں کوئی اور روزہ رکھا اور اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ ماہِ رمضان ہے، جب بھی رمضان ہی کا روزہ ہوا ۔ (الدرالمختار)

مسئلہ : کوئی مسلمان دارالحرب میں قید تھا اور ہر سال یہ سوچ کر کہ رمضان کا مہینہ آگیا، رمضان کے روزے رکھے بعد کو معلوم ہوا کہ کسی سال بھی رمضان میں نہ ہوئے بلکہ ہر سال رمضان سے پیشتر ہوئے تو پہلے سال کا تو ہوا ہی نہیں کہ رمضان سے پیشتر رمضان کا روزہ ہو نہیں سکتا اور دوسرے تیسرے سال کی نسبت یہ ہے کہ اگر مطلق رمضان کی نیّت کی تھی تو ہر سال کے روزے سال گزشتہ کے روزوں کی قضا ہیں اور اگر اس سال کے رمضان کی نیّت سے رکھے توکسی سال کے نہ ہوئے ۔ (ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۷)

مسئلہ : اگر صورت مذکورہ میں تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور روزہ رکھا، مگر واقع میں روزے شوال کے مہینے میں ہوئے تو اگر رات سے نیت کی تو ہوگئے ، کیونکہ قضا میں قضا کی نیت شرط نہیں، بلکہ ادا کی نیت سے بھی قضا ہو جاتی ہے پھر اگر رمضان و شوال دونوں تیس ۳۰ تیس ۳۰ دن یا انتیس ۲۹ انتیس ۲۹ دن کے ہیں تو ایک روزہ اور رکھے کہ عید کا روزہ ممنوع ہے اور اگر رمضان تیس ۳۰ کا اور شوال انتیس ۲۹ کا تو دو اور رکھے اور رمضان انتیس ۲۹ کا تھا اور یہ تیس ۳۰ کا تو پورے ہوگئے اور اگر وہ مہینہ ذی الحجہ کا تھا تو اگر دونوں تیس ۳۰ یا انتیس ۲۹ کے ہیں تو چار روزے اور رکھے اور رمضان تیس کا تھا یہ انتیس کا تو پانچ اور بالعکس تو تین رکھے ۔ غرض ممنوع روزے نکال کر وہ تعداد پوری کرنی ہوگی جتنے رمضان کے دن تھے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۶،چشتی)

مسئلہ : ادائے رمضان اور نذر معیّن اور نفل کے علاوہ باقی روزے ، مثلاً قضائے رمضان اور نذر غیر معیّن اور نفل کی قضا (یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا) اور نذر معیّن کی قضا اور کفّارہ کا روزہ اور حرم میں شکار کرنے کی وجہ سے جو روزہ واجب ہوا وہ اور حج میں وقت سے پہلے سر منڈانے کا روزہ اور تمتع کا روزہ، ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیّت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے، خاص اس معیّن کی نیّت کرے اور اُن روزوں کی نیّت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے پھر بھی ان کا پورا کرنا ضرور ہے توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ اگرچہ یہ اس کے علم میں ہو کہ جو روزہ رکھنا چاہتا ہے یہ وہ نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوگا ۔ (الدرالمختار کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۳)

مسئلہ : یہ گمان کر کے کہ اس کے ذمّہ روزے کی قضا ہے روزہ رکھا۔ اب معلوم ہوا کہ گمان غلط تھا تو اگر فوراً توڑ دے تو توڑ سکتا ہے، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ پورا کرلے اور فوراً نہ توڑا تو اب نہیں توڑ سکتا، توڑے گا تو قضا واجب ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الصوم، ج۳ ص۳۹۹)

مسئلہ : رات میں قضا روزے کی نیّت کی، صبح کو اُسے نفل کرنا چاہتا ہے تو نہیں کر سکتا ۔ (ردالمحتار کتاب الصوم، ج۳ ص۳۹۹)

مسئلہ : نماز پڑھتے میں روزہ کی نیّت کی تو نیّت صحیح ہے ۔ (الدرالمختار کتاب الصوم، ج۳، ص۳۹۸)

مسئلہ : کئی روزے قضا ہوگئے تو نیّت میں یہ ہونا چاہیے کہ اس رمضان کے پہلے روزے کی قضا، دوسرے کی قضا اور اگر کچھ اس سال کے قضا ہوگئے، کچھ اگلے سال کے باقی ہیں تو یہ نیّت ہونی چاہیے کہ اس رمضان کی اور اُس رمضان کی قضا اور اگر دن اور سال کو معیّن نہ کیا، جب بھی ہو جائیں گے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۶)

مسئلہ : رمضان کا روزہ قصداً توڑا تھا تو اس پر اس روزے کی قضا ہے اور [اگر کفّارے کی شرائط پائی گئیں تو] ساٹھ روزے کفارہ کے۔ اب اُس نے اکسٹھ روزے رکھ لیے، قضا کا دن معیّن نہ کیا تو ہوگیا ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول، ج۱، ص۱۹۶)

مسئلہ : یوم الشّک یعنی شعبان کی تیسویں تاریخ کو نفل خالص کی نیّت سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور نفل کے سوا کوئی اور روزہ رکھا تو مکروہ ہے، خواہ مطلق روزہ کی نیّت ہو یا فرض کی یا کسی واجب کی، خواہ نیّت معیّن کی کِی ہو یا تردد کے ساتھ یہ سب صورتیں مکروہ ہیں۔ پھر اگر رمضان کی نیّت ہے تو مکروہ تحریمی ہے، ورنہ مقیم کے لیے تنزیہی اور مسافر نے اگر کسی واجب کی نیّت کی تو کراہت نہیں پھر اگر اس دن کا رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو مقیم کے لیے بہرحال رمضان کا روزہ ہے اور اگر یہ ظاہر ہو کہ وہ شعبان کا دن تھا اور نیّت کسی واجب کی کی تھی تو جس واجب کی نیّت تھی وہ ہوا اور اگر کچھ حال نہ کُھلا تو واجب کی نیّت بے کار گئی اور مسافر نے جس کی نیّت کی بہرصورت وہی ہوا ۔ (الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، مبحث في صوم یوم الشک، ج۳، ص۳۹۹،چشتی)

مسئلہ : اگر تیسویں تاریخ ایسے دن ہوئی کہ اس دن روزہ رکھنے کا عادی تھا تو اُسے روزہ رکھناافضل ہے، مثلاً کوئی شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھا کرتا ہے اور تیسویں اسی دن پڑی تو رکھنا افضل ہے۔ یوہیں اگر چند روز پہلے سے رکھ رہا تھا تو اب یوم الشّک میں کراہت نہیں۔ کراہت اُسی صورت میں ہے کہ رمضان سے ایک ۱ یا دو ۲ دن پہلے روزہ رکھا جائے یعنی صرف تیس ۳۰ شعبان کو یا انتیس ۲۹ اور تیس ۳۰ کو ۔ (الدرالمختار کتاب الصوم، ج۳، ص۴۰۰)

مسئلہ : اگر نہ تو اس دن روزہ رکھنے کا عادی تھا نہ کئی روز پہلے سے روزے رکھے تو اب خاص لوگ روزہ رکھیں اور عوام نہ رکھیں، بلکہ عوام کے لیے یہ حکم ہے کہ ضحوہ کبریٰ تک روزہ کے مثل رہیں، اگر اس وقت تک چاند کا ثبوت ہو جائے تو رمضان کے روزے کی نیّت کر لیں ورنہ کھا پی لیں۔ خواص سے مراد یہاں علما ہی نہیں، بلکہ جو شخص یہ جانتا ہو کہ یوم الشّک میں اس طرح روزہ رکھا جاتا ہے، وہ خواص میں ہے ورنہ عوام میں ۔ (الدرالمختار کتاب الصوم، ج۳، ص۴۰۲)

مسئلہ : یوم الشّک کے روزہ میں یہ پکا ارادہ کر لے کہ یہ روزہ نفل ہے تردد نہ رہے، یوں نہ ہو کہ اگر رمضان ہے تو یہ روزہ رمضان کا ہے، ورنہ نفل کا یا یوں کہ اگر آج رمضان کا دن ہے تو یہ روزہ رمضان کا ہے، ورنہ کسی اورواجب کا کہ یہ دونوں صورتیں مکروہ ہیں۔ پھر اگر اس دن کا رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو فرض رمضان ادا ہوگا۔ ورنہ دونوں صورتوں میں نفل ہے اور گنہگار بہرحال ہوا اور یوں بھی نیّت نہ کرے کہ یہ دن رمضان کا ہے تو روزہ ہے، ورنہ روزہ نہیں کہ اس صورت میں تو نہ نیّت ہی ہوئی، نہ روزہ ہوا اور اگرنفل کا پورا ارادہ ہے مگر کبھی کبھی دل میں یہ خیال گزر جاتا ہے کہ شاید آج رمضان کا دن ہو تو اس میں حرج نہیں۔ (عالمگیری ، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ : عوام کو جو یہ حکم دیا گیا کہ ضحوہ کبریٰ تک انتظار کریں ، جس نے اس پر عمل کیا مگر بھول کر کھا لیا پھر اُس دن کا رمضان ہونا ظاہر ہوا تو روزہ کی نیت کر لے ہو جائے گا کہ انتظار کرنے والا روزہ دار کے حکم میں ہے اور بھول کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۶۶تا ۹۷۳)

مزید مسائل حصّہ دوم میں ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔