Sunday 11 April 2021

نمازِ وترکی تین رکعات ہیں

0 comments

 نمازِ وترکی تین رکعات ہیں

محترم قارئینِ کرام : غیرمقلد وہابی حضرات اپنی ذمے لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق ہر اسلامی مسلے پر امتِ مسلمہ سے الگ تھلگ راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نمازِ وتر بھی ہے جس کے متعلق یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ نمازِ وتر ایک رکعت ہے آیئے دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہیں ایک یا تین جب آپ مکمل دلائل پڑھ لیں تو سوچیئے گا ضرور آخر غیر مقلد وہابی حضرات کا کیا بنے گا اور یہ کس کے مشن پر ہیں :

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وترکی تین رکعت ادا فرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی مترجم جلد اوّل کتاب قیام اللیل وتطوع النھار باب کیف الوتر بثلاث صفحہ نمبر 613 مطبوعہ ضیاء القرآن)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے دو رکعت پر نہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے (بخاری ، کتاب التہجد، جلد اول، حدیث 1077، ص 472، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا، حدیث 1620، ص 573، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین رکعت وتر ادا کئے ۔ (مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا، حدیث 1696، ص 597، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی، جلد اول، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702، ص 540، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم تین رکعت و تر پڑھتے تھے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)(زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے ۔ (طحاوی شریف)

سیدنا عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے ۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد ۔ (سنن نسائی ، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا ۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو ﷲ احد پڑھتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۔
ترجمہ : دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ (سنن دار قطنی ، 2 : 27)

نام وَر تابعی اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ ۔
ترجمہ : رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی ۔ اِس کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ (صحيح بخاری ، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948،چشتی)

مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہو رہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے ۔

غیر مقلدین کے دلائل

پہلی حدیث : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)
دوسری حدیث : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے ۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے ۔ (نسائی شریف)
تیسری حدیث : حضرت نافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے ۔

غیر مقلدین کے دلائل کا جواب

پہلی حدیث کا جواب : اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے ۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملا کر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی ، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے ، اس کے ساتھ ایک ملالو ۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے ۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے ۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے ۔ لہٰذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے ۔

دوسری حدیث کا جواب : احناف کے دلائل میں تیسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی ۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے ۔

تیسری حدیث کا جواب : حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو ۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں ۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہورہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے ۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم کٹی (یعنی صرف ایک رکعت نماز) پڑھنے سے منع فر مایا

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے ۔ (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ ج،۲، ص،۱۲۰)(حافظ ابن حجر نے درایہ ج۱،ص۱۱۴،چشتی)(علامہ عینی نے عمدہ القاری ج۴،ص،۴، پر بیان کیا ہے)

حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم کٹی (ایک رکعت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ (نیل الاوطارمصنفہ قاضی محمد بن علی شوکانی)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنا یا ، ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعات سے ملی ہوئی تھی ۔ کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔ اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعات ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘ تمام مسلمانو کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج،۲،ص،۲۹۴ ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔