تین رمضان المبارک یومِ وِصال حضرت سیّدہ بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمّْ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطنِ پاک سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پاک بیٹیاں ہیں ۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہْ الکریم نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر 95 میں وضاحت فرمائی ہے : یْٰاَیُّھَا النَّبِیّْ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاْءِ الْمُوْمِنِیْنَ ۔
ترجمہ :اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں ۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اپنی صرف ایک بیٹی پاک ہوتی تو اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہْ الکریم قرآنِ مجید میں اُس کا ذکر خیر بیٹیاں فرما کر نہ کرتا ۔ ربِّ ذوالجلال والاکرام کے فرمان سے یہ بات واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اپنی ہی چار بیٹیاں ہیں جن کے نام ترتیب وار اِس طرح ہیں (1) حضرت سیّدہ زینب (1) حضرت سیّدہ رقیہ (3) حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم اور (4) حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ۔
قرآنِ مجید کے اِرشادِ عظیم کے مطابق اَیسی لڑکی جو بیوہ عورت کے پہلے شوہر سے ہواور وہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے تو بیوہ عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی بیٹی نہیں کہلاتی بلکہ ”ربیبہ“ کہلاتی ہے ۔ وَرَبَاْئِبْکْمْ الّٰتِیْ فِیْ حْجْوْرِکْمْ مِّنْ نِّسَاْءِ کْمْ الّٰتِیْ دَخَلْتْمْ بِھِنَّ ۔ (النساء:۳۲) ، اور اُن کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیویوں سے جن سے تم صحبت کر چکے ہو ۔
حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پاک بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی شہزادی ہیں ۔
آپ کا اِسم مبارک ”فاطمہ“ ہے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ آپ کا لقب بتول اور زہرا ہے ۔ بتول کا معنی ہے منقطع ہونا‘ کٹ جانا چونکہ آپ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے اَلگ تھیں۔ لہٰذا بتول لقب ہوا۔ زہرا بمعنی کلی ‘آپ جنت کی کلی تھیں ۔
آپ کے جسم پاک سے جنت کی خوشبو آتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سونگھا کرتے تھے۔ اِس لئے آپ کا لقب زہرا ہوا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ مختلف روایات کے مطابق آپ اِعلانِ نبوت سے ایک سال یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں ۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : فاطمه بضعة منی، فمن اغضبها اغضبنی ۔
ترجمہ : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (بخاری، الصحيح، 3: 1361، رقم: 3510)،(مشکوٰة حدیث نمبر ۹۳۱۶‘ بخاری حدیث نمبر ۷۶۷۳‘)
آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے چھوٹی بیٹی، حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اور مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی فاطمہ ہے۔ کنیت بنت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور القاب بتول، زہرا اور سیدہ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے ۔ (ديلمی، الفردوس بما ثور الخطاب، رقم: 1385،چشتی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود بیان کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سوا کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا ۔ (مجمع الزوائد، 9: 201)
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کو خوش آمدید کہتے اور کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھالیتے ۔ (حاکم، المستدرک، 3: 167، رقم: 4732)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں ۔ (ابوداؤد، السنن، 4: 87، رقم: 4213،چشتی)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عورتوںمیں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے تھی اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 5: 698، رقم: 3868)
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیاری بیٹی کی سیرت پر ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وصال مبارک کے بعد آپ اکثر بیمار رہنے لگ گئیں اور بالآخر 3 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی سے ملیں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور رات کو جنت البقیع میں دفن کی گئیں ۔ (رياض النضره فی مناقب العشره مبشره، ج1، ص152)
حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔
حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی شادی امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ حضرت سیّدنا محسن اور حضرت سیّدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بچپن میں اِنتقال کر گئے ۔ آپ کی اَولادِ پاک میں سے سوائے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے کسی کی نسل پاک جاری نہیں ہوئی ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بڑے پاکیزہ اوصاف کی حامل تھیں ، ہر وقت عبادت الٰہی میں ڈوبی رہتی تھیں ، دنیا کی خواہشات سے آپ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا،انہیں اعلی صفات کی بنیاد پر آپ متعدد القاب سے جانی جاتی تھیں جن میں سے ایک ”بتول” ہے علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ آپ کا لقب “بتول” اس لئے تھا کہ آپ دینداری اور شرافت و پاکیزگی میں تمام عورتوں سے ممتاز اور یگانہ تھیں ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کا دور اسلام کا ابتدائی دور تھا۔یہ وقت بڑا کٹھن اور دشوار تر ین تھا،اس وقت مکہ کے کفاروں کا مسلمانوں پر ظلم وستم اور تعصب پورے زور پر تھا۔قریش نے بنی ہاشم پر عر صہ حیات تنگ کر رکھا تھا،اس دوران بنی ہاشم تقریبا تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور بھی رہے اور نہایت تنگ دستی کی زندگی گزاری۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے بچپنے میں اپنے عظیم والد حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک اور پیاس کی تمام تکلیفوں کو برداشت کیں۔آپ کی مادرِ عظیم ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی رحلت کا صدمہ بھی آپ کے لئے بڑا جان گداز تھا ،جسے آپ نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیم وتر بیت اور درس ونصیحت کی وجہ سے آپ بچپنے ہی سے ملکوتی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہو گئی تھیں۔آپ کو عام لڑ کیوں کی طرح کھیل کودکا بالکل شوق نہ تھا،آپ نے کبھی ضد نہ کیا،آپ کو زیورات پہننے کی خواہش تھی نہ بناؤسنگھار کی کوئی فکرنہ زرق برق لباس پہننے کی کوئی آرزو ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپنے ہی سے پاک باز تھیں ،فہم وتدبر،مہمان نوازی،شرم وحیا،صبر وتوکل،زہد وقناعت اور تواضع وخاکساری آپ کا شعار تھا۔
جب آپ سن بلوغ کو پہنچیں تو بڑے بڑے سرداران عرب نے نکاح کا پیغام بھیجا مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انکار کر دیا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیا اس وقت ان کے پاس رہنے کو اپنا گھر بھی نہیں تھا۔مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتخاب کو خوشدلی کے ساتھ قبول فر مایا۔اور پوری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ بغیر کسی گلہ شکوہ کے گزاردیں۔گھر کے تما م کاج کام آپ خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں،گھر صاف کرتیں،چکی پیستیں،مشکیزہ میں بھر کے پانی لاتیں ،چکی پیسنے کی وجہ سے آپ کی ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے ۔
ایک دن حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ اونٹ کے بالوں کا ایک موٹا کپڑا پہنے ہوئی ہیں ۔تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا:اے فاطمہ !آج اس دنیا کی پر یشانی اور تکلیف پر صبر کرتی رہ تا کہ آخرت میں تمہیں جنت کی نعمتیں ملے ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہنا اور اپنے رب کریم کے احکام وفر مانبرداری میں زندگی گزارنا بڑا پسند تھا۔آپ نے کبھی اپنا چہرہ غیر محرم مردوں کے سامنے نہیں کھولا ،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ:عورت کی سب سے بہترین خوبی کیا ہے؟ کسی سے اس کا جواب نہ بن پڑاتو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے اور یہی سوال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو آپ نے فر مایا کہ: عورت کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ کوئی غیر اس کو دیکھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ جواب لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور حضرت فاطمہ کا جواب بیان کیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا : فاطمہ میری لخت جگر ہے اس کی رائے میری رائے ہے ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی زندگی کے تمام ادوار میں بے مثال نظر آتی ہیں۔آپ اپنے والدین کے لئے ایک بے مثال اور قابل فخر بیٹی تھیں ۔ اپنے شوہر کے لئے ایک بے مثال شریک حیات اور مونس وغمخوار تھیں۔آپ نے ماں ہونے کی حیثیت سے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی ایسی تربیت فر مائی کہ انہوں نے اللہ کے دین کو بچانے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا یہاں تک کہ انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ اپنی جان بھی قر بان کردی اور اس وقت جب کہ آپ کی نگاہوں کے سامنے عزیز واقارب کی بہترّ نعشیں پڑی تھیں اور خود اپنا جسم تلواروں ، بھالوں ، نیزوں اور تیروں کےزخموں سے لہو لہان تھا سجدہ قضا نہ ہونے دیا۔اور اپنی صاحبزادی حضرت زینب اور ام کلثوم کو اللہ و رسول کے احکام کا ایسا پابند بنایا تھا کہ انہوں نے کر ب وبلا کی سر زمین پر اپنے بھائی ،بھتیجوں اور بھانجوں کے تڑپتے لاشے کو دیکھ کر بھی اپنے سر سے دوپٹے کو ہٹنے نہیں دیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والدین علی اور فاطمہ ان دونوں سے بھی بہتر ہیں ۔ ( ابن ماجہ،حدیث:۱۱۸،چشی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں ۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام ﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322،چشتی)
حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم میں سے غیر حاضر نہ تھی، اِتنے میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی ﷲ عنھا وہاں تشریف لے آئیں ، تو ﷲ کی قسم اُن کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے سے ذَرّہ بھر مختلف نہ تھا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين الناس ومن لم بسر صاحبه فإذا مات أخبر به، 5 / 2317، الرقم : 5928، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 263، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الطيالسي في المسند : 196، الرقم : 1373، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 101، 102، الرقم : 188،چشتی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اَزواج جمع تھیں اور کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھی ۔ اتنے میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنھا آئیں جن کی چال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے کے مشابہ تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مرحبا (خوش آمدید) میری بیٹی ! پھر اُنہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا ۔ اسے امام مسلم، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، 1906، الرقم : 2450، و ابن ماجة في السنن، کتاب : ماجاء في الجنائز، باب : ماجاء في ذکر مرض رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 518، الرقم؛ 1620، و النسائي في السنن الکبري، 4 / 251، الرقم : 7078، 5 / 96، 146، الرقم : 8368، 8516، 8517، و في فضائل الصحابة، 77، الرقم : 263، و في کتاب الوفاة، 1 / 20، الرقم : 2،چشتی)
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام ﷲ علیہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اَطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 700، الرقم : 3872، و أبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في القيام، 4 / 355، الرقم : 5217، و النسائي في فضائل الصحابة : 78، الرقم : 264، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البيهقي في السنن الکبري، 5 / 96، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 248، و إبن جوزي في صفة الصفوة، 2 / 6، 7،چشتی)
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی ﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے ’’ الادب المفرد‘‘ میں اور امام نسائی و ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 326، 377، الرقم : 947، 971، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، الرقم : 9236، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 3 / 167، 174، الرقم : 4732، 4753، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 40890، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 101، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8، الرقم : 6،چشتی)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب آیت : ’’جب ﷲ کی مدد اور فتح آ پہنچے ۔ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو بلایا اور فرمایا : میری وفات کی خبر آ گئی ہے، وہ رو پڑیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، بے شک تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو وہ ہنس پڑیں ، اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج نے بھی دیکھا ۔ انہوں نے کہا : فاطمہ! (کیا ماجرا ہے)، ہم نے آپ کو پہلے روتے اور پھر ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا : میری وفات کا وقت آ پہنچا ہے ۔ (اس پر) میں رو پڑی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، تم میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھے ملو گی، تو میں ہنس پڑی ۔ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 51، الرقم : 79، و ابن کثير في تفسير قرآن العظيم، 4،چشتی)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة اللَّهُمَّ، إِنِّي أُعِيْذُهَابِکَ وَ ذُرِّيَتَهَا مِنَ الْشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے لئے خصوصی دعا فرمائی : اے ﷲ! میں (اپنی) اس (بیٹی) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ابن حبان، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 394، 395، الرقم : 6944، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 409، الرقم : 1021، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الهيثمي في موارد الظمآن، 550، 551، الرقم : 2225، و ابن الجوزي في تذکرة الخواص، 1 / 277، و المحب الطبري في ذخائر العقبي، 1 / 67،چشتی)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : لَمْ يَکُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَ فَاطِمَة سلام ﷲ عليهم. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علی اور حضرت فاطمہ الزہراء (رضی اللہ عنھم) سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 164،چشتی)
حضرت امّ سلمی رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام ﷲ علیھا اپنی مرض موت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی ۔ بیماری کے اس پورے عرصہ کے دوران جہاںتک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے ۔ سیدۂ کائنات نے کہا : اے اماں ! میرے غسل کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی ۔ آپ نے جہاں تک میں نے دیکھا بہترین غسل کیا۔ پھر بولیں : اماں جی! مجھے نیا لباس دیں ۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں ۔ ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے کر لیا پھر فرمایا : اماں جی : اب میری وفات ہو جائے گی، میں (غسل کر کے) پاک ہو چکی ہوں ، لہٰذا مجھے کوئی نہ کھولے پس اُسی جگہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ حضرت اُمّ سلمی بیان کرتی ہیں کہ پھر حضرت علی کرم ﷲ وجہہ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتائی ۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 461، الرقم : 27656. 27657، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 113، والزيلعي في نصب الراية، 2 / 250، والطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 / 103، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 210، وابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 221،چشتی)
عَنْ جَابِرٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ بَنِي أُمٍّ عُصْبَةٌ يَنْتِمُوْنَ إِلَيْهِمْ إِلَّا ابْنَي فَاطِمَة، فَأَنَا وَلِيُهُمَا وَ عُصْبَتُهُمَا.رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد کا عصبہ (باپ) ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے ، سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، کہ میں ہی اُن کا ولی اور میں ہی اُن کا نسب ہوں ۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف بحب اَقرباء الرسول صلي الله عليه وآله وسلم و ذَوِي الشرف، 1 / 130،چشتی)
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي ﷲ عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : کُلُّ نَسَبٍ وَ سَبَبٍ يَنْقَطِعُ يَوْمَ الْقِيَامَة إِلَّا مَا کَانَ مِنْ سَبَبِي وَ نَسَبِي . رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ .
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے نسب اور رشتہ کے سوا قیامت کے دن ہر نسب اور رشتہ منقطع ہو جائے گا ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم، احمد اور بزار نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 625، 626، 758، الرقم : 1069، 1070، 1333، و البزار في المسند، 1 / 397، الرقم : 274، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، 45، الرقم : 2633، 2634، و في المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، 6 / 357، الرقم : 6609،چشتی)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں ۔ اسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب في تاريخ بغداد، 4 / 401،چشتی)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ فَاطِمَة حَصَّنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَهَا ﷲُ وَ ذُرِّيَتَهَا عَلَي النَّارِ.رَوَاهُ الطَّبَرانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت و پاک دامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اور اُس کی اولاد کو آگ پر حرام فرما دیا ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 407، الرقم : 1018، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 115، 116،چشتی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضي ﷲ عنهما، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة رضي ﷲ عنها : إِنَّ ﷲَ عزوجل غَيْرُ مُعَذِّبِکِ وَلَا وُلْدِکِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 263، الرقم : 11685، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 202، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 117،چشتی)
عَنْ عَائِشَة رضي ﷲ عنها قَالَتْ : مَا رَأيْتُ أفْضَلَ مِنْ فَاطِمَة رضي ﷲ عنها غَيْرَ أبِيْهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے افضل اُن کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص نہیں پایا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 137 الرقم : 2721، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 201، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 277، الرقم : 24،چشتی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة رضي ﷲ عنها : أَنْتِ أَوَّلُ أَهْلِي لَحُوْقًا بِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَأَبُونُعَيْمٍ .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنھا سے فرمایا : میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تو مجھ سے ملے گی ۔ اس حدیث کو امام احمد نے ’’فضائل الصحابہ‘‘ میں امام ابونعیم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في فصائل الصحابة، 2 / 764، الرقم : 1345، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 40،چشتی)
عَنْ عَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَة رضي ﷲ عنها : مَا رَأيْتُ أحَدًا قَطُّ أصْدَقُ مِنْ فَاطِمَة غَيْرَ أبِيْهَا . رَوَاهُ أبُونُعَيْمٍ .
ترجمہ : حضرت عمرو بن دینار رحمۃ ﷲ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میں نے فاطمہ سے زیادہ سچا کائنات میں کوئی نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے ۔ (حلية الأولياء، 2 / 41، 42،چشتی)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا سُمِّيَتْ بِنْتِي فَاطِمَة لِأنَّ ﷲَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ .
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے جدا کر دیا ہے ۔ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الهندي في ’کنز العمال، 12 / 109، الرقم : 34227، و السخاوي في ’اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 96،چشتی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أنَا مِيْزَانُ الْعِلْمِ ، وَ عَلِيٌّ کَفَتَاهُ، وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ خُيُوْطُهُ ، وَ فَاطِمَة عَلَاقَتُهُ وَ الْأئِمَّة مِنْ بَعْدِي عُمُوْدُهُ يُوْزَنُ بِهِ أعْمَالُ الْمُحِبِّيْنَ لَنَا وَ الْمُبْغِضِيْنَ لَنَا .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا ترازو ہوں ، علی اس کا پلڑا ہے ، حسن اور حسین اُس کی رسیاں ہیں ، فاطمہ اُس کا دستہ ہے اور میرے بعد اَئمہ اَطہار (اُس ترازو کی) عمودی سلاخ ہیں،جس کے ذریعے ہمارے ساتھ محبت کرنے والوں اور بغض رکھنے والوں کے اَعمال تولے جائیں گے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 44، الرقم : 107، و العجلوني في ’کشف الخفاء، 1 / 236،چشتی)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:میری بیٹی فاطمہ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ ( ترمذی،حدیث:۳۷۸۱ ) ۔ تین (3) رمضان المبارک سن 11 ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ ( ماخذ : کتب احادیث ، کتب تفاسیر ، فضائل سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، البتول ، خاتون جنت وغیرہ )
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک روز صبح کے وقت باہر تشریف لے گئے ۔ آپ کے اوپر سیاہ اُون سے بُنی ہوئی چادر تھی ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے توآپ نے اُنہیں اس چادر میں داخل کرلیا ۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تواُنہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا ، پھرحضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کرلیا ، پھر حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے توآپ نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا ۔ پھرفرمایا ،''بے شک ﷲ یہ چاہتا ہے کہ اے گھر والو! کہ تم سے گندگی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے ۔ (صحیح مسلم، مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم،چشتی)
حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْس۔۔۔۔۔۔الخ ۔ حضرت امِ سلمہ رضی ﷲ عنہا کے کاشانہ اقدس میں نازل ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلا کر چادر اوڑھائی پھر دعا مانگی، اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں، ان سے گندگی دور رکھ اور انہیں خوب پاک وصاف بنا دے۔ حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا ، تم اپنی جگہ پر ہو اور تم خیر کی جانب ہو ۔ (ترمذی ابواب المناقب،چشتی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اور حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے ، اے اہلِ بیت! نماز قائم کرو ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْس۔۔۔۔۔۔الخ ۔ بے شک ﷲ یہ چاہتا ہے کہ اے گھر والو ! کہ تم سے گندگی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے ۔ (مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم،چشتی)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ، فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ ۔۔۔۔۔۔ الخ۔'' فرما دو ، آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو''۔ تو رسول کریم انے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا، اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (صحیح مسلم)
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادات واطوار اور نشست وبرخاست میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ (المستدرک، فضائل الصحابۃ للنسائی،چشتی)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے مل کر سفر پر روانہ ہوتے اور جب سفر سے تشریف لاتے تو بھی سب سے پہلے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے پاس آتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے فرماتے ، میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں ۔ (المستدرک للحاکم،صحیح ابن حبان،چشتی)
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (بخاری،مسلم)
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی ضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کے لیئے نکاح کا پیغام دیا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، بیشک فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے اور مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اُسے کوئی تکلیف پہنچے ۔ خدا کی قسم ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔ (بخاری، مسلم،چشتی)
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کر دیں ۔ میں اُن کو اجازت نہیں دیتا ، میں ان کو اجازت نہیں دیتا ، پھر میں ان کو اجازت نہیں دیتا ۔ ہاں اگر ابنِ ابی طالب چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دیدے اورپھر اُن کی بیٹی سے شادی کر لے ۔ کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے ۔ جو چیز اُسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اورجو چیز اُسے تکلیف دیتی ہے وہ مجھے تکلیف دیتی ہے ۔ (مسلم، ترمذی، ابوداؤد،چشتی)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اسے تکلیف دینے والامجھے تکلیف دیتا ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے ۔ (مسند احمد،المستدرک)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہرضی ﷲ عنہا سے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے ۔ (المستدرک،طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں ۔ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہرضی ﷲ عنہا کے لیے ان کی شادی کے موقع پر خاص دعا فرمائی، اے اللہ ! میں اپنی اس بیٹی کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔(صحیح ابن حبان، طبرانی فی الکبیر)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شادی کی ر ات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُن پر پانی چھڑکا اور فرمایا ، اے اللہ ! ان دونوں کے حق میں برکت دے اور ان دونوں پر برکت نازل فرما اور ان دونوں کے لیے ان کی اولاد میں برکت عطا فرما ۔ (طبقات ابن سعد، اُسدُ الغابہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، قیامت کے دن میرے حسب ونسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا ۔ ہر بیٹے کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں ۔ (مصنف عبدالرزاق، سنن الکبریٰ للبیہقی، طبرانی فی الکبیر)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ثکے متعلق فرمایا ، میں اُن سے لڑنے والا ہوں جو اِن سے لڑیں اور اُن سے صلح کرنے والا ہوں جو اِن سے صلح کریں ۔ (ترمذی،ابن ماجہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دریافت فرمایا، عورت کے لیے کون سی بات سب سے بہتر ہے ؟ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے ۔ میں نے گھر آ کر یہی سوال سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے کیا تو انہوں نے جواب دیا، عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ اسے غیر مرد نہ دیکھے ۔ میں نے اس جواب کا ذکر حضور اسے کیا تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ (مسند بزار، مجمع الزوائد،چشتی)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، بیشک فاطمہ نے اپنی عصمت وپارسائی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد پر آگ حرام کر دی ہے۔ (المستدرک للحاکم، مسند بزار)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہاسے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا ۔ (طبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد) ۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، آج رات ایک فرشتہ جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا، اُس نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے کے لیے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن وحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (ترمذی،مسند احمد، فضائل الصحابۃ للنسائی، المستدرک للحاکم،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا،سب سے پہلے جنت میںتم، فاطمہ ، حسن اور حسین داخل ہو گے ۔ میں نے عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہونگے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، وہ تمہارے پیچھے ہونگے ۔ (المستدرک للحاکم، الصواعق المحرقۃ:٢٣٥،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے فرمایا ، میں، تم اور یہ دونوں ( یعنی حسن و حسین) اور یہ سونے والا (سیدنا علی جو کہ اُسوقت سو کر اُٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہونگے ۔ (مسند احمد،مجمع الزوائد)
اُمُ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں جب سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہیں مرحبا کہتے ، کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کرتے ، اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بوسہ دیتے اور اُنہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔ (المستدرک،فضائل الصحابۃ للنسائی،چشتی)
حضرت جمیع بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے پوچھا ، لوگوں میں سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ فرمایا ، فاطمہ رضی ﷲ عنہا ۔ پوچھا، مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ فرمایا ، ان کے شوہر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ (ترمذی ، المستدرک، طبرانی فی الکبیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو میرے اور فاطمہ میں سے کون زیادہ محبوب ہے ؟ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ، فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے اور تم مجھے اس سے زیادہ عزیز ہو ۔ (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے گھر گئے اور فرمایا ، اے فاطمہ ! خدا کی قسم ! میں نے آپ سے زیادہ کسی ہستی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک محبوب نہیں دیکھا ۔ اور خدا کی قسم ! لوگوں میں سے سوائے آپ کے والد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مجھے کوئی اور آپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم)
سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے وصال سے قبل حضرت اسماء بنت عمیس رضی ﷲ عنہا سے فرمایا ، میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کا پورا لحاظ رکھنا ۔ انہوں نے کہا ، میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ان پر پردہ ڈال دیتے ہیں (اس طرح جسم کی ہیئت نمایاں نہیں ہوتی) ۔ پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر ان پر کپڑا ڈال کر سیدہ کو دکھایا ۔ آپ نے پسند کیا پھر بعد وصال اسی طرح آپ کا جنازہ اٹھا ۔ (اُسدُ الغابہ، استیعاب)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا غیب سے آواز دے گا ، اے اہلِ محشر ! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گزر جائیں ۔ (المستدرک للحاکم،اسدُ الغابہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment